ساتویں سالگرہ محفلِ مشاعرہ 10 جولائی 2012

محمداحمد

لائبریرین
محترم فرخ منظور صاحب کچھ مصروفیت کے باعث فی الحال کلام نہیں پیش کر پا رہے ہیں۔ تب تک مشاعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم محترم محمد حفیظ الرحمٰن صاحب کو دعوت دیں گے کہ وہ جلوہ افروز ہوکر حاضرینِ مشاعرہ کو اپنے دلنشین کلام سے محظوظ فرمائیں۔

لیکن اُن کی آمد سے قبل اُن کے دو اشعار آپ کے اعلیٰ ذوق کی نذر:

گھِر کے آئی تھی گھٹا ، کھل کے برستی بھی رہی
تشنہ لب پھر بھی ترستے ہی رہے پانی کو
عمر تو صرف ہوئی کارِ زیاں میں اپنی
اب فقیری میں چھپاتے ہیں تن آسانی کو
محترم محمد حفیظ الرحمٰن صاحب
 
صاحبَ صدر اور تمام محفلین کی خدمت میں السلام علیکم۔
صدرَ مشاعرہ کی اجازت سے ایک غزل کے چند شعر عرض کرتا ہوں

مزاجِ یار برہم ہونہ جائے
جو الفت ہے کہیں کم ہونہ جائے

جو ہنگامہ ہے برپا ھاؤ ھو کا
کہیں وہ شورِ ماتم ہونہ جائے
رقیبوں کو پریشانی ہے ، غم ہے
ہمارا ربطِ باہم ہونہ جائے
ہمیں پرواہ ہے کوئی تو اتنی
ہمارا سر کبھی خم ہونہ جائے
جو بھیجا ہے ہمیں تِر یاق کہہ کر
ہمارے واسطے سم ہونہ جائے
فقط اِک دردِ دِل باقی بچا ہے
نصیبِ دشمناں کم ہونہ جائے
ہے دِل پر نقش اِک تصویر اے دِل
کہیں وہ نقش مدہم ہونہ جائے
غزل کہنے میں دھڑکا یہ لگاہے
کوئی مفہوم مبھم ہونہ جائے


ایک اور غزل کے چند اشعار آپ کی سماعتوں کی نذر کرتا ہوں

ترے ہمراہ میری ہمسفر آرام ملتا ہے
تری بانہوں میں بانہیں دال کر آرام ملتا ہے
بدن اور روح کے قضیے بہت تکلیف دیتے ہیں
یہی ہوجائیں گر شیر و شکر، آرام ملتا ہے
کسی سے جیت کر دِل کو بڑی تسکین ملتی ہے
کسی سے بالارادہ ہار کر آرام ملتا ہے
کسی معصوم کی سسکی مرا دِل چیر دیتی ہے
اُسی کو مسکراتے دیکھ کر آرام ملتا ہے
مرے دُکھتے بدن کو جب تمہارے ہاتھ چھوتے ہیں
مرے بیٹے مرے لختِ جگر آرام ملتا ہے
سفر کی ہر صعوبت مجھ کو بے آرام کرتی ہے
مگر جب لوٹ کر آتا ہوں گھر آرام ملتا ہے
مبارک ہوں تمہیں محلے دو محلے ، کوٹھیاں بنگلے
مجھے اپنی ہی کُٹیا میں مگر آرام ملتا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بدن اور روح کے قضیے بہت تکلیف دیتے ہیں
یہی ہوجائیں گر شیر و شکر، آرام ملتا ہے
کسی سے جیت کر دِل کو بڑی تسکین ملتی ہے
کسی سے بالارادہ ہار کر آرام ملتا ہے
یہ تھے جناب محترم محمد حفیظ الرحمٰن صاحب ان کے خوبصورت کلام کے بعد میں دعوت کلام دوں گا جنابمحترم سعود عالم ( ابن سعید ) کو کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش فرمائے جناب ابن سعید صاحب
 
اولاً حمدِ ربِ جہاں کیجئے
شکر خلّاقِ کون و مکاں کیجئے
اس خدا کی بزرگی بیاں کیجئے
جس نے بخشا ہمیں روح و تن ،فکر و فن
ذو المنن، ذو المنن، ذو المنن، ذو المنن

جس طرح سے احباب ہمارے تک بند ہونے کے بجائے شاعر ہونے پر اصرار کرتے آئے ہیں اس کے آگے ہند و پاک کی پولیس بھی انگشت بدنداں ہے کہ زبردستی اقبال جرم کروانے میں تو یہ لوگ ہم سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ اور ہم ٹھہرے اول درجے کے ڈھیٹ جو کسی شریف شہری کی طرح اپنے نا کردہ گناہوں کا اقرار کرنے کو کسی طور راضی نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنی پرانی تک بندیوں کے سہارے اس دعوت کا قرض اتارنے میں ہی اپنی عافیت گردانتے ہوئے محفل کا ترانہ آپ کی بصارتوں کی نذر کر رہے ہیں، صدر محفل کی اجازت سے۔ :)

محفل کا ترانہ
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
یہ بحر وفا کا ہے سنگم
گل بار یہاں کا ہے موسم
احساس کے نازک محلوں پر
لہراتا یہاں کا ہے پرچم
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
ہر بات مثالی ہے اپنی
ہر بات نرالی ہے اپنی
ہر دن ہے مثال عید یہاں
ہر رات دیوالی ہے اپنی
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
ہم سبھی کو عزت دیتے ہیں
اور سب سے محبت لیتے ہیں
دلجوئی ہمارا مسلک ہے
پیغام اخوت دیتے ہیں
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
ہم راگ بھی ہیں ہم رنگ بھی ہیں
ہم ساز بھی ہم آہنگ بھی ہیں
خوشبو کی طرح حساس ہیں ہم
پھولوں کی طرح خوش رنگ بھی ہیں
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
الفاظ کے جادوگر ہم میں
شعراءِ حسیں پیکر ہم میں
ہم میں ہیں قتیل غالب بھی
نباضِ سخن جوہر ہم میں
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
تکنیک و ادب کی ہولی میں
خطاطی کی رنگولی میں
انگنت تحائف کے ڈبے
ڈالے اردو کی جھولی میں
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے
اقدار نہ گرنے دینگے ہم
افکار نہ مٹنے دینگے ہم
تکنیک کی آندھی میں اپنی
اردو کو نہ اڑنے دینگے ہم
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے

حال ہی میں ایک عدد تک بندی بعنوان "بھیا کی مسکان پری" لکھی تھی جسے شامل محفل کر کے ہم اجازت چاہیں گے۔ :)

بھیا کی مسکان پری
گڑیا رانی بٹیا رانی
اور بھیا کی جان پری
بھیا کی مسکان پری
تھوڑی دانا تھوڑی پگلی
تھوڑی سی نادان پری
بھیا کی مسکان پری
تھوڑی شوخ اور تھوڑی چنچل
تھوڑی نا فرمان پری
بھیا کی مسکان پری
تھوڑی خوشیاں تھوڑی مستی
رکھیں ہر سامان پری
بھیا کی مسکان پری
جو بھی ان کی بات نہ مانے
کھائیں ان کے کان پری
بھیا کی مسکان پری
کھٹی میٹھی املی کھائیں
کھائیں میٹھا پان پری
بھیا کی مسکان پری
جب بھی پھول سے بچے روئیں
دیں ان کو گلدان پری
بھیا کی مسکان پری
میٹھے میٹھے گال ہیں ان کے
ٹافی کی دوکان پری
بھیا کی مسکان پری
جلدی سوئیں وقت پہ جاگیں
رکھیں سب کا دھیان پری
بھیا کی مسکان پری
ساری پریاں ان کی بہنیں
سب پریوں کی شان پری
بھیا کی مسکان پری
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہر بات مثالی ہے اپنی
ہر بات نرالی ہے اپنی
ہر دن ہے مثال عید یہاں
ہر رات دیوالی ہے اپنی
ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے

یہ تھے جناب ابن سعید صاحب ان کے خوبصورت کلام کے بعد میں دعوتِ کلام دیتا ہوں محترمہ غزل ناز غزل صاحبہ کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش فرمائے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
غزل ناز غزل صاحبہ کسی وجہ سے مشاعرے میں ابھی تک تشریف نہیں لا سکیں۔ وہ جب مشاعرے میں تشریف لائیں تو اپنا کلام پیش کر دیں گی۔ ان کے بعد میں اردو محفل کے ایسے شاعر کو دعوت دینے لگا ہوں جو محفل کے بہترین شاعر کا انعام جیت چکے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ
محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں

کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں
جی ہاں میری مراد محترم جناب محمداحمد صاحب ہی ہیں۔ میں ملتمس ہوں جناب عزت مآپ محترم محمد احمد صاحب سے کہ وہ تشریف لائیں اور مشاعرے کی رونق میں اضافہ فرمائیں جناب محمداحمد صاحب
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت بہت شکریہ محترم خرم بھائی کہ آپ نے اتنی محبت سے ناچیز کو یاد کیا۔ یہ سر اسر آپ کی محبت ہی ہے ورنہ :

من آنم کہ من دانم

یہاں میں اردو محفل کی انتظامیہ ، مشاعرے کے تمام منتظمین خاص طور پر محترم محمد وارث صاحب اور محترم خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جن کی زیرِ سر پرستی اتنا اچھا مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو محفل کی انفرادی روایت ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔

اور اب جنابِ صدر اور اساتذہ کرام کی اجازت سے پہلے کچھ چیدہ چیدہ اشعار اورپھر ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کروں گا:
سخن ہوں سر بہ سر لیکن ادا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں اس قحطِ سماعت میں صدا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں ڈرتا ہوں کہ دنیا نا شناسِ حرفِ دل ٹھہری
میں خوشبو ہوں سو ایسے میں ہوا ہونے سے ڈرتا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
فصیلِ ذات سے واپس پلٹ بھی سکتا تھا
میں اپنے آپ میں پھر سے سمٹ بھی سکتا تھا
رفیقِ راہِ عدم تھی ازل سے تنہائی
سفر حیات کا باتوں میں کٹ بھی سکتا تھا
لہو سے میں نے ہی سینچا تھا نخلِ خواہش کو
سو میں ہی شہرِ تمنّا اُلٹ بھی سکتا تھا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اور اب ایک غزل کے کچھ اشعار
الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے
طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے
بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے
چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے
سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے

آخر میں ایک بار پھر تمام حاضرینِ مشاعرہ اور انتظامیہ کا بہت بہت شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
فصیلِ ذات سے واپس پلٹ بھی سکتا تھا
میں اپنے آپ میں پھر سے سمٹ بھی سکتا تھا
رفیقِ راہِ عدم تھی ازل سے تنہائی
سفر حیات کا باتوں میں کٹ بھی سکتا تھا

یہ تھے جناب محترم محمد احمد صاحب ان کے خوبصورت کلام کے بعد میں دعوتِ کلام دوں گا ان صاحب کو کہ جن کے کلام کی تلاشی کے باوجود مجھے کوئی سنجیدہ کلام تاحال نہیں ملا۔ جی ہاں آپ سب ہی جانتے ہیں ۔ اردو محفل کی متحرک ہستی جن کی عام بات میں بھی ایسا لگتا ہے کہ مزاح موجود ہے جی میری مراد محترم @خلیل الرحمٰن صاحب ہی ہیں ان کے مزاح کلام سے ہی ان کا استقبال کرتا ہوں کہتے ہیں۔​
شک نہیں اس میں کہ پیاری ہے ہماری بیوی​
’’وہ جو رکھتے تھے ہم اِک حسرتِ منکوح سو ہے‘‘​
ہے رگ و پے میں سراپا میں وہی تو جاری​
گنگناتی ہے جسے آج مری روح سو ہے​
جناب محترم بہت ہی قابلِ احترام سر @خلیل الرحمٰن صاحب​
 
صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلم
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔
ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائے
من موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئے
غم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیارا
پریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائے
زخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبور
پریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئے
بندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقی
یہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائے
آخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)
تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسے
اگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہت
نہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکل
ہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہت
وہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیا
اگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہت
کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت
(۲)
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں
ہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہے
ہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریں
تری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوں
ہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریں
ہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جانا
ہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریں
تڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہم
قریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں
یہ تھے جناب محترم خلیل الرحمٰن صاحب جو اپنا کلام پیش فرما رہے تھے جن کے کلام میں حدیہء عقیدت کے پھول بھی شامل تھے ان کے کلام کے ساتھ ہی میں ملتمس ہوں جناب محترم فاتح الدین بشیر صاحب سے کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش فرمائیں۔ ان کی آمد سے قبل ان کے ہی اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں
چاکِ ہَست و بُود کے کب دائرے میں قید ہوں
میں ازَل سے اک نظر کے زاویے میں قید ہوں
نفسِ مضموں کھُل نہ پایا کیوں کسی پر ذات کا
"بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں"
جناب محترم فاتح الدین بشیر صاحب
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:


نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا​
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را​
نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا​
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را​
بہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کو​
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را​
عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں​
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را​
غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی​
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را​
کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات​
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را​
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے​
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا​
یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے​
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را​
شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ​
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را​
حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم​
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را​

اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے​
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے​
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے​
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے​
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا​
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"​
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر​
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے​
تا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے ناز​
شوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے​
ہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہی​
یاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب فاتح الدین بشیر صاحب فرما رہے تھے۔
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"
جناب کے خوبصورت کلام کے ساتھ ہی اردو محفل کے ایک اور خوبصورت شاعر کو دعوتِ کلام دوں گا کہ جن کا کہنا ہے۔
وہ ایک نام جسے لوگ کہتے ہیں دشنام
مرے غزال وہی میرا نام ہو گیا ہے
کسے سُناؤگے جا کر غزل، ”مرے محمود“ ؟
کہ اب وہ سننا سنانا تمام ہوگیا ہے
جی ہاں اس خوبصورت کلام کے خالق ہے جناب محترم ہر دل عزیز محمد محمود مغل یعنی مغزل صاحب۔ میں درخواست گزار ہوں جناب م۔م۔مغل صاحب سے کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے خوبصورت کلام نے نوازیں جناب م۔م۔مغل صاحب
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
محمد محمدد مغل صاحب ذاتی وجوہات کی بنا پر کلام پیش کرنے نہیں آ رہے۔ محفل مشاعرہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اگلے شاعر کو دعوتِ کلام دینے کا وقت آ گیا ہے۔ میرے لیے بالکہ پوری اردو محفل کے شعراء حضرات کے لیے یہ ہستی جس کو میں دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں وہ آبِ حیات سے کم نہیں۔ بہت سے لوگ ان کے علم و عروض پر لکھے گے مضامین سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اٹھاتے رہے گے۔ میرے پاس ان کی شان میں ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں اور میں خود بھی کم بولنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کا تعارف میرے لفظوں کا محتاج نہیں۔ میں بلا تاخیر دعوت کلام دوں گا
t6w4fd.gif
جناب عزت مآپ، استادِ محترم، محمد وارث صاحب۔
t6w4fd.gif
استادِ محترم کی آمد سے قبل انہیں کے شعر سے ان کا استقبال کرتا ہوں فرماتے ہیں کہ
شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصہ اس خاکسار کا ہے

رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
محترم محمد وارث صاحب
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔

جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔

سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ

محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

اور اب دو رباعیاں

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں

اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
اور
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
استادِ محترم کے خوبصورت کلام کے ساتھ ہی اب میں دعوتِ کلام دوں گا ان اشعار کے ساتھ۔
ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز
شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص
کوئی دعا تھی ، یا کوئی نیکی نصیب کی
گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص
اور
ہوتا تھا کون وہ جسے منصور کہتے تھے
دار و رسن کو چومنے جاتا تھا کون شخص
اور
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور بام و در پہ جلا کر چراغِدل
ہجراں کو میں نے کوچہ ء دلبر بنا لیا
اسی خوبصورت کلام کے ساتھ میں دعوت دوں گا جناب عزت مآپ منصور آفاق صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام پیش فرما کر مشاعرے کی رونق کو چار چاند لگائیں
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
جناب منصور آفاق صاحب
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
 

منصور آفاق

محفلین
تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو
سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو

میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں
ہزار وحشتِ موج ِہوا سلامتی ہو

مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی
صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو

ملال ِ شام ِ مسلسل کی حکمرانی ہے
الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو

تمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیر
فقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہو

وہاںبچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی
کنارِ چشمہ ئ حمد و ثنا سلامتی ہو

میں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میں
کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو

سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا
اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو

پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے
سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو

میں خوشہ چین ہوں غالب ترے گلستاں کا
اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو

شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلوئوں سے
اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو

یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد
مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
تمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیر
فقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہو
میں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میں
کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو
یہ تھے جناب منصور آفاق صاحب جو اپنا خوبصورت کلام پیش فرما رہے تھے۔ ان کے خوبصورت کلام کے بعد میں ملتمس ہوں ایسی ہستی سے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ نا میں اس قابل ہوں کہ ان کا تعارف کروا سکوں ان کا کلام خود ان کا تعارف ہے۔ انہیں کے کلام سے ان کا استقبال کرتا ہوں فرماتے ہیں۔
شب سیاہ کے اژدر کو زیر دام کریں
اٹھو! کہ صبحِ نگاراں کا اہتمام کریں
کتاب دھر کی تدوین کا تقاضا ہے
جو نا تمام ہیں قصے انہیں تمام کریں
قیامِ صبحِ الف میم نون کی خاطر
محبتوں کے تقاضوں کا احترام کریں
اور فرماتے ہیں۔
تا دیر میکدے میں رہی ہے مری نماز
ساقی مرا امام بڑی دیر تک رہا
کل بارگاہِ حسنِ تقدس مآب میں
دل محو احترام بڑی دیر تک رہا
بہت ہی قابل احترام، اس مشاعرے کے مہمانِ خصوصی ہمارے محسن، محترم و مکرمی جناب عزت مآپ استادِ محترم
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
جناب شاکرالقادری صاحب۔
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
6e3osm.gif
 

شاکرالقادری

لائبریرین
خرم شہزاد خرم! اس پرجوش استقبال کے لیے بہت شکریہ!
صدر محفل، دیگر شرکائے مشاعرہ خواتین و حضرات آپ سب کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں
ایک مدت ہوئی غزل کہنا ترک کردی، صرف نعت کہتا ہوں لیکن وہ بھی سال بھر میں ایک آدھ ۔۔ اس لیے بہت عرصہ پہلے کے کہے ہوئے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر کے اجازت چاہوں گا ہوسکتا ہے ان اشعار میں آپ کو فنی خامیاں بھی ملیں اور اگر ایسا ہے تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ غزل کہنا موقوف کر چکا ہوں ، اور اگر کچھ پرانا لکھا ہوا موجود ہے تو کبھی اس پر نظر ثانی یا بہتری کی کوشش ہی نہیں کی۔
احباب کی زیادہ سمع خراشی نہیں کرونگا صرف چند اشعار:

ہاتھ میں لے لے وقت کی باگ
چھوڑ دے بیراگی بیراگ
اک دن تو کوئی آئے گا
آس منڈیر پہ بولے کاگ
گلشن کو جھلسا ڈالے گی
سبز رتوں کی ٹھنڈی آگ
گونگی ہیں نعروں کی زبانیں
بیٹھ گئے جذبوں کے جھاگ
جانے پھر کیا چال چلے گا
اندھے وقت کا بوڑھا گھاگ
آنسو ، درد ، کسک اور یاس
واہ پریمی۔ ۔ ۔ !تیرے بھاگ !
روپ نگر میں پگ پگ شاکر
ڈستے ہیں زلفوں کے ناگ
===================
ہر طرف ہے اداس تنہائی
آگئی مجھ کو راس تنہائی
وہ کہ محو نشاط محفل ہے
اور میرے آس پاس تنہائی
اب یہی چند اپنے ساتھی ہیں
آرزو ، درد ، یاس ، تنہائی
وحشت دل بڑھائی دیتی ہے
آرزو ناشناس تنہائی
================
زخم دل پر اگر نگاہ کریں
میرے عیسیٰ بھی آہ آہ کریں
اب کسے اعتماد منصف پر
آؤ قاتل سے رسم و راہ کریں
اپنی نظروں میں گر کے ہم کیسے
آرزوئے حصولِ جاہ کریں
ہم نہ زردار ہیں نہ حاکم ہیں
کس لیئے ہم سے وہ نباہ کریں
رحمت کر دگار جوش میں ہے
آؤ ہم بھی کوئی گنا ہ کریں
حسن کی بے حجابیاں ’’شاکر‘‘
دل کو آمادۂ گناہ کریں
================
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہر طرف ہے اداس تنہائیآگئی مجھ کو راس تنہائی​
اب یہی چند اپنے ساتھی ہیںآرزو ، درد ، یاس ، تنہائی​
استادِ محترم جناب شاکر القادری صاحب اپنے کلام سے نواز رہے تھے۔ ان کے خوبصورت کلام کے بعد اب اس ہستی کو دعوتِ کلام دینے کا وقت آ گیا ہے جس ہستی نے اردو کی ترقی کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ انہیں نے پچھلے چالیس سال سے شاعری کو اپنی ذات کا حوالہ بنایا ہوا ہے۔​
چند راتوں کا کاجل، دنوں کی چمک، چند خوابوں کے پھولوں کی جنگلی مہک
میں تو دستِ تہی ان سے رخصت ہوا، میرے پیچھے بہت سلسلے رہ گئے۔
اور کہتے ہیں​
ڈوبنے آئے تھے مگر یہ ندی
بہتے رہنا سکھا رہی ہے ہمیں
پہلے جو لوریاں سناتی تھی
یاد اس کی جگا رہی ہے ہمیں
اور​
جز ایک لفظ وفا کچھ نہ لکھنا چاہوں میں
مرے قلم میں خدا اتنی روشنائی دے
اس ہستی کے لیے نا تو میرے پاس الفاظ ہیں جن الفاظوں کی مدد سے میں ان کو مدعو کر سکوں اور نا ہی میں ان کی شان میں کچھ کہہ سکتا ہوں۔ نا ہی اتنی اوقات ہے اور نا ہی ہم جسارت کر سکتے ہیں۔ میں بس ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ہی دعوت کلام دوں گا۔ اس مشاعرے کے صدر ، جناب عزت مآپاستادِ محترم بابا جانیجناب اعجاز عبید صاحب سے ملتمس ہوں کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے کلام اور اپنے صدارتی خطاب سے بھی نوازیں۔ جناب عزت مآپ استادِ​
rose.gif
rose.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
محترم اعجاز عبید صاحب۔
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
t6w4fd.gif
rose.gif
rose.gif
 
Top