صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلم
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔
ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائے
من موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئے
غم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیارا
پریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائے
زخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبور
پریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئے
بندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقی
یہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائے
آخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)
تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسے
اگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہت
نہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکل
ہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہت
وہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیا
اگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہت
کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت
(۲)
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں
ہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہے
ہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریں
تری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوں
ہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریں
ہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جانا
ہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریں
تڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہم
قریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں