الف عین
لائبریرین
عزیزان کرام
پہلے میں اردو محفل کا شکر گزار ہوں کہ اس مشاعرے میں مجھے صدارت کے منصب جلیلہ سے سرفراز کیا گیا جس کا میں قطعی اہل نہیں تھا۔ شاید محض بزرگی کے خیال سے کہ میں محفل کا سب سے بزرگ رکن ہوں!!!
بہر حال جب صدر بنا ہی دیا گیا تو اب آخر میں غزل بھی سنانی ہو گی بلکہ اس سے پہلے خطاب بھی کرنا ہو گا۔ خطاب کیا، بس یہی کہنا ہے کہ محفل کے ارکان نے ایک سے بڑھ کر ایک کلام پیش کیا ہے۔ شاکر بھائی منصور آفاق صاحب اور وارث وغیرہ جیسے قادر الکلام شعرا کے علاوہ مبتدی حضرات نے بھی اپنی کاوشیں حسن طریقے سے یہاں پیش کی ہیں۔ (یہ دوسری بات ہے کہ اکثر مبتدی حضرات کا میں اپنے منہ میاں ’استاد‘ ہوں)۔ بہر حال میں تمام شعرا کرام کو ہدیہء تہنیت پیش کرتا ہوں۔ عزیزم خرم اور محمد احمد نے اس مشاعرے کی کارروائی بھی بہت عمدہ طریقے سے چلائی۔
بہر حال اب بغیر کسی مزید تمہید کے، اور بغیر کسی کی اجازت کے) اپنا کلام پیش کرتا ہوں۔ ایک غزل پرانی، اور ایک غزل نسبتاً نئی۔ یعنی تقریباً صرف دو سال پرانی!!
ارشاد کیا ہے:
چاندی سونا دیکھوں میں
مئی میں کیا دیکھوں میں
صبح سویرے اٹھتے ہی
کس کا چہرا دیکھوں میں
فرشِ خاک پہ سوؤں جب
سچّا سپنا دیکھوں میں
وہ تو میرے گھر میں ہے
کس کا رستا دیکھوں میں
یاہو1 کی ایک ’وِنڈو‘2 میں
اس کا مکھڑا دیکھوں میں
جب بھی، جہاں بھی چاہوں اسے
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
آنکھوں میں رِم جھِم ہو جائے
جب اسے ہنستا دیکھوں میں
صبح اٹھنے کی جلدی میں
خواب ادھورا دیکھوں میں
بول یہ سندر سندر درشّیہ
کب تک تنہا دیکھوں میں
میرؔ تمہاری غزلوں میں
اپنا دُکھڑا دیکھوں میں
مانیٹر3 کے پردے پر
ایک ہی چہرا دیکھوں میں
اس کی یاد آئے جب بھی
مونا لیزا دیکھوں میں
تو ہی بتا تیرا ایسا روپ
دیکھوں یا نا دیکھوں میں
دکھ کی کھیتی سوکھ گئی
اب کے وہ قحطِ آب پڑا
غم کی ٹہنی سوکھ گئی
نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
خواب کی بستی سوکھ گئی
غزل کے پیڑ میں بور آئے
جب ہر پتّی سوکھ گئی
سرخ کلی تھی لفافے میں
باہر رکھی سوکھ گئی
ان کے آتے دیر بھئ
جان ہماری سوکھ گئی
اس کے پیار سے بھیگی جاں
دھوپ میں جلدی سوکھ گئی
اب کیا مہکے دل کا باغ
رات کی رانی سوکھ گئی
ہرا رہا جنگل سارا
دھرتی پیاسی سوکھ گئی
اور اب خاکسار اجازت چاہتا ہے۔ امید ہے اگلی سالگرہ سے پہلے ہی کسی مشاعرے میں ملاقات ممکن ہو گی۔ والسلام
پہلے میں اردو محفل کا شکر گزار ہوں کہ اس مشاعرے میں مجھے صدارت کے منصب جلیلہ سے سرفراز کیا گیا جس کا میں قطعی اہل نہیں تھا۔ شاید محض بزرگی کے خیال سے کہ میں محفل کا سب سے بزرگ رکن ہوں!!!
بہر حال جب صدر بنا ہی دیا گیا تو اب آخر میں غزل بھی سنانی ہو گی بلکہ اس سے پہلے خطاب بھی کرنا ہو گا۔ خطاب کیا، بس یہی کہنا ہے کہ محفل کے ارکان نے ایک سے بڑھ کر ایک کلام پیش کیا ہے۔ شاکر بھائی منصور آفاق صاحب اور وارث وغیرہ جیسے قادر الکلام شعرا کے علاوہ مبتدی حضرات نے بھی اپنی کاوشیں حسن طریقے سے یہاں پیش کی ہیں۔ (یہ دوسری بات ہے کہ اکثر مبتدی حضرات کا میں اپنے منہ میاں ’استاد‘ ہوں)۔ بہر حال میں تمام شعرا کرام کو ہدیہء تہنیت پیش کرتا ہوں۔ عزیزم خرم اور محمد احمد نے اس مشاعرے کی کارروائی بھی بہت عمدہ طریقے سے چلائی۔
بہر حال اب بغیر کسی مزید تمہید کے، اور بغیر کسی کی اجازت کے) اپنا کلام پیش کرتا ہوں۔ ایک غزل پرانی، اور ایک غزل نسبتاً نئی۔ یعنی تقریباً صرف دو سال پرانی!!
ارشاد کیا ہے:
چاندی سونا دیکھوں میں
مئی میں کیا دیکھوں میں
صبح سویرے اٹھتے ہی
کس کا چہرا دیکھوں میں
فرشِ خاک پہ سوؤں جب
سچّا سپنا دیکھوں میں
وہ تو میرے گھر میں ہے
کس کا رستا دیکھوں میں
یاہو1 کی ایک ’وِنڈو‘2 میں
اس کا مکھڑا دیکھوں میں
جب بھی، جہاں بھی چاہوں اسے
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
آنکھوں میں رِم جھِم ہو جائے
جب اسے ہنستا دیکھوں میں
صبح اٹھنے کی جلدی میں
خواب ادھورا دیکھوں میں
بول یہ سندر سندر درشّیہ
کب تک تنہا دیکھوں میں
میرؔ تمہاری غزلوں میں
اپنا دُکھڑا دیکھوں میں
مانیٹر3 کے پردے پر
ایک ہی چہرا دیکھوں میں
اس کی یاد آئے جب بھی
مونا لیزا دیکھوں میں
تو ہی بتا تیرا ایسا روپ
دیکھوں یا نا دیکھوں میں
1. Yahoo 2. Window 3. Monitor
اور اب ’نئی‘ غزل۔۔۔۔
آنسو ندّی سوکھ گئیدکھ کی کھیتی سوکھ گئی
اب کے وہ قحطِ آب پڑا
غم کی ٹہنی سوکھ گئی
نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
خواب کی بستی سوکھ گئی
غزل کے پیڑ میں بور آئے
جب ہر پتّی سوکھ گئی
سرخ کلی تھی لفافے میں
باہر رکھی سوکھ گئی
ان کے آتے دیر بھئ
جان ہماری سوکھ گئی
اس کے پیار سے بھیگی جاں
دھوپ میں جلدی سوکھ گئی
اب کیا مہکے دل کا باغ
رات کی رانی سوکھ گئی
ہرا رہا جنگل سارا
دھرتی پیاسی سوکھ گئی
اور اب خاکسار اجازت چاہتا ہے۔ امید ہے اگلی سالگرہ سے پہلے ہی کسی مشاعرے میں ملاقات ممکن ہو گی۔ والسلام