نور وجدان
میں دوستوں سے تھکا ، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی ، سو میں اپنے دُکھ بُھلا بیٹھا
سنی جو ، شہرتِ آسُودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لیے ، میرے دِل میں آ بیٹھا
بس ایک بار ، غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ھجر میں ، دستِ دُعا اٹھا بیٹھا
خدا گواہ کہ لٹ جاؤں گا ، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے ، تیرا دَرد بھی گنوا بیٹھا
تیرا خیال جب آیا تو ، یوں ھُوا محسُوس
قفس سے اُڑ کے پرندہ ، شجر پہ جا بیٹھا
سزا ملی ھے مجھے ، گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ھے کہ ، میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا
کٹے گی کیسے ، اس انجامِ نا شناس کی رات
ھَوا کے شوق میں ، جو شمع ھی بُجھا بیٹھا
مجھے خدا کی خدائی میں ، یہ ھُوا محسوس
کہ جیسے عرش پہ ھو ، کوئی دُوسرا بیٹھا