محمد تابش صدیقی
منتظم
نئی چھاؤنیاں بنانا تو ناممکن نہیں۔ البتہ پرانی چھوڑنا ناممکن ہے۔ایک بار پھر نئی چھاؤنیاں شہروں سے باہر بسائی جائیں لیکن یہ شاید ناممکن سی بات ہے۔
نئی چھاؤنیاں بنانا تو ناممکن نہیں۔ البتہ پرانی چھوڑنا ناممکن ہے۔ایک بار پھر نئی چھاؤنیاں شہروں سے باہر بسائی جائیں لیکن یہ شاید ناممکن سی بات ہے۔
نئی چھاؤنیاں بنانا تو ناممکن نہیں۔ البتہ پرانی چھوڑنا ناممکن ہے۔
عام حالات میں نئی چھاؤنیاں بنانا یا بستیاں بسانا اور راستے بنانا اتنے بڑے کام بھی نہیں ۔ بلکہ حقیقتاََ یہ ضروری کام ہیں ۔یہ بات نہیں ہے۔ چھاؤنی فوجیوں کا علاقہ ہوتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کی شناخت کرنا ان کا حق ہے!
مسئلہ یہ ہے کہ سو، ڈیڑھ سو، دو سو سال پہلے جب یہ چھاؤنیاں بنی تھیں تو شہروں سے باہر تھیں اور ان کے ارد گرد ویرانے تھے اب شہروں کے بیچوں بیچ ہیں اور چاروں طرف آبادیاں ہیں۔ اب عام آدمی چھاؤنیوں کو زیادہ تر راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مصیبت ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بہتر حل تو یہی ہے کہ ایک بار پھر نئی چھاؤنیاں شہروں سے باہر بسائی جائیں لیکن یہ شاید ناممکن سی بات ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان چھاؤنیوں میں بڑے بڑے کمرشل علاقے ہیں جو پورے شہر کی سویلین آبادی کے ہی حساب سے کھلے ہیںمسئلہ یہ ہے کہ سو، ڈیڑھ سو، دو سو سال پہلے جب یہ چھاؤنیاں بنی تھیں تو شہروں سے باہر تھیں اور ان کے ارد گرد ویرانے تھے اب شہروں کے بیچوں بیچ ہیں اور چاروں طرف آبادیاں ہیں۔ اب عام آدمی چھاؤنیوں کو زیادہ تر راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مصیبت ہوتی ہے۔
یہ واقعی فوجیوں کی زیادتی ہے۔ شاپنگ مالز ہیں، شادی ہالز ہیں، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس ہیں، پرائیوٹ اسکولز ہیں، ہسپتال ہیں، سینما ہالز ہیں، پارک اور فن لینڈز ہیں یعنی کیا کیا کچھ نہیں ہے، اب ظاہر ہے لوگ تو آئیں گے اور یہ روکیں گے یا کم از کم ان کو چیک کریں گے، ہر دو کے لیے مصیبت تو بنے گی۔صرف یہی نہیں بلکہ ان چھاؤنیوں میں بڑے بڑے کمرشل علاقے ہیں جو پورے شہر کی سویلین آبادی کے ہی حساب سے کھلے ہیں
غالباً ان میں سے اکثر فوجیوں ہی کی ملکیت میں ہیں۔یہ واقعی فوجیوں کی زیادتی ہے۔ شاپنگ مالز ہیں، شادی ہالز ہیں، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس ہیں، پرائیوٹ اسکولز ہیں، ہسپتال ہیں، سینما ہالز ہیں، پارک اور فن لینڈز ہیں یعنی کیا کیا کچھ نہیں ہے، اب ظاہر ہے لوگ تو آئیں گے اور یہ روکیں گے یا کم از کم ان کو چیک کریں گے، ہر دو کے لیے مصیبت تو بنے گی۔
اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن سیالکوٹ کینٹ میں تو پرائیوٹ ادارے ہی زیادہ ہیں، کینٹ بورڈ والے لیز یا کرائے پر جگہ مہیا کرتے ہیں۔غالباً ان میں سے اکثر فوجیوں ہی کی ملکیت میں ہیں۔
مطلب تو وہی ہوا۔کینٹ بورڈ والے لیز یا کرائے پر جگہ مہیا کرتے ہیں۔
جی جگہ تو ان کی ہے میں سمجھا تھا آپ اوپر والے ڈھانچے کی بات کر رہے ہیں۔مطلب تو وہی ہوا۔
غلطی مجھ سے ہوئی۔یہ واقعی فوجیوں کی زیادتی ہے۔
بجا فرمایا۔ یہ دیسی باہرلے، بھی نہیں پہچانے جاتے۔آپ واقعی گھس سکتے ہیں۔ زیادہ تر وہ شکل سے حساب لگاتے ہیں کہ غیر ملکی ہوگا، آپ کو تو وہ اندر والا ہی سمجھیں گے۔
نئی چھاؤنیاں بنانا تو ناممکن نہیں۔ البتہ پرانی چھوڑنا ناممکن ہے۔
اے وطن کے سجیلے جوانو! یہ رقبے تمہارے لئے ہیں!چھاؤنی فوجیوں کا علاقہ ہوتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کی شناخت کرنا ان کا حق ہے!
اگر یہ تمام کمرشل کام فوج کر رہی ہے تو ملک کی سرحدوں کی حفاظت پھر کون کر رہا ہے؟یہ واقعی فوجیوں کی زیادتی ہے۔ شاپنگ مالز ہیں، شادی ہالز ہیں، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس ہیں، پرائیوٹ اسکولز ہیں، ہسپتال ہیں، سینما ہالز ہیں، پارک اور فن لینڈز ہیں یعنی کیا کیا کچھ نہیں ہے
یوں تو پھر تو دیسی لبرلز کو پہچاننا اور بھی زیادہ مشکل کام ہوگابجا فرمایا۔ یہ دیسی باہرلے، بھی نہیں پہچانے جاتے۔