نیرنگ خیال
لائبریرین
گزشتہ ہفتے کے کسی دن میں اپنے بستر پر دراز تھا کہ فون نے کانپنا شروع کر دیا۔ دیکھا تو اسلام آباد کے ایک نمبر سے کال تھی۔ اٹھایا۔۔ دوسری جانب سر سید زبیر تھے۔ فرمانے لگے کہ میرے ساتھ الف نظامی بھی تشریف رکھتے ہیں۔ گر مناسب ہو تو آئندہ اتوار 8 ستمبر کو مل بیٹھنے کے ایک پروگرام کو عملی شکل دی جائے۔ میں نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا۔ لیکن دوسرے لمحے خیال آیا کہ یہ سر تو شاہ جی کی بصارت سے دور ہے۔ سو اپنی خوبصورت گھمبیر (احباب کو جلنے کی ضرورت نہیں) آواز سے ان کی سماعتوں میں زہر گھول دیا۔ مقام آئی-8 مرکز میں حبیبی ریستوران طے پایا۔ اور ہم نے دعوت نامہ کافی سارے احباب کو بھیج دیا۔ فرخ اور سعادت نے معذرت کر لی۔ بقیہ احباب تشریف لے آئے۔
اس سے پہلے کے میں روداد شروع کروں۔ ایک پرانی بات یہاں لکھنا چاہوں گا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سر زبیر کے دفتر میں عاطف بٹ ، الف نظامی ، اور خاکسار بیٹھے ہوئے تھے۔ اور سرکار شاہ جی کے خرچ پر چائے کا دور چل رہا تھا۔ تو یونہی باتوں باتوں میں زبان کا تذکرہ آگیا۔
سر زبیر نے فرمایا کہ:
"دنیا میں سب سے بڑا رشتہ زبان کا رشتہ ہے"
اس سے مجھے احمد جاوید صاحب کی ایک بات یاد آگئی کہ :
"اپنی مادری زبان سے تعلق توڑنا اپنے ماں باپ کو عاق کرنا ہے"
جواُس دن تو اِس کم عقل کے ذہن میں نہ سمائی تھی۔مگر پھر سر کی اس بات سن کر سارے مطالب ذہن میں کھلتے چلے گئے۔
عبرانی کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔
ہر زندہ قوم اپنی زبان کو اپنا تشخص سمجھتے ہوئے ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی زندہ زبان کو منوں مٹی تلے دفنانے پر تلے ہیں۔ چاہے وہ پنجابی ہو یا اردو۔
بڑے لوگ بڑی بڑی باتیں کہہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آگہی رکھتے ہیں۔ مگر ہم جیسے کج فہم جب تک ان الفاظ میں مستور معانی سمجھتے ہیں۔ یہ بڑے لوگ کوئی اور بات کر کے دوبارہ الجھا دیتے ہیں۔
تو اب آتے ہیں ملاقات کی طرف۔ جب راقم الحروف وہاں پہنچا تو دیکھا کہ بھلکڑ اور امجد میانداد تھوڑا آگے آگے چلتے جا رہے ہیں۔ ان کا تعاقب شروع کیا کہ دیکھوں کدھر کو جاتے ہیں۔ تو وہ تھوڑا آگے جا کر کچھ احباب سے گلے ملنے ملانے لگے۔ وہاں پر الف نظامی ، سید زبیر ، خرم شہزاد خرم اور hackerspk پہلے سے موجود تھے۔ میری آمد کے بعد اب مزید کسی کا انتظار باقی نہ تھا۔ کچھ احباب پہلے ہی چائے سے دل بہلا چکے تھے۔ ہمارے لیے بھی چائے آگئی۔ اور باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس سے پہلے کہ بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوتیں۔ اور احباب شغل میلے کا سماں باندھتے۔ نعیم بھائی نے صدارت سنبھالتے ہوئے کہا کہ آج کی مجلس بےمقصد نہیں ہے۔ بلکہ ایک موضوع ہے۔ "اردو اور اس کی ترویج" اور تمام احباب اس کے متعلق اظہار خیال کریں۔ کس طرح ہم بہتری لا سکتے ہیں؟ اور وہ کیا دستور العمل ہو سکتا ہے؟ جس کو سامنے رکھ کر کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کیے جائیں۔ سید زبیر سر تو پہلے ہی سے رہنما ٹھہرائے جا چکے تھے۔ اس ضمن میں فکر استدلال کا منصب زوہیب نے سنبھال لیا۔ اور مشاورت کے منصب پر امجد میانداد فائز ہوگئے۔ خرم نے بھی فکر سے آراستہ ہوتے ہوئے کسی بھی بیان کردہ طریق کے اجزائے مشتملہ کو پرکھنے کی کرسی سنبھال لی۔ اور بھلکڑ وہیں پر فکر آلود مسکان لیے بظاہر متفرس نظر آنے لگا۔ جبکہ سامنے ناظرین کی قطار میں اکیلا مستغنی المزاج راقم الحروف مٹکاہٹ سے آشنا ہونے لگا۔
فکر تجربی سے مالامال سر زبیر نے انتہائی خوبصورت انداز میں موضوع پر بات کرنے سے احتراز کیا۔ جبکہ امجد میانداد، زوہیب اور خرم بھائی کی گزارشات اس ضمن میں بے انتہا اعلی و ارفع تھیں۔ بھلکڑ نے بھی بیچ میں کہیں کوئی لقمہ دیا۔ جبکہ اس خاکسار نے سوائے غیر متفق ہونے کے کوئی اور کام نہیں کیا۔
چند نکات جو زیر بحث رہے۔ وہ پیش خدمت ہیں۔
دورانِ گفتگو بنا ء باتوں کا سلسلہ منقطع کیے وہاں چائے کے کھوکھے سے اٹھ کر ہم لوگ حبیبی ریستوران کے اندر آبیٹھے ۔ اور کھانا لانے کا حکم صادر فرمایا۔ ساتھ میں یہ موضوع بھی چلتا رہا۔ ہلکی پھلکی گپ شپ اور نوک جھونک تو خاصہ ہوتی ہے۔ جب بھی احباب دنیا سے چند لمحے چرا کر یوں مل بیٹھتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد احباب نے ایک دوسرے سے اجازت چاہی۔ آسمان پر بادل چھا چکے تھے۔ اور ہر کوئی اسی فکر میں غلطاں تھا کہ بارش شروع ہونے سے پہلے گھر کو پہنچ جائے۔ میں جب گھر پہنچا تو بارش زور پکڑ چکی تھی۔ کچھ دیر بارش میں نہانے کے بعد اندر آگیا۔ اور یہ تحریر لکھنے لگا کہ مبادا جزیات ذہن سے محو ہی نہ ہو جائیں۔ یوں ایک خوبصورت دوپہر انجام پذیر ہوئی۔ لیکن وہ تمام کام جو آج اس مجلس میں ہم نے سوچے اور لکھے۔ انشاءاللہ ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اور اردو زبان کی کتابت کو محض رسائل سے نکال کر عمومی زندگی میں کمپیوٹر پر رواج دینے کے لیے ہر ممکنہ حد تک کوشش کی جائے گی۔ انشاءاللہ
اس سے پہلے کے میں روداد شروع کروں۔ ایک پرانی بات یہاں لکھنا چاہوں گا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سر زبیر کے دفتر میں عاطف بٹ ، الف نظامی ، اور خاکسار بیٹھے ہوئے تھے۔ اور سرکار شاہ جی کے خرچ پر چائے کا دور چل رہا تھا۔ تو یونہی باتوں باتوں میں زبان کا تذکرہ آگیا۔
سر زبیر نے فرمایا کہ:
"دنیا میں سب سے بڑا رشتہ زبان کا رشتہ ہے"
اس سے مجھے احمد جاوید صاحب کی ایک بات یاد آگئی کہ :
"اپنی مادری زبان سے تعلق توڑنا اپنے ماں باپ کو عاق کرنا ہے"
جواُس دن تو اِس کم عقل کے ذہن میں نہ سمائی تھی۔مگر پھر سر کی اس بات سن کر سارے مطالب ذہن میں کھلتے چلے گئے۔
عبرانی کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔
ہر زندہ قوم اپنی زبان کو اپنا تشخص سمجھتے ہوئے ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی زندہ زبان کو منوں مٹی تلے دفنانے پر تلے ہیں۔ چاہے وہ پنجابی ہو یا اردو۔
بڑے لوگ بڑی بڑی باتیں کہہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آگہی رکھتے ہیں۔ مگر ہم جیسے کج فہم جب تک ان الفاظ میں مستور معانی سمجھتے ہیں۔ یہ بڑے لوگ کوئی اور بات کر کے دوبارہ الجھا دیتے ہیں۔
تو اب آتے ہیں ملاقات کی طرف۔ جب راقم الحروف وہاں پہنچا تو دیکھا کہ بھلکڑ اور امجد میانداد تھوڑا آگے آگے چلتے جا رہے ہیں۔ ان کا تعاقب شروع کیا کہ دیکھوں کدھر کو جاتے ہیں۔ تو وہ تھوڑا آگے جا کر کچھ احباب سے گلے ملنے ملانے لگے۔ وہاں پر الف نظامی ، سید زبیر ، خرم شہزاد خرم اور hackerspk پہلے سے موجود تھے۔ میری آمد کے بعد اب مزید کسی کا انتظار باقی نہ تھا۔ کچھ احباب پہلے ہی چائے سے دل بہلا چکے تھے۔ ہمارے لیے بھی چائے آگئی۔ اور باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس سے پہلے کہ بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوتیں۔ اور احباب شغل میلے کا سماں باندھتے۔ نعیم بھائی نے صدارت سنبھالتے ہوئے کہا کہ آج کی مجلس بےمقصد نہیں ہے۔ بلکہ ایک موضوع ہے۔ "اردو اور اس کی ترویج" اور تمام احباب اس کے متعلق اظہار خیال کریں۔ کس طرح ہم بہتری لا سکتے ہیں؟ اور وہ کیا دستور العمل ہو سکتا ہے؟ جس کو سامنے رکھ کر کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کیے جائیں۔ سید زبیر سر تو پہلے ہی سے رہنما ٹھہرائے جا چکے تھے۔ اس ضمن میں فکر استدلال کا منصب زوہیب نے سنبھال لیا۔ اور مشاورت کے منصب پر امجد میانداد فائز ہوگئے۔ خرم نے بھی فکر سے آراستہ ہوتے ہوئے کسی بھی بیان کردہ طریق کے اجزائے مشتملہ کو پرکھنے کی کرسی سنبھال لی۔ اور بھلکڑ وہیں پر فکر آلود مسکان لیے بظاہر متفرس نظر آنے لگا۔ جبکہ سامنے ناظرین کی قطار میں اکیلا مستغنی المزاج راقم الحروف مٹکاہٹ سے آشنا ہونے لگا۔
فکر تجربی سے مالامال سر زبیر نے انتہائی خوبصورت انداز میں موضوع پر بات کرنے سے احتراز کیا۔ جبکہ امجد میانداد، زوہیب اور خرم بھائی کی گزارشات اس ضمن میں بے انتہا اعلی و ارفع تھیں۔ بھلکڑ نے بھی بیچ میں کہیں کوئی لقمہ دیا۔ جبکہ اس خاکسار نے سوائے غیر متفق ہونے کے کوئی اور کام نہیں کیا۔
چند نکات جو زیر بحث رہے۔ وہ پیش خدمت ہیں۔
- دنیا ؛ خصوصا اسپین میں جتنی کتب کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ ایک سال میں ہوتا ہے، اتنا ہمارے ملک میں گزشتہ پانچ سے زائد دہائیوں میں نہیں ہوا۔ اگر اردو کو عام کرنا ہے توزیادہ سے زیادہ کتب کا اردو میں ترجمہ کر کے انہیں عام کرنا پڑے گا۔
- کیا ہی بہترہوا گر ہمارا نصاب مکمل طور پر اردو میں ڈھال دیا جائے۔ اس سے نہ صرف بچوں میں سمجھنے کی صلاحیت بڑھ جائے گی۔ بلکہ اردوکے وہ الفاظ جو اب متروک ہوئے جاتے ہیں۔ ان کو بھی نئی زندگی مل جائے گی۔
- کمپیوٹر پر یونیکوڈ میں اردو زبان کی ترویج کے لیے پاک اردو انسٹالر کے ربط کو اپنے برقی خطوط کے دستخطوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی برقیہ(ای میل) پڑھنے والے احباب کو سہولت مل سکتی ہے۔ اور وہ براہ راست اُس ربط پر جا کر اپنے کمپیوٹر پر اردو کی تنصیب کر سکتے ہیں۔
- فیس بک پر اردو کی ترویج کے لیے صارفین کو پیغامات بھیجے جائیں۔ اور انہیں اس بات کا شعور دیا جائے کہ وہ رومن کی بجائے براہِ راست اردو زبان میں لکھنے کو شعار بنائیں۔
- نٹرنیٹ پر مختلف فورمز میں کمپیوٹر پر اردو لکھنے پڑھنے کے شعور کو عام کرنے کے لیے کام کیا جائے۔
- فیس بک پر مختلف صفحات کے منتظمین کو پیغامات ارسال کیے جائیں کہ وہ اپنے صفحات پر اردو تنصیب کے عمل کے بارے میں رہنما ہدایات لکھیں۔ خود بھی اردو کتابت کو فروغ دیں، اور اپنے صفحے کے قارئین کو بھی اسی بات پر اکسائیں۔
- اردو کی کتابیں صوتی صورت میں انٹرنیٹ پر فراہم کی جائیں۔ اور اس ضمن میں پہلے سے کام کرتے ہوئے احباب سے بھی رابطہ کیا جائے۔
- اسلامی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ لکھ کر انٹر نیٹ پر مہیا کیا جائے۔ کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ بقیہ کچھ اور پہلو بھی ہیں۔ جن میں عوام کی دلچسپی بیاں سے باہر ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر پر اردو کا اطلاق معانی نہیں رکھتا۔۔۔
- ادارہ فروغ زبان و ادب کی بابت سید زبیر صاحب صراحت سے بیان فرمائیں گے۔
- جامعات میں کمپیوٹر پر اردو کتابت کی ترویج کے لیے ورکشاپس منعقد کروائی جائیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم زوہیب اٹھا چکے ہیں۔
- ایسے تمام منصوبے جو "اگر "سے شروع ہوں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔ (فرموداتِ نیرنگ خیال)
- اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی بجائے کپڑے سے بنے تھیلوں کے فروغ کے لیے بھی کام کیا جائے۔ ( ؏- بات سے بات یاد آتی ہے)
دورانِ گفتگو بنا ء باتوں کا سلسلہ منقطع کیے وہاں چائے کے کھوکھے سے اٹھ کر ہم لوگ حبیبی ریستوران کے اندر آبیٹھے ۔ اور کھانا لانے کا حکم صادر فرمایا۔ ساتھ میں یہ موضوع بھی چلتا رہا۔ ہلکی پھلکی گپ شپ اور نوک جھونک تو خاصہ ہوتی ہے۔ جب بھی احباب دنیا سے چند لمحے چرا کر یوں مل بیٹھتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد احباب نے ایک دوسرے سے اجازت چاہی۔ آسمان پر بادل چھا چکے تھے۔ اور ہر کوئی اسی فکر میں غلطاں تھا کہ بارش شروع ہونے سے پہلے گھر کو پہنچ جائے۔ میں جب گھر پہنچا تو بارش زور پکڑ چکی تھی۔ کچھ دیر بارش میں نہانے کے بعد اندر آگیا۔ اور یہ تحریر لکھنے لگا کہ مبادا جزیات ذہن سے محو ہی نہ ہو جائیں۔ یوں ایک خوبصورت دوپہر انجام پذیر ہوئی۔ لیکن وہ تمام کام جو آج اس مجلس میں ہم نے سوچے اور لکھے۔ انشاءاللہ ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اور اردو زبان کی کتابت کو محض رسائل سے نکال کر عمومی زندگی میں کمپیوٹر پر رواج دینے کے لیے ہر ممکنہ حد تک کوشش کی جائے گی۔ انشاءاللہ
آخری تدوین: