نیرنگ خیال
لائبریرین
بہت ڈھونڈنے پر بھی ایسا کوئی کونہ نہیں ملا جہاں احباب کی طویل غیر حاضری کی وجوہات شئیر کی گئیں ہوں۔ رکن کی غیر حاضری پر قریبی احباب اس سے رابطہ بھی کرتے ہونگے اور وہ جواباً کوئی نہ کوئی وجہ بھی ضرور بتاتے ہونگے۔ ایسا ہی اک واقعہ میرے ساتھ رونما ہوا جس کے بعد مجھے ایسا دھاگہ ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آئی اور نہ ملنے پر نئی لڑی میں پرونا پڑا اس قصے کو۔
چھوٹاغالبؔ گزشتہ چند روز سے منظر عام سے غائب تھے۔ نہ میسجز کا جواب نہ رابطے کا کوئی سلسلہ۔ آخر آج رابطہ ہونے پر جو انہوں نے وجہ بتائی تو میں ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا۔ سوچا یہ وجہ تو سب کو بتانی چاہیئے۔ تا کہ سب احباب لطف اٹھائیں۔ اور آئندہ ایسی وجوہات ملنے پر یہیں یا کسی اور لڑی میں عوام الناس کے سامنے لائیں۔ تو اب سنیئے قصہ بزبان چھوٹاغالبؔ
جمعے کی صبح کی بات ہے۔ میں فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا ہوں کہ شور سنا چور چور اور اک آدمی ساتھ سے بھاگتا گزرا۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو میں بھی اس کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر میں میں نے اسے باہر کھیتوں میں جالیا۔ اتنے میں کچھ اور لوگ بھی آگئے۔ جیسے ہی وہ قریب آئے تو اس نے مجھے پکڑ لیا اور کہنے لگا بچو! اب بھاگ کر کہاں جائے گا۔ میں اسکی دیدہ دلیری پر حیران رہ گیا۔ جو لوگ پہنچے تھے وہ بھی تذبذب کا شکار ہو گئے۔ اب مجھے لگا کہ معاملہ الجھ رہا ہے۔ لوگوں نے اب ہم دونوں کو گھیر لیا۔ اتنے میں پولیس آگئی۔ سارا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ چور کہنے لگا کہ اسکو پکڑ کر اندر کرو مجھے جانے دو۔ اسطرح کرو گے تو آئندہ کوئی بھی چور نہ پکڑے گا۔ پولیس والے بھی پریشان ہو گئے۔ میری حالت یہ کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ آک تک ایسی صورتحال سے پالا نہ پڑا تھا۔ دل میں خود کو گالیاں دے رہا کہ کیا ضرورت تھی پیچھے بھاگنے کی۔ پولیس نے ہم دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر حوالات میں لا بند کیا۔ چھوٹا سا قصبہ ہے دھنوٹ۔ اب جو جاننے والے تھے انہوں نے ابو کو خبر کی اور وہ میری خبر لینے تھانے پہنچے۔ انکے تعلقات کی بدولت میری بات کو سچ سمجھا گیا۔ اور یوں میری خلاصی ہوئی۔ یار اس دن سے طبیعت بڑی بوجھل ہے۔ لوگ ابھی بھی مشکوک نظروں سے مجھے دیکھتے ہیں۔ بس ذرا دل بہلتا ہے تو آنلائن آؤں گا۔
چھوٹاغالبؔ گزشتہ چند روز سے منظر عام سے غائب تھے۔ نہ میسجز کا جواب نہ رابطے کا کوئی سلسلہ۔ آخر آج رابطہ ہونے پر جو انہوں نے وجہ بتائی تو میں ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا۔ سوچا یہ وجہ تو سب کو بتانی چاہیئے۔ تا کہ سب احباب لطف اٹھائیں۔ اور آئندہ ایسی وجوہات ملنے پر یہیں یا کسی اور لڑی میں عوام الناس کے سامنے لائیں۔ تو اب سنیئے قصہ بزبان چھوٹاغالبؔ
جمعے کی صبح کی بات ہے۔ میں فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا ہوں کہ شور سنا چور چور اور اک آدمی ساتھ سے بھاگتا گزرا۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو میں بھی اس کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر میں میں نے اسے باہر کھیتوں میں جالیا۔ اتنے میں کچھ اور لوگ بھی آگئے۔ جیسے ہی وہ قریب آئے تو اس نے مجھے پکڑ لیا اور کہنے لگا بچو! اب بھاگ کر کہاں جائے گا۔ میں اسکی دیدہ دلیری پر حیران رہ گیا۔ جو لوگ پہنچے تھے وہ بھی تذبذب کا شکار ہو گئے۔ اب مجھے لگا کہ معاملہ الجھ رہا ہے۔ لوگوں نے اب ہم دونوں کو گھیر لیا۔ اتنے میں پولیس آگئی۔ سارا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ چور کہنے لگا کہ اسکو پکڑ کر اندر کرو مجھے جانے دو۔ اسطرح کرو گے تو آئندہ کوئی بھی چور نہ پکڑے گا۔ پولیس والے بھی پریشان ہو گئے۔ میری حالت یہ کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ آک تک ایسی صورتحال سے پالا نہ پڑا تھا۔ دل میں خود کو گالیاں دے رہا کہ کیا ضرورت تھی پیچھے بھاگنے کی۔ پولیس نے ہم دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر حوالات میں لا بند کیا۔ چھوٹا سا قصبہ ہے دھنوٹ۔ اب جو جاننے والے تھے انہوں نے ابو کو خبر کی اور وہ میری خبر لینے تھانے پہنچے۔ انکے تعلقات کی بدولت میری بات کو سچ سمجھا گیا۔ اور یوں میری خلاصی ہوئی۔ یار اس دن سے طبیعت بڑی بوجھل ہے۔ لوگ ابھی بھی مشکوک نظروں سے مجھے دیکھتے ہیں۔ بس ذرا دل بہلتا ہے تو آنلائن آؤں گا۔