آداب !!!!محفلِ ادب کے چائے خانہ میں
وارث میاں کیسے ہیں!!!اتنے مصروف ہوگئے کہ سالگرہ کی تقریب میں بھی غیر حاضر !!!!آپکے لئے ہم چائے خود بنا لائے ہیں ۔اُمید ہے پسند آئے گی 🙏🏻
احمد حاطب صدیقی (ابو نثر)
کا ایک مضمون آپکی نذر
سوائے سنگ دلی اور کچھ ہنر بھی ہے؟
بڑی منہ چڑھی غلطی ہے جو عوام ہی کی نہیں خواص کی زبانوں پر بھی چڑھی جا رہی ہے۔ ہم دانتوں تلے اُنگلیاں دابے حیرت سے دیکھ رہے ہیں، سُن رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ بڑے بڑے علما فضلا بھی اب ’علاوہ‘ اور ’سِوا‘میں فرق نہیں کرپاتے۔ روزمرہ بول چال اور سیاسی تقریروں کے علاوہ، علمی خطبات اور محققانہ تحریروں میں بھی استثنا کے لیے سوائے علاوہ کے انھیں کوئی لفظ نظر ہی نہیں آتا۔ بعض سکہ بند اہلِ زبان بھی اس غلطی کو بار بار دُہراتے دیکھے گئے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ’سِوا‘ کے معنوں میں ’علاوہ‘ لکھنے کے حق میں دلائل بھی دیے جانے لگے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ دلائل کو تقویت پہنچانے کے لیے اکابر کی تحریروں سے مثالیں بھی دستیاب ہیں۔
بہت سی دوسری غلطیوں کی طرح شاید یہ غلطی بھی گوارا کرلی جاتی۔ ’غلط العام‘ کہہ کر ’فصیح البیان‘ قرار دے ڈالی جاتی۔ مگر چوں کہ اس غلطی کے اثرات ہمارے بنیادی عقیدے اور کلمۂ توحید کے ترجمے پر بھی پڑتے ہیں، چناں چہ لازم ہے کہ اس باب میں سختی سے احتیاط کی جائے اور اصلاح کی خاطر، جہاں تک بات پہنچائی جا سکے، پہنچا دی جائے۔
ہماری طرح خود آپ نے بھی سنا اور دیکھا ہوگا، نیز پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین نے اپنی کتاب ’’لسانی زاویے‘‘ کے ایک مضمون ’’علاوہ کی ذو معنویت اور اِبہام و اِہمال‘‘میں تحریر بھی کیا ہے کہ ’’ایک اُردو ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام میں، ایک معروف عالم اور مبلغ نے ایک نومسلم کو کلمۂ طیبہ اور اس کا ترجمہ پڑھایا، ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، حضرت محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ (ص:۵۴)
مضمون کے متعلقہ حاشیے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
"پیس Peace ٹی وی چینل پر ۴؍جون۲۰۱۹ء کو نشر ہونے والے ایک پروگرام میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک غیر مسلم کو کلمۂ طیبہ پڑھا کر مسلمان کیا اور ساتھ اس کلمے کا ترجمہ بھی پڑھایا۔ ترجمے میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ’سوا‘ کی جگہ ’علاوہ‘ ادا کیا۔‘‘ (ص:۶۱)
گو کہ ڈاکٹر ذاکر نائک خود بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ انھیں اُردو پر عبور نہیں، لیکن عربی تو وہ بھی جانتے ہیں۔ ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ دونوں عربی الفاظ ہیں۔ خیر، ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام تو محض بطور مثال آگیا۔ اچھے اچھے اردو دان علما ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ میں اب فرق روا نہیں رکھتے۔
’علاوہ‘ کے لغوی معنی ہیں ’’وہ چیز جو دوسری چیز کے اوپر رکھ دی جائے‘‘۔ عربی لغت ’علاوہ‘ کا مطلب ’’مَا زَادَ عَلَیہ‘‘ بتاتی ہے۔ یعنی ’جو اس پر زیادہ ہو‘۔ جیسے کہا جائے کہ ’مزدوری کے علاوہ کھانا بھی دیا جائے گا‘۔ گویا ’علاوہ‘ کہہ کر رقم اور کھانا دونوں چیزیں مزدوروں کی اُجرت میں شامل کردی گئیں۔ پس علاوہ کا مفہوم شمولیت اور شرکت ہے۔ مثلاً ’احمد کے علاوہ حامد اور محمود وہاں موجود تھے‘۔ یہ تین افراد کا ذکر ہوا۔ علاوہ کی جگہ اردو میں ’سمیت‘ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگرکہا جائے کہ ’احمد کے علاوہ حامد، محمود، حماد اور حمید غیر حاضر ہیں‘ تو مطلب یہ ہوا کہ احمد سمیت سب غیر حاضر ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کتب و رسائل کے متعلق یہ فقرہ نظر آتا تھا ’قیمت ۱۰؍ روپے، علاوہ محصول ڈاک‘۔ بظاہر لفظ ’علاوہ‘ یہاں دو چیزوں کو الگ الگ کرتا نظر آرہا ہے، لیکن دراصل یہاں بھی شمولیت ہی ظاہر ہورہی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ خریدار کی جان صرف ۱۰؍روپے ادا کرکے چھوٹ نہیں جائے گی۔ دس روپے کے علاوہ ڈاک کے اخراجات بھی دینے ہوں گے۔گویا ’علاوہ‘ لکھ کر اگلے پچھلے سب کو شامل کرلیا۔ پس اگر کسی محفل میں آپ یہ دعویٰ فرمائیں کہ ’’یہاں میرے علاوہ سب جاہل ہیں‘‘ تو علاوہ اور سوا کے فرق کا علم رکھنے والے آپ سے فوراً اتفاق کرلیں گے۔ کیوں کہ یہاں ’میرے علاوہ‘ کا مطلب ہوگا ’مجھ سمیت‘۔
حرفِ استثنا ’سوا‘ ہے۔ یہ شرکت و شمولیت کے لیے نہیں، علیحدگی، اخراج اور نفی کے لیے آتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ باقی تو کوئی معبود نہیں ہے، مگر اللہ معبود ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘، تو ’علاوہ‘ لگا دینے سے مفہوم یہ ہوگیا کہ اللہ بھی معبود نہیں، کوئی دوسرا بھی معبود نہیں۔ چھٹی ہوئی۔ یعنی اللہ سمیت کوئی بھی معبود نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کہا جائے کہ ’’کلونجی میں موت کے علاوہ ہر بیماری سے شفا ہے‘‘۔ اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ کلونجی میں موت سمیت ہر بیماری سے شفا ہے۔ جب کہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ ’موت کے سوا‘ ہر بیماری سے شفا ہے۔ یعنی موت کا کوئی علاج نہیں۔ ’موت‘ مستثنیٰ ہے، باقی ہر بیماری کا علاج ہے۔
’سِوا‘ کے مفہوم میں عربی کی طرح اردو میں بھی ’ماسوا‘، ’بجز‘، ’اِلّا‘ اور’غیر‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ رحمٰن کیانی سرورِ کائناتؐ کے حضور آپؐ کی اُمتِ موجود کے حالاتِ زبوں پیش کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:
ماسو اللہ زمانے میں، شہِ ہر دو سرا!
یہ کسی کے بھی نہیں، کوئی نہیں ہے ان کا
’بجز‘ کا استعمال فیضؔ کے اس مشہور مصرع میں دیکھیے ’’ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت‘‘ ۔یعنی اس دل میں ہر طرح کا داغ ہے سوائے ندامت کے داغ کے۔ مراد یہ کہ ندامت کا داغ نہیں ہے۔ اب ’اِلّا‘ کی مثال بھی لے لیجیے۔ میرؔ صاحب فرماتے ہیں:
آج ہمارے گھر آیا، تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
اِلّا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
مطلب یہ کہ اپنا کمینہ پن دکھانے کے سوا شاعر کے گھر میں کچھ بھی نہیں۔ پیزا اور کولڈ ڈرنک بھی نہیں۔
ہماری عام بول چال میں بھی ’اِلّا‘ کا یہ استعمال بہت عام ہے۔ مثلاً:
’’میں تو اب اُس کو گھر میں گھسنے بھی نہیں دوں گا، اِلّا یہ کہ وہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہو، اور اپنی بہن سے معافی مانگے‘‘۔
’سوا‘ کے معنوں میں لفظ ’غیر‘ کا استعمال کرتے ہوئے مرزا غالبؔ خوشی خوشی اعلان کرتے ہیں:
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حُسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
’غیر‘ کے بعد ’از‘ لگا کر بولنے کا رواج اب عام بول چال میں کم ہوگیا ہے۔ عام بول چال میں ’غیر‘ سے پہلے ’ب‘ لگا کر ’سوا‘ کے معنی لے لیے جاتے ہیں، مثلاً ’’بغیر اجازت اندر آنا منع ہے‘‘۔ یعنی اندر آنے کی ممانعت ہے، بجز اس کے، سوائے اس کے یا اِلّا یہ کہ آپ اندر آنے کی اجازت لے لیں۔ جنابِ میرؔ جب حسینوں کو جلی کٹی سنانے پر اُتر آئے تو ہاتھ نچا نچا کر فرمایا:
سوائے سنگ دلی اور کچھ ہنر بھی ہے؟
بتاں! دلوں میں تمھارے خدا کا ڈر بھی ہے؟
گویا بُتاں کے ہر ہنر کی نفی کی گئی، مگر سنگ دلی کا ہنر تسلیم کرلیا گیا۔آج کا شاعر ہوتا تو ’سوائے‘ کی جگہ ’علاوہ‘ کو پکڑ کر باندھ دیتا اور خوش ہوتا کہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ صاحبو! ’سوا‘حرفِ استثنا ہے اور ’علاوہ‘ حرفِ شمولیت‘ جو ‘Moreover’کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اقبالؔ نے بالِ جبریل کی ایک غزل میں ’سوا‘ کو ردیف کا حصہ بنایا ہے۔ پوری غزل پڑھ لیجیے، سوا کا مفہوم واضح ہوجائے گا۔ مطلع عرض ہے:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں!!!