سیما علی
لائبریرین
آداب عرض ہے ..
محفل چائے خانہ کی یاد ستائی ۔۔
ابو نثر احمد حاطب صدیقی کا مضمون نظر سے گذرا
جہاں تک کٹ اور کٹھ کا تعلق ہے تو ’کٹ‘ بھی ’کٹھ‘ ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ اصلاً یہ ’کٹھ‘ ہی تھا، مگر ممکن ہے کہ کسی کٹھ حجت نے دو چشمی ’ھ‘ کو کاٹ کھایا ہو اور کٹ حجتی شروع کردی ہو۔ حجت بازی بڑھ جانے سے اب کٹ حجتی اور کٹھ حجتی (یا کٹ مُلّا اور کٹھ مُلّا) ایک دوسرے کے متبادل ہوگئے ہیں۔ زیادہ فصیح کیا ہے، اس کا فیصلہ تو فصحا ہی کرسکتے ہیں۔ مفتی صاحب نے ’ریختہ‘ کا حوالہ دیا ہے تو ’ریختہ‘ پر بھی کٹھ حجت اورکٹھ حجتی، دونوں تراکیب مُندرج ہیں۔ نوراللغات میں بھی کٹ حجت اور کٹھ حجت ہر دوالفاظ براجمان ہیں۔
اسرارؔ جامعی کی نظم ’’دلی درشن‘‘ کا ایک شعر ہے:
شر پنڈت، کٹھ مُلّا دیکھا
رام بھگت، عبداللہ دیکھا
کاٹھ کا مخفف ہونے کے علاوہ ’کٹھ‘ کے معانی محنت، مشقت اور ریاضت کے بھی ہیں۔ یہ’ کشٹ‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اسی ’کٹھ‘ سے ’کٹھن‘ اور ’کٹھنائی‘ بنا ہے۔محنت و مشقت سے بنایا ہوا قلعہ یا حصار’کوٹھ‘ کہلاتا ہے۔ گودام یا ذخیرہ بھی کوٹھ کہا جاتا ہے۔ کوٹھ سے کوٹھا، کوٹھی اور کوٹھری بنالی گئی۔ غالباً یہی لفظ ’کوٹ‘ میں تبدیل ہو کر بستیوں کے ناموں کے ساتھ بھی لگ گیا۔سیال کوٹ، جام کوٹ، شور کوٹ اور راولا کوٹ وغیرہ۔
حجت کا مطلب دعویٰ، دلیل، بحث و تکراراور باہم جھگڑنا ہے۔ ’ احتجاج‘ اسی سے بنا ہے۔حجت کا ایک مطلب قصدو ارادہ کرنا یا بار بار آنا جاناہے۔’ حج‘ کی اصطلاح انھی معنوں سے اخذ کی گئی ہے۔فقہ میں ’حجت‘ اُس قولِ فیصل (فیصلہ کُن بات) یا دلیل کو کہتے ہیں جس کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مثلاً: ’’اللہ کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت ہمارے لیے حجت ہے‘‘۔
بہر حال، کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری۔ ان سے بچنے کا حکم ہے۔سورۃ المومنون کی آیت نمبر 3اور سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 کی رُو سے اہلِ ایمان لغو، فضول، لایعنی اور لاحاصل باتوں سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جہاں کسی قسم کی فضولیات ہو رہی ہوں وہاں سے ان کا گزرہو تو مہذّب طریقے سے کترا کر نکل جاتے ہیں۔
محفل چائے خانہ کی یاد ستائی ۔۔
ابو نثر احمد حاطب صدیقی کا مضمون نظر سے گذرا
کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، دونوں بری ہیں
ہم ’کٹ حجتی‘ لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ ریختہ میں بھی ہم نے دیکھا تو کٹ حجتی ہی ہے۔ ’’کٹ حجتی‘‘ کے معنی ہیں: ’’خواہ مخواہ کی بحث، بحث برائے بحث،اپنی بات پر اڑنا، ضد سے کام لینا، بے جا حجت‘‘۔ لیکن جناب ابونثر نے ’’کٹھ حجتی‘‘ لکھا ہے، آیا یہ زیادہ فصیح ہے یا کاتب کی غلطی ہے؟‘‘جہاں تک کٹ اور کٹھ کا تعلق ہے تو ’کٹ‘ بھی ’کٹھ‘ ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ اصلاً یہ ’کٹھ‘ ہی تھا، مگر ممکن ہے کہ کسی کٹھ حجت نے دو چشمی ’ھ‘ کو کاٹ کھایا ہو اور کٹ حجتی شروع کردی ہو۔ حجت بازی بڑھ جانے سے اب کٹ حجتی اور کٹھ حجتی (یا کٹ مُلّا اور کٹھ مُلّا) ایک دوسرے کے متبادل ہوگئے ہیں۔ زیادہ فصیح کیا ہے، اس کا فیصلہ تو فصحا ہی کرسکتے ہیں۔ مفتی صاحب نے ’ریختہ‘ کا حوالہ دیا ہے تو ’ریختہ‘ پر بھی کٹھ حجت اورکٹھ حجتی، دونوں تراکیب مُندرج ہیں۔ نوراللغات میں بھی کٹ حجت اور کٹھ حجت ہر دوالفاظ براجمان ہیں۔
اسرارؔ جامعی کی نظم ’’دلی درشن‘‘ کا ایک شعر ہے:
شر پنڈت، کٹھ مُلّا دیکھا
رام بھگت، عبداللہ دیکھا
کاٹھ کا مخفف ہونے کے علاوہ ’کٹھ‘ کے معانی محنت، مشقت اور ریاضت کے بھی ہیں۔ یہ’ کشٹ‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اسی ’کٹھ‘ سے ’کٹھن‘ اور ’کٹھنائی‘ بنا ہے۔محنت و مشقت سے بنایا ہوا قلعہ یا حصار’کوٹھ‘ کہلاتا ہے۔ گودام یا ذخیرہ بھی کوٹھ کہا جاتا ہے۔ کوٹھ سے کوٹھا، کوٹھی اور کوٹھری بنالی گئی۔ غالباً یہی لفظ ’کوٹ‘ میں تبدیل ہو کر بستیوں کے ناموں کے ساتھ بھی لگ گیا۔سیال کوٹ، جام کوٹ، شور کوٹ اور راولا کوٹ وغیرہ۔
حجت کا مطلب دعویٰ، دلیل، بحث و تکراراور باہم جھگڑنا ہے۔ ’ احتجاج‘ اسی سے بنا ہے۔حجت کا ایک مطلب قصدو ارادہ کرنا یا بار بار آنا جاناہے۔’ حج‘ کی اصطلاح انھی معنوں سے اخذ کی گئی ہے۔فقہ میں ’حجت‘ اُس قولِ فیصل (فیصلہ کُن بات) یا دلیل کو کہتے ہیں جس کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مثلاً: ’’اللہ کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت ہمارے لیے حجت ہے‘‘۔
بہر حال، کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری۔ ان سے بچنے کا حکم ہے۔سورۃ المومنون کی آیت نمبر 3اور سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 کی رُو سے اہلِ ایمان لغو، فضول، لایعنی اور لاحاصل باتوں سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جہاں کسی قسم کی فضولیات ہو رہی ہوں وہاں سے ان کا گزرہو تو مہذّب طریقے سے کترا کر نکل جاتے ہیں۔
آخری تدوین: