عثمان
محفلین
نارفاک نیول بیس پر قدم رکھتے ہی سعود بھیا کو ٹیکسٹ کیا کہ میاں اب ہم یہاں تک تو پہنچ ہی چکے ہیں تو میزبانی بھگتانے کےلیے تیار رہیے۔ فوراً ہی محبت بھرا جواب آیا کہ جتنی جلد ہوسکے چلے آئیں۔ تاہم میں سارا دن اسی سوچ میں رہا کہ نیٹ پر بے تکلفی اپنی جگہ لیکن پہلی ہی باضابطہ ملاقات میں میزبان پر اتنا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں کہ عاجز آجائے ۔ اس لیے مختصر اور مناسب وقت ڈھونڈ کر زیارت کر آتے ہیں۔ تمام دوپہر شہر کی سڑکوں پرآواراہ گردی کرتے گزری لیکن ذہن تھا کہ آنے والی ملاقات میں ہی الجھا رہا۔ آخر کوئی رات آٹھ بجے دوستوں سے رخصت چاہی ، سعود بھیا کو ایک عدد ٹیکسٹ اپنی آمد کا ارسال کیا اور ٹیکسی لے کر اولڈ ڈومینین یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوئے۔
اونچی عمارتیں ایک ایک کرتی کھڑکی سے گزرتی رہی کہ اچانک ایک دبلے پتلے لیکن انتہائی چست نوجوان کا شناسا سا چہرہ نظر سے گزرا تو احساس ہوا کہ جامعہ کے پہلو میں مقررہ مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ کیب سے اترتے ہی سعود بھائی پرتپاکی سےتین دفعہ گلے ملے۔ اور میں گلے ملتے کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا کہ کہیں گیس سٹیشن پر کوئی شخص ہمیں غلط نہ سمجھ بیٹھے۔
یونیورسٹی کی چمکتی عمارتوں کے درمیان خوبصورت اور کشادہ باغیچوں سے گذرتے اوپری منزل میں سعود بھیا کے دفتر پہنچے۔ ایک وسیع کمرہ ہے۔۔۔ جہاں بھاری میزیں اور ان کے گرد کرسیاں، دیواروں پر جگہ جگہ سفید بورڈ جن پر مارکر سے کسی جناتی زبان میں تحاریر، فارمولے، گوشوارے اور گراف موجود تھے۔ دائیں جانب دفتری طرز کے چار پانچ کیوبیکل اور ان میں چھپے میز کرسیاں اور دو دو مانیٹرز سے منسلک کمیپوٹرز جن پر پی ایچ ڈی کے طلبہ دن رات اپنے سر کھپاتے ہونگے۔ انہی میں سے ایک سعود بھیا کا کیوبیکل تھا جہاں کرسی کھینچ کر ہم نے سمانے کی کوشش کی۔ سامنے میز پر رکھے کمپیوٹر مانیٹرز میں لاتعداد ٹیب کھلے تھے۔ ۔۔۔تو یہ ہے اردو محفل کا آپریشنل ہیڈ کواٹر!۔۔۔ میرے ذہن میں خیال کوندا۔
ابن سعید محفل کے آپریشنل ہیڈ کواٹر میں
نو بج رہے تھے۔ تمام دفتر بلکہ کل عمارت ویران معلوم ہوتی تھی۔ غالباً طلبہ۔۔ بلکہ جامعائی مکین ویک اینڈ کی رات پڑھائی اور دفتری مصروفیات سے فرار ہو کر کہیں اور مگن تھے۔ صرف سعود کی آواز گونج تھی۔ وہ کمال گرمجوشی اور چستی سے کبھی اردو محفل پر آئیندہ آنے والے نئی تکنیکی اپ ڈیٹس کا تعارف کراتے اور کبھی اپنے دقیق تحقیقی مقالات کی تفصیل میرے لیے آسان کرنے کی کوشش کرتے۔ اور میں ہونقوں کی طرح بے چینی سے پہلو بدلتے تمام وقت یہ تاثر دینے کی کوشش میں رہا کہ جیسے میں اس جناتی تفصیل کو بخوبی سمجھ پا رہا ہوں۔ مجھے سعود کی پھرتی نے بہت حیران بلکہ کسی حد تک محظوظ بھی کیا۔ ابھی میرے ذہن میں گذشتہ موضوع کی بازگشت ہوتی اور وہ ایک لحظہ میں کسی دوسرے موضوع میں گم ہوچکے ہوتے۔ جتنی دیر میں میں پلک جھپکتا وہ پہلو بدل چکے ہوتے۔ میں گردن موڑتا تو وہ کیوبکل کے دوسرے کونے میں کھڑے مسکراتے نظر آتے۔
کچھ ہی دیر میں ہم اٹھ کر ملحقہ کمرے میں آ گئے جہاں آرام دہ صوفوں پر جوں جوں اعصاب کا تناؤ دور ہوا ،توں توں بات چیت تکلفات کے مراحل پیچھے چھوڑتی گپ شپ میں بدلتی چلی گئی۔ ایک کے بعد ایک موضوعات کھلنے لگے۔ محفل گفتگو میں حاوی ہوتی چلی گئی۔ برس ہا برس ہونے والا محفل کا تکنیکی اور سماجی ارتقاء ، مختلف ادوار میں ہونے والے اتار چڑھاؤ، مشکلات ، تنازعات ، خوشگوار لمحات۔۔۔ ایک ایک کرکے زیر گفتگو آنے لگے۔ سعود زبانی گفتگو میں بھی ایسے ہی شیریں، محتاط اور قادر کلام ہیں جیسے وہ محفل پر کمپیوٹر کے پردے کے پیچھے اپنی رطب اللسانی کے جوہر دکھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم کمپیوٹر سکرین پر لکھے الفاظ کے برعکس ، زبانی ہم کلامی کا فائدہ ہے کہ تاثرات عیاں رہتے ہیں۔ سعود رواں ہوتے چلے گئے اور مجھے محفل کی تاریخ کے ساتھ ساتھ۔۔ الفاظ کے کہیں پیچھے گم سعود کو پڑھنے کا موقع ملتا گیا۔۔ مجھے لگا کہ جیسے ان کی صلاحیتوں کا محفل پر جو اثر ہے۔ ویسے ہی برس ہا برس محفل کی ذمہ داریوں نے بھی ان کی شخصیت پر ایک اثر چھوڑا ہے۔ محفل ان کے لیے مشغلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ یہاں تک کہ عین ممکن ہے کہ اس پر ان کا کیا تکنیکی کام کبھی ان کے کسی تحقیق مقالے میں فٹ نوٹ کی جگہ بھی پائے۔ اس کے عوض انھوں نے اپنی مصروفیات کا ایک قیمتی حصہ محفل کو دیا۔ ہمارے جیسا کوئی ہوتا تو محفل کی ارتقائی تاریخ میں اب تک آنے والی قسم قسم کی مشکلات سے بیزار ہو کر کب کا رخصت ہوچکا ہوتا (کئی تو ہوچکے!)۔ تاہم جیسے ایک عام محفلین کو محفل اور انتظامیہ سے وقت بو وقت شکایت اٹھتی ہے ویسے سعود بھی اس سے محروم نہیں۔ ہاں البتہ وہ کمال حسن ظن قائم رکھتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ محض منتظم ہیں ، منصف نہیں کہ محفلین جا بجا بکھرے اپنے فکری تنازعات میں انہیں کھنچتے رہیں۔ یا جذبات میں بے قابو ہو کرمحفل کی حیثیت کو چیلنج کریں۔ لوگوں کے مراسلات کی ادارت سے آگے ایک منتظم کو درپیش بہت کچھ ہے جو اکثر محفلین کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ مبتدی سے بانیوں تک۔۔ سب پر ان کی نرم گرم دلچسپ رائے تھی۔
گذشتہ رات گئے تک گپ شپ سے جی نہ بھرا تو اگلے دن میں پھر آ پہنچا۔ اب کی بار انھوں نے اپنی رہائش گاہ میں مہمان نوازی کی۔ تمام دن وہیں گذرا۔ موصوف مخصوص پھرتی سے کمرے اور کچن کے درمیان چکر لگاتے رہے۔ انگور، پتیسہ ، پراٹھوں اور ملک شیک کے بعد ابھی ان کا مزید پروگرام تھا۔ تاہم شام ڈھلنے پر میں نے اجازت چاہی اور بندرگاہ کی طرف راہ پکڑی ۔
شائد اسی سال اکتوبر میں نارفاک سے پھر گذر ہو۔ تاہم اس بار میزبانی کی میز میں سنبھالوں گا تاوقتیکہ سعود بھائی ہیلی فیکس کے سفر پر آمادہ ہوں۔
اونچی عمارتیں ایک ایک کرتی کھڑکی سے گزرتی رہی کہ اچانک ایک دبلے پتلے لیکن انتہائی چست نوجوان کا شناسا سا چہرہ نظر سے گزرا تو احساس ہوا کہ جامعہ کے پہلو میں مقررہ مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ کیب سے اترتے ہی سعود بھائی پرتپاکی سےتین دفعہ گلے ملے۔ اور میں گلے ملتے کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا کہ کہیں گیس سٹیشن پر کوئی شخص ہمیں غلط نہ سمجھ بیٹھے۔
یونیورسٹی کی چمکتی عمارتوں کے درمیان خوبصورت اور کشادہ باغیچوں سے گذرتے اوپری منزل میں سعود بھیا کے دفتر پہنچے۔ ایک وسیع کمرہ ہے۔۔۔ جہاں بھاری میزیں اور ان کے گرد کرسیاں، دیواروں پر جگہ جگہ سفید بورڈ جن پر مارکر سے کسی جناتی زبان میں تحاریر، فارمولے، گوشوارے اور گراف موجود تھے۔ دائیں جانب دفتری طرز کے چار پانچ کیوبیکل اور ان میں چھپے میز کرسیاں اور دو دو مانیٹرز سے منسلک کمیپوٹرز جن پر پی ایچ ڈی کے طلبہ دن رات اپنے سر کھپاتے ہونگے۔ انہی میں سے ایک سعود بھیا کا کیوبیکل تھا جہاں کرسی کھینچ کر ہم نے سمانے کی کوشش کی۔ سامنے میز پر رکھے کمپیوٹر مانیٹرز میں لاتعداد ٹیب کھلے تھے۔ ۔۔۔تو یہ ہے اردو محفل کا آپریشنل ہیڈ کواٹر!۔۔۔ میرے ذہن میں خیال کوندا۔
ابن سعید محفل کے آپریشنل ہیڈ کواٹر میں
نو بج رہے تھے۔ تمام دفتر بلکہ کل عمارت ویران معلوم ہوتی تھی۔ غالباً طلبہ۔۔ بلکہ جامعائی مکین ویک اینڈ کی رات پڑھائی اور دفتری مصروفیات سے فرار ہو کر کہیں اور مگن تھے۔ صرف سعود کی آواز گونج تھی۔ وہ کمال گرمجوشی اور چستی سے کبھی اردو محفل پر آئیندہ آنے والے نئی تکنیکی اپ ڈیٹس کا تعارف کراتے اور کبھی اپنے دقیق تحقیقی مقالات کی تفصیل میرے لیے آسان کرنے کی کوشش کرتے۔ اور میں ہونقوں کی طرح بے چینی سے پہلو بدلتے تمام وقت یہ تاثر دینے کی کوشش میں رہا کہ جیسے میں اس جناتی تفصیل کو بخوبی سمجھ پا رہا ہوں۔ مجھے سعود کی پھرتی نے بہت حیران بلکہ کسی حد تک محظوظ بھی کیا۔ ابھی میرے ذہن میں گذشتہ موضوع کی بازگشت ہوتی اور وہ ایک لحظہ میں کسی دوسرے موضوع میں گم ہوچکے ہوتے۔ جتنی دیر میں میں پلک جھپکتا وہ پہلو بدل چکے ہوتے۔ میں گردن موڑتا تو وہ کیوبکل کے دوسرے کونے میں کھڑے مسکراتے نظر آتے۔
کچھ ہی دیر میں ہم اٹھ کر ملحقہ کمرے میں آ گئے جہاں آرام دہ صوفوں پر جوں جوں اعصاب کا تناؤ دور ہوا ،توں توں بات چیت تکلفات کے مراحل پیچھے چھوڑتی گپ شپ میں بدلتی چلی گئی۔ ایک کے بعد ایک موضوعات کھلنے لگے۔ محفل گفتگو میں حاوی ہوتی چلی گئی۔ برس ہا برس ہونے والا محفل کا تکنیکی اور سماجی ارتقاء ، مختلف ادوار میں ہونے والے اتار چڑھاؤ، مشکلات ، تنازعات ، خوشگوار لمحات۔۔۔ ایک ایک کرکے زیر گفتگو آنے لگے۔ سعود زبانی گفتگو میں بھی ایسے ہی شیریں، محتاط اور قادر کلام ہیں جیسے وہ محفل پر کمپیوٹر کے پردے کے پیچھے اپنی رطب اللسانی کے جوہر دکھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم کمپیوٹر سکرین پر لکھے الفاظ کے برعکس ، زبانی ہم کلامی کا فائدہ ہے کہ تاثرات عیاں رہتے ہیں۔ سعود رواں ہوتے چلے گئے اور مجھے محفل کی تاریخ کے ساتھ ساتھ۔۔ الفاظ کے کہیں پیچھے گم سعود کو پڑھنے کا موقع ملتا گیا۔۔ مجھے لگا کہ جیسے ان کی صلاحیتوں کا محفل پر جو اثر ہے۔ ویسے ہی برس ہا برس محفل کی ذمہ داریوں نے بھی ان کی شخصیت پر ایک اثر چھوڑا ہے۔ محفل ان کے لیے مشغلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ یہاں تک کہ عین ممکن ہے کہ اس پر ان کا کیا تکنیکی کام کبھی ان کے کسی تحقیق مقالے میں فٹ نوٹ کی جگہ بھی پائے۔ اس کے عوض انھوں نے اپنی مصروفیات کا ایک قیمتی حصہ محفل کو دیا۔ ہمارے جیسا کوئی ہوتا تو محفل کی ارتقائی تاریخ میں اب تک آنے والی قسم قسم کی مشکلات سے بیزار ہو کر کب کا رخصت ہوچکا ہوتا (کئی تو ہوچکے!)۔ تاہم جیسے ایک عام محفلین کو محفل اور انتظامیہ سے وقت بو وقت شکایت اٹھتی ہے ویسے سعود بھی اس سے محروم نہیں۔ ہاں البتہ وہ کمال حسن ظن قائم رکھتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ محض منتظم ہیں ، منصف نہیں کہ محفلین جا بجا بکھرے اپنے فکری تنازعات میں انہیں کھنچتے رہیں۔ یا جذبات میں بے قابو ہو کرمحفل کی حیثیت کو چیلنج کریں۔ لوگوں کے مراسلات کی ادارت سے آگے ایک منتظم کو درپیش بہت کچھ ہے جو اکثر محفلین کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ مبتدی سے بانیوں تک۔۔ سب پر ان کی نرم گرم دلچسپ رائے تھی۔
گذشتہ رات گئے تک گپ شپ سے جی نہ بھرا تو اگلے دن میں پھر آ پہنچا۔ اب کی بار انھوں نے اپنی رہائش گاہ میں مہمان نوازی کی۔ تمام دن وہیں گذرا۔ موصوف مخصوص پھرتی سے کمرے اور کچن کے درمیان چکر لگاتے رہے۔ انگور، پتیسہ ، پراٹھوں اور ملک شیک کے بعد ابھی ان کا مزید پروگرام تھا۔ تاہم شام ڈھلنے پر میں نے اجازت چاہی اور بندرگاہ کی طرف راہ پکڑی ۔
شائد اسی سال اکتوبر میں نارفاک سے پھر گذر ہو۔ تاہم اس بار میزبانی کی میز میں سنبھالوں گا تاوقتیکہ سعود بھائی ہیلی فیکس کے سفر پر آمادہ ہوں۔