محمد علم اللہ
محفلین
محمد علم اللہ اصلاحی
سوچا تھا بہت کچھ لکھوں گا ،لیکن انتشار اور وقت کی قلت کے سبب چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کر پایا ۔اس کے لئے معذرت ۔صبح پانچ بجے ٹرین ہے ۔مجھے بھی گھر کے لئے نکلنا ہے ۔بس یہ چند سطریں جلدی جلدی میں لکھ رہا ہوں کہیں غلطی ہو تو معاف کیجئے گا۔
صبح کو الف عین چاچو سے کافی اچھی ملاقات رہی۔ اسٹیشن پر گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کر تے رہے ۔سعود بھائی سے یہیں ملاقات ہونی تھی، لیکن ان کی پرواز میں تاخیرہونے کے سبب مجھے اکیلے ہی چاچو سے ملنے جانا پڑا ۔دہلی میں موسلادھار بارش کے سبب ریلوے اسٹیشن پہنچتے پہنچتے پوری طرح بھیگ گیا ۔چاچو کہنے لگے میری وجہ سے تم نے کافی زحمت کی ۔میں نے کہا نہیں یہ تو ہونا ہی تھا ۔اور پھر آپ سے ملاقات جو چھوٹ جاتی اگر پانی کے چکر میں نہ آتا ۔اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسا لگتا تھا کہ اب یہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ۔چاچو سے یہ دوسری ملاقات تھی لیکن بڑے مزے کی رہی ۔
دہلی میں چاچو کے شناسا اور علم وادب سے خصوصا دلچسپی رکھنے والے لوگ کافی ہیں۔اور بہت سارے لوگوں نے ملاقات کے لئے وقت لیا ہوا تھا اس لئے بھی شاید چاچو بہت پہلے آگئے تھے لیکن بارش نے سارا مزا کر کرا کر دیا اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے نہیں آ سکے ۔اور یوں مجھے ان سے باتیں کرنے کو خوب موقع مل گیا ۔سچ مچ جب ایسی ہستیوں سے ملاقات ہو تو جی نہیں چاہتا کہ ان سے جدا ہوا جائے لیکن حالات اور واقعات مجبور کر دیتے ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سی چیزوں کو کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اور میں بھی اسی سبب محض دو تین گھنٹہ کی ملاقات کے بعدہی بادل نخواستہ واپس لوٹ آیا ۔واپسی پر چاچو نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیری اور ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے الوداع کہا اور ٹرین سے حیدر آباد کے لئے روانہ ہو گئے ۔
اسٹیشن ویٹنگ روم میں ایک اجنبی بچی سے کھلیتے ہوئے چاچو----وقت:صبح 13:25---دہلی نظام الدین ریلوے اسٹیشن۔فوٹو:سستا والا موبائل
شام کو واپس آتے ہی سو گیا ۔رات احباب سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کے چکر میں سو بھی نہیں سکا تھا ۔اٹھا تو سعود بھائی کا یاد آیا ان کے چھوٹے بھائی عبد الودود کو خیریت کے لیئے فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ بھائی جان ابھی نہیں آئے ہیں ۔لیکن تھوڑے ہی دیر کے بعد سعود بھائی کا فون آ گیا ،کہ میاں میں گھر پہنچ چکا ہوں اگر پریشانی نہ ہوتو تشریف لے آئیں ۔میں بھاگتے ہوئے گھر پہنچا ابھی رکشہ سے اترا بھی نہیں تھا کہ سعود بھائی نے گلے لگا لیا ۔ایک مرتبہ دو مرتبہ تین مرتبہ ابھی اور نہ جانے کتنی مرتبہ بھینچتے کہ میں نے کہا اب بس بھی کیجئے بابا!! تب انھوں نے جان چھوڑی ۔مجھے یاد آرہا تھا میں پانچ سال قبل سعود بھائی سے ملا تھا ۔ذہن میں ہلکی ہلکی سی ان کی تصویر تھی آج دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہی سعود بھائی ہیں وہی انداز وہی مسکراہٹ ویسے ہی دبلے پتلے ۔سعود بھائی تو بالکل بھی نہیں بدلے ،بڑی خوشی ہوئی ان سے مل کر ۔
ہاتھ پکڑے ہوئے سعود بھائی گھر کی طرف چل پڑے ۔دومنٹ کے راستہ میں جامعہ ،جامعہ کے اساتذہ ،جامعہ کے احباب نہ جانے سعود بھائی نے کیا کیا پوچھ لیا ۔گھر پہنچا تو ناشتہ چائے پانی نہ جانے کیا ۔سعود بھائی کا پورا گھرمہمانوں سے بھرا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بارات آئی ہوئی ہے ۔میں نے کہا یہ تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی تو کہنے لگے چپ سے کھاو یہ تکلف وکلف کچھ نہیں۔اس درمیان کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ دو ڈھائی گھنٹہ کی یہ گفتگو کیسے گذر گیا پتہ ہی نہیں چلا جی تو چاہتا تھا اور بات کریں دیر تک۔ لیکن اور بھی لوگوں کا حق ہے وہ ڈھائی سال بعد آئے تھے ،یہ کیا کم تھا کہ آتے ہی انھوں نے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کی اور میں ان کا اتنا وقت کھا گیا ۔ فارقلیط رحمانی بھائی سے بھی کافی دیر تک فون پر گفتگو ہوئی ۔
امریکہ سے واپسی کے بعد دہلی جامعہ نگر واقع شاہین باغ اپنے گھر میں سعود بھائی ----وقت:22:58 /11اکتوبر 2013/فوٹو:سستا والا موبائل
ہاں ایک چیز اور اتفاق دیکھئے کہ چاچو اور سعود بھائی دونوں سے ہند پاک دوستی پر ہی زیادہ بات چیت زیادہ ہوئی ۔بہت سارے محفلین کا ذکر آیا ۔واقعی اس اردو محفل نے ہم سب کو ایک ایسے رشتہ میں جوڑ دیا ہے کہ وہ حقیقی رشتہ جیسا لگتا ہے ۔لیکن سرحدوں نے ان رشتوں کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا ہے ۔ جب بھی امن اور خیر سگالی کی بات ہوتی ہے کچھ نہ کچھ حادثہ ہو جاتا ہے اور یوں پھر سے فضا میں تلخی گھول دی جاتی ہے ۔امن محبت اگر قائم ہو جائے تو دشمنوں کی دال گلنی بند ہو جائے گی ۔اور سازشی عناصر جو دونوں ممالک سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کا بھانڈا پھوٹ جائے گا ۔اس لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ دونوں ممالک دوست نہ بننے پائیں ۔۔۔کاش ارباب اقتدار(دونوں جگہوں کے)شرپسندوں کی چالوں کو سمجھ سکتے ۔
وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے مجھے اپنا سامان بھی پیک کرنا ہے اس لئے اب اجازت ۔
خدا حافظ
آپ کا
علم
سوچا تھا بہت کچھ لکھوں گا ،لیکن انتشار اور وقت کی قلت کے سبب چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کر پایا ۔اس کے لئے معذرت ۔صبح پانچ بجے ٹرین ہے ۔مجھے بھی گھر کے لئے نکلنا ہے ۔بس یہ چند سطریں جلدی جلدی میں لکھ رہا ہوں کہیں غلطی ہو تو معاف کیجئے گا۔
صبح کو الف عین چاچو سے کافی اچھی ملاقات رہی۔ اسٹیشن پر گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کر تے رہے ۔سعود بھائی سے یہیں ملاقات ہونی تھی، لیکن ان کی پرواز میں تاخیرہونے کے سبب مجھے اکیلے ہی چاچو سے ملنے جانا پڑا ۔دہلی میں موسلادھار بارش کے سبب ریلوے اسٹیشن پہنچتے پہنچتے پوری طرح بھیگ گیا ۔چاچو کہنے لگے میری وجہ سے تم نے کافی زحمت کی ۔میں نے کہا نہیں یہ تو ہونا ہی تھا ۔اور پھر آپ سے ملاقات جو چھوٹ جاتی اگر پانی کے چکر میں نہ آتا ۔اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسا لگتا تھا کہ اب یہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ۔چاچو سے یہ دوسری ملاقات تھی لیکن بڑے مزے کی رہی ۔
دہلی میں چاچو کے شناسا اور علم وادب سے خصوصا دلچسپی رکھنے والے لوگ کافی ہیں۔اور بہت سارے لوگوں نے ملاقات کے لئے وقت لیا ہوا تھا اس لئے بھی شاید چاچو بہت پہلے آگئے تھے لیکن بارش نے سارا مزا کر کرا کر دیا اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے نہیں آ سکے ۔اور یوں مجھے ان سے باتیں کرنے کو خوب موقع مل گیا ۔سچ مچ جب ایسی ہستیوں سے ملاقات ہو تو جی نہیں چاہتا کہ ان سے جدا ہوا جائے لیکن حالات اور واقعات مجبور کر دیتے ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سی چیزوں کو کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اور میں بھی اسی سبب محض دو تین گھنٹہ کی ملاقات کے بعدہی بادل نخواستہ واپس لوٹ آیا ۔واپسی پر چاچو نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیری اور ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے الوداع کہا اور ٹرین سے حیدر آباد کے لئے روانہ ہو گئے ۔
اسٹیشن ویٹنگ روم میں ایک اجنبی بچی سے کھلیتے ہوئے چاچو----وقت:صبح 13:25---دہلی نظام الدین ریلوے اسٹیشن۔فوٹو:سستا والا موبائل
شام کو واپس آتے ہی سو گیا ۔رات احباب سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کے چکر میں سو بھی نہیں سکا تھا ۔اٹھا تو سعود بھائی کا یاد آیا ان کے چھوٹے بھائی عبد الودود کو خیریت کے لیئے فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ بھائی جان ابھی نہیں آئے ہیں ۔لیکن تھوڑے ہی دیر کے بعد سعود بھائی کا فون آ گیا ،کہ میاں میں گھر پہنچ چکا ہوں اگر پریشانی نہ ہوتو تشریف لے آئیں ۔میں بھاگتے ہوئے گھر پہنچا ابھی رکشہ سے اترا بھی نہیں تھا کہ سعود بھائی نے گلے لگا لیا ۔ایک مرتبہ دو مرتبہ تین مرتبہ ابھی اور نہ جانے کتنی مرتبہ بھینچتے کہ میں نے کہا اب بس بھی کیجئے بابا!! تب انھوں نے جان چھوڑی ۔مجھے یاد آرہا تھا میں پانچ سال قبل سعود بھائی سے ملا تھا ۔ذہن میں ہلکی ہلکی سی ان کی تصویر تھی آج دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہی سعود بھائی ہیں وہی انداز وہی مسکراہٹ ویسے ہی دبلے پتلے ۔سعود بھائی تو بالکل بھی نہیں بدلے ،بڑی خوشی ہوئی ان سے مل کر ۔
ہاتھ پکڑے ہوئے سعود بھائی گھر کی طرف چل پڑے ۔دومنٹ کے راستہ میں جامعہ ،جامعہ کے اساتذہ ،جامعہ کے احباب نہ جانے سعود بھائی نے کیا کیا پوچھ لیا ۔گھر پہنچا تو ناشتہ چائے پانی نہ جانے کیا ۔سعود بھائی کا پورا گھرمہمانوں سے بھرا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بارات آئی ہوئی ہے ۔میں نے کہا یہ تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی تو کہنے لگے چپ سے کھاو یہ تکلف وکلف کچھ نہیں۔اس درمیان کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ دو ڈھائی گھنٹہ کی یہ گفتگو کیسے گذر گیا پتہ ہی نہیں چلا جی تو چاہتا تھا اور بات کریں دیر تک۔ لیکن اور بھی لوگوں کا حق ہے وہ ڈھائی سال بعد آئے تھے ،یہ کیا کم تھا کہ آتے ہی انھوں نے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کی اور میں ان کا اتنا وقت کھا گیا ۔ فارقلیط رحمانی بھائی سے بھی کافی دیر تک فون پر گفتگو ہوئی ۔
امریکہ سے واپسی کے بعد دہلی جامعہ نگر واقع شاہین باغ اپنے گھر میں سعود بھائی ----وقت:22:58 /11اکتوبر 2013/فوٹو:سستا والا موبائل
ہاں ایک چیز اور اتفاق دیکھئے کہ چاچو اور سعود بھائی دونوں سے ہند پاک دوستی پر ہی زیادہ بات چیت زیادہ ہوئی ۔بہت سارے محفلین کا ذکر آیا ۔واقعی اس اردو محفل نے ہم سب کو ایک ایسے رشتہ میں جوڑ دیا ہے کہ وہ حقیقی رشتہ جیسا لگتا ہے ۔لیکن سرحدوں نے ان رشتوں کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا ہے ۔ جب بھی امن اور خیر سگالی کی بات ہوتی ہے کچھ نہ کچھ حادثہ ہو جاتا ہے اور یوں پھر سے فضا میں تلخی گھول دی جاتی ہے ۔امن محبت اگر قائم ہو جائے تو دشمنوں کی دال گلنی بند ہو جائے گی ۔اور سازشی عناصر جو دونوں ممالک سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کا بھانڈا پھوٹ جائے گا ۔اس لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ دونوں ممالک دوست نہ بننے پائیں ۔۔۔کاش ارباب اقتدار(دونوں جگہوں کے)شرپسندوں کی چالوں کو سمجھ سکتے ۔
وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے مجھے اپنا سامان بھی پیک کرنا ہے اس لئے اب اجازت ۔
خدا حافظ
آپ کا
علم
آخری تدوین: