محفل کے دوستوں سے ملاقات (حصہ اول) تذکرہ سالگرہ محفل

احباب، یہ سلسلہ تب شروع ہو جب دسویں سالگرہ کے موقع پر محفل میں سوونیئر کی تیاریاں عروج پر تھیں، محفل سوونیئر کے حوالے سے رنگارنگ دھاگووں اور مراسلوں سے سجی رہتی تھی۔ بہن ماہی احمد ، ایک باقاعدہ تقریب میں میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں۔ کئی طرح کے سلسلے آغاز ہوئے تھے،جن کا انتظام مختلف محفلین کو سونپا جا رہا تھا، میری یاداشت میں اس وقت محفوظ نہیں کہ کس کس کو کیا کیا شعبہ دیا گیا تھا، البتہ اتنا یاد ہے کہ محفل پر شاعری کا شعبہ محمداحمد بھائی کے سپرد کیا گیا، آپ جناب نےمعاونین کے لئے نظرِ انتخاب اس ناچیز پر ڈالی، جسے میں نے اپنے لئے سعادت سمجھ کر قبول کیا۔

ظن و تخمین کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ کام خاصہ محنت طلب ہے جس کیلئے ہمیں کم از کم ایک اور محفلین سے مدد درکار ہوگی، ہم نے فاروق احمد بھٹی بھائی کا نام تجویزا ، جسے محمد احمد بھائی نے فوراً قبول کرلیا، اس طرح یہ ایک جماعت مقرر ہوئی جس کی امامت محمد احمد بھائی فرمارہے تھے۔ ہمارے کام کے تین حصے تھے اور ہم میں سے ہر ایک ، ایک حصے کا زمہ دار تھا، جو کام مجھے سونپا گیا تھا اس کی تفصیل یوں ہے کہ مجھے محفل کی دس سالہ تاریخ میں شاعری کے دو بڑے حصے ، یعنی "اصلاحِ سخن" اور "آپ کی شاعری(پابندِ بحور)" کا تجزیہ کرنا تھا، اور اسی تجزیہ میں سالانہ اعتبار سے منفرد اور سرِ فہرست کلام کا انتخاب پیش کرناتھا۔

ہرچند اس تفصیل کا ذکر یہاں بے محل خیال کیا جا سکتا ہے1، مگر مجھے یہ بتائیے کہ میں اس کا ذکر اس کے علاوہ اور کہاں کروں ؟ دوسری بات یہ کہ یہی وہ موقع تھا جب اپنے اہداف کو مقررہ وقت میں پورا کرنے کے حوالے سے محمد احمد بھائی سے براہِ راست گفتگو کی سعادت بھی حاصل ہوسکی، جو کہ حالیہ ملاقات کی وجہ بنی ، لہذا میرے نزدیک اس حالیہ ملاقات کی جڑیں یہیں سے برامد ہوتی ہے۔ اچھا اگر یہ منطق سمجھ نہ بھی آسکے تو بھی ہمیں یہ تذکرہ کرنے سے باز رکھنا ممکن نہیں۔

یہ بہت خوبصورت دن تھے، یعنی پورا پورا دن ہم محفل پر موجود شاعری کو مختلف تراکیب سے ایسے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کیا کرتے کہ ہر سال کی شاعری علیحدہ بھی ہوجائے اور ہمارے لیپ ٹاپ میں محفوظ بھی ہو جائے تا کہ بعد کو جب تجزیاتی مضمون لکھنے کی باری آئے تو تمام کلام ہمارے قائم کردہ سانچوں میں فوراً دستیاب ہو سکے۔صاحب، کام شروع کیا گیا، پہلے پہل یہ کوشش کی کہ تمام کلام مکمل تفصیلات کے ساتھ مقررہ سانچوں میں محفوظ کر لیا جائے، تفصیلات میں شاعر کا نام ، مراسلے کا عنوان، مقبولیت کا تعین، مراسلے کی تاریخ ، کلام کی درجہ بندی اور اس کے علاوہ بھی کچھ تھا جو سرِ دست حاضر نہیں ، ایک دو روز میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ہمیں پھرپور مشاورت کی ضرورت ہے ورنہ دنوں اور ہفتوں کا کام مہینوں پر محیط ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں محمد احمد بھائی اور فاروق احمد بھٹی بھائی سے ہاتف (فون) پر بات کرنے کا موقع ہاتھ آتا رہا۔ ہر دو حضرات کے کارآمد مشوروں سے کام کی باقاعدہ ابتدا ہوئی۔

پہلے "اصلاحِ سخن" کی باری تھی، سن دو ہزار چھ سے شروعات کی گئی، ایک ایک غزل پڑھنا ، پھر ایک دشوار طریقے سے اسے محفوظ کرنا پھر اس کلا م کو سال بھر کے دوسرے کلام کے مقابلے میں جانچنا ، یہ ایک مشکل کام تھا، مگر "اصلاحِ سخن" میں ابتدا میں اتنا کلام نہیں ہوا کرتا تھ، اس لئے شروع کے سالوں میں بوجھ نہ ہونے کے برابر تھا، اِدھر سال بڑھتے گئے اُدھر کلام فی سال بڑھتا گیا۔ "اصلاحِ سخن" کے ابتدائی ادوار کا جائزہ لینے سے پتا چلا کہ ابتدا میں یہ بوجھ صرف استادِ محترم جناب الف عین صاحب اکیلے اٹھایا کرتے تھے، کبھی کبھی محمد وارث بھائی بھی ساتھ دیا کرتے تھے مگر صرف تبرکاً ، ۔

اچھا ! اس دور چونکہ اصلاحِ سخن میں بہت زیادہ کلام بھی نہیں آتا تھا اس لئے اساتذہِ کرام فرضِ عین کی صورت نبھاتے تھے، لیکن بعد کے سالوں میں اسے فرضِ کفایہ سمجھا گیا جو کبھی استاد الف عین اور کبھی استاد @محمدیعقوب آسی ادا کرتے رہے۔ شروع شروع میں یہ بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا کہ شاعر اپنے خیال کو موزوں کرنے کی کوشش کرے اور جو کمی بیشی ہو اسے استاد درست کردیں، بلکہ اپنا مجرد خیال عین نثری حالات میں پیش کردینے پر بھی نظمی اصلاح مل جایا کرتی تھی، اور مزے کی بات ، لوگ بھی عجیب عجیب خیالات لا کر اساتذہ کے سامنے ڈھیر کر دیتے تھے گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ "استاد یہ خیال آن بھٹکا ہے ، ذرا ، اس کی غزل تو کردیجئے" ،

ابتدائی دور میں اسی طرح کے خیالات کو پڑھتے پڑھتے کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ وہ جو ہم بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ " شاعروں کی بخشش نہیں ہے" بے وجہ نہیں کہا گیا، ایسے ایسے ردی خیال کہ الامان۔۔ لیکن بہرحال جو بھی کچھ موجود تھا ہمیں اسی میں سے اپنا کام کرنا تھا ، اور یہ بھی نہیں کہ سب کلام ایسا ہو بڑا حصہ تو معقول کلام کا ہوتا تھا، بعض کلام تو واقعی بہت شاندار ہوا کرتے تھے۔ لیکن بہرحال کچھ کلام ایسا ضرور نظر سے گزرا کہ دل سے بے ساختہ نکلا۔۔ "ابے ! اسے اصلاح کی نہیں اسلحہ کی ضرورت ہے" اور بعض غزلوں پر تو ہم نے باقاعدہ جرمانہ تجویز کیا ۔

دنوں تک یہی معمول رہا ، صبح سے شام تک مسلسل غزلیں ۔۔ نہیں ۔۔ "اصلاحِ سخن کی غزلیں" پڑھتے رہتے، ایک دو مرتبہ تو کوفت طاری ہوگئی، اور وہ بھی ایسی شدید کہ نہ پوچھو، جہاں کسی شاعر نے کسی شعر میں اپنی موت کی تمنا کی۔۔ دل کی گہرائیوں سے " آمین ۔۔ آمین" احتجاجی صدائیں آنے لگیں۔ اگر کسی نے محبوب کی بے بسی کا ذکر کیاتو دل میں خیال پیدا ہوا "۔۔ اچھا ہوا۔۔ تیرے ساتھ ہونا ہی یہی چاہئے تھا۔۔" بہرحال اپنے ان سفلی جذبات کو اظہار کی آزادی سے مستفید کئے بغیر ہی کام جاری رکھا۔ ایسی شاعری پر دل کڑھتا رہا مگر پھر بھی کام جاری رکھا۔

ان دنوں اصلاحِ سخن کی شاعری حواس پر اس بری طرح طاری ہوگئی کہ ایک دن تو ہم نے خواب میں دیکھا کہ گویا بعض غزلیں بھیانک خون اشام بلاوں کے روپ میں نمودار ہیں اور ہم پر حملہ آور ہوا چاہتی ہیں، ایسے میں سفید گھوڑے پر سوار، ایک ہاتھ میں عروض کا نیزہ لہراتے ہوئے محمد وارث بھائی رحمت کا فرشتہ بن کر نمودار ہوئے اور ظالم غزلوں کے کلیجے چھیدنے لگے، کچھ شیطان صفت غزلوں نے آن کی آن میں وہ پینترا بدلا کہ عروض کا وار خالی گیا، پھر کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک شہسوارِ ادب الف عین کمر سے علمِ کلام کی تلوار حمائل کئے نمودار ہوئے، اور آتے ہی تلوار کو لاٹھی کی طرح بھانجا جس سے کم ذات غزلوں کی گردنیں کٹ کٹ کر ہوا میں اڑنے لگیں۔

خواب میں اچانک منظر تبدیل ہوا، کیا دیکھتا ہوں کہ مقامِ اعراف پر استاد الف عین اور محمد یعقوب آسی بیٹھے ہیں اور وہاں بھی کچھ لوگ ان دونوں حضرات کے گرد اصلاحِ سخن کے لیے جمع ہیں، کچھ جہنمی غزلیں جہنم کی آگ میں جل رہی ہیں اور کچھ جنتی غزلیں تر و تازہ نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسی منظر میں وہ تمام تفصیلات بھی مجسم حالت میں نظر آتی ہیں جن کی بات اوپر گزر چکی، یعنی مراسلوں کے دل جلانے والے عنوانات خود شعلوں کی لیپٹ میں ہیں۔ بھاری بھرکم تراکیب کے بڑے بڑے پتھر ہیں جن سے غزلوں کے سر کچلے جارہیں۔ بعض غزلوں کو پیٹھ کے بل ، جدت کی کانٹے دار آہنی جھاڑیوں سےپر گھسیٹا جا رہا ہے۔ بے سروپا فلسفے کا سیسہ پگھلا کر بعض غزلوں کے سروں پر انڈیلا جا رہا ہے۔ بعض غزلیں گھنجلک بیان کی بھول بھلیوں میں کھوئی ،نجات کا راستہ ڈھونڈ رہی ہیں۔
ایک آہنی کُھر والا شُتر غزلوں کو روندتا چلا جارہا ہے اور جو غزلیں اس سے بچ کر بھاگ رہی ہیں انہیں ایک قدِ آدم نوکیلےدانتوںوالی گربہ دبوچ دبوچ کر پھر شُتر کے آگے ڈال دیتی ہے ۔ ادھر رانائیِ خیال کے میوے کھاتی ہوئی چند جنتی غزلیں ندرتِ خیال کے بالا خانوں میں موجود ہیں اور نیچے تنافرِ صوتی کی آگ میں جلنے والی غزلوں کو دیکھ رہی ہیں۔

میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، ایسا بھیانک منظر اف توبہ۔ میں نے طے کیا کہ کچھ دنوں کے لیے یہ سلسلہ ترک کردیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ خواب کی یہ باتیں تحت الشعور میں مستقل قیام گاہ بنالیں اور پھر ان سے پیچھا چُھڑا نا ممکن نہ ہوسکے ، اس دن ہم نے طے کیا کہ آج سے کامل ایک ہفتہ ، بجائے اصلاحِ سخن، ہم " آپ کی شاعری( پابندِ بحور ) پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور کئی دن تک پلٹ کر "اصلاحِ سخن " کا رخ نہ کیا۔ آپ کی شاعری پابندِ بحور کا ایک دو دن بھرپور مطالعہ کرنے کے بعد ہم پر یہ عقدہ وا ہو کہ "پابندِ بحور" ایک اخلاقی پابندی تھی جس کے ساتھ کئی مرتبہ اخلاق باختہ سلوک کیا گیا یعنی بحر کے نام پر ایسی ایسی خالص صحرائی غزلیں کہ جنہیں بحر تو کیا چُلو بھر پانی بھی میسر نہیں ۔ مگر ہمارا کام فقط عیوب گیری نہیں تھا ہمیں ان میں سے اچھی غزلوں کو الگ کر کے انہیں اپنی فہرست میں شامل بھی کرنا تھا۔ اور بلا شبہ وہاں ہمیں بہت سی غزلیں بہت معیاری ملیں۔ جنہیں ہم نے فوراً اپنی سالانہ فہرست میں شامل کرلیا۔

اس زمرے میں ایک عجیب رجحان بھی دیکھا گیا، کہ کچھ شعرا ء کرام نے اس عمل کو اپنا معمول بنالیا ہے کہ ہفتہ وار اپنا سارا ذہنی خلجان غزل کی صورت میں قاری کے دماغ پر دے مارتے ہیں اور خود چین سے سوتے ہیں، بلا وجہ ، بے مقصد ، چند بھونچکے سے سوالات اٹھاتے ہیں اور پھر کوئی جواب دئے بغیر مقطع کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں، حضور اگر یہ اتنے ہی اہم مسائل تھے تو بجائے غزل کہنے کہ آپ کسی نفساتی ڈاکٹر سے مشورہ کر لیتے ، خواہ موخواہ بے چارے قاری کو تکلیف دی۔ اور بعض شعرا نے غزل کا دامن خانگی مسائل سے لیکر وصل کی نجی نوعیت کی مشکلات تک سے بھر دیا۔

ابتدا میں جدت کے نام پر خالص بدتمیزانہ غزلوں کو رکھنا ہماری غیرتِ ادبی نے گوارہ نہ کیا ، اور ہم نے اس شاعرکی غزلوں کو باہر کی سمت دھکیلنے کی ٹھان لی، مگر اچانک پتا چلا کہ استادِ محترم نے انہیں شاعر کی کچھ غزلوں کو "سمت" کے لئے منتخب کر لیا ہے۔اب استاد سے کیونکر شکایت ہو کہ استاد اسی شاعر کی معذور الخیال اور وحشی المثال غزلیں بھی ہیں ، اور ایسا ایسا " استغفراللہ قسم کا " کلام کہا ہے اس نے کہ ۔۔ بس۔۔۔ استاد اس کی غزلیں چَھپنی نہیں چُھپنی چاہییں۔ مگر اپنی کیفیت کا اندازہ کر کے چپ ہورہے، کہ کثرتِ مطالعہ نے دیوانہ کر دیا ہے خدا معلوم اس کیفیت میں عقل سمجھ درست کام کر بھی رہی کہ نہیں۔ پوری رات جاگ کر غزلیں مطالعہ کیں،بعد نمازِ فجر " خطائے بزرگاں گرفتن، خطا است" کی اکیس تسبح پڑھی ، تو کچھ ہوش ٹھکانے آئے، معلوم ہو ا کہ ہاں وہ جو سمت کے لئے مقرر ہوئی ہے وہ علیحدہ ہے ، اور ہمارا یہ کہنا کہ ایک شاعر کی ایک غزل اگر کمزور ہے تو باقی نہ دیکھی جائے سراسر تعصب پر مبنی عقیدہ ہے جو خلافِ معمول کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے لاشعور میں در آیا تھا۔ لہذا فوراً اسے جھٹک دیا گیا۔

جیسے تیسے اپنا کام تکمیل کے قریب لے جارہا تھا اتنے میں محمد احمد بھائی اور فاروق احمد بھٹی بھائی سے رابطہ کیا تو پتا چلا وہاں تو ابھی کام شروعات ہی چاہتا ہے، انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی۔ آپ ہر دو افراد سے ذاتی مکالمے میں بہت سی باتیں ہوتی رہیں ۔ بنیادی موضوع یہی رہا کہ کام کو کیسے کم وقت اور بہتر انداز میں کیا جاسکتاہے ۔ اس پریشانی کا اظہار ذاتی مکالموں میں ، خود میں نے کیا،
"جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے کہ اچھے شعر کی تعریف کرنا بہت مشکل کام ہے ، کوئی شعر کیوں اچھا ہے یہ بتانا آسان نہیں ہے ۔ ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کسی شعر میں معائبِ سخن موجود نہیں تو وہ ایک اچھا شعر ہے ۔ خود قبلہ اعجاز عبید صاحب کئی ایک غزلوں پر کمنٹ کر چکے ہیں کہ " کوئی عیب نہیں تو کوئی خوبی بھی نہیں " استادِ محترم کے اس قول کو بھی اصول کی حثیت سے دیکھتا ہوں ۔ پھر یہ بھی ہے کہ شاعری کے مختلف رنگ ہیں کوئی کلام عاشقانہ ہے کسی میں شوخی کا عنصر ہے کہیں خمریات کا رنگ ہے کہیں رنج و الم کی داخلی کیفیات کا بیان ہے کبھی کلام زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے تو کبھی فلسفہ و مابعدالنفسیات تو کہیں بیان کی ساگی کہیں تمثیل و استعاروں کی لڑیاں تجرید کی گتھیاں سلجھا رہی ہیں۔ الغرض کئی کئی رنگ ہیں جن کو سمجھنے کے لیے قاری کو اس کلام میں اتر کر دیکھنا پڑتا ہے ، اسکے بعد کہا جا سکتا ہے کہ میں اس شعر کو کیا سمجھا اس میں کیا خوبی پائی کہاں کسر رہ گئی۔ اس سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب کسی غزل میں ایک دو شعر تو بہت کمال کے ہوں مگر باقی اشعار ہلکے ہوں ، اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ایک شعر انتہائی اعلیٰ اور باقی غزل بہت ہی عامیانہ ۔۔ اب کیا کریں ؟ اس شعر کی وجہ سے پوری غزل کو شامل کر لیں ؟ یا غزل کی وجہ سے اس اچھے شعر کو جانے دیں ؟ یہ مشکل تاحال برقرار ہے"

پریشانیاں اور مشکلات اپنی جگہ، کام کی بات یہ ہے کہ اس دوران اکثر محمد احمد بھائی اور فاروق احمد بھٹی بھائی سے ہاتف پر رابطہ رہنے لگا۔ فاروق احمد بھٹی بھائی تو بہت دور تھے، محمد احمد بھائی ہمارے ہمسائے ہی نکلے، باتوں باتوں میں یہ طے ہو کہ ہم ملاقات کریں۔ رمضان ، عید ، پھر محرم ٹلتے ٹلتے آج ملاقات ہوئی، تو یہاں سے اصل کہانی کی ابتدا ہوتی ہے جو اس ملاقات سے متعلق ہے۔

کچھ دن پہلے محمد احمد بھائی سے محفل کے اچانک غائب ہونے پر اظہارِ تشویش کر رہا تھا کہ خیال آیا کہ اب تو کوئی تہوار نہیں کوئی معاملہ نہیں تو کیوں نہ آپ سے ملاقات کر لی جائے، اس نیک خیال کہ آتے ہی محمد احمد بھائی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، جو انہوں نے خوش دلی سے قبول فرما لی،
حسیب احمد حسیب بھائی سے ویسے ہی اکثر ملاقات رہتی ہے ، سوچا کیوں نہ ہم تینوں مل بیٹھیں، حسیب بھائی سے تذکرہ کیا ، وہ بھی نہایت خوش ہوئے اور جلد از جلد ملاقت کی خواہش ظاہر کی۔ دریں اثنا ہمیں یاد آیا کہ ایک اور اچھے دوست جناب عبد الرحمن بھائی سے بھی ایک زمانے سے ملاقات کی خواہش رہی ہے ، مگر ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ ایسی مجبوری آڑے آجاتی ہے کہ ملاقات نہیں ہو پاتی، اس بار طے کیا کہ اس ملاقات میں عبد الرحمن بھائی کو بھی ضرور دعوت دی جائے۔ خیر سے تینوں افراد سے بات چیت ہوتی رہی اور یہ طے ہوا کہ اتوار کے روز ملاقات کی جائےگی، حسیب بھائی نے بتایا کہ برادرِ من مزمل شیخ بسمل بھی تشریف لا رہے ہیں، میری خوشی دوبالاہ ہوگئی،مزمل صاحب سے ملاقات کا ایک زمانے سے اشتیاق رہا ہے ۔

میزبان کی حثیت یہ ابھی یہ طے کرنا باقی تھا کہ یہ ملاقات کہاں کس مقام پر کی جائے، کہ اچانک راحیل فاروق بھائی کا ذاتی مراسلہ موصول ہوا، کہ جناب آج کل کراچی میں ہی موجود ہیں۔ میرے لیے تو یہ معاملہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹنا۔ میں نے اسی دن آپ سے آپ کا نمبر حاصل کی اور ہاتف پر آپ سے رابطہ کیا ۔ علم ہوا کہ آپ اسٹیل ٹاون میں اپنے سسرائیل میں مہمان ہیں اور اتوار کی ملاقات میں شامل ہوسکتے ہیں۔ہم نے فوراََ حسیب بھائی سے رابطہ کیا اور انہیں یہ پُر مسرت خبر سنائی اور فی الفور ملنے کی درخواست کی تاکہ ملاقات کی جملہ تفصیلات پر بات ہوسکے۔ ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ ہم کسی ایسی جگہ ملاقات رکھیں جو تمام دوستوں کو قریب رہے ۔ اس خیال سے جب دوتوں کی رہائش کے اعتبار سے شہر کے نقشے پر نظر ڈالی تو ایک مثلث کی شکل ابھری۔ اسی دن محمد احمد بھائی نے ایک اور خوشخبری سنائی کہ @محمدامین بھائی بھی تشریف لا رہے ہیں ۔پھر راحیل فاروق بھائی کی پنجاب سے آمد کا سن کر یہ طے ہواتھا کہ آپ کی توضع کراچی کی سوغات نہاری سے کی جائے۔ کراچی کی سب مشہور نہاریوں پر غور کیا گیا۔ بالاخر یہ طے ہوا کہ تمام دوستوں کوشمالی کراچی میں واقع "چورنگی" پر مدعو کیا جائے، اور "وسیم کی نہاری" سے تواضع کی جائے۔

دن ، تاریخ و طعام کا فیصلہ ہونے کے بعد بے چینی سے اتوار کی شام کا انتظار رہا، طے یہ ہوا تھا کہ بھائی عبد الرحمٰن ، ایک مقام سے راحیل فاروق بھائی کو ہمراہ لیتے ہوئے آینگے اور شام چھ یا ساڑے چھ بجے تک باقی دوستوں سے "چورنگی" پر آن ملیں گے۔ہم بحثیت میزبان دوپہر سے ہی تمام دوستوں سے رابطے میں مصروف رہے ، ہر آن بدلتی صورتحال سے سب کو باخبر رکھنا اور سب کی خبر رکھنا ہماری زمہ داری تھی۔ دوپہر میں ہی یہ خبر ملی کہ محمد امین بھائی کسی وجہ سے شرکت نہیں کر سکیں گے۔ بہت افسوس ہوا مگر میں نے جان بوجھ کر یہ خبر باقی حضرات سے مخفی رکھی کہ کہیں ایسا نہ ایک کا سن کر کوئی دوسرا بھی منع کردے۔

نمازِ عصر سے متصل عبدالرحمٰن بھائی کا پیغام پہنچا کہ آپ کو ممکنہ طور سے کچھ تاخیر ہو سکتی ہے، یہ وہ وقت تھا جب ہم اپنی الماری سے کپڑے ڈھونڈنے کے مشکل ترین مرحلے میں تھے، اس خبر کو سنتے ہی ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی، کیونکہ راحیل فاروق بھائی، کچھ ہی دیر میں طے شدہ مقام پر عبدالرحمٰن بھائی کے پاس پہچنے والے تھے۔ راحیل بھائی کو راستوں کا علم بھی نہیں تھا اگر عبدالرحمٰن بھائی وہاں موجود نہ ہوئے تو انہیں بہت پریشانی ہوسکتی تھی۔ ادھر عبدالرحمٰن بھائی اپنے گھر والوں کے ہمراہ صدر کے ایک اسپتال میں تھے جہاں سے مقررہ وقت پر آنا ان کے لئے واقعی ممکن نہیں تھا۔ اسکا واحد حل یہ تھا کہ اب ہم خود راحیل بھائی کو اس طے شدہ مقام سے لینے جائیں، اب وقت واقعی کم رہ گیا تھا یعنی جو وقت ملاقات کےلئے طے تھا عین اسی وقت ہمیں راحیل فاروق بھائی کو لینے ملاقات کے مقام سے تقریباََ دس بارہ میل دور جانا تھا۔

اب دامنِ وقت میں فقط ایک گھنٹہ موجود تھا، حفظِ ماتقدم کے طور پر ہم نے فوراََ محمد احمد بھائی سے رابطہ کیا اور انہیں مطلع کیا کہ جب تک میں راحیل فاروق بھائی کو لےکر نہیں آتا آپ تب تک گھر سے نہ نکلیں ، اس کے بعد حسیب بھائی سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں آپ کے پاس آرہا ہوں تب تک آپ مزمل شیخ بسمل بھائی کو یہ پیغام دیجئے کہ وہ ذرا تاخیر سے آئیں، حسیب بھائی نے کہا کہ میں انہیں وقت دے چکا ہوں اور اب وقت تبدیل کرنا نامناسب ہے۔ بات درست تھی، اِدھر یہ معاملہ ابھی درمیان میں ہی تھا کہ بجلی چلی گئی، یعنی اگر الماری سے کچھ برآمد بھی کر لیا جائے تو استری ناپید۔ خیر ایک غیر استری شدہ قمیض کے ساتھ ہی "چنیا" (گاڑی)کے پاس بھاگے ، چنیا کی حالت خراب تھی مگر جب بے استری قمیض پہن رکھی ہو تو گندی گاڑی سے کیا فرق پڑتا ہے ، حسیب بھائی کے دولت خانے پر حاضر ہوئے، اندر سے خبر آئی کہ تشریف لاتے ہیں، کچھ وقت انتظار کیجئے۔ یہ وقت بھی عجیب شے ہے ، کبھی تو ایسا دوڑا جاتا ہے کہ ہاتھ نہیں آتا اور کبھی ایسا سست ہو جاتا ہے گویا ایک ایک لمحہ ایک صدی ہو۔ اس وقت یہ "وقت" ہم سے دوہرا کھیل کھیل رہا تھا، حسیب بھائی کے انتطار میں ہر ہر لمحہ شبِ ہجراں کی صورت گزر رہاتھا اور راحیل بھائی تک دیر سے پہچنے کی جلدی میں ہاتھ سے نکلا جارہا تھا۔ وقت کی یہ عجیب و غریب کیفیت جتنی تیزی سے گذر رہی تھی اتنی ہی سست رفتار بھی تھی۔

جب حسیب بھائی تشریف لائے تو چھ بجنے میں پندرہ دقیقے ہی بچے۔ میں راحیل بھائی سے مسلسل رابطے میں تھا ۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ راحیل بھائی کو بھی پہچنے میں کچھ تاخیر ہو جائے گی۔خیر ہم نے سفر کا آغاز کیا ، دورانِ سفر عبدالرحمٰن بھائی کے پیغامات موصول ہوتے رہے ، راحیل بھائی سے بھی بات ہوتی رہی اور محمد احمد بھائی سے بھی رابطہ رہا۔ محمد احمد بھائی سے تو یہ طے ہوا کہ آپ اب تب تک انتظار کیجئے جب تک میں "چورنگی" پہنچ نہ جاؤں، راحیل فاروق بھائی سے طے ہوا کہ بجائے "نیپا" کے ، آپ ہمیں "الادین پارک" کے سامنے ملیں، عبدالرحمٰن بھائی سے طے ہوا کہ آپ "سادقین" پر ملاقات کیجئے، مگر اہم معاملہ مزمل شیخ بسمل کا تھا کہ وہ اس تمام ہنگامے سے بے خبر وقتِ مقرر پر "چورنگی" پہنچ جائیں گے ، حسیب بھائی نے فرحان بھائی (اردو محفل پر موجود نہیں) رابطہ کیا اور کہا کہ ایسے ایسے ایک دوست چورنگی پر آرہے ہیں، آپ چورنگی پہنچ کر انہیں خوش آمدید کہیں اور ہمارے آنے تک ان کی دلجوئی کیجئے۔ الحمد للہ فرحان بھائی نے ہمیں شرمندگی سے محفوظ رکھا ، ابھی ہم سفر میں ہی تھے کہ وہ چورنگی پر مزمل شیخ بسمل بھائی سے جا ملے۔

اِدھر ہم الادین پارک کے سامنے پہنچے تو نمازِ مغرب کا وقت تھا، اُدھر راحیل بھائی تاحال سفر کی صعوبتیں جھیل رہے تھے۔ خیر کچھ دیر انتظار کرنا تھا حسیب بھائی نے مشورہ دیا کہ راحیل بھائی کے آنے تک سامنے موجود چائے کے ہوٹل پر ایک ایک پیالی ہو جائے۔ چائے ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ راحیل بھائی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ تشریف لا چکے ہیں، ہم فوراََ ہوٹل سے باہر آئے اور ہاتف پر گفتگو کے دوران ایک دوسرے کو ڈھونڈنے لگے ۔ ہر چند ایک نشانی معلوم تھی کہ آہنی پُل کے نیچے ہی موجود ہونا ہے مگر پھر بھی ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ پُل کے عین نیچے ، کچھ فاصلے تک گاڑیاں کھڑی تھیں ، اور بھی دوچار لوگ کھڑے تھے ایک دو ٹھیلے بھی موجود تھے، کچھ اندھیرا بھی پھیل رہا تھا۔ اس لئے کچھ دیر تک تو "آپ کہاں ہیں، آپ کہاں ہیں۔۔ ادھر دیکھیں ۔۔ سامنے کی وہ دکان دیکھ رہے ہیں؟" جیسے جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا ۔ بالاخر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب شگفتہ شگفتہ سی تحریر ہے محترم اور پورے سال سوا سال پر پھیلی ہوئی، دلچسپ بھی اور دلفریب بھی اور قصیدے والے دلگی بھی ہو گئی۔ خوبصورت تشبیب لکھ کر راحیل صاحب کو ڈال کر گریز کیا اور نکل آئے اپنی ملاقات کی طرف، جس کا کچھ حصہ ابھی یقینا باقی ہے :)

عرض صرف یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ اُس کام کا کیا ہوا جس کو آپ نے شروع کیا تھا :)
 
زبردست!
کمال کی یادداشت پائی ہے، بھائی۔ کیسی ژرف نگاہی سے ایک ایک تفصیل بیان کی ہے۔ اور ہم ہیں کہ ہمیں اتنے دنوں کے بعد اپنا ذاتی سسرال بھی بھول گیا ہے!
 

loneliness4ever

محفلین
عزیز ادب دوست بھائی

آپ نے تو حد کر دی کمال کی ۔۔۔۔۔۔۔ بہترین شراکت بلکہ مثالی شراکت
آگے کا حال جاننے کا اشتیاق مطالبہ کر رہا ہے جلد حصہ دوئم لے کر آئیں
اور محفل کی رونق میں اضافہ فرمائیں

اللہ آباد و با کمال و بامراد رکھے آپ کو ۔۔۔۔۔۔ آمین صد آمین
 
ہنس ہنس کے پیٹ میں درد ہو گیا کچھ قہقہے تو ہمسایوں نے بهی سن لیے ہوں گے بہت عرصے بعد کوئی تحریر پڑھ کے اتنی ہنسی آئی. اور وہ بهی آپ ہی کی تحریر پر ...
ویسے تحریر میں بلا خیز گرمی کا زکر نہ ہونا باعث حیرت ہے کہ اتنی گرمی میں کمپیوٹر کے آگے بیٹھنا کون سا آسان تھا. اور کام کی تکمیل کا زکر بهی نہیں کیا گیا کہ ہم نے اپنے حصے کا کام مکمل کر کے بهجوا دیا تھا. وہ الگ بات کے ہمیں اتنے مشکل کام پہ لگا کہ سووینئر کا خیال شاید ترک کر دیا گیا.
ملاقات کے احوال کا انتظار رہے گا.
 

جاسمن

لائبریرین
بہت دلچسپ احوال لکھا ہے۔شاعری کو پڑھتے پڑھتے آپ کا جو حال ہوا اس کا تذکرہ بہت مزے کا ہے۔ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سب ہم پہ بیتا۔۔۔:)
 
ادب دوست بھائی۔ کمال لکھتے ہیں، اور ظلم کرتے ہیں جو کم لکھتے ہیں۔
تکمیل کا منتظر ہوں۔ اور امید ہے کہ کام کے نتائج بھی جلد پیش کریں گے۔ :)

سر، وہ کچھ خیالات ذہن میں آئے تھے، اگر دیکھ لیں تو
 
لوگ بھی عجیب عجیب خیالات لا کر اساتذہ کے سامنے ڈھیر کر دیتے تھے گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ "استاد یہ خیال آن بھٹکا ہے ، ذرا ، اس کی غزل تو کردیجئے" ،
زبردست۔:LOL:
بے ساختہ نکلا۔۔ "ابے ! اسے اصلاح کی نہیں اسلحہ کی ضرورت ہے" اور بعض غزلوں پر تو ہم نے باقاعدہ جرمانہ تجویز کیا ۔
کمال۔۔۔۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ان دنوں اصلاحِ سخن کی شاعری حواس پر اس بری طرح طاری ہوگئی کہ ایک دن تو ہم نے خواب میں دیکھا کہ گویا بعض غزلیں بھیانک خون اشام بلاوں کے روپ میں نمودار ہیں اور ہم پر حملہ آور ہوا چاہتی ہیں، ایسے میں سفید گھوڑے پر سوار، ایک ہاتھ میں عروض کا نیزہ لہراتے ہوئے محمد وارث بھائی رحمت کا فرشتہ بن کر نمودار ہوئے اور ظالم غزلوں کے کلیجے چھیدنے لگے، کچھ شیطان صفت غزلوں نے آن کی آن میں وہ پینترا بدلا کہ عروض کا وار خالی گیا، پھر کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک شہسوارِ ادب الف عین کمر سے علمِ کلام کی تلوار حمائل کئے نمودار ہوئے، اور آتے ہی تلوار کو لاٹھی کی طرح بھانجا جس سے کم ذات غزلوں کی گردنیں کٹ کٹ کر ہوا میں اڑنے لگیں۔
اخیر۔:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

صاحب ابھی میں نے چند حصوں کا اقتباس اٹھایا تھا۔۔۔۔پتا چلا بھائی کتنا اٹھاؤ گے یہ تو پوری تحریر ہی اپنی مثال آپ ہے۔ بھائی بہت زبردستی لکھا ہے۔ کمال۔ یہ مضمون کم از کم بورڈ کی اردو کی کتاب میں شامل ہونا چاہیے اور جتنے حصے ہوں اتنی جماعتوں پہ تقسیم کر دیں-۔۔۔ کمال نقشہ کھینچا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ ! ماشاءاللہ۔
بہت خوب !

محفل سوونیئر کی روداد بہت ہی خوب ہے، ہر ہر فقرہ شگفتگی اور شوخی سے بھرا ہے۔ کلام کی قرآت سے لے کر انتخاب تک کے مراحل آپ نے اس خوبی سے بیان کیے ہیں کہ پڑھ کر دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔ یقیناً یہ موضوع ایک الگ لڑی کا تقاضہ کرتا ہے۔ :)

اب اگر سووینئر کا ذکر بار بار آئے گا تو ہم بار بار یہ نہیں کہیں گے کہ اس سوونیئر کے سلسلے میں ہم نے کاہلی اور کام چوری کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور سوائے آپ کے ساتھ فون پر باتیں مٹھارنے کے کچھ بھی نہیں کیا۔ :p

رہی بات اُس ملاقات کی تو اُس کا احوال ابھی آدھا پڑھا ہے (یعنی آپ نے آدھا لکھا ہے۔) تو سوچتے ہیں کہ فی الحال آدھی رائے دے دی جائے۔ فی الحال اتنا کہے دیتے ہیں کہ آپ کی رودادِ ملاقات پر دیر آئے درست آئے کی مثال صادق آتی ہے۔ پہلے حصے میں پنڈال تو تقریباً سج گیا ہے اُمید ہے کہ دوسرے حصے میں باقی معاملات بھی نمٹ جائیں گے۔ :)

اگلے حصے کا انتظار ہے۔ :)

شاد آباد رہیے۔ :) :) :)
 

محمد امین

لائبریرین
ذہن مسلسل زبردست زبردست کی تکرار کر رہا ہے۔ اتنی خوبصورت، رواں اور مفصل تحریر ہے کہ بس۔ حالانکہ قدرے طویل ہے مگر شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر چارہ نہ رہا۔

اور آپ لوگ اس دن کا تذکرہ کر کر کے ہمیں تڑپائے ترسائے جائیں۔ شدید پشیمانی ہوتی ہے کہ ملاقات نہ ہوپائی۔ اب تو یہ بھی نہیں یاد کہ کیا معاملہ ہوا تھا جو ہم نہ آ سکے۔

کسی دن ملاقات رکھتے ہیں۔

محمداحمد بھائی، ادب دوست بھائی، فاروق احمد بھٹی بھائی، عبد الرحمن بھائی۔۔۔اور دیگر جو جو حضرات کراچی میں ہیں۔۔۔
 
ذہن مسلسل زبردست زبردست کی تکرار کر رہا ہے۔ اتنی خوبصورت، رواں اور مفصل تحریر ہے کہ بس۔ حالانکہ قدرے طویل ہے مگر شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر چارہ نہ رہا۔

اور آپ لوگ اس دن کا تذکرہ کر کر کے ہمیں تڑپائے ترسائے جائیں۔ شدید پشیمانی ہوتی ہے کہ ملاقات نہ ہوپائی۔ اب تو یہ بھی نہیں یاد کہ کیا معاملہ ہوا تھا جو ہم نہ آ سکے۔

کسی دن ملاقات رکھتے ہیں۔

محمداحمد بھائی، ادب دوست بھائی، فاروق احمد بھٹی بھائی، عبد الرحمن بھائی۔۔۔اور دیگر جو جو حضرات کراچی میں ہیں۔۔۔
اب آپ کے لیے لن ترانی کا جواب آنا چاہیے۔
 
خوب شگفتہ شگفتہ سی تحریر ہے محترم اور پورے سال سوا سال پر پھیلی ہوئی، دلچسپ بھی اور دلفریب بھی اور قصیدے والے دلگی بھی ہو گئی۔ خوبصورت تشبیب لکھ کر راحیل صاحب کو ڈال کر گریز کیا اور نکل آئے اپنی ملاقات کی طرف، جس کا کچھ حصہ ابھی یقینا باقی ہے :)

عرض صرف یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ اُس کام کا کیا ہوا جس کو آپ نے شروع کیا تھا :)

بہت شکریہ محمد وارث بھائی، اُس حوالے سے بھی عرض کروں گا ان شاءالله
 
زبردست!
کمال کی یادداشت پائی ہے، بھائی۔ کیسی ژرف نگاہی سے ایک ایک تفصیل بیان کی ہے۔ اور ہم ہیں کہ ہمیں اتنے دنوں کے بعد اپنا ذاتی سسرال بھی بھول گیا ہے!
راحیل فاروق بھائی یاداشت نہیں ، یہ اسی رات لکھا تھا جب ملاقات ہوئی تھی. جب صبح محفل میں لگانے لگا تو آپ کی تحریر نظر آگئی جو آپ نے اس رات لکھی تھی. اس لئے یہ اس وقت شامل نہیں کی
 

ربیع م

محفلین
بہت ہی عمدہ اور دلچسپ ماشاء اللہ
شدت سے اگلی قسط کا انتظار ہے اور کچھ آپ نے ختم بھی اس انداز سے کیا کہ۔۔۔۔
 
Top