محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا... غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
یہ غزل میں نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے شروع کی تھی لیکن مکمل نہیں کر سکا تھا اور پھر اس کے چار پانچ اشعار لکھ کر بھول گیا تھا. ابھی کل پرسوں اس پر دوبارہ نظر پڑی تو یاد آئی.
غزل پوری کر کے اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں. استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی گزارش ہے. ممنون فرمائیں.
تمام احباب کی رائے اور تبصروں کا بھی منتظر رہونگا.
بحر رمل مثمن مشکول مسکّن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن

تم نے رہِ وفا کو نادر مثال رکھا
محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا

بازی میں دل کی اس نے چشم غزال رکھا
میں نے بھی داؤں میں تب، فن کا کمال رکھا

پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
تشنہ جواب میں تھا اُس کا خیال رکھا

دونوں تھے دھن کے پکّے لیکن ہوا یہ آخر
تھک کر کے میں نے تیشہ، اس نے کدال رکھا

تُو دل پہ ہاتھ کر گھڑیاں شُمار کر وہ
جب جب نہ بڑھ کے خود سے تیرا خیال رکھا

دل چاہتا نہیں تھا دوری کا تجھ سے لیکن
زخمِ جگر کا اِس میں تھا اندمال رکھا

اے اشکِ آخرِ شب، مرتے ہوئے بھی ہوگا
میرے زِیاں کا اُس کے، دل میں ملال رکھا

غفلت سے دین کی پھر کاتب نے یوں سزا دی
قائد تو دے دیئے پر، قحط الر جال رکھا

کاشف رہِ وفا کا پیچیدہ راستہ ہے
نقشے میں، سوچ کر یہ، تیرِ شمال رکھا

سیّد کاشف
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تم نے رہِ وفا کو نادر مثال رکھا
محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا
پہلا مصرع درست مربوط نہیں ہو رہا ہے۔

پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
تشنہ جواب میں تھا اُس کا خیال رکھا
÷÷واضح نہیں ہوا۔ الفاظ بدلو۔

دونوں تھے دھن کے پکّے لیکن ہوا یہ آخر
تھک کر کے میں نے تیشہ، اس نے کدال رکھا
یہ شعر محض خانہ پری کے لئے کہا گیا ہے کہ کدال کا قافیہ بھی استعمال ہو جائے!! ویسے غلطی ’تھک کر کے‘ میں ہے، محض تھک کر کافی ہے۔

اور ’داؤں‘ میرے خیال میں ہندی کے اثر سے ہے۔ اردو میں محض ’داؤ‘ کہتے ہیں۔ (میرا ذاتی خیال)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
۔۔۔ یہاں اردو قواعد کا ایک اصول یاد آیا۔ کہتے ہیں نغمہ کے آخر میں ہ ہے تو اس سے نیا لفظ ہ گرا کر "گی" لگانے سے بنے گا۔ ناراض میں "ہ" نہیں ہے۔ تو ناراضی درست ہوگا یا ناراضگی؟۔۔۔
توجہ فرمائیے گا۔
 
تم نے رہِ وفا کو نادر مثال رکھا
محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا
پہلا مصرع درست مربوط نہیں ہو رہا ہے۔

پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
تشنہ جواب میں تھا اُس کا خیال رکھا
÷÷واضح نہیں ہوا۔ الفاظ بدلو۔

دونوں تھے دھن کے پکّے لیکن ہوا یہ آخر
تھک کر کے میں نے تیشہ، اس نے کدال رکھا
یہ شعر محض خانہ پری کے لئے کہا گیا ہے کہ کدال کا قافیہ بھی استعمال ہو جائے!! ویسے غلطی ’تھک کر کے‘ میں ہے، محض تھک کر کافی ہے۔

اور ’داؤں‘ میرے خیال میں ہندی کے اثر سے ہے۔ اردو میں محض ’داؤ‘ کہتے ہیں۔ (میرا ذاتی خیال)
جزاک اللہ
بہت بہت شکریہ استاد محترم۔
اردو میں داؤ (داؤں) دونوں مستعمل ہیں۔ بحوالہ فیروز الغات۔
تصحیح کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ ان شا اللہ
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اور ’داؤں‘ میرے خیال میں ہندی کے اثر سے ہے۔ اردو میں محض ’داؤ‘ کہتے ہیں۔ (میرا ذاتی خیال)
متفق ہوں ۔۔
"داؤ "ہی درست ہے ۔۔۔ جیسے آپ کسی کو مخاطب کرنا چاہیں تو بھائیو، بہنو، دوستو درست ہے، نہ کہ بھائیوں، بہنوں، دوستوں۔۔۔۔
 
پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
۔۔۔ یہاں اردو قواعد کا ایک اصول یاد آیا۔ کہتے ہیں نغمہ کے آخر میں ہ ہے تو اس سے نیا لفظ ہ گرا کر "گی" لگانے سے بنے گا۔ ناراض میں "ہ" نہیں ہے۔ تو ناراضی درست ہوگا یا ناراضگی؟۔۔۔
توجہ فرمائیے گا۔
شکریہ شاہد بھائی۔ آپ نے درست نشاندہی کی ہے۔
تبدیل کرتا ہوں ان شا اللہ۔
 
متفق ہوں ۔۔
"داؤ "ہی درست ہے ۔۔۔ جیسے آپ کسی کو مخاطب کرنا چاہیں تو بھائیو، بہنو، دوستو درست ہے، نہ کہ بھائیوں، بہنوں، دوستوں۔۔۔۔
اس ضمن میں فیروز الغات کے حوالے سے ہی بات کی ہے میں نے۔
داؤں بھی درست ہے اور داؤ بھی۔
 
یہاں مطلع ابھی درست کرنا باقی ہے اور فی الحال غزل اس طرح سے ہے
تم نے رہِ وفا کو نادر مثال رکھا
محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا

بازی میں دل کی اس نے چشم غزال رکھا
میں نے بھی داؤں میں تب، فن کا کمال رکھا

تُو دل پہ ہاتھ کر گھڑیاں شُمار کر وہ
جب جب نہ بڑھ کے خود سے تیرا خیال رکھا

دل چاہتا نہیں تھا دوری کا تجھ سے لیکن
زخمِ جگر کا اِس میں تھا اندمال رکھا

اے اشکِ آخرِ شب، مرتے ہوئے بھی ہوگا
میرے زِیاں کا اُس کے، دل میں ملال رکھا

غفلت سے دین کی پھر کاتب نے یوں سزا دی
قائد تو دے دیئے پر، قحط الر جال رکھا

کاشف رہِ وفا کا پیچیدہ راستہ ہے
نقشے میں، سوچ کر یہ، تیرِ شمال رکھا

سیّد کاشف
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ویسے ایک سوال کیا لفظ "ناراضگی" اردو میں رائج نہیں ہے؟
شاہد شاہنواز
الف عین
محمد وارث
شکریہ
بہت سے لوگ اس لفظ کو "ناراضگی" ہی کہتے ہیں۔ اس کے باوجود ابھی ابھی میں نے مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر چیک کیا:
http://www.urduinc.com/english-dictionary
یہاں بھی تلاش کیجئے تو ناراضی کے معنی ملتے ہیں۔برہمی وغیرہ، لیکن ناراضگی کا کوئی مطلب نہیں۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے ایک سوال کیا لفظ "ناراضگی" اردو میں رائج نہیں ہے؟
شاہد شاہنواز
الف عین
محمد وارث
شکریہ
ناراضگی استعمال ہوتا ہے لیکن غلط العوام ہے غلط العام نہیں۔ ناراضی درست ہے، قاعدہ وہی ہے کہ جو الفاظ ہ پر ختم ہوتے ہیں ان کا اسم کیفیت، ہ ختم کر کے گی کا اضافہ کرنے سے بنتے ہیں اور دوسرے الفاظ کے لیے فقط ی کے اضافے سے جیسے، سخت سے سختی، گرم سے گرمی، ناراض سے ناراضی اور نغمہ سے نغمگی، آہستہ سے آہستگی، روانہ سے روانگی وغیرہ۔
 
ناراضگی استعمال ہوتا ہے لیکن غلط العوام ہے غلط العام نہیں۔ ناراضی درست ہے، قاعدہ وہی ہے کہ جو الفاظ ہ پر ختم ہوتے ہیں ان کا اسم کیفیت، ہ ختم کر کے گی کا اضافہ کرنے سے بنتے ہیں اور دوسرے الفاظ کے لیے فقط ی کے اضافے سے جیسے، سخت سے سختی، گرم سے گرمی، ناراض سے ناراضی اور نغمہ سے نغمگی، آہستہ سے آہستگی، روانہ سے روانگی وغیرہ۔
جزاک اللہ وارث بھائی۔
 
Top