کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
یہ غزل میں نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے شروع کی تھی لیکن مکمل نہیں کر سکا تھا اور پھر اس کے چار پانچ اشعار لکھ کر بھول گیا تھا. ابھی کل پرسوں اس پر دوبارہ نظر پڑی تو یاد آئی.
غزل پوری کر کے اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں. استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی گزارش ہے. ممنون فرمائیں.
تمام احباب کی رائے اور تبصروں کا بھی منتظر رہونگا.
بحر رمل مثمن مشکول مسکّن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
یہ غزل میں نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے شروع کی تھی لیکن مکمل نہیں کر سکا تھا اور پھر اس کے چار پانچ اشعار لکھ کر بھول گیا تھا. ابھی کل پرسوں اس پر دوبارہ نظر پڑی تو یاد آئی.
غزل پوری کر کے اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں. استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی گزارش ہے. ممنون فرمائیں.
تمام احباب کی رائے اور تبصروں کا بھی منتظر رہونگا.
بحر رمل مثمن مشکول مسکّن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
تم نے رہِ وفا کو نادر مثال رکھا
محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا
بازی میں دل کی اس نے چشم غزال رکھا
میں نے بھی داؤں میں تب، فن کا کمال رکھا
پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
تشنہ جواب میں تھا اُس کا خیال رکھا
دونوں تھے دھن کے پکّے لیکن ہوا یہ آخر
تھک کر کے میں نے تیشہ، اس نے کدال رکھا
تُو دل پہ ہاتھ کر گھڑیاں شُمار کر وہ
جب جب نہ بڑھ کے خود سے تیرا خیال رکھا
دل چاہتا نہیں تھا دوری کا تجھ سے لیکن
زخمِ جگر کا اِس میں تھا اندمال رکھا
اے اشکِ آخرِ شب، مرتے ہوئے بھی ہوگا
میرے زِیاں کا اُس کے، دل میں ملال رکھا
غفلت سے دین کی پھر کاتب نے یوں سزا دی
قائد تو دے دیئے پر، قحط الر جال رکھا
کاشف رہِ وفا کا پیچیدہ راستہ ہے
نقشے میں، سوچ کر یہ، تیرِ شمال رکھا
سیّد کاشف
محفوظ فاصلہ اک ہم سے بحال رکھا
بازی میں دل کی اس نے چشم غزال رکھا
میں نے بھی داؤں میں تب، فن کا کمال رکھا
پھوٹے ہے نغمگی اک ناراضگی سے تیری
تشنہ جواب میں تھا اُس کا خیال رکھا
دونوں تھے دھن کے پکّے لیکن ہوا یہ آخر
تھک کر کے میں نے تیشہ، اس نے کدال رکھا
تُو دل پہ ہاتھ کر گھڑیاں شُمار کر وہ
جب جب نہ بڑھ کے خود سے تیرا خیال رکھا
دل چاہتا نہیں تھا دوری کا تجھ سے لیکن
زخمِ جگر کا اِس میں تھا اندمال رکھا
اے اشکِ آخرِ شب، مرتے ہوئے بھی ہوگا
میرے زِیاں کا اُس کے، دل میں ملال رکھا
غفلت سے دین کی پھر کاتب نے یوں سزا دی
قائد تو دے دیئے پر، قحط الر جال رکھا
کاشف رہِ وفا کا پیچیدہ راستہ ہے
نقشے میں، سوچ کر یہ، تیرِ شمال رکھا
سیّد کاشف
آخری تدوین: