محمد فضولی بغدادی کے چند تُرکی اشعار

حسان خان

لائبریرین
جان باغېشلاردې لبین اظهارِ گفتار ائیله‌ییب
اورمادان عیسیٰ لبی جان‌بخشلیکدن دم هنوز
(محمد فضولی بغدادی)
ہنوز لبِ عیسیٰ نے جان بخشی کا ادّعا [بھی] نہ کیا تھا کہ اُس سے قبل [ہی] تمہارے لب اظہارِ گفتار کر کے جان بخشا کرتے تھے۔

Can bağışlardı ləbin izhari-göftar eyləyib
Urmadan Isa ləbi canbəxşlikdən dəm hənuz
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گزمه ای کؤنلۆم قوشو غافل فضایِ عشق‌ده
کیم بو صحرانېن گذرگه‌لرده چۏخ صیّادې وار
(محمد فضولی بغدادی)
اے میرے طائرِ دل! فضائے عشق میں [یوں] غفلت کے ساتھ [پرواز و] گردش مت کرو، کہ اِس صحرا کی گذرگاہوں میں بِسیار شکاری موجود ہیں۔
× بِسیار = بہت

Gəzmə ey könlüm quşu qafil fəzayi-eşqdə
Kim bu səhranın güzərgəhlərdə çox səyyadı var
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
من‌ده مجنون‌دان فُزون عاشق‌لیک استعدادې وار
عاشقِ صادق منم مجنونون آنجاق آدې وار
(محمد فضولی بغدادی)
مجھ میں مجنون سے زیادہ عاشقی کی استعداد موجود ہے۔۔۔ عاشقِ صادق تو میں ہوں، مجنون صِرف نام رکھتا ہے۔

Məndə Məcnundan füzun aşiqlik iste’dadı var
Aşiqi-sadiq mənəm, Məcnunun ancaq adı var
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای فضولی اۏل صنم افغانېنه رحم ائیله‌مز
داشا بنزه‌ر باغرې تأثیر ائیله‌مز افغان اۏنا
(محمد فضولی بغدادی)
اے فُضولی! وہ صنم تمہاری زاری و فغاں پر رحم نہیں کرتا۔۔۔ اُس کا دل سنگ کی مانند ہے، [کہ] اُس پر فغاں تأثیر نہیں کرتی۔

Ey Füzuli, ol sənəm əfğanına rəhm eyləməz
Daşə bənzər bağrı, tə’sir eyləməz əfğan ona


× تُرکیہ کے نسخوں میں 'داشا' کی بجائے 'تاشا' نظر آئے گا کیونکہ استانبولی تُرکی میں سنگ کو 'تاش' کہتے ہیں، جبکہ آذربائجانی لہجے میں لفظ کا تلفظ 'داش' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر زمان منظور بیر شوخِ ستم‌گردیر مانا
قان‌دا اۏلسام بیر بلا حق‌دن مُقرّردیر مانا
(محمد فضولی بغدادی)
ہر وقت میرے پیشِ نظر ایک شوخِ ستمگر رہتا ہے؛ میں جہاں پر بھی ہوؤں، حق تعالیٰ کی جانب سے ایک بلا میرے لیے مُقرّر رہتی ہے۔

Hər zaman mənzur bir şuxi-sitəmgərdir mana
Qanda olsam bir bəla Həqdən müqərrərdir mana


× ایک نسخے میں مصرعِ ثانی میں 'مقرّر' کی بجائے 'مقدّر' نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ائیله‌رم بی‌خود فغان گؤردۆکجه کویین ایتلرین
آشنا رازِ نهانېن آشنادان ساخلاماز
(محمد فضولی بغدادی)
میں جب بھی تمہارے کوچے کے سگوں کو دیکھتا ہوں تو بے خود ہو کر فغاں کرتا ہوں۔۔۔ آشنا اپنے رازِ نہاں کو آشنا سے پوشیدہ نہیں رکھتا۔

Eylərəm bixud fəğan, gördükcə kuyin itlərin
Aşina razi-nihanın aşinadan saxlamaz
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جانا جسمیم اۏل خدنگِ غمزه‌دن اۏلماز پناه
هیچ جوشن کیمسه‌نی تیرِ قضادان ساخلاماز
(محمد فضولی بغدادی)
میرا جسم، [محبوب کے] اُس تیرِ غمزہ سے میری جان کی حفاظت نہیں کرتا۔۔۔ کوئی بھی زِرہ کسی شخص کو تیرِ قضا سے محفوظ نہیں رکھتی۔

مصرعِ اول کا لفظی ترجمہ: میرا جسم، اُس تیرِ غمزہ سے [حفاظت کے لیے میری] جان کے لیے پناہ نہیں بنتا۔

Cana cismim ol xədəngi-qəmzədən olmaz pənah
Hiç cövşən kimsəni tiri-qəzadan saxlamaz
 

حسان خان

لائبریرین
عشق‌دن بیر دم تنِ سوزانې دور ائتمز فلک
وه نئجه فانوس‌دور شمعی هوادان ساخلاماز
(محمد فضولی بغدادی)
فلک ایک لمحہ [بھی میرے] تنِ سوزاں کو عشق سے دور نہیں کرتا۔۔۔ واہ! [یہ] کیسا فانوس ہے [کہ] شمع کو ہوا سے پوشیدہ و محفوظ نہیں رکھتا۔

Eşqdən bir dəm təni-suzanı dur etməz fələk
Vəh necə fanusdur, şəm’i həvadan saxlamaz
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ظُلمتِ زُلفۆن گرفتارې دم اورماز نوردان
طالبِ شمعِ رُخۆن خورشیدِ رخشان ایسته‌مز
(محمد فضولی بغدادی)
تمہاری زُلف کی ظُلمت و تاریکی کا گرفتار شخص نُور کے بارے میں گفتگو نہیں کرتا۔۔۔ تمہاری شمعِ رُخ کا طالب شخص خورشیدِ رخشاں کی خواہش نہیں کرتا۔

Zülməti-zülfün giriftarı dəm urmaz nurdan
Talibi-şəm’i-rüxün xurşidi-rəxşan istəməz


× 'دم اورماق/وورماق' فارسی کے مصدرِ مرکّب 'دم زدن' کا لفظی ترجمہ ہے، جو فارسی کے زیرِ اثر تُرکی میں بھی رائج ہو چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ائیله‌مز میلِ بهشت اُفتادهٔ خاکِ درین
ساکنِ کُنجِ غمین سیرِ گلستان ایسته‌مز
(محمد فضولی بغدادی)
تمہارے در کی خاک پر اُفتادہ شخص بہشت کی رغبت نہیں کرتا۔۔۔ تمہارے غم کے گوشے میں سکونت رکھنے والا شخص گلستان کی سیر کی خواہش نہیں کرتا۔

Eyləməz meyli-behişt üftadeyi-xaki-dərin
Sakini-künci-qəmin seyri-gülüstan istəməz
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای فضولی متّصل دوران مخالف‌دیر سانا
غالبا اربابِ استعدادې دوران ایسته‌مز
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! [گردشِ] زمانہ ہمیشہ تمہاری مخالف ہے (یعنی زمانہ ہمیشہ تمہاری آرزوؤں کے برخلاف گھومتا ہے)۔۔۔ ظاہراً زمانے کو اربابِ استعداد کی خواہش نہیں ہے۔ (یعنی شاید زمانے کو بااستعداد و قابل اشخاص پسند نہیں ہیں۔)

Ey Füzuli, müttəsil, dövran müxalifdir sana
Qaliba, ərbabi-iste’dadı dövran istəməz
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غم دئڲیل جسمیمده گر سنگِ ملامت زخمی وار
شحنهٔ بازارِ سودایم بو زیوردیر مانا
(محمد فضولی بغدادی)
اگر میرے جسم پر سنگِ ملامت کا زخم موجود ہے تو غم نہیں ہے؛ میں بازارِ عشق کا داروغہ ہوں [اور] یہ میرے لیے زیور ہے۔

Qəm degil, cismimdə gər səngi-məlamət zəxmi var
Şəhneyi-bazari-sevdayəm, bu zivərdir mana
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غم دئڲیل جسمیمده گر سنگِ ملامت زخمی وار
شحنهٔ بازارِ سودایم بو زیوردیر مانا
(محمد فضولی بغدادی)
اگر میرے جسم پر سنگِ ملامت کا زخم موجود ہے تو غم نہیں ہے؛ میں بازارِ عشق کا داروغہ ہوں [اور] یہ میرے لیے زیور ہے۔

Qəm degil, cismimdə gər səngi-məlamət zəxmi var
Şəhneyi-bazari-sevdayəm, bu zivərdir mana

تُرکیہ کے ادبیات شناس مرحوم علی نہاد تارلان نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا بیت کی تشریح یہ کی ہے:
"اگر میرے وجود میں سنگِ ملامت کا زخم موجود ہو تو غم نہیں ہے، میں ذرا ناراحت نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں عشق کے بازار کا رئیسِ عسس ہوں۔ یہ میرے لیے ایک زیور ہے۔ عشق کے باعث اپنے اوپر ہونے والی ملامتوں کو ایک زیور شمار کیا ہے۔
رئیسِ عسس کو بازار میں اشیاء بیچنے والے پسند نہیں کرتے۔ ہمیشہ اُس کو ملامت کرتے ہیں۔ لیکن یہ ملامتیں رئیسِ عسس کے لیے ایک اعزاز ہیں۔ اِن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرض کو درست طریقے سے ایفاء کر رہا ہے۔ وہ اِن ملامتوں پر فخر کرتا ہے۔
شاعر بھی بازارِ عشق کا رئیسِ عسس ہے۔ وہاں وہ کسی بھی حیلے کو میدان میں آنے کا موقع نہیں دیتا۔ عشق کے جو بھی اُصول و آداب ہیں وہ اُنہیں بجا لاتا ہے۔"
× عسس = پاسبان، داروغہ، شبگرد
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «فُضولی» کے نعتیہ قصیدے «سو قصیده‌سی» کی بیتِ اوّل:
ساچما ای گؤز اشک‌دن کؤنلۆم‌ده‌کی اۏدلاره سو
کیم بو دنلۆ توتوشان اۏدلارا قېلماز چارہ سو

(محمد فضولی بغدادی)
اے چشم! میرے دل میں موجود آتشوں پر اشک سے آب مت چِھڑکو، کیونکہ اِس قدر [زیادہ] براَفروختہ و شُعلہ ور آتشوں کا چارہ آب سے نہیں ہوتا۔ (یعنی آب اِن آتشوں کو نہیں بُجھا سکتا۔)

جمہورۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Saçma, ey göz, əşkdən könlümdəki оdlarə su
Kim, bu dəklü tutuşan оdlara qılmaz çarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Saçma ey göz eşkden göñlümdeki odlare su
Kim bu deñlü tutuşan odlare kılmaz çâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «فُضولی» کے نعتیہ قصیدے «سو قصیده‌سی» کی بیتِ سِوُم:

ذوقِ تیغین‌دن عجب یۏخ اۏلسا کؤنلۆم چاک-چاک
کیم مُرور ایله‌ن بوراخېر رخنه‌لر دیواره سو

(محمد فضولی بغدادی)
[اے محبوب!] اگر تمہاری تیغِ [آب دار] کے ذَوق سے میرا دل چاک چاک ہو جائے تو عجب نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ مُرورِ زمانہ کے ساتھ (یعنی وقت گُذرنے کے ساتھ ساتھ) آب دیوار میں رخنے (شِگاف و سوراخ) چھوڑ جاتا ہے۔ (یعنی آب آہستہ آہستہ دیوار میں شِگاف کر دیتا ہے۔)

× «تیغ» کو اُس کی آبداری کی وجہ سے «آب» کے ساتھ نسبت دی گئی ہے۔
× ممکن ہے کہ یہاں «تیغ» سے محبوب کی نگاہ مُراد ہو۔
× مصرعِ اوّل میں «کؤنلۆم» کی بجائے «گؤگسۆم» بھی نظر آیا ہے یعنی: اگر تمہاری تیغِ [آب دار] کے ذَوق سے میرا سینہ چاک چاک ہو جائے تو عجب نہیں ہے۔۔۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Zövqi-tiğindən əcəb yоx, оlsa könlüm çak-çak
Kim, mürur ilən buraxır rəxnələr divarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Zevk-ı tîguñdan 'aceb yoh olsa göñlüm çâk çâk
Kim mürûr ilen bırakur rahneler dîvâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنے مشہور نعتیہ قصیدے معروف بہ 'سو قصیده‌سی' (قصیدۂ آب) میں کہتے ہیں:

دست‌بوسو آرزوسییله گر اؤلسم، دۏستلار
کوزه ائیلین تۏپراغېم، سونون اۏنونلا یاره سو
(محمد فضولی بغدادی)

اے دوستو! اگر میں اُس کی دست بوسی کی آرزو میں مر جاؤں تو میری خاک سے کوزہ بنائیے گا اور اُس کے ذریعے [میرے] یار کو آب پیش کیجیے گا۔


Dəstbusu arizusiylə gər ölsəm, dostlar
Kuzə eylin tоprağım, sunun оnunla yarə su
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنے مشہور نعتیہ قصیدے معروف بہ 'سو قصیده‌سی' (قصیدۂ آب) میں کہتے ہیں:

بیمِ دوزخ نارِ غم سالمېش دلِ سوزانېما

وار امیدیم ابرِ احسانېن سپه اۏل ناره سو
(محمد فضولی بغدادی)
[اے نبی!] خوفِ دوزخ نے میرے دلِ سوزاں میں آتشِ غم ڈال دی ہے؛ [لیکن] مجھے اُمید ہے کہ آپ کا ابرِ احساں اُس آتش پر آب افشانی کرے گا۔

Bimi-duzəx, nari-qəm salmış dili-suzanıma
Var ümidim əbri-ehsanın səpə ol narə su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «فُضولی» کے نعتیہ قصیدے «سو قصیده‌سی» کی بیتِ پنجُم:

سویا وئرسین باغ‌بان گُل‌زارې زحمت چکمه‌سین
بیر گُل آچېلماز یۆزۆن تک وئرسه مین گُل‌زاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
باغبان کو چاہیے کہ وہ گُلزار کو آب میں بہا دے، [اور یوں بے فائدہ] زحمت مت اُٹھائے۔۔۔ اگر وہ ہزار گُلزاروں کو آب دے [تو بھی] تمہارے چہرے جیسا کوئی گُل شکوفا نہ ہو گا۔
× شُکُوفا ہونا = کِھلنا

× «سویا وئرسین» کا لفظی ترجمہ «وہ آب کے سپرد کر دے!» ہے، یعنی وہ آب میں بہا دے اور نابود کر دے!۔
× «بیر» کا معنی «ایک»، جبکہ «مین» کا معنی «ہزار» ہے۔ مصرعِ ثانی میں اِن دونوں الفاظ کے مابین صنعتِ تضاد کا استعمال ہوا ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Suya versin bağiban gülzarı, zəhmət çəkməsin,
Bir gül açılmaz yüzün tək, versə min gülzarə su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں

Suya virsün bâġban gülzârı zahmet çekmesün
Bir gül açılmaz yüzüñ tek virse biñ gülzâre su
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یازا بیلمز لب‌لرین وصفین تمامِ عُمرده
آبِ حیوان وئرسه کِلکِ خضره ظُلمت‌دن دوات
(محمد فضولی بغدادی)

[اے محبوب!] اگر آبِ حیات خضر کے قلم کو [بے کراں] ظلمتوں و تاریکیوں سے [ساختہ] دوات دے دے [تو بھی] وہ [اپنی] تمام عُمر میں تمہارے لب کا وصف نہیں لکھ سکتا۔

Yaza bilməz ləblərin vəsfin təmami-ömrdə
Abi-heyvan versə kilki-Xizrə zülmətdən dəvat

× چند نسخوں میں بیتِ ثانی کا متن یہ نظر آیا ہے:
"آبِ حیوان وئرسه خضره کِلک و ظُلمت‌دن دوات"
ترجمہ: اگر آبِ حیات خضر کو قلم، اور ظلمت سے [ساختہ] دوات دے دے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جهان ایچره هر فتنه کیم اولسا حادث
اونا سروِ قدّین‌دیر البتّه باعث
(محمد فضولی بغدادی)

جہاں میں جو فتنہ بھی واقع ہو، اُس کا باعث، بے شک، تمہارا سروِ قدّ ہے۔

Cəhan içrə hər fitnə kim olsa hadis
Ona sərvi-qəddindir, əlbəttə, bais
 
Top