آئینے جیسا شخص اور شاعر
تحریر: پروفیسر اختر شاد
ٹوٹتی بکھرتی زندگی کے عکس ریزوں کو جمع کر کے ایک جازب نظر پیکر کی تشکیل صرف غزل ہی میں ممکن ہے ابیہ شاعر کی فنی قابلیت اور مہارت پر منحصر ہے کہ وہ اس پیکر کے کون سے خدوخال کو اجاگر کرتا ہے یا دیکھنے والے کو منظر کِن زاویوں سے دکھاتا ہے۔
یعقوب آسی ایک جہاندیدہ اور با شعور فن کار ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسی عہد کے تمام لوگوں کا بنیادی اُسطورہ مشترک ہوتا ہے اور ہر جگہ بیان بھی ہو رہا ہوتا ہے لیکن کامیاب وہی ہے جو بھرے چوپال کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔
اگرچہ عام سے الفاظ ہیں لیکن
تری طرز ادا کچھ اور کہتی ہے
انسان رفتار مناسب میں چلتے ہوئے زندگی کا سفر کامیابی سے طے کر سکتا ہے لیکن کیسی حیران کر دینے والی بات ہے کہ وہ بہت تیز دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور دائیں بائیں دیکھے بغیرسرحدِ عمر کے اس پار چلا جاتا ہے ۔یا عمودی فاصلے پر زمین سے اتنا اوپر اٹھ جاتا ہے کہ اسے اپنے ہم جنس چیونٹیوں کی طرح رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اور واپسی کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوتی ۔ کیا اس آدمی کو داد نہیں دینی چاہیے۔ جو اِن المناک مظاہر کو نہ صرف خود دیکھ رہا ہے بلکہ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں کو دکھا رہا ہے۔
در و دیوار بھی ہیں لوگ بھی ہیں
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہے
لوگ قد آور ہو جائیں تو
عنقا ہو جاتے ہیں سائے
خاموش ہو گئے ہیں مرے سارے ہم نوا
زندہ ہے ایک میری صدا سارے شہر میں
’’یعقوب آسی غزلیں کہتا ہے۔ یہ دور تو غزل کا دور ہی نہیں، غزل تو پرانے وقتوں کی بات ہے۔ وہ نظمیں بھی لکھتا ہے، یہ نظم کا دور بھی نہیں، آج کل نظمیں کون پڑھتا ہے ۔ اب تو ایس ایم ایس ، چیٹنگ اور برقی مراسلہ نگاری کا دور ہے۔‘‘ اس طرح کی باتیں حالات اور اسلوب کے اختلاف کے ساتھ ہر دور میں ہوتی رہی ہیں اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ ادب کی بحث سے خارج ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر دور کے تمام لوگ ادب کی باتیں کریں۔ جب انسانی حرمت و توقیرکے معیار دولت، سستی شہرت، قدروں کی پامالی اور ہوس پرستی پر استوار ہو جائیں تو سچے فنکار کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں وہ اپنا فرض یوں ادا کرتا ہے کہ ماضی کے شبستانوں سے روشن روایات کی قندیلیں اٹھا کر حال کے جاد ہ تاریک پرسجا دیتا ہے۔
ایک وہ لوگ کہ صحراؤں کو رونق بخشیں
ایک ہم ہیں کہ بھرے شہر بھی ویرانے ہیں
میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں
کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے
آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو
اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی
حالات نے ہر دور میں بڑے بڑے قد آور اور دیو ہیکل لوگوں کو بونے بننے پر مجبور کیا ۔ غالب جیسا سخت جان اناپرست ،کلیم اور سلیمان، خضر اور سکندر کو خاطر میں نہ لانے والا اور بندگی میں بھی آزادہ و خود بیں رہنے والا شاعر شاہوں کے قصیدے لکھنے اور وظیفہ خوار بن کر انھیں دعا دینے پر مجبور ہوا ۔ غالب جیسے نا بغہء روز گار لوگوں کی فنی اور شاعرانہ عظمت اپنی جگہ لیکن میں آسی کی اس اعلیٰ انسانی صفت یعنی خودداری کو خراجِ تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس کی ذات کا پر تو بن کر اس کے شعروں میں جھلکتی ہے ۔
رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر
راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے
یعقوب آسی کے ہاں روح عصر کا ادراک اس کے ہزاروں معاصر شعراء سے قطعی مختلف انداز میں ظہور پاتا ہے۔ وہ معاشرتی استبداد کو شدت سے محسوس کرتا ہے لیکن روایتی انقلابی شاعروں کی طرح نہ تو غاصب قوتوں کے ساتھ ٹکرانے کی بات کرتا ہے اور نہ ہی نعرہ بلند کرتا ہے بلکہ صرف منظر دکھاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ منظر کو بدلنے کے لئے اس کے خد و خال کو واضح کرنا بنیادی کام ہے۔
شانت پور کے لوگوں نے
ڈر ڈر کاٹی ہیں راتیں
سرگوشیاں ہیں اور جھکے سر ہیں، خوف ہے
سہمی ہوئی ہے خلقِ خدا سارے شہر میں
کتنی قیامتیں ہیں اشارے کی منتظر
دو چار دن بہت ہے جو باقی جہاں رہے
آسی کی غزل کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام شعری افکار طبع زاد ہیں۔ وہ کسی طبقے، فرقے یا سیاسی و فکری دبستان کے ساتھ جڑ کر بات نہیں کرتا بلکہ مکمل طور پر غیرجانبدار رہتے ہوئے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا ہے اور یوں پرورشِ لوح و قلم کرتا چلا جاتا ہے ۔
عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا اور چل دیے
مرا خلوص مرے یار! اک حقیقت ہے
تو اپنے آپ سے تھا بد گمان، چھوڑ گیا
تو ملے غیر سے شاید یہ گوارا ہو تجھے
میں ملوں غیر سےکیسے میں گوارا کرلوں
ہم رہیں بر سرِپیکار، ضروری تو نہیں
اور دیکھا کریں اغیار، ضروری تو نہیں!
اپنے بچے کا کھلونا توڑ کر
اپنی محرومی کا بدلہ لے لیا
یعقوب آسی کی غزل کی طرح اس کی نظم میں بھی ہماری ملاقات واضح اور دو ٹوک نقطۂ نظر کے حامل ایک محبِ وطن اور مسلمان پاکستانی شاعر سے ہوتی ہے۔ وہ نظم میں تمثیل، تمثال اور علامت کےابہام کا سہارا لئے بغیر اپنے آپ کو ایک مستند نظم گو ثابت کرتا ہے۔ وہ وطن مذہب اور عالم اسلام کے ساتھ تعصّب کی حد تک وابستگی رکھتا ہے ۔ اسے نام نہاد روشنخیالی اور روا داری بالکل پسند نہیں کیونکہ اس کے خیال میں یہ مادی مفادات کے لیے باطل قوتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا ’’مہذب‘‘ اندار ہے۔ وہ ماضی کے سفاک کرداروں کو بدلے ہوئے روپ میں اپنےسامنے دیکھ رہا ہے اور ان کی سر کوبی کے لئے قوت ایمانی سے مالا مال مثالی کرداروں کی تلاش میں ہے ۔
آ ج بھی شمر اور ابن زیاد کے کتنے بھائی
راہِ وفا میں رہزن بن کر بیٹھ گئے ہیں
آج کروڑوں کرب و بلا کے مارے ہوؤں کو
ایک حسین بھی مل نہ سکا تو
پھر کیا ہو گا؟
اس سے آگے سوچ کی گردن کٹ جاتی ہے
نظم ’’صدائے بازگشت‘‘ میں فکرِ اقبال کی باز گشت ملاحظہ ہو۔
قیامت تو بپا ہے آج بھی دھرتی کے سینے پر
یہ کابل اور غزنی، وادی کشمیر، افریقہ
بسنیا اور فلسطیں، شہر اقصیٰ، میرا سینہ
جس سے اٹھا دہکتا لاوا
اس کی نظمیں ’’وہ روشنی ہے‘‘ اور ’’پوری کتاب‘‘ نعتیہ ادب میں قابل ذکر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں،جب کہ ’’۱۴۔اگست‘‘ ، ’’میلاکاغذ‘‘، ’’ صدائے بازگشت‘‘، ’’ماں کے حضور‘‘اور ’’ایک ادھوری نظم‘‘ حبِ وطن کے مستند حوالے ہیں۔
’’خود کلامی‘‘، ’’لکھنے سے پہلے‘‘، ’’ان کہی داستاں‘‘ اور’’ اس سے پہلے کہ شام ہو جائے‘‘جیسی نظمیں شاعر کی تخلیق شخصیت میں خوابیدہ اس سمندر کا منظر دکھاتی ہیں جو اپنی موجوں میں اضطراب آنے پر ہزار ہا گہر ہائے آبدار اچھالنے پر آمادہ ہے ۔ آسی کی طویل نظم ’’مجھے ایک نطم کہنی تھی‘‘ کے عنوان اور مندرجات سے ثابت ہے کہ وہ بہت کچھ کہنےکے باوجود اپنی ذات میں تخلیق کے بے پناہ امکانات کے ساتھ زندہ ہے۔
بطور شخص یعقوب آسی ایک سادہ ، پر خلوص اور صاف گو شخص کا نام ہے وہ لگی لپٹی رکھنے، لپیٹ جھپیٹ اور مصلحت سے قطعی طور پر نا آشنا ہے جبکہ معاشرہ مصلحت، منافقت اور مفادات کے پیچ وخم میں الجھا ہوا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کا تو کیا، اپنا بھی سامنا نہیں کر پاتے۔ ان حالات میں اسے سب سے زیادہ خوشی خود سے مل کر ہوتی ہے کہ اس کا باطن آئینے کی طرح صاف شفاف ہے ۔
تھا وہ اک یعقوب آسی دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دیے
وہ خود آگہی کی ایک ایسی مسرت میں سر شار ہے کہ نا مہربان ماحول سے گریزاں رہتے ہوئے حصارِ ذات میں اپنے آپ کو محفوظ تر خیال کرتا ہے۔
وہ رہتا کس طرح پتھر فضا میں
کہ آسی آئنے جیسا بشر تھا
صاحبو ! ایسے شخص کو پہچان لینا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔کیونکہ معاشرہ انسانوں کو اپنے معیارات پر پرکھتا ہے اور یعقوب آسی معاشرے جیسا نہیں بلکہ اپنے جیسا ہے اور ایک خالص انسان کی حیثیت میں اس کی یہ تمنا ہے کہ کوئی مردم شناس اس کے قریب تر ہو کر اسے دیکھے اور اس کے ہونے کا اعتراف کرے۔ میں اس حوالے سے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کا ظاہر و باطن ایک ہے۔
اختر شاد
یکم جون 2014ء