محمد یعقوب آسی ، محفل کا ایک معتبر شاعر

الشفاء

لائبریرین
واہ۔۔۔ بہت بہت خوب۔۔۔
زبردست اردو اشعار تے من ٹھاردا پنجابی کلام۔۔۔
کچھ اردو غزلیں بھی ہو جائیں تو کیا بات ہے۔۔۔
 
کنیت : معانی کا ایک مختلف زاویہ
(مصباح اللغات سے ماخوذ)
*******​
ابو اَیاس: ہاتھ منہ دھونے کی چیز​
ابو ایوب: اونٹ​
ابو الاَبرَد: گدھ​
ابو الاَسوَد: چیتا​
ابو الاَصبَع: گدھ​
ابو الاَضیاف: میزبان​
ابو برِیص: چھپکلی​
ابو ثقیف: سِرکہ​
ابو جامع: دستر خوان​
ابو جُحادہ: ٹڈی​
ابو حَجار: بجو​
ابو جعران: گبریلا​
ابو جمیل: ترکاری​
ابو حبیب: بکری کا بچہ (بھنا ہوا)​
ابو حُدَیج: یقلق​
ابو حَذِر: گرگٹ​
ابو الحُصَین: لومڑی​
ابو خالد: کتا​
ابو خصیب: گوشت​
ابو دَغفاء: بے وقوف​
ابو رَزِین: ایک قسم کا حلوہ​
ابو رَعلۃ: بھیڑیا​
ابو ذاجِر: کوا​
ابو زُہرۃ: گیدڑ​
ابو سُلیمان: مرغ​
ابو السَرد: ہنجور​
ابو عُذرِ المرأۃ: شوہر​
ابو عِسلۃ: بھیڑیا​
ابو العَفار: گدھا​
ابو عَقبۃ: سُور​
ابو العَلاء: فالودہ​
ابو عَمرۃ: اِفلاس​
ابو غَزوان: بلی​
ابو عَوف: نر ٹڈی​
ابو عَون: نمک​
ابو قِترۃ: ابلیس​
ابو قرۃ: گرگٹ​
ابو کَلاۃ: نر بجو​
ابو لاحق: باز​
ابو لُبَد: شیر​
ابو مَالک: بھوک، بڑھاپا، گدھ​
ابو مثویٰ: میزبان​
ابو مَذقۃ: بھیڑیا​
ابو مَرَّۃ: شیطان​
ابو مَریم: قاضی کا پیادہ​
ابو المنہال: گدھ​
ابو مَشغول: نر چیونٹی​
ابو مَرینا: مچھلی​
ابو مُعاویۃ: چیتا​
ابو المُنذِر: مرغ​
ابو نَعیم: روٹی​
ابو الوثاب: عقب، ہرن​
ابو ہُبَیرۃ: نر مینڈک​
ابو الہنبر: نر بجو​
ابو یحییٰ: ملک الموت​
ابو الیَقظان: مرغ​
***​
اُمّ اربع، اُمِّ اربعین: کنکھجورا​
اُمّ اَدراص: سختی، جنگلی چوہا​
اُمّ البَیض: شتر مرغ​
اُمّ التنائف: دُور کا جنگل​
اُمّ تولب: گدھی​
اُمّ جابر: ہریسہ​
اُمّ جَندُب: ظلم، بے انصافی​
اُمّ الجراف: ڈول، ڈھال​
اُمّ جفّار: بجو​
اُمّ جَعران:گدھ​
اُمّ الجَیش: جھنڈا​
اُمّ حُباب: دنیا​
اُمّ حبیب: گرگٹ​
اُمّ حَرْب: جھنڈا​
اُمّ حَفصۃ: مرغی​
اُمّ حِلْس: گدھی​
اُمّ الخبائث: شراب​
اُمّ خناف: سختی​
اُمّ خِنَّور: بجو​
اُمّ دَرَن: دنیا​
اُمّ دَرِین: قحط زدہ سرزمین​
اُمّ وَرزَۃ: دنیا​
اُمّ وفر، اُمّ وفار: دنیا​
اُمّ الدماغ: دماغ کی جھلی​
اُمّ الرأس: دماغ یا دماغ کی جھلی​
اُمّ راشد: چوہا​
اُمّ الرُبَیق: سختی، بلا​
اُمّ الرُمَح: جھنڈی​
اُمّ سمحۃ: بکرا​
اُمّ سُوَید: دُبر​
اُمّ صبار، اُمّ صبور: بلا، سخت لڑائی​
اُمّ الصَبیان: بچوں کی ایک بیماری​
اُمّ طبق: سختی، بلا، سانپ​
اُمّ الطریق: شارعِ عام​
اُمّ الطعام: معدہ، گیہوں​
اُمّ عامَر: بجو​
اُمّ عریط: بچھو​
اُمّ عَزم: دُبر​
اُمّ فَروَۃ: بھیڑ​
اُمّ الافَرَج: ایک کھانا ہے جو گوشت چاول اور شکر سے بناتے ہیں۔ ایک روٹی میں پرند اور بکری کا گوشت بھر کر تنور میں پکاتے ہیں۔​
اُمّ القریٰ: مکہ معظمہ​
اُمّ القرآن: سورۃ الفاتحۃ​
اُمّ قشم: سختی، جنگ، موت، بجو، مکڑی​
اُمّ القوم: سرادارنِ قوم​
اُمّ الکتاب: لوحِ محفوظ، سورۃ فاتحہ یا کل قرآن مجید​
اُمّ کَلب: ایک پہاڑی درخت کا نام​
اُمّ کَلبۃ: بخار​
اُمّ مازِن: چیونٹی​
اُمّ المثویٰ: بیوی​
اُمّ مِلدَم: بخار​
اُمّ النجوم: کہکشاں​
اُمّ الولید: مرغی​
اُمّ ہُبَیرۃ: مینڈکی​
*******​
 
اک پنجابی نظم ۔۔۔ بڑی پرانی

اکھیاں وَنو وَنّ وِہار

اکھ اٹھے تے سیس کٹاوے
اکھ پھرے تے جان نوں آوے
اکھ نِویں تے دل لے جاوے
اکھ ہر پاسے کردی وار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار
تینوں اک نظر درکار

نیویں اکھ تسلیم نشانی
نیویں اکھ نے منیا جانی
نیویں اکھ حیا دی کانی
سدھی تیر کلیجے پار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار
تینوں اک نظر درکار

نالے روون نالے ہسن
دل دی کھول کہانی دسن
ہاسیاں وچوں ہنجو وسن
بدّل وسّے مارو مار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار
تینوں اک نظر درکار

اکھیاں دے نال ملیاں اکھیاں
عشق جھناں وچ ٹھلیاں اکھیاں
پھیر نہ سکیاں گلیاں اکھیاں
پُجی سوچاں تیک پھوہار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار
تینوں اک نظر درکار

اکھاں اگے عقل نمانی
چپ چپیتی نمو جھانی
جس نے اکھ دی رمز پچھانی
دتا اپنا آپ وِسار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار
تینوں اک نظر درکار

’’جس دل اندر عشق سمانا‘‘
اُس توں وڈا کون سیانا
عقل دا جھوٹھا تانا بانا
مکڑی جالا کچے تار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار
تینوں اک نظر درکار

اکھ دی بولی ڈوہنگی گجھی
اکھ دی رمز کسے نہ بجھی
آسیؔ نوں خبرے کیہ سجھی
اکھ دا قصہ چھوہیا یار
اکھیاں وَنو وَنّ وِہار​
تینوں اک نظر درکار​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کم مستعمل الفاظ کے معانی: (بہ حوالہ جواب نمبر 24)

وَنو وَنّ : مختلف انداز یا قسم کے، رنگا رنگ
وِہار : رویہ، رویے، انداز
سیس : سَر
کانی : علامت کے طور پر تیر کو کہتے ہیں۔
بدّل وسّے مارو مار : موسلادھار بارش، یہاں مراد ہے بے تحاشا رونا
جھناں : دریائے چناب ۔ سوہنی کی طرف تلمیح
ٹھلیاں : دریا میں اتر گئیں، جیسے کشتی اترتی ہے
پُجی : پہنچی
چپ چپیتی : خاموش
نمو جھانی : شرمندہ
وِسار : وسارنا، بھلا دینا
گجھی : چھپی ہوئی، گہرائی تک
چھوہیا : قصہ وغیرہ چھیڑنا، بات شروع کر دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آئینے جیسا شخص اور شاعر

تحریر: پروفیسر اختر شاد​



ٹوٹتی بکھرتی زندگی کے عکس ریزوں کو جمع کر کے ایک جازب نظر پیکر کی تشکیل صرف غزل ہی میں ممکن ہے ابیہ شاعر کی فنی قابلیت اور مہارت پر منحصر ہے کہ وہ اس پیکر کے کون سے خدوخال کو اجاگر کرتا ہے یا دیکھنے والے کو منظر کِن زاویوں سے دکھاتا ہے۔

یعقوب آسی ایک جہاندیدہ اور با شعور فن کار ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسی عہد کے تمام لوگوں کا بنیادی اُسطورہ مشترک ہوتا ہے اور ہر جگہ بیان بھی ہو رہا ہوتا ہے لیکن کامیاب وہی ہے جو بھرے چوپال کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

اگرچہ عام سے الفاظ ہیں لیکن
تری طرز ادا کچھ اور کہتی ہے

انسان رفتار مناسب میں چلتے ہوئے زندگی کا سفر کامیابی سے طے کر سکتا ہے لیکن کیسی حیران کر دینے والی بات ہے کہ وہ بہت تیز دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور دائیں بائیں دیکھے بغیرسرحدِ عمر کے اس پار چلا جاتا ہے ۔یا عمودی فاصلے پر زمین سے اتنا اوپر اٹھ جاتا ہے کہ اسے اپنے ہم جنس چیونٹیوں کی طرح رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اور واپسی کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوتی ۔ کیا اس آدمی کو داد نہیں دینی چاہیے۔ جو اِن المناک مظاہر کو نہ صرف خود دیکھ رہا ہے بلکہ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں کو دکھا رہا ہے۔

در و دیوار بھی ہیں لوگ بھی ہیں
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہے

لوگ قد آور ہو جائیں تو
عنقا ہو جاتے ہیں سائے

خاموش ہو گئے ہیں مرے سارے ہم نوا
زندہ ہے ایک میری صدا سارے شہر میں

’’یعقوب آسی غزلیں کہتا ہے۔ یہ دور تو غزل کا دور ہی نہیں، غزل تو پرانے وقتوں کی بات ہے۔ وہ نظمیں بھی لکھتا ہے، یہ نظم کا دور بھی نہیں، آج کل نظمیں کون پڑھتا ہے ۔ اب تو ایس ایم ایس ، چیٹنگ اور برقی مراسلہ نگاری کا دور ہے۔‘‘ اس طرح کی باتیں حالات اور اسلوب کے اختلاف کے ساتھ ہر دور میں ہوتی رہی ہیں اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ ادب کی بحث سے خارج ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر دور کے تمام لوگ ادب کی باتیں کریں۔ جب انسانی حرمت و توقیرکے معیار دولت، سستی شہرت، قدروں کی پامالی اور ہوس پرستی پر استوار ہو جائیں تو سچے فنکار کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں وہ اپنا فرض یوں ادا کرتا ہے کہ ماضی کے شبستانوں سے روشن روایات کی قندیلیں اٹھا کر حال کے جاد ہ تاریک پرسجا دیتا ہے۔

ایک وہ لوگ کہ صحراؤں کو رونق بخشیں
ایک ہم ہیں کہ بھرے شہر بھی ویرانے ہیں

میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں
کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے

آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو
اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی

حالات نے ہر دور میں بڑے بڑے قد آور اور دیو ہیکل لوگوں کو بونے بننے پر مجبور کیا ۔ غالب جیسا سخت جان اناپرست ،کلیم اور سلیمان، خضر اور سکندر کو خاطر میں نہ لانے والا اور بندگی میں بھی آزادہ و خود بیں رہنے والا شاعر شاہوں کے قصیدے لکھنے اور وظیفہ خوار بن کر انھیں دعا دینے پر مجبور ہوا ۔ غالب جیسے نا بغہء روز گار لوگوں کی فنی اور شاعرانہ عظمت اپنی جگہ لیکن میں آسی کی اس اعلیٰ انسانی صفت یعنی خودداری کو خراجِ تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس کی ذات کا پر تو بن کر اس کے شعروں میں جھلکتی ہے ۔

رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر
راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے

یعقوب آسی کے ہاں روح عصر کا ادراک اس کے ہزاروں معاصر شعراء سے قطعی مختلف انداز میں ظہور پاتا ہے۔ وہ معاشرتی استبداد کو شدت سے محسوس کرتا ہے لیکن روایتی انقلابی شاعروں کی طرح نہ تو غاصب قوتوں کے ساتھ ٹکرانے کی بات کرتا ہے اور نہ ہی نعرہ بلند کرتا ہے بلکہ صرف منظر دکھاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ منظر کو بدلنے کے لئے اس کے خد و خال کو واضح کرنا بنیادی کام ہے۔

شانت پور کے لوگوں نے
ڈر ڈر کاٹی ہیں راتیں

سرگوشیاں ہیں اور جھکے سر ہیں، خوف ہے
سہمی ہوئی ہے خلقِ خدا سارے شہر میں

کتنی قیامتیں ہیں اشارے کی منتظر
دو چار دن بہت ہے جو باقی جہاں رہے

آسی کی غزل کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام شعری افکار طبع زاد ہیں۔ وہ کسی طبقے، فرقے یا سیاسی و فکری دبستان کے ساتھ جڑ کر بات نہیں کرتا بلکہ مکمل طور پر غیرجانبدار رہتے ہوئے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا ہے اور یوں پرورشِ لوح و قلم کرتا چلا جاتا ہے ۔

عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا اور چل دیے

مرا خلوص مرے یار! اک حقیقت ہے
تو اپنے آپ سے تھا بد گمان، چھوڑ گیا

تو ملے غیر سے شاید یہ گوارا ہو تجھے
میں ملوں غیر سےکیسے میں گوارا کرلوں

ہم رہیں بر سرِپیکار، ضروری تو نہیں
اور دیکھا کریں اغیار، ضروری تو نہیں!

اپنے بچے کا کھلونا توڑ کر
اپنی محرومی کا بدلہ لے لیا

یعقوب آسی کی غزل کی طرح اس کی نظم میں بھی ہماری ملاقات واضح اور دو ٹوک نقطۂ نظر کے حامل ایک محبِ وطن اور مسلمان پاکستانی شاعر سے ہوتی ہے۔ وہ نظم میں تمثیل، تمثال اور علامت کےابہام کا سہارا لئے بغیر اپنے آپ کو ایک مستند نظم گو ثابت کرتا ہے۔ وہ وطن مذہب اور عالم اسلام کے ساتھ تعصّب کی حد تک وابستگی رکھتا ہے ۔ اسے نام نہاد روشنخیالی اور روا داری بالکل پسند نہیں کیونکہ اس کے خیال میں یہ مادی مفادات کے لیے باطل قوتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا ’’مہذب‘‘ اندار ہے۔ وہ ماضی کے سفاک کرداروں کو بدلے ہوئے روپ میں اپنےسامنے دیکھ رہا ہے اور ان کی سر کوبی کے لئے قوت ایمانی سے مالا مال مثالی کرداروں کی تلاش میں ہے ۔

آ ج بھی شمر اور ابن زیاد کے کتنے بھائی
راہِ وفا میں رہزن بن کر بیٹھ گئے ہیں
آج کروڑوں کرب و بلا کے مارے ہوؤں کو
ایک حسین بھی مل نہ سکا تو
پھر کیا ہو گا؟
اس سے آگے سوچ کی گردن کٹ جاتی ہے

نظم ’’صدائے بازگشت‘‘ میں فکرِ اقبال کی باز گشت ملاحظہ ہو۔

قیامت تو بپا ہے آج بھی دھرتی کے سینے پر
یہ کابل اور غزنی، وادی کشمیر، افریقہ
بسنیا اور فلسطیں، شہر اقصیٰ، میرا سینہ
جس سے اٹھا دہکتا لاوا

اس کی نظمیں ’’وہ روشنی ہے‘‘ اور ’’پوری کتاب‘‘ نعتیہ ادب میں قابل ذکر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں،جب کہ ’’۱۴۔اگست‘‘ ، ’’میلاکاغذ‘‘، ’’ صدائے بازگشت‘‘، ’’ماں کے حضور‘‘اور ’’ایک ادھوری نظم‘‘ حبِ وطن کے مستند حوالے ہیں۔

’’خود کلامی‘‘، ’’لکھنے سے پہلے‘‘، ’’ان کہی داستاں‘‘ اور’’ اس سے پہلے کہ شام ہو جائے‘‘جیسی نظمیں شاعر کی تخلیق شخصیت میں خوابیدہ اس سمندر کا منظر دکھاتی ہیں جو اپنی موجوں میں اضطراب آنے پر ہزار ہا گہر ہائے آبدار اچھالنے پر آمادہ ہے ۔ آسی کی طویل نظم ’’مجھے ایک نطم کہنی تھی‘‘ کے عنوان اور مندرجات سے ثابت ہے کہ وہ بہت کچھ کہنےکے باوجود اپنی ذات میں تخلیق کے بے پناہ امکانات کے ساتھ زندہ ہے۔

بطور شخص یعقوب آسی ایک سادہ ، پر خلوص اور صاف گو شخص کا نام ہے وہ لگی لپٹی رکھنے، لپیٹ جھپیٹ اور مصلحت سے قطعی طور پر نا آشنا ہے جبکہ معاشرہ مصلحت، منافقت اور مفادات کے پیچ وخم میں الجھا ہوا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کا تو کیا، اپنا بھی سامنا نہیں کر پاتے۔ ان حالات میں اسے سب سے زیادہ خوشی خود سے مل کر ہوتی ہے کہ اس کا باطن آئینے کی طرح صاف شفاف ہے ۔

تھا وہ اک یعقوب آسی دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دیے

وہ خود آگہی کی ایک ایسی مسرت میں سر شار ہے کہ نا مہربان ماحول سے گریزاں رہتے ہوئے حصارِ ذات میں اپنے آپ کو محفوظ تر خیال کرتا ہے۔

وہ رہتا کس طرح پتھر فضا میں
کہ آسی آئنے جیسا بشر تھا

صاحبو ! ایسے شخص کو پہچان لینا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔کیونکہ معاشرہ انسانوں کو اپنے معیارات پر پرکھتا ہے اور یعقوب آسی معاشرے جیسا نہیں بلکہ اپنے جیسا ہے اور ایک خالص انسان کی حیثیت میں اس کی یہ تمنا ہے کہ کوئی مردم شناس اس کے قریب تر ہو کر اسے دیکھے اور اس کے ہونے کا اعتراف کرے۔ میں اس حوالے سے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کا ظاہر و باطن ایک ہے۔

اختر شاد
یکم جون 2014ء
 
نعت کا حق شاعر پر

۔۱۔ نعت کا حقیقی ماخذ عقیدہ اور عقیدت ہے۔ اور اس کا بنیادی محرک حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ یہ عنصر جتنا زیادہ قوی اور پرجوش ہو گا، نعت کے مضامین میں اتنی ہی زیادہ گہرائی اور گرفت ہو گی۔

۔۲۔ نعت میں ہم کس کے اوصافِ حمیدہ کی بات کرتے ہیں؟ ہمارے الفاظ کی شان وہاں تک تو پہنچے یا نہ پہنچے ہم پر اتنا ضرور لازم ہے کہ اس کو جس حد تک نکھار کر، سنوار کر، جذبے اور عقیدت سے سجا کر پیش کریں۔ یہاں ہمارا ممدوح کوئی رسمی محبوب، محبوبہ تو ہے نہیں۔ وہاں تو بات ہی کچھ اور ہے۔

۔۳۔ نعت کے الفاظ کے پیچھے اگر جذبِ صادق ہے تو اس کے الفاظ کو ’’دھڑکنا‘‘ چاہئے، نعت پڑھنے والے کی نبض کی رفتار بدلنی چاہئے، یہ نعت کا حق ہے۔ بلا تکلف، جب تک میں خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ میں ایسا کر بھی پاؤں گا، مجھے نعت کہنے سے پہلے بھی اور اگر کہنے کی کوشش میں ہوں تب بھی اس بات کو سامنے رکھنا ہو گا کہ نعت کہتے ہوئے خود مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔

۔۴۔ نعت کہنے کی اپنی ایک مختصر سی کوشش یہاں نقل کرتا ہوں۔
عنوان ہے ۔۔۔۔۔۔ پوری کتاب ۔
میں کیا لکھوں جب
خدا نے
اس کی ثنا میں
پوری کتاب لکھ دی

۔۵۔ اس کے علاوہ نعت ہم پر دوہری پابندیاں لگاتی ہے۔ اول ہمارے الفاظ اور بیان میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرا سی بھی لاپروائی کا شائبہ ہو۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہوش و خرد اور جنون کو ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ اور دوسری بات! یاد نہیں کس کا مصرع ہے پر ہے کمال سچی بات ۔۔۔
با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار

۔۶۔ اور ایسی بھی کوئی بات، ہمارے قلم اور زبان سے نہ نکل جائے جہاں خدا اور بندے کا امتیاز نہ رہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اللہ اللہ ہے اور نبی نبی ہے۔ اور یہ بھی کہ نبی نبی ہے کوئی معمولی آدمی نہیں۔

۔۷۔ کوئی بات نہ حقیقت کے خلاف ہو نہ خلافِ واقعہ ہو اور نہ ہی ہمارے لاابالی پن کی مظہر ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۸۔ زبان و بیان میں شوکت ہونی چاہئے، زبان اور محاورے اور املا کی یا کوئی اور فنی خامی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ کیا کہ میں نعت کہہ رہا ہوں اور سننے والا ایک لفظ پر چونک جائے کہ یار، یہ تو لفظ ہی غلط ہے، یا باندھا غلط ہے!! ۔ جو خامی کسی عام نظم غزل میں کھٹک جاتی ہے، وہ نعت میں کیسے سجے گی۔

۔۹۔ میں وہاں لعل و گہر کی ٹوکری پھینک دوں تو ۔۔ یہ توقیر تو نہیں، ہیرے پتھر ایک برابر ۔۔۔ اور میں وہاں دھتورے کے پھول سجا کر پیش کر دوں تو ۔۔ ان کی بدبو کہاں چھپے گی ۔۔۔ سو، بھائی ۔ دونوں چیزیں اہم ہیں۔

۔۱۰۔ سب سے اہم اور سب سے قیمتی چیز جو آپ پیش کر سکتے ہیں وہ آپ کے بے قابو اشک، بے ترتیب دھڑکنیں اور بے تحاشا سنسناتی ہوئی سانسیں ہیں۔ پھر بھی دیوانگی کی اجازت نہیں ہے۔ مارے جاؤ گے۔

ایک بزرگ مفکر کا قول ہے ۔۔ نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنا ہے۔ اللہ کریم توفیق سے نوازے



۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسی 22 جولائی 2014ء (فیس بک سے نقل)
 
آخری تدوین:
۔۔۔۔۔۔۔ چند فی البدیہہ مصرعے، جناب سید فصیح احمد کی تحریک پر

مرے یار، مجھ کو قبول کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میری زندگی تو فراق ہے"
کہ وصال نام ہے مَوت کا
مری جاں کہ دید کا مول ہے
وہ بھی میرے یار کی دین ہے
سو مرا تو کچھ بھی نہیں یہاں
جسے وام دے کے ادا کروں
وہ جو تیرے وصل کی شان ہے
مرے یار مجھ کو قبول کر
کہ میں تیرے نام پہ مر سکوں
کہ میں تیرے نام سے جی اٹھوں
محمد یعقوب آسی ۔۔۔ 3 ستمبر 2014ء ۔۔۔
10599192_543088285834634_3992725977503018278_n.jpg
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔ چند فی البدیہہ مصرعے، جناب سید فصیح احمد کی تحریک پر

مرے یار، مجھ کو قبول کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میری زندگی تو فراق ہے"
کہ وصال نام ہے مَوت کا
مری جاں کہ دید کا مول ہے
وہ بھی میرے یار کی دین ہے
سو مرا تو کچھ بھی نہیں یہاں
جسے وام دے کے ادا کروں
وہ جو تیرے وصل کی شان ہے
مرے یار مجھ کو قبول کر
کہ میں تیرے نام پہ مر سکوں
کہ میں تیرے نام سے جی اٹھوں
محمد یعقوب آسی ۔۔۔ 3 ستمبر 2014ء ۔۔۔
10599192_543088285834634_3992725977503018278_n.jpg

استاد محترم سچی میں مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے اب صُبح شام آپ کا قلم متحرک رکھنے کے لیئے اب ایسے ہی داؤ پیچ لڑانے پڑیں گے ۔۔۔ کم از کم ایک خوشگوار جھونکے کی ماند آپ سے ایسے ایسے نایاب پارے تو نصیب ہوتے ہیں نا !!

|:) :) :) :)
 
استاد محترم سچی میں مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے اب صُبح شام آپ کا قلم متحرک رکھنے کے لیئے اب ایسے ہی داؤ پیچ لڑانے پڑیں گے ۔۔۔ کم از کم ایک خوشگوار جھونکے کی ماند آپ سے ایسے ایسے نایاب پارے تو نصیب ہوتے ہیں نا !!

|:) :) :) :)
دل چسپ بات ہے! لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اس کے بھی عادی ہو گئے تو؟ ۔۔۔۔۔ :ROFLMAO:
 
Top