محمد یعقوب آسی ، محفل کا ایک معتبر شاعر

چاچو اس کو کیسے سمجھوں ۔۔۔ ترجمہ کرا دیجے پلیز ۔۔۔


پنجابی نال پیار کرن والے سجناں دی خدمت وچ اک نا مکمل نظم
ہاڑا
جوگن
سُن جوگیا راہواں بھُلیا، مڑ گھر نوں پھیرا پا
تیری جوگن پئی اڈیکدی، تکدی پئی سُنجے راہ
میں کُٹھی کرد پریم دی، میرا سنگھی دے وچ ساہ
نہ مردی نہ میں جیوندی، گئی لمّی عمر وہا
میں تتڑی تاڑ تریہہ دی، جیوں مچھی بِن دریا
ساہ ساہ وچ بھانبڑ مچدے، میرے لوں لوں لگی بھا
ہَڈ بالن کیتے ہجر نے، اتے جثہ وانگ سواہ
وے جے سندا ایں کوکاں میریاں، کوئی اُتّر چا پرتا
کوئی گھل سنیہا سکھ دا، کوئی پریم دا راگ سنا
میں راہیں جند وِچھا دیاں، کراں تیری آدربھا
سُن جوگیا راہواں بھلیا، مڑ گھر نوں پھیرا پا
***
جوگی
پیراں وچ دھرتی کنبدی، مینوں انج نہ واجاں مار
اک تیر کلیجے ماریا، تیری ڈونگھی اکھ دی دھار
نی میں لمی واٹیں تر پیا، کچھ منزل سُدھ نہ سار
کتھے لبھاں اپنے آپ نوں، میں دتا جگت وسار​
محمد یعقوب آسیؔ .... ۴ مارچ ۲۰۱۱ء​
 
چاچو اس کو کیسے سمجھوں ۔۔۔ ترجمہ کرا دیجے پلیز ۔۔۔
اس کا پورا ترجمہ تو نہیں البتہ مشکل الفاظ کے معانی بیان ہو چکے ہیں۔ ترجمہ میں ویسے بھی شاید آپ لطف نہ لے سکیں کہ اس کے پیچھے پنجاب کی تہذیبی اور ثقافی روایات، پنجابی زبان اور اس کے روایتی کلاسیکی لہجوں کی جو فضا ہے وہ ترجمے میں سمونا بہت مشکل ہو گا۔ کچھ اظہاریوں کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
 
اس کا پورا ترجمہ تو نہیں البتہ مشکل الفاظ کے معانی بیان ہو چکے ہیں۔ ترجمہ میں ویسے بھی شاید آپ لطف نہ لے سکیں کہ اس کے پیچھے پنجاب کی تہذیبی اور ثقافی روایات، پنجابی زبان اور اس کے روایتی کلاسیکی لہجوں کی جو فضا ہے وہ ترجمے میں سمونا بہت مشکل ہو گا۔ کچھ اظہاریوں کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
چاچو اس کو کیسے سمجھوں ۔۔۔ ترجمہ کرا دیجے پلیز ۔۔۔

لیجئے جناب۔ آپ کی خواہش کے احترام میں ترجمہ بھی خود ہی کر دیا ہے۔

ہاڑا
ایسی پکار جس میں دکھ اور درد کا یا شکایت کا اظہار ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوگن
جوگن اپنے جوگی کے فراق میں تڑپ رہی ہے اور جوگی کو پکارنے کے انداز میں اپنی کیفیات اور رنج و الم کا اظہار کر رہی ہے۔
۔۔۔۔
سُن جوگیا راہواں بھُلیا، مڑ گھر نوں پھیرا پا

راہواں بھلیا (راستے بھولا ہوا)، مُڑنا (واپس آنا)، پھیرا پا (چکر لگا لے ۔ مفہوم ہے کہ آ جاؤ چاہے آ کر پھر چلے جانا)
۔ اے راستے سے بھٹکے ہوئے جوگی، تجھے تو گھر واپس آنا تھا، ایک بار آ تو سہی، چاہے پھر چلے جانا ۔ پہلی جدائی کا صدمہ برداشت سے باہر ہے، تو ایک بار مل لے میں دوسرے صدمے کے لئے تیار ہو جاؤں۔
۔۔۔۔
تیری جوگن پئی اڈیکدی، تکدی پئی سُنجے راہ

پئی اڈیکدی (انتظار کر رہی ہے)، پئی تکدی (دیکھ رہی ہے)، سُنجے (ویران)
۔ تیری جوگن تیرا کچھ اس انداز میں انتظار کر رہی ہے کہ سنسان ویران راستے پر بیٹھی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔
میں کُٹھی کرد پریم دی، میرا سنگھی دے وچ ساہ

کُٹھی (کاٹی ہوئی، ذبح شدہ)، کرد (چھری)، پریم (پیار)، سنگھی (حلقوم)، ساہ (سانس)
۔ تیری محبت اور جدائی میں میری یہ کیفیت ہے جیسے ذبح تو کر دی گئی ہوں، مگر جان نہیں نکل رہی، سانس حلقوم میں اٹکی ہوئی ہے۔ جیسے نزع کا عالم ہوتا ہے۔
۔۔۔۔
نہ مردی نہ میں جیوندی، گئی لمّی عمر وہا

نہ مردی نہ میں جیوندی (میں نہ مر رہی ہوں، نہ زندہ ہوں)، لمی (طویل) وہا گئی (گزر گئی، عرصہ بیت گیا)
۔ ایک طویل عرصے سے میری یہی کیفیت ہے کہ نہ زندوں میں ہوں نہ مردوں میں، لگتا ہے عمر بھر سے ایسا ہی ہے۔
۔۔۔۔
میں تتڑی تاڑ تریہہ دی، جیوں مچھی بِن دریا

تتڑی (بد قسمت)، تاڑ (شدت، وہ جو برداشت سے باہر ہو)، تریہہ (پیاس)، تاڑ تریہہ دی (شدید اور ناقابلِ برداشت پیاس)، جیوں (جیسے)، مچھی (مچھلی)، بِن دریا (دریا کے بغیر)
۔ ہائے میری بدقسمتی، میرے برے نصیب، گویا ناقابلِ برداشت پیاس ہے، جیسے مچھلی کو تڑپنے کو دریا سے باہر پھینک دیا گیا ہو۔
۔۔۔۔
ساہ ساہ وچ بھانبڑ مچدے، میرے لوں لوں لگی بھا

ساہ ساہ وچ (سانس سانس میں، ہر سانس میں)، بھانبڑ (الاؤ)، مچدے (بھڑکتے)، لوں لوں (بال بال، ہر بال میں)، بھا (آگ)
۔ میری ایک ایک سانس میں الاؤ بھڑکتا ہے (سانس کے ساتھ بھڑکنے کا تعلق) میرے ہر بُنِ مو میں (بال بال میں) جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔
۔۔۔۔
ہَڈ بالن کیتے ہجر نے، اتے جثہ وانگ سواہ

ہڈ (ہڈیاں)، بالن (ایندھن، جلانے کی لکڑی یا اس کی طرح خشک)، اتے (اور)، جثہ (جسم، وجود)، سواہ (راکھ)
۔ جدائی (فراق) نے میری ہڈیوں کو ایندھن کی لکڑی بنا دیا ہے، اور سارا جسم راکھ کی طرح ہو گیا ہے (راکھ اتنی بھربھری ہوتی ہے کہ خود اپنی جگہ پر بکھر جاتی ہے، ڈھیری بھی نہیں بن سکتی)، کمزوری اور لاچاری کی انتہا کی مثال ہے۔
۔۔۔۔
وے جے سندا ایں کوکاں میریاں، کوئی اُتّر چا پرتا

وے (پکارنے کا انداز، جو عورت کے ساتھ مخصوص ہے)، جے (اگر)، سندا ایں (سنتے ہو)، کوکاں (پکاریں)، اتر (جواب)، چا پرتا (پلٹ دے، جواب تو دے!)
۔ اگر تو میرے نالے سن رہا ہے تو کوئی جواب تو دے۔
۔۔۔۔
کوئی گھل سنیہا سکھ دا، کوئی پریم دا راگ سنا

گھل (بھیج)، سنیہا (پیغام)، سکھ (سکون، مسرت)
۔ سکون کا، مسرت کا کوئی پیغام بھیج، محبت کا کوئی گیت سنا۔
۔۔۔۔
میں راہیں جند وِچھا دیاں، کراں تیری آدربھا

راہیں (راستے میں)، جند (جان)، وچھا دیاں (بچھا دوں، میرے خود کو تیرے راستے میں بکھیر دوں)، کراں (کروں)، آدر بھا (استقبال، میزبانی، خدمت)
۔ (تیرا کوئی پیغام ہی آ جائے تو) مییں تیرے راستے میں خود بچھ جاؤں (پھول بچھانا بہت ناکافی ٹھہرا، خود کو پھول بھی کہہ دیا) ایسے جی جان سے تیرا استقبال کروں اور تیری خدمت کروں۔ ع: تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ (اقبال)
۔۔۔۔
سُن جوگیا راہواں بھلیا، مڑ گھر نوں پھیرا پا

(حسبِ مصرعِ اول)
۔ ایسے گھر کا راستہ بھولے ہوئے! ایک بار ہی آ جا چاہے پھر چلے جانا۔
***


جوگی
(جوگی کہیں دور سے اس ۔ جوگن ۔ کی پکار کا جواب دیتا ہے)
۔۔۔۔


پیراں وچ دھرتی کنبدی، مینوں انج نہ واجاں مار

پیراں وچ (پاؤں میں)، دھرتی (زمین)، کنبدی (کانپتی ہے، میرے پیروں سے زمین نکل جاتی ہے)، مینوں (مجھے)، انج (اس طرح، ایسی تڑپ کے ساتھ)، نہ واجاں مار (آوازیں نہ دے، نہ پکار)
۔ تیری پکار مجھ تک پہنچ رہی ہے اور سنتا ہوں تو میری پاؤں سے جیسے زمین نکل جاتی ہے۔ مجھے اتنی تڑپ اور درد کے ساتھ نہ پکار (مراد ہے میں تجھ سے دور ہوں مگر تیری کیفیات کا ادراک اور درد رکھتا ہوں)۔
۔۔۔۔
اک تیر کلیجے ماریا، تیری ڈونگھی اکھ دی دھار

کلیجے (جگر میں)، ڈونگھی (گہری)، اکھ (آنکھ)، دھار (مراد ہے سرمے کی دھار)
۔ وہ ایک تیر جو تیری سرمگیں آنکھوں نے میرے جگر میں اتارا تھا (اس کی کیفیت تازہ ہو رہی ہے)۔
۔۔۔۔
نی میں لمی واٹیں تر پیا، کچھ منزل سُدھ نہ سار

نی (عورت کو مخاطب کرنے کا ایک انداز)، لمی (طویل)، واٹیں (واٹ سے ہے) (فاصلہ، سفر)۔ سُدھ (ہوش، پروا)، سار (خبر) تُر پیا (چل نکلا)
۔ میں ایک ایسے طویل سفر پر چل نکلا ہوں، جہاں منزل کی خبر تو کیا، منزل کی پروا بھی نہیں رہتی (فنا فی العشق، جہاں عشق خود مقصود بن جاتا ہے)۔
۔۔۔۔
کتھے لبھاں اپنے آپ نوں، میں دتا جگت وسار

کتھے (کہاں)، لبھاں (تلاش کروں، ڈھونڈوں)، جگت وسار دتا (دنیا کو ۔ ہر چیز کو، ہر بات کو ۔ فراموش کر دیا)
۔ میں خود کو کہاں تلاش کروں، کہ میں نے تو دنیا جہان کو فراموش کر دیا ہے۔ میں تو خود سے بیگانہ ہو چکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔ یہ گیت نا مکمل ہی رہ گیا، کبھی مکمل ہو نہیں پایا۔ اسی طرح کتاب میں شامل کر دیا ہے۔ کہ شاید عدم تکمیل ہی اس کا منطقی نتیجہ ہے۔
محمد یعقوب آسیؔ .... 23 مارچ 2015ء
 
11330041_698074467002681_1195587207624224435_n.jpg
 

ابن رضا

لائبریرین
السلام علیکم استادِ محترم !

چوٹ لگتی ہے تو لگتی ہے اسی گھاؤ پر
ہاے اس بات کو اب تک نہیں سمجھا کوئی

واہ واہ بہت اعلیٰ کیا کہنے یہ بیت الغزل ہے استاد جی؟
۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
منتظر ھوں کہ آئے وہ مقام
جب ھو روشن تیرے دربار وفا
پر نہ آیا وہ مقام اے صاحب
روبرو جلتی رھئ شمع محبت بخدا
میں سلگتی رھی نام نہ آیا کوئ
ہے کھاں ناز وہ انداز وفا
جس کے خاطر جو جل جائے محبت وہ وفا
عامل شیرازی
 

نور وجدان

لائبریرین
محمد یعقوب آسی کے چند خوبصورت اشعار پیشِ خدمت ہیں

محمد یعقوب آسی​
ہم سخن ساز کہاں ، ہم کو یہ دعویٰ کب ہے؟
ہم تو احساس کو اندازِ بیاں دیتے ہیں

نام کوئی بھی مجھے دینے سے پہلے سوچ لیں
آپ کی پہچان بھی اس نام سے مشروط ہے
کیجیے اظہارِ بیزاری بھی مجھ سے اِس قدر
آپ کا مجھ سے تعلق جس قدر مضبوط ہے

خود کو آئینے میں دیکھا میں نے
راز تکوین کا پایا میں نے

اس شہر کا کیا جانئیے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہوکے رہے گا

بھری محفل میں تنہا بولتا ہے
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے

غموں پر پھر جوانی آگئی ہے
طبیعت میں روانی آگئی ہے

دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کردیئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخِ آہو کردئیے

یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

مجھے جتنے ملےغم دوستوں سے
وہ میں نے اپنے شعروں میں سجائے

لب و عارض ، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں
گویا! محفل لوٹ لی. آسان پر فہم مگر دل کو چھو لینے والی شاعری: ) کاش میں پنجابی بھی سمجھ سکتی:(
 

mohsin ali razvi

محفلین
بے کار ہے آرزو بے کار جستجو
شَمعِ وفا نھی جلتی محفل بنا کبھی
پرواز کر ر ھی ہے انساں کی خواھشیں
فطرت ہے خاکی مگر تمنا ہے عرش کی
عامل شیرازی
 
منتظر ھوں کہ آئے وہ مقام
جب ھو روشن تیرے دربار وفا
پر نہ آیا وہ مقام اے صاحب
روبرو جلتی رھئ شمع محبت بخدا
میں سلگتی رھی نام نہ آیا کوئ
ہے کھاں ناز وہ انداز وفا
جس کے خاطر جو جل جائے محبت وہ وفا
عامل شیرازی
بے کار ہے آرزو بے کار جستجو
شَمعِ وفا نھی جلتی محفل بنا کبھی
پرواز کر ر ھی ہے انساں کی خواھشیں
فطرت ہے خاکی مگر تمنا ہے عرش کی
عامل شیرازی

ایک گزارش؛ کہ بہت ضروری نہ ہوتی تو میں خاموش رہنا پسند کرتا۔
یہ لڑی "محمد یعقوب آسی، محفل کا ۔۔۔ ۔۔" اس کو مجھ تک اور مجھ سے متعلق گفتگو تک ہی رہنے دیجئے تو بہت نوازش۔ آپ کی نگارشات کے لئے اسی محفل میں اور بھی کئی دھاگے ہیں، نئے بنائے جا سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں خود بھی اس پر کاربند ہوں؛ اپنی شعری یا نثری کاوشیں صرف یہیں پوسٹ کرتا ہوں، الا یہ کہ کسی بہتر مقصد کے لئے انہیں کہیں اور نقل کرنا پڑے۔
بارِ دگر اس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔
 
لیجئے صاحبان!
ایک سادہ سا بلاگ "مِری آنکھیں مجھے دے دو" 2009ء کا بنا ہوا رکھا تھا۔ اپنے زبیر مرزا صاحب کی تحریک پر، اور اپنے فلک شیر چیمہ صاحب کی ہلاشیری پر اس کو چلا دیا ہے اور اپنی کچھ کاوشیں (کچھ ادب اور کچھ بے ۔۔۔) بھی شامل کر دی ہیں۔ احباب کبھی تاک جھانک کر لیا کریں اور کچھ کام کی باتیں بتا دیا کریں تو بہت نوازش ہو گی۔

عرض داشت: اپنے نیرنگ خیال صاحب کی خصوصی توجہ درکار ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
لیجئے صاحبان!
ایک سادہ سا بلاگ "مِری آنکھیں مجھے دے دو" 2009ء کا بنا ہوا رکھا تھا۔ اپنے زبیر مرزا صاحب کی تحریک پر، اور اپنے فلک شیر چیمہ صاحب کی ہلاشیری پر اس کو چلا دیا ہے اور اپنی کچھ کاوشیں (کچھ ادب اور کچھ بے ۔۔۔) بھی شامل کر دی ہیں۔ احباب کبھی تاک جھانک کر لیا کریں اور کچھ کام کی باتیں بتا دیا کریں تو بہت نوازش ہو گی۔

عرض داشت: اپنے نیرنگ خیال صاحب کی خصوصی توجہ درکار ہے۔

استاد محترم۔ ابھی دیکھا اور خوشی سے دل بھر گیا :) :)
 
Top