محمد وارث
لائبریرین
بہت دنوں سے اس خاکسار کی ایک خواہش تھی، جو حافظِ شیراز کے الفاظ میں کچھ اسطرح سے ہے:
آناں کہ خاک را بہ نظر کیمیا کُنَند
آیا بوَد کہ گوشۂ چشمے بہ ما کُنَند
(وہ ہستی کہ جو خاک کو کیمیا کر دیتی ہے، ممکن ہے کہ گوشۂ چشم ہماری طرف بھی کرے)۔
اور اہلیانِ محفل کو یہ خوشخبری سناتے ہوئے میں خود بھی بہت خوش ہوں کہ نہ صرف اس خاکسار کی خواہش پوری ہو گئی ہے، بفضلِ تعالیٰ، بلکہ وہ ہستی یہاں محفل پر تشریف لے آئی ہیں کہ دوسروں کی خاک کو بھی کیمیا بنا دیں
جیسا کہ آپ سب، عنوان سے سمجھ ہی گئے ہونگے، دنیائے علم و فضل کے ایک نامور عالم، جنابِ محمد یعقوب آسی صاحب اس محفل کے باقاعدہ رکن بن گئے ہیں، اور اس خاکسار کے نزدیک اردو محفل کی تاریخ میں یہ ایک بہت اہم بات ہے کیونکہ شاعری اور علمِ عروض سے شغف رکھنے والے احباب بخوبی جانتے ہیں کہ آسی صاحب کا کیا مقام ہے۔
لیکن روایتی طور پر، ان کا کچھ مختصر میں یہاں لکھ رہا ہوں:
آسی صاحب کا تعلق ضلع اوکاڑہ، پاکستان سے ہے اور عمر کی ستاون بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک کاشتکار گھرانے سے تھا، لیکن آپ چھوٹے ہی تھے جب انکے والدِ گرامی کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا اور یوں آپ اپنی ابتدائی عمر میں ہی زمانے کے رحم و کرم پر آ گئے، لیکن مجھے لکھتے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ زمانے کی اس بے رحم آگ نے آپ کو جلایا نہیں بلکہ آپ اس سے کندن بن کر نکلے۔
آپ لڑکپن سے ہی عملی زندگی میں شامل ہو گئے اور گو رہینِ منتِ ہائے روزگار رہے لیکن اپنی تعلیم کے خیال سے بھی غافل نہیں رہے اور پرائیوٹ طور پر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، اور پھر انکے سامنے وسیع کارزارِ حیات تھا، انکی لگن تھی، ہمت تھی اور خدا کی مدد شاملِ حال تھا، نتیجتہً 1977ء میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسلا سے بطور ایک اسٹینو گرافک وابستہ ہونے والا شخص، دسمبر 2007ء میں "ڈپٹی کنٹرولر امتحانات و ڈپٹی رجسٹرار ایڈمن" کے عہدۂ جلیلہ سے اختیاری طور پر ریٹائر ہوا۔
علمی و ادبی حوالے سے، بقول آپ کے بچپن ہی سے، آپ کو شعر و ادب کو شوق تھا اور اپنے اسکول کی بزمِ ادب کے سیکرٹری تھے، لیکن آپ کے جوہر صحیح معنوں میں اس وقت کھلے جب ٹیکسلا کے قیام کے دوران، 1984ء میں حلقۂ تخلیقِ ادب، ٹیکسلا سے وابستہ ہوئے اور آج تک وابستہ ہیں، آپ حلقہ کے صدر بھی رہے اور جنرل سیکرٹری بھی اور حلقہ کے ماہنامہ 'کاوش' کے مدیر بھی اور اب بھی حلقہ کے معاملات کو بخوبی چلا رہے ہیں۔
دنیائے علم و ادب میں آپ کا شاہکار "فاعلات، اردو عروض کا نیا نظام" نامی کتاب ہے، اور آپ سے میرے تعارف کا حوالہ بھی یہی کتاب ہے۔ یہاں اس محفل میں کئی احباب ایسے ہیں جو اس کتاب سے مستفید ہو چکے ہیں، یہ کتاب 1993ء میں شائع ہوئی اور اسکے بعد آپ نے اسے افادۂ عام کیلیے اسکا ایک انٹرنیٹ ایڈیشن شائع کیا جو اقبال سائبر لائبریری پر موجود ہے۔
آپ کی کئی کتب اس وقت زیرِ طبع ہیں جن میں غزلوں کی کتاب "حرفِ الف"، نظموں کی کتاب "مجھے اک نظم کہنی تھی"، پنجابی شاعری کی کتاب "گوہلاں"، پنجابی نثری تخلیقات "اچیاں لمیاں ٹاہلیاں"، اور اردو متفرق مضامین "خط کشیدہ" وغیرہ شامل ہیں۔
اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی سے بھی آپ کو شغف ہے، فارسی سیکھنے کے حوالے سے ان کا ایک رسالہ 'اسباقِ فارسی' یہاں محفل پر کئی بار زیرِ بحث آچکا ہے، اور آج کل اردو شاعروں اور ادیبوں کی تفہیم کیلیے ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں "زبانِ یارِ من"۔
ذاتی حوالے سے کچھ لکھنا چاہوں تو اپنے آپ کو کم مایہ اور اپنے الفاظ کو ہیچ مایہ سمجھتا ہوں کہ اپنے ایک استاد کی خدمت میں ہدیۂ عقیدت پیش کر سکوں، اس خاکسار نے آج سے تین چار سال پہلے جب علمِ عروض سیکھنے کی کوشش کی تو بہت سی مشکلات تھیں: استاد یہاں سیالکوٹ میں کوئی تھا نہیں، یا مجھے نہیں ملا یا میں نے نہیں ڈھونڈا (مجھے میرے محلے دار بھی کم ہی جانتے ہیں)، آسان فہم لٹریچر کی شدید کمی، انٹر نیٹ پر اس موضوع پر کتب نہ ہونے کے برابر، لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوئی اور آسی صاحب کی کتاب 'فاعلات' مجھے مل گئی، بس پھر کیا تھا، یہ کتاب اور اسکے ساتھ دیگر آٹھ دس کتابیں میرا اوڑھنا بچھونا بن گئیں اور اب غلط فہمی سے لوگ مجھے "استاد" سمجھتے ہیں (نہ جانے کن معنوں میں)
یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جب فیس بُک پر آپ نظر آئے تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور آپ کو میں نے بتایا کہ یہ خاکسار آپ کا غائبانہ شاگرد ہے، انہوں نے کمال مہربانی سے شرفِ پذیرائی بخشی اور اپنے دوستوں میں شامل کر لیا، گویا میرے لیے تو "ایں سعادت بزورِ بازو نیست" والا معاملہ ہو گیا۔
اور تبھی سے میری خواہش تھی، جسکا شروع میں ذکر کیا، کہ آسی صاحب اردو محفل پر بھی تشریف لائیں، اور ایک بار پھر انہوں نے کمال مہربانی سے شفقت فرماتے ہوئے اس خاکسار کی درخواست کو رد نہیں کیا۔
میں، اپنی جانب سے، اردو محفل اور اسکی انتظامیہ کی جانب سے، اور دیگر تمام اراکین کی جانب سے محمد یعقوب آسی صاحب کو صمیمِ قلب سے خوش آمدید کہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کی آمد سے اردو محفل پر ہم جیسے انکے شاگردوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، اور یہ بھی امید کرتا ہوں کہ آسی صاحب اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت ہمیں بھی دیتے رہیں گے۔
ایک بار پھر، اردو محفل کا رکن بننے کیلیے آسی صاحب کا شکر گزار ہوں اور انکے احسان کا زیرِ بار، حافظ سے بات شروع ہوئی تو حافظ پر ہی ختم کرتا ہوں۔
من کہ سر در نیاورَم بہ دو کون
گردنم زیرِ بارِ منّتِ اوست
(میں جو کہ دونوں جہاں کے سامنے سر نہیں جھکاتا (لیکن) میری گردن اس (دوست) کے احسان کی زیر بار ہے)۔
آناں کہ خاک را بہ نظر کیمیا کُنَند
آیا بوَد کہ گوشۂ چشمے بہ ما کُنَند
(وہ ہستی کہ جو خاک کو کیمیا کر دیتی ہے، ممکن ہے کہ گوشۂ چشم ہماری طرف بھی کرے)۔
اور اہلیانِ محفل کو یہ خوشخبری سناتے ہوئے میں خود بھی بہت خوش ہوں کہ نہ صرف اس خاکسار کی خواہش پوری ہو گئی ہے، بفضلِ تعالیٰ، بلکہ وہ ہستی یہاں محفل پر تشریف لے آئی ہیں کہ دوسروں کی خاک کو بھی کیمیا بنا دیں
جیسا کہ آپ سب، عنوان سے سمجھ ہی گئے ہونگے، دنیائے علم و فضل کے ایک نامور عالم، جنابِ محمد یعقوب آسی صاحب اس محفل کے باقاعدہ رکن بن گئے ہیں، اور اس خاکسار کے نزدیک اردو محفل کی تاریخ میں یہ ایک بہت اہم بات ہے کیونکہ شاعری اور علمِ عروض سے شغف رکھنے والے احباب بخوبی جانتے ہیں کہ آسی صاحب کا کیا مقام ہے۔
لیکن روایتی طور پر، ان کا کچھ مختصر میں یہاں لکھ رہا ہوں:
آسی صاحب کا تعلق ضلع اوکاڑہ، پاکستان سے ہے اور عمر کی ستاون بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک کاشتکار گھرانے سے تھا، لیکن آپ چھوٹے ہی تھے جب انکے والدِ گرامی کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا اور یوں آپ اپنی ابتدائی عمر میں ہی زمانے کے رحم و کرم پر آ گئے، لیکن مجھے لکھتے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ زمانے کی اس بے رحم آگ نے آپ کو جلایا نہیں بلکہ آپ اس سے کندن بن کر نکلے۔
آپ لڑکپن سے ہی عملی زندگی میں شامل ہو گئے اور گو رہینِ منتِ ہائے روزگار رہے لیکن اپنی تعلیم کے خیال سے بھی غافل نہیں رہے اور پرائیوٹ طور پر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، اور پھر انکے سامنے وسیع کارزارِ حیات تھا، انکی لگن تھی، ہمت تھی اور خدا کی مدد شاملِ حال تھا، نتیجتہً 1977ء میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکسلا سے بطور ایک اسٹینو گرافک وابستہ ہونے والا شخص، دسمبر 2007ء میں "ڈپٹی کنٹرولر امتحانات و ڈپٹی رجسٹرار ایڈمن" کے عہدۂ جلیلہ سے اختیاری طور پر ریٹائر ہوا۔
علمی و ادبی حوالے سے، بقول آپ کے بچپن ہی سے، آپ کو شعر و ادب کو شوق تھا اور اپنے اسکول کی بزمِ ادب کے سیکرٹری تھے، لیکن آپ کے جوہر صحیح معنوں میں اس وقت کھلے جب ٹیکسلا کے قیام کے دوران، 1984ء میں حلقۂ تخلیقِ ادب، ٹیکسلا سے وابستہ ہوئے اور آج تک وابستہ ہیں، آپ حلقہ کے صدر بھی رہے اور جنرل سیکرٹری بھی اور حلقہ کے ماہنامہ 'کاوش' کے مدیر بھی اور اب بھی حلقہ کے معاملات کو بخوبی چلا رہے ہیں۔
دنیائے علم و ادب میں آپ کا شاہکار "فاعلات، اردو عروض کا نیا نظام" نامی کتاب ہے، اور آپ سے میرے تعارف کا حوالہ بھی یہی کتاب ہے۔ یہاں اس محفل میں کئی احباب ایسے ہیں جو اس کتاب سے مستفید ہو چکے ہیں، یہ کتاب 1993ء میں شائع ہوئی اور اسکے بعد آپ نے اسے افادۂ عام کیلیے اسکا ایک انٹرنیٹ ایڈیشن شائع کیا جو اقبال سائبر لائبریری پر موجود ہے۔
آپ کی کئی کتب اس وقت زیرِ طبع ہیں جن میں غزلوں کی کتاب "حرفِ الف"، نظموں کی کتاب "مجھے اک نظم کہنی تھی"، پنجابی شاعری کی کتاب "گوہلاں"، پنجابی نثری تخلیقات "اچیاں لمیاں ٹاہلیاں"، اور اردو متفرق مضامین "خط کشیدہ" وغیرہ شامل ہیں۔
اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی سے بھی آپ کو شغف ہے، فارسی سیکھنے کے حوالے سے ان کا ایک رسالہ 'اسباقِ فارسی' یہاں محفل پر کئی بار زیرِ بحث آچکا ہے، اور آج کل اردو شاعروں اور ادیبوں کی تفہیم کیلیے ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں "زبانِ یارِ من"۔
ذاتی حوالے سے کچھ لکھنا چاہوں تو اپنے آپ کو کم مایہ اور اپنے الفاظ کو ہیچ مایہ سمجھتا ہوں کہ اپنے ایک استاد کی خدمت میں ہدیۂ عقیدت پیش کر سکوں، اس خاکسار نے آج سے تین چار سال پہلے جب علمِ عروض سیکھنے کی کوشش کی تو بہت سی مشکلات تھیں: استاد یہاں سیالکوٹ میں کوئی تھا نہیں، یا مجھے نہیں ملا یا میں نے نہیں ڈھونڈا (مجھے میرے محلے دار بھی کم ہی جانتے ہیں)، آسان فہم لٹریچر کی شدید کمی، انٹر نیٹ پر اس موضوع پر کتب نہ ہونے کے برابر، لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوئی اور آسی صاحب کی کتاب 'فاعلات' مجھے مل گئی، بس پھر کیا تھا، یہ کتاب اور اسکے ساتھ دیگر آٹھ دس کتابیں میرا اوڑھنا بچھونا بن گئیں اور اب غلط فہمی سے لوگ مجھے "استاد" سمجھتے ہیں (نہ جانے کن معنوں میں)
یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جب فیس بُک پر آپ نظر آئے تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور آپ کو میں نے بتایا کہ یہ خاکسار آپ کا غائبانہ شاگرد ہے، انہوں نے کمال مہربانی سے شرفِ پذیرائی بخشی اور اپنے دوستوں میں شامل کر لیا، گویا میرے لیے تو "ایں سعادت بزورِ بازو نیست" والا معاملہ ہو گیا۔
اور تبھی سے میری خواہش تھی، جسکا شروع میں ذکر کیا، کہ آسی صاحب اردو محفل پر بھی تشریف لائیں، اور ایک بار پھر انہوں نے کمال مہربانی سے شفقت فرماتے ہوئے اس خاکسار کی درخواست کو رد نہیں کیا۔
میں، اپنی جانب سے، اردو محفل اور اسکی انتظامیہ کی جانب سے، اور دیگر تمام اراکین کی جانب سے محمد یعقوب آسی صاحب کو صمیمِ قلب سے خوش آمدید کہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کی آمد سے اردو محفل پر ہم جیسے انکے شاگردوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، اور یہ بھی امید کرتا ہوں کہ آسی صاحب اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت ہمیں بھی دیتے رہیں گے۔
ایک بار پھر، اردو محفل کا رکن بننے کیلیے آسی صاحب کا شکر گزار ہوں اور انکے احسان کا زیرِ بار، حافظ سے بات شروع ہوئی تو حافظ پر ہی ختم کرتا ہوں۔
من کہ سر در نیاورَم بہ دو کون
گردنم زیرِ بارِ منّتِ اوست
(میں جو کہ دونوں جہاں کے سامنے سر نہیں جھکاتا (لیکن) میری گردن اس (دوست) کے احسان کی زیر بار ہے)۔