درستی فرما لیجئے۔ ’’ ۔۔۔۔ گھر باقی نہیں ہے‘‘در و دیوار بھی ہیں، لوگ بھی ہیںبہت اعلیٰ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہیں
آباد سرزمینِ وطن جاوداں رہے
میری دعا ہے اس پہ خدا مہرباں رہے
کیا ہی کہنے، نہایت ہی دلگداز ملی نغمہ ہے، پڑھ کے بہت تسکین ہوئی ماشاءاللہ، بہت سی داد قبول ہو استادِ محترم۔
یہا ں ایک استفسار بھی ہے کہ اس میں مطلع اور قافیہ ردیف اور بحر کی پابندی کی گئی ہے گویا کہ غزل کا پیرہن ہے؟ تو کیا اس کو نظم میں ہی شمار کیا جائے گا؟
اس مفصل رہنمائی کے لیے نہایت مشکور ہوں. جزاک اللهہیئت اس میں کوئی منع نہیں، تاہم اس کو کسی نہ کسی ’’نظم‘‘ کے ماتحت ہونا چاہئے، نہ کہ مادر پدر آزاد۔
بات آ جاتی ہے ’’آزاد نظم‘‘ تک۔ اس میں بھی ایک ’’نظم‘‘ ہوتا ہے، کوئی رکن ہوتا ہے جو سطروں میں رواں ہوتا ہے۔
ایک اور شے بھی ہے جسے خواہ مخواہ شاعری قرار دیا جا رہا ہے، میں اس کو شاعری نہیں مانتا۔
میں اسے اپنے خزانے میں جمع کر رہا ہوں۔نظم اور غزل کی تخصیص میں ایک تو ہیئت کی بات ہے۔
غزل کے لئے ’’زمین‘‘ کا ہونا ضروری ہے: بحر اور قافیہ (ردیف اختیاری چیز ہے ۔ تاہم جب اختیار کر لی تو پھر اس کو نبھانا لازم ہو گیا)۔ پھر اس میں مطلع اور مقطع کا اہتمام بھی راجح ہے۔ نظم کے لئے اس ہیئت کے علاوہ بہت سی ہیئتیں ہیں۔ مثنوی، مخمس، مسدس، قطعہ بند، ترجیع بند، ترکیب بند اور بہت ساری۔
دوسرا فرق ہے معنوی یا موضوعاتی ۔ یہ اہم تر ہے! ۔۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل معنوی اکائی ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے آگے پیچھے والے اشعار سے مربوط ہو یا نہ ہو۔ نظم میں پوری نظم کا ایک موضوع ہوتا ہے (بڑا چھوٹا، وسیع خفیف ۔۔ یہ الگ بحث ہے) اور نظم کا ہر شعر یا ہر بند اس موضوع کو آگے بڑھاتا ہے۔
کہیں کی اینٹ کہیں کا ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔میں اسے اپنے خزانے میں جمع کر رہا ہوں۔
سمندر کوزے میں ڈال دیا اس ایک برمحل جملے نے۔ بہت خوب۔کہیں کی اینٹ کہیں کا ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
یہ لفظ ’’متنجن‘‘ عربی لفظ ’’مطجّن‘‘ کی پنجابیائی ہوئی شکل بتائی جاتی ہے۔ ہے نا، علامہ صاحب!؟ویسے ہمارے ہاں پنجاب میں متنجن (رنگ برنگے میٹھے چاول) بھی بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔
آپ فرمارہے ہیں تو ایسا ہی ہوگا۔یہ لفظ ’’متنجن‘‘ عربی لفظ ’’مطجّن‘‘ کی پنجابیائی ہوئی شکل بتائی جاتی ہے۔ ہے نا، علامہ صاحب!؟
آپ سے تصدیق کرانا مقصود ہے کہ عربی میں متجن کے لفظی معانی کیا ہیں وغیرہآپ فرمارہے ہیں تو ایسا ہی ہوگا۔