اوراقِ پریشاں
ملک جعفر خان اعوان مرحوم کی غیر مطبوعہ شاعری کا مختصر مطالعہ
(محترمی ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کی خواہش کے احترام میں)
غم ہائے زندگی سے ملے زندگی کے راز
اک عمر مشکلوں میں گزاری تو کیا ہوا
چند آنسو ہیں چند یادیں ہیں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے
ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو سے میں نے اخذ کیا کہ ملک جعفر خان اعوان کو دو سانسوں کے تار سے جڑے رہناکبھی سہل نہیں رہا۔ انسانی زندگی گونا گوں حوادث سے عبارت ہے۔ شکست و ریخت، رنج و الم اور حزن و ملال ہی نہیں جو زندگی کو امتحان بنا دیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواہشیں، آرزوئیں، امیدیں بھی درد بن جاتی ہیں اور دل و جان عجیب اضطراب و اضطرار سے دو چار ہوتے ہیں۔
یہ دو سانسوں کا جینا کس قدر مشکل بنایا ہے
کہاں کی خاکِ مضطر سے ہمارا دل بنایا ہے
شہزاد عادلؔ
بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، جیسے تیسے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور اردو فاضل کر کے مدرس بن گئے۔ جب بزرگ سر پر نہ رہیں تو انسان فطری طور پر اپنے ہوتوں سوتوں کی طرف دیکھتا ہے۔ جعفر خان کو ادھر سے کوئی ڈھارس تو کیا ملتی، الٹے کچوکے ملے۔ فنکارانہ حساسیت ان کے کلام میں کچھ یوں جھلکتی ہے:
میں فنکار افلاس کا مارا میری کیا اوقات
جوں توں کر کے دن کٹتا ہے، ایسے تیسے رات
میں نے ہواؤں میں بوئے تے آشاؤں کے پیڑ
میرے دل تو دیکھ رہا ہے میرے خالی ہاتھ
وہ تو یوں کہئے کہ فطرت نے جعفر خان کو اظہار کے سلیقے سے نوازا اور وہ اپنی وارداتِ جسم و جان کو لفظ میں ڈھال کر کسی قدر ہلکا پن محسوس کر لیتے ہوں گے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اظہارِ ذات کے لئے بھی ان کو فرضی ناموں کا سہارا لینا پڑا۔
جن پہ سنگِ ملامت کی بارش ہوئی
ایک میں ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں
فرضی ناموں سے شائع ہونے والے فن پاروں کو کھوج نکالنا تحقیق کار کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ یوں میں ڈاکٹر رفعت اقبال کی لگن اور محنت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کو ایک اور مشکل بھی درپیش رہی ہے۔ جعفر خان کی ادبی سرگرمیاں، ادبی حلقوں میں آنا جانا یقیناً بہت محدود رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں لب و عارض اور خال و خد کا تذکرہ خال خال ملتا ہے۔اور اس میں بھی تلخئِ ایام در آئی ہے۔
جاگ اٹھی ہیں سلگتی یادیں
گفتگو کس کے بیاں تک پہنچی
پہلے شکوہ تھا صرف آپ کی ذات سے
اب کبھی آپ ہیں اور کبھی لوگ ہیں
پل رہی ہے جو آرزو دل میں
سوچتا ہوں زباں نہ ہو جائے
شاخِ نازک پہ آشیانہ مرا
کاوشِ رائیگاں نہ ہو جائے
دنیا کو چھوڑ چھاڑ ترے پاس آئے تھے
مدت ہوئی ہے تجھ سے بھی دل ہے اٹھا ہوا
جب غمِ روزگار کے کانٹے اور اپنے خون کے رشتوں کے نشتر ہر تارِ جاں کو زخمی کر رہے ہوں تو شیخ سعدی کے اس شعر کا کرب تازہ ہو جاتا ہے کہ:
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق
بہ این ہمہ وارداتِ قلب؛ سید علی مطہر اشعر کے الفاظ میں ’’تعلقِ خاطر‘‘؛ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ تعلق اظہار چاہتا ہے۔ ایسے میں حالات کا مارا ہوا دلِ زار بے اختیار چیخ اٹھتا ہے کہ:
چھین لے مجھ سے مرا عشق زمانے کی طرح
یا درِ حُسن سے پُرکیف صدا دے مجھ کو
بات ادبی حلقوں میں آنے جانے کی ہو رہی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی کوئی باک نہیں رہا کہ اظہار کی تربیت میں یہ حلقے جامعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جعفر خان کو غمِ نانِ جوین نے ان جامعات سے کسبِ فیض کی بہت کم مہلت دی۔لہٰذا ادب کا نازک ذوق رکھنے والا قاری شاید اس طور سرشارنہ ہو سکے جس طور وہ کسی بڑے شاعر کا کلام پڑھ کر ہوتا ہے، تاہم ان کے اندر کا شاعر اتنا مضبوط ضرور ہے کہ اس کے قاری کو کسی رد و کد سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ جعفر خان کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی اور ان کی شاعری طاقِ نسیاں کا حصہ بن چکی ہوتی اگر ڈاکٹر رفعت اقبال اپنی شاگردانہ ذمہ داری کو پورا کرنے کا بیڑا نہ اٹھا لیتے۔ انہوں نے اپنے اسکول کے استاد کا کلام کہاں کہاں سے کس طرح جمع کیا مجھے اس کا اندازہ تو نہیں تاہم میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت اگر اردو ادب کو سو پچاس یادگار شعر بھی دان کر دے تو یہ کم نہیں ہے۔ جعفر خان کے کچھ یاد رہ جانے والے شعر نقل کر رہا ہوں۔
غم کی آندھی، درد کے جھکڑ، ساون تیری یاد
طوفانوں میں دیپ جلائیں ہم دیوانے لوگ
پتا ٹوٹے تو زنداں میں رو رو کاٹیں رات
پھول کھلے تو جشن منائیں ہم دیوانے لوگ
پا برہنہ تھے سروں پر بھی کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح تو دشت میں کوئی کبھی آیا نہ تھا
تو بھی الجھ رہا تھا اُدھر آسمان سے
میں بھی گھرا ہوا تھا اِدھر ناخداؤں میں
جبر کا حبس ہے مگر ہم لوگ
تان کر سوئے رات بھر ہم لوگ
بپھری ہوئی موجیں رہیں آمادۂ طوفاں
ٹھہرے ہوئے پانی کو بہت پاسِ ادب ہے
بزمِ جفا میں ذکرِ تہی دامنی نہ چھیڑ
اک غم ہے اور وہ بھی کسی کا دیا ہوا
گل فسردہ روش روش ویراں
کس ادا سے بہار آئی ہے
اپنے تمام ذاتی رنج و آلام اور محرومیوں کے باوجود جعفر خان اپنی ذات تک محدود ہو کر نہیں رہ گئے نلکہ انہوں نے گرد و پیش میں بگڑتے ہوئے منظر نامے کو مادی اور انسانی دونوں سطحوں پر دیکھا ہے اور اس کا اظہار بھی بہت دل زدگی کے ساتھ کیا ہے۔
آج ان کو بھی فضائے شہرِ شب راس آ گئی
جان دیتے تھے جو کل تک صبح کے آثار پر
ڈھولک کی تھاپ کوئی نہ ٹپے کا کوئی بول
پوچھیں تو آج کس سے پتہ اپنے گاؤں کا
رُت کچھ اس انداز سے بدلی کہ رونا آ گیا
گلشنوں میں راستے، کھیتوں میں گھر اُگنے لگے
درد کے سورج نے جعفرؔ ہم کو بخشی وہ ضیا
ادھ کھلی آنکھوں میں خوابوں کے نگر اُگنے لگے
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سختیاں انسان کو تھکا دیتی ہیں اور اس کی ہمتیں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔ جعفر خان کو انسانی کمزوریوں اور شورشوں دونوں کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس میں اپنے قاری کو بھی مؤثر طور پر شریک کرتے ہیں۔ اس مؤثر شرکت کے لئے شاعر اور قاری دونوں کا حقیقت شناس ہونا بہت لازم ہے۔ ان کا انہتر سالہ زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے قاری تک کچھ اس بے قراری کے ساتھ پہنچتا ہے کہ وہ لفظوں کی تڑپ اور تلخی کو کما حقہٗ محسوس کر سکے۔
اب ذرا بیٹھ کے رو لیتے ہیں
اتنی فرصت بھی کہاں تھی پہلے
پانی مری رگوں میں رواں ہے بجائے خون
محنت نے میرے جسم سے چکنائی چھین لی
زندگی سے فرار ممکن ہے
تیرے غم سے فرار، ناممکن
جلتے ہیں اپنی سوچ کے دوزخ میں رات دن
ہم سے زیادہ کون ہمارا عدو ہوا
جعفرؔ ہمیں نے کوئی توجہ نہ دی کبھی
اس زندگی کے ورنہ تقاضے ہزار تھے
جعفر خان کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب وہ اپنی عمر بھی کی تگ و دو کو لاحاصل خیال کرتے ہیں۔
کوئی منزل نہ منزل کا نشاں ہے
غبارِ کارواں ہے اور میں ہوں
منزلیں میری حدِ ادراک سے بھی دور تھیں
تیرے نقشِ پا کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں
تاہم انہیں اتنا اطمینان ضرور ہے کہ:
ساحل کا شور بحر کی موجوں میں کھو گیا
طوفان کام کر گیا اپنی صداؤں کا
ہم اجڑ جائیں کہ آباد رہیں
تیری تقدیر بنا دی ہم نے
اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے جعفر خان کی غزل اور نظم دونوں اردو کی شعری روایت سے مضبوطی کے ساتھ منسلک ہیں اور روایت کا سفر جاری ہے۔ چند ایک نظمیں جو مجھ تک پہنچی ہیں وہ بھی پابند نظمیں ہیں اور غزلیہ انداز میں ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنی زمین اور تہذیب کا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ وسعتِ مطالعہ، شعری وجدان، قوتِ مشاہدہ اور تجزیہ، اسلوب کی سادگی، انشا پردازی، مضمون بندی، مضمون آفرینی، فکری تازگی اور قاری کے ساتھ سانجھ ان کی غزلوں کا خاصہ ہیں۔ انہوں نے جیتی جاگتی شاعری کی ہے جو کہیں بھی جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ چند مزید اشعار ملاحظہ ہوں:
غم کے ماروں نے یہ سوچا اکثر
فصلِ گل تھی کہ خزاں تھی پہلے
جب اڑا کر لے چلی آندھی بدن کی راکھ بھی
میں تمہارے شہر میں آیا گیا پھرتا رہا
یہ دریا کہہ رہا تھا تشنگاں سے
مجھے، آقا! بڑی شرمندگی ہے
الجھنوں کا بیان کیا کیجے
ایک ممکن ہزار ناممکن
مسکراتی گنگناتی زندگی ہوتی اگر
مسکرانے والے لوگو! مسکراتے ہم ضرور
*****
محمد یعقوب آسیؔ ..... ۶؍ مئی ۲۰۱۴ء
کوائف
ملک جعفر خان اعوان ولدِ سردار محمد اسلم خان
پیدائش: ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۳ء (موضع ناڑا، تحصیل جنڈ)، ضلع اٹک
تعلیم: میٹرک ، فاضل اردو
پیشہ: تدریس (سکول کی سطح پر)
بڑے مسائل: بچپن میں والد کی وفات، اہل خاندان کا برا سلوک، مشکل مالی حالات
آغازِ شاعری: ۱۹۵۸ ... فرضی ناموں سے لکھتے رہے
رکنیت: حلقۂ ادب اٹک، مجلسِ ادب اٹک
شعری مجموعہ: ندارد
ماخوذ از: ’’اٹک کے اہلِ قلم‘‘ مرتبہ: ارشد محمود ناشادؔ ( جون ۲۰۰۰ء)، پنجابی ادبی سنگت اٹک
وفات: ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۲ء (بہ حوالہ: ڈاکٹر رفعت اقبال)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔