محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

یہ لفظ ’’متنجن‘‘ عربی لفظ ’’مطجّن‘‘ کی پنجابیائی ہوئی شکل بتائی جاتی ہے۔ ہے نا، علامہ صاحب
آپ سے تصدیق کرانا مقصود ہے کہ عربی میں متجن کے لفظی معانی کیا ہیں وغیرہ
لفظ متجن عربی زبان میں نہیں پایا جاتا۔ ”مطجن“ بھنے ہوئے اور تلے ہوئے کے معنی میں مستعمل ہے ، اسے ”مطنجن“ بھی کہا جاتا ہے ، مگر یہ بھی معرَّب ہے، عربی الاصل نہیں ، لسان العرب میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں ”ط“ اور ”ج“ حروف اصلیہ میں کبھی ایک ساتھ نہیں آتے، اسی وجہ سے لفظ ”طاجن“ اور ”طیجن“ بمعنی کڑاہی بھی معرَّب قرار دیے گئے ہیں۔ اب یہ لفظ طَجَنَ طَجْنًا کڑھائی میں بھوننے اور تلنے کے معنی میں اپنے جملہ مشتقات کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
ممکن ہے اس کی اصل فارسی ہو ، کیونکہ ”متنجن“ (ایک قسم کا میٹھا پلاؤ) بھی فارسی ہی کا لفظ ہے، جوکہ اب اردو اور شاید پنجابی میں بھی مستعمل ہے۔
لہٰذا ”متنجن“ کو عربی لفظ ”مطجن“ سے ماخوذ کہنا مشکل ہے ، کیونکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ واللہ اعلم!
 
آخری تدوین:
لفظ متجن عربی زبان میں نہیں پایا جاتا۔ ”مطجن“ بھنے ہوئے اور تلے ہوئے کے معنی میں مستعمل ہے ، اسے ”مطنجن“ بھی کہا جاتا ہے ، مگر یہ بھی معرَّب ہے، عربی الاصل نہیں ، لسان العرب میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں ”ط“ اور ”ج“ حروف اصلیہ میں کبھی ایک ساتھ نہیں آتے، اسی وجہ سے لفظ ”طاجن“ اور ”طیجن“ بمعنی کڑاہی بھی معرَّب قرار دیا گیا ہے۔ اب یہ لفظ طَجَنَ طَجْنًا کڑھائی میں بھوننے اور تلنے کے معنی میں اپنے جملہ مشتقات کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
ممکن ہے اس کی اصل فارسی ہو ، کیونکہ ”متنجن“ (ایک قسم کا میٹھا پلاؤ) بھی فارسی کا ہی لفظ ہے، جوکہ اب اردو اور شاید پنجابی میں مستعمل ہے۔
لہٰذا ”متنجن“ کو عربی لفظ ”مطجن“ سے ماخوذ کہنا مشکل ہے ، کیونکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ واللہ اعلم!


یہ ہوئی نا بات
 
آخری تدوین:
ایک پرانی نظم ۔۔۔ خوش ذوق قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر



یہ وقتِ صبحِ کاذِب ہے


یہ وقتِ صبحِ کاذب ہے
یہ مشرق کی طرف جو چھا گئی ہے
وہ ردائے نور جھوٹی ہے
ابھی پھر تیرگی ہو گی!
وہ راتوں کا مسافر
دیر گزری، جانبِ مغرب رواں تھا
رات کا افسوں جواں تھا
میں نے دیکھا تھا
وہ بے منزل کا راہی
جو تھکن سے چور لگتا تھا
وہ جس کے ہر قدم سے
اک نقاہت سی ہویدا تھی
کماں تھی یا کمر تھی اُس تھکے ہارے مسافر کی
جو مانگے کی شعائیں اس نے پہنی تھیں
وہ خود بھی مر رہی تھیں
اور جگنو مر چکے تھے
ہاں!
ابھی تو موت بام و در پہ چھائی ہے
ابھی اولادِ آدم شب گرفتہ ہے
وہ ہنستی بولتی گلیاں
گھروں میں شور بچوں کا، وہ بے ہنگام ہنگامے
سبھی! اس بے کراں شب کے سمندر میں
کسی کالی بلا کے سِحرِ بے درماں میں جکڑے ہیں
ابھی تو رات ہونی ہے!

مگر، مایوس کیا ہونا!
کہ وقتِ صبحِ کاذب تو
نقیبِ صبحِ صادق ہے!
ابھی گو رات ہونی ہے
مگر یہ رات کے آخر کا افسوں ہے
طلسمِ تیرگی کی آخری گھڑیاں
کسی کالی بلا کی موت کی ہچکی
کہ جس کے ساتھ
اس کے سارے جادو ٹوٹ جائیں گے
نوائے جاں فزا ’’اللہ اکبر‘‘ کی
زمیں کو، آسماں کو
روشنی سے ایسے بھر دے گی
کہ چڑیاں چہچہائیں گی
شگوفے مسکرائیں گے
سنو!
جو رات کی اس آخری ساعت میں
جاگے اور سو جائے
اُسے
صبحِ مبیں کی اوّلیں ساعت سے
محرومی کا
ایسا زخم آئے گا
کبھی جو بھر نہ پائے گا!

جون ۱۹۹۸ء


انتخاب از ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘
 
’’زبانِ یارِ من‘‘ ۔۔ اس فقیر کی گدڑی سے ایک اور پُستک نکل آئی

1960991_451817178295079_315243855_o.jpg
 
غزل

رات، اداسی، چاند، ستم گر خاموشی
نیند سے بوجھل دیوار و در، خاموشی

سناٹے کا خوف، سسکتی آوازیں
سب آوازوں کا پس منظر خاموشی

خواب جزیرہ؟ وہ تو کب کا ڈوب چکا
اوڑھ چکا بے رحم سمندر خاموشی

میں نے کتنے ہونٹوں کو آوازیں دیں
لیکن میری ذات کے اندر خاموشی

آنسو، تارا، جگنو، شعلہ، بے تابی
سوچ سمند کے ساحل پر خاموشی

بستر کانٹے جلتی آنکھیں آخرِ شب
مرتے ہیں پلکوں پر اختر، خاموشی

آسی کو کب کچھ کہنا راس آیا ہے
اپنا لی اس نے تنگ آ کر خاموشی

محمد یعقوب آسی ۔ ۹ ۔ اپریل ۔ ۱۹۸۶ ۔


1926042_454577911352339_7679983506130653534_o.jpg
 
تازہ آمدہ کتاب ’’حرف سفیر‘‘ (انٹرنیٹ ایڈیشن) مارچ ۲۰۱۴ سے ایک مضمون


June 07, 1999​
چیرہ نگاہی اس کی
یہ مضمون سلمان باسط کی کتاب ’’خاکی خاکے‘‘ کی تقریبِ پذیرائی (منعقدہ ۷؍ جون ۱۹۹۹ء ) میں پڑھا گیا اور
بعد ازاں ماہنامہ کاوش ٹیکسلا (اگست ۱۹۹۹ء) میں شائع ہوا


مزاح لکھنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے اور اس وقت یہ مشکل تر ہو جاتا ہے جب آپ کسی کا شخصی خاکہ لکھ رہے ہوں۔ شخصی حوالے سے لکھی گئی ہلکی پھلکی تحریر دراصل اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ خاکہ نگار نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی! بات ذرا سی اِدھر سے اُدھر ہو گئی تو ساری چابک دستی جانئے دھری کی دھری رہ گئی اور گناہ لازم ٹھہرا۔ اس طرح سلمان باسط نے اپنے معاصر ادیبوں کے شخصی خاکے لکھنے کا جو خطرناک کام اپنے ذمہ لیا تھا، وہ اگر بخیر و خوبی انجام کو پہنچا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ فاضل خاکہ نگار چابک دست ہے، بلکہ کہیں کہیں تو چابک بدست نظر آتا ہے۔

مزاح کے حربوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر انور مسعود نے ایک بار کہا تھا کہ ایک حربہ مبالغہ ہے: کہ ایسی چیزوں کو جو اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہیں، نمایاں کیا جائے، جیسے کارٹون ہے۔ خاکی خاکے میں شامل مضامین میں سلمان باسط نے برش سے نہیں بلکہ لفظوں سے کارٹون بنائے ہیں اور اس خوبی سے بنائے ہیں کہ جس کا کارٹون بنایا ہے وہ بھی رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ لطف لیتا ہے۔ بظاہر معمول کی باتوں کو ہمارے فاضل خاکہ نگار کی چیرہ نگاہی نے کیا روپ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

* جب وہ بولتا ہے تو صرف وہی بولتا ہے۔ دوسرے تمام لوگ آواز اور عِلم کے آہنگ میں کمزور ساز کی طرح گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ایسے میں وہ بعض اوقات اس ریلوے انجن کی طرح دکھائی دیتا ہے جو بے مقصد ریلوے پٹڑیوں پر اِدھر سے اُدھر شنٹنگ کرتا رہتا ہے اور اس بات سے قطعاً لاتعلق ہوتا ہے کہ پیچھے کم از کم ایک آدھ بوگی ہی لگا لے۔ (کالا چٹا پہاڑ: ص ۵۶)

* موصوف اتنی دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں کہ ان کے انتہائی قریب بیٹھے ہوئے شخص کو بھی انہیں سننے کے لئے آلۂ سماعت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ غالباً انہیں صرف بات کرنا مقصود ہوتا ہے، سنانا نہیں۔ (بھائی جان: ص ۶۵)

* بات اتنی آہستگی سے کرتا ہے جیسے کوئی راز کہہ رہا ہو چاہے وہ صرف یہی کہنا چاہ رہا ہو کہ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں پروفیسر ہے، لیکن لہجے کا دھیماپن اور گفتگو کا ٹھہراؤ اس بات کو بھی سربستہ راز بنا دے گا اور یوں لگے گا جیسے وہ ایٹم بم بنانے کا فارمولا بتا رہا ہے۔ (جنابِ عالی: ص ۴۲)

* ۱س کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلاپن پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے انداز پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔ (عروضیا: ص ۱۰۳)

سلمان باسط ایک اچھے شاعر ہیں، اچھے کالم نگار ہیں، ڈرامہ لکھتے بھی ہیں (کرتے بھی ہیں)۔ گویا ادب کی ہر صنف میں بقول اپنے ’’ٹھیک ٹھاک منہ مارتے ہیں‘‘۔ ان ہمہ جہت تجربوں نے ان کے خاکوں کو متنوع بنا دیا ہے۔ ان میں بیک وقت طنز و مزاح بھی ہے، انشاء پردازی بھی اور شاعرانہ اندازِ اظہار بھی۔ انشاء پردازی کی ایک مثال دیکھئے:

* خیر سے اس مرحلے سے گزرے تو اس نومولود کی مناسب دیکھ بھال کے لئے ذوقؔ ، غالبؔ اور میر انیسؔ کی کلیات نے آیا کے فرائض سنبھال لئے۔ کئی دفعہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے دِلّی کے لال قلعے اور کوچہ بَلّی ماراں میں بھی لے جایا گیا۔ ان پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں سے گزرتے ہوئے کئی بار اس معصوم کی نگاہ رعائتِ لفظی اور مجاز مرسل پر پڑی مگر کم سنی کی وجہ سے آشنائی کے جرم سے باز رہا۔ یہ ننھا جب لڑکپن کی حدود سے گزر رہا تھا تو کئی بار تشبیہات و تراکیب سے آنکھ لڑی، کلاسیکی ادب کے محمل میں بیٹھی لیلیٰ نے اس پر کئی بار نگاہِ غلط انداز ڈالی۔ عنفوانِ شباب کے تجربوں سے گزر کر جب یہ جوانِ رعنا بازارِ ادب میں نکلا تو اس کی مڈبھیڑ رؤف امیرؔ سے ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا! عروض اور تقطیع کی بھٹی نے اس کا رنگ سنولانا شروع کر دیا۔ اساتذہ سے لے کر عہدِ حاضر تک کے شعراء رؤف امیرؔ اور مبارک شاہ کے سامنے دست بستہ کھڑے اصلاح لیتے پائے گئے۔ یہاں تک کہ غالبؔ کا اغلاط نامہ بھی تیار کیا گیا۔ (شاہِ جنات: ص ۸۳)

منظر نگاری سے ایک قدم گے جا کر فاضل خاکہ نگار نے منظر آفرینی کے ہنر سے کام لیا ہے۔ ایک مثال دیکھئے:

* کبھی کبھی تو وہ اپنے چہرے مہرے سے ایک بھرے پرے خاندان کی بے بے نظر آتا ہے جو گاؤں کے آبائی مکان کے صحن کے ایک کونے میں بنے ہوئے گرمائی باورچی خانے میں ہنڈیا کے پاس بیٹھ کر آنکھوں سے ممتا کی پھوار برسانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو اور ان کے بچوں کو آلو گوشت رکابیوں میں ڈال ڈال کر دینے میں مصروف ہو۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں پر سجی عینک اسے تھوڑی دیر کے لئے دانشوری کا تڑکا لگا دیتی ہے۔ مگر عینک اتارنے کے بعد وہی شیخوپورے کا دیسی محمد منشا نکل آتا ہے جس کی آواز میں گھر کے دودھ سے نکلے ہوئے مکھن کی ملائمت ہے۔ (حسبِ منشا: ص ۹۶)

سلمان باسط کے خاکی خاکوں کی ایک بہت نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ آدمیت احترامِ آدمی ست کے بڑی سختی سے قائل بھی ہیں اور اس پر عامل بھی ہیں۔ اور جہاں رشتوں کی بات ہو وہاں بہت حساس بھی۔ کتاب میں شامل تمام خاکوں میں ’’فردِ خاکہ‘‘ کے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کیا گیا ہے مگر عثمان خاور کے خاکے میں (جو فاضل خاکہ نگار کے بڑے بھائی ہیں) یہ صیغہ جمع غائب میں بدل گیا ہے۔ اور، مجھے یقین ہے کہ یہ احترام کے جذبے کا اثر ہے۔ دیگر خاکوں میں بھی یہ احترام پوری طرح رو بہ عمل دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً:

* یہ ٹھیک ہے کہ یعقوب کی قسمت میں آس کے دامن سے لپٹے رہنا ہی لکھا ہے لیکن وہ تو اپنی شخصیت کے حسن کے اعتبار سے یوسف ہے اور ماحول کے اعتبار سے یوسفِ بے کارواں۔ آج میں نے اس کے بے مثال حسن کی ایک جھلک اپنی انگلیاں کاٹ کر آپ کو دکھا دی ہے۔ اب انگلیاں کاٹنے کی باری آپ کی ہے۔ (عروضیا: ص ۱۰۴)

میں نے شروع میں کارٹون کی بات کی تھی۔ انور مسعود ہی کی کہی ہوئی ایک بات دہراتا ہوں کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے، جس کے پیچھے ذہن یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس چھیڑ کو مؤثر بنانے کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ بات وقت کے حوالے سے کی جائے۔ اور مثالیں اور واقعات اس دور کے ہوں جس میں بات کی جا رہی ہے۔ یہاں زیرِ نظر کتاب سے کچھ ایسے اقتباسات پیش کروں گا جس میں فاضل خاکہ نگار انشائیے کے انداز میں موضوعات کو چھیڑتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔اور ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کو اپنے خاکوں کے ساتھ منسلک بھی کرتے جاتے ہیں۔ لفظیات اور رعایاتِ لفظی و معنوی کی چاشنی اپنی جگہ اہم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

* آج کل کلنٹن تو اس طرح انٹرنیٹ پر چھایا ہوا ہے جس طرح امریکا پوری دنیا پر تسلط جمائے ہوئے ہے لیکن جس طرح امریکا دنیا بھر پر چھائے رہنے کے باوجود بدنام ہے اسی طرح کلنٹن بھی انٹرنیٹ پر ہر وقت موجود رہنے کے باوجود صرف اخلاق باختگی کا پیکر نظر آتا ہے۔ (جنابِ عالی: ص ۴۴)

* کسی خاتون کا خاکہ لکھنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ایٹمی دھماکہ کرنا۔ ایٹمی دھماکہ کرنے سے پہلے جس طرح ہزار بار سوچنا پڑتا ہے، چاروں اطراف میں وفود بھیجنے پڑتے ہیں، رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے لے لئے جتن کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بعد جس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس طرح کے تابکاری اثرات پھیلتے ہیں اور جس طرح تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اس سے صرف دو شخصیات واقف ہیں، اول الذکر میاں نواز شریف اور مؤخر الذکر یہ خاکسار۔ (آپی دھاپا: ص ۷۵)

* اس دوران آپ اسے سلام کر لیں، گالی دے لیں یا اس کے سامنے سے چپ چاپ گزر جائیں، وہ کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس وقت کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہو گا۔ اور ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس وقت ایسی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے جس سے صرف ایک ماں، شاعر یا بھینس واقف ہیں۔ یہ ماں شاعر اور بھینس کی مثلث میں نے ارادتاً بیان کی ہے کیونکہ ایک تو باپ، نثر نگار اور بھینسا بہر حال اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور فریقِ ثانی کی مذکورہ کیفیت کے دوران بھی مزے سے ڈکارتے رہتے ہیں، دوسرے بھینس انور مسعود کا محبوب استعارہ ہے۔ (مجمع باز: ص۳۵)

* سر تا سر مشکل ہی مشکل، سر بالخصوص مشکل، چہرے پر مشکل سی نیم متشرع داڑھی جو ہر مسلک اور ہر وضع کے لوگوں کو دھوکا دے جاتی ہے۔ شریعت، وضع داری اور دنیا داری کے اصولوں پر مرتّبہ یہ داڑھی اظہارالحق کے چہرے کا پہلا عکس ہے۔ داڑھی کے بعد آنے والی جزئیات اگرچہ زیادہ اسلام پسند نہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں اسلام بتدریج نافذ ہو رہا ہے اس لئے پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ (اظہار بھی مشکل ہے:ص ۲۹)

سلمان باسط نے ہلکے پھلکے انداز میں مختلف شخصیات کا مطالعہ ایک انسان، ایک خاک کے پُتلے کے طور پر کیا ہے اور حتی الوسع فن کو نہیں چھیڑا۔ خاکہ لکھتے ہوئے بھی وہ متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے انشائیہ کے انداز پر لفظیات بھی اپنی تراشی ہیں اور تشبیہات ایسی اختراع کی ہیں کہ وہ جہاں جمالیات کے روائتی تقاضوں کو پورا کرتی ہیں وہیں دورِ حاضر کے ادبی رویّوں کو بھی خوبی سے اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، اور سلمان باسط کی جدت طرازی کا مظہر ہیں۔ مثال کے طور پر: سردیوں کی اونگھتی ہوئی دوپہر، دو چار بے ترتیب زلفیں اور شعر پڑھنے کا لچکیلا انداز، بورژوائی ترقی پسندی، خبردار قسم کی ناک، افسانوی قرضے، غلط العام الفاظ کا دلیرانہ درست استعمال، ایمان زدہ قلوب، شخصیت کا مقدور بھر تأثر، چنی سی انگریزی ... وغیرہ

خاکوں کے عنوانات کی معنویت اور ’’فردِ خاکہ‘‘ کے ساتھ اس کی مناسبت سلمان باسط کی قوّتِ مشاہدہ اور باریک بینی بلکہ چیرہ نگاہی کا بے مثل ثبوت ہیں۔ یہ کتاب چودہ افراد کے مطالعے کا ایسا مجموعہ ہے جو نہ صرف انشاء نگاری کی ایک خوبصورت مثال ہے، بلکہ خاکہ نگاری کی روائت میں ’’اگلا قدم‘‘ کہلانے کی بجا طور پر مستحق ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
صد نامہ نوشتیم و جوابی ننوشتند
این ہم کہ جوابی ننوشتند جواب است
۔۔۔۔ امیر حسن دہلوی​
پنجابی ترجمہ از محمد یعقوب آسیؔ ۔۔
سو چٹھیاں گھلیاں سجناں نوں پر نہ اودھروں آیا جواب کوئی
ایہ جواب جے نہیں تے ہور کیہ اے، گل ایڈی وی نہیں عُجاب کوئی
۔۔۔۔ ۱۱ ۔ اپریل ۲۰۱۴ ۔۔​
پنجابی میں دقت محسوس کرنے والے دوستوں کے لئے اردو میں سادہ ترجمہ:۔
ہم نے سو خط لکھے اور انہوں نے ایک کا جواب بھی نہیں دیا۔ ان کا جواب نہ دینا بھی جواب ہی تو ہے!۔

10245573_456285064514957_6018389505637644160_n.jpg


فارسی شعر جناب محمد وارث کی ایک پوسٹ سے لیا ہے۔
 
اس فقیر کی ایک مختصر تحریر ۔ ’’آپ کا کتا مر گیا سرکار‘‘ ۔
آواز : عابد علی بیگ (بیگ صاحب ہانگ کانگ ریڈیو کے اردو نشریہ ’’ہانگ کانگ کی شام‘‘ کے انچارج ہیں۔ ریڈیو نشریات صدا کاری سے انتظام و انصرام تک کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں)۔

https://www.facebook.com/yaqub.assy/posts/457014201108710?stream_ref=5

یہ آڈیو اتوار ۲۰ ۔ اپریل ۲۰۱۴ کےنشریہ میں شامل ہو گی۔ ان شاء اللہ
پاکستان سٹینڈارد ٹائم کے مطابق رات آٹھ سے نو بجے تک۔
 
آخری تدوین:
بہ ہر بلا کہ کنی مبتلا قبولِ دل است
کہ چاشنی ندہد عشق بے بلا ہرگز
۔۔(نظیری نیشا پوری)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ پنجابی منظوم ترجمہ کی کوشش (فی البدیہہ)۔
اساں دلوں قبولیاں ساریاں، جویں دل کرے اَزمائے
جیہڑا کھچ نہ مارے جند نوں، اوہ عشق سواد نہ کائے
۔۔۔۔۔۔ فقط: محمد یعقوب آسی

بہ شکریہ جناب محمد وارث
 
آخری تدوین:
پوسٹ: محمد وارث صاحب (فیس بک)

گماں مبر کہ تو چوں بگذری جہاں بگذشت
ہزار شمع بکشتند و انجمن باقیست
۔۔۔۔۔ کلام : عرفی شیرازی​

۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ترجمہ: محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ تازہ بہ تازہ

تیرے مریاں جگ نہیں مکدا، ایویں سوچ نکمّی
بال ہزار بجھائے دیوے، محفل پھر وی جمّی​


محمد وارث صاحب
 
10294492_463337953809668_5098866762576939024_n.jpg

غزل ۔۔۔ میرزا قتیل
ما را بغمزہ کُشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوی ما ندید و حیا را بہانہ ساخت
زاہد نداشت تابِ جمالِ پری رُخان
کُنجی گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت
رفتم بمسجدی کہ ببینم جمالِ دوست
دستی بہ رُخ کشید و دعا را بہانہ ساخت
دستی بدوشِ غیر نہاد از رَہِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

ترجمہ از محمد یعقوب آسیؔ
۲۴؍ اپریل ۲۰۱۴ء
سانوں کُٹّھا ناز ادا تھیں، اَتے گھڑیوس پَج قضا
نظراں نہیں آپ ملاوندا اَکھے ڈَکے لاج حیا
ملاں دا جِگرا نہیں سی جھل سکدا حسن جمال
اک نکرے لگ کے بہہ گیا، جیوں پکڑی یاد خدا
اسیں ویکھن سوہنے یار نوں جا اپڑے وچ مسیت
اُس بُک وچ مکھ لکو لیا، جیوں رُجّھا وچ دعا
ہتھ موہڈے رکھ رقیب دے جاندا سی نال پریت
اَتے موچ بہانہ ماریا جدوں سانوں ویکھ لیا
............

جناب محمد وارث کی خصوصی توجہ کے لئے۔
 
10172632_466958766780920_651153381525609506_n.jpg


علامہ اقبال ۔۔ بالِ جبریل

پروانہ اور جگنو
پروانہ
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو
جگنو
اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ نہیں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی ترجمہ ۔۔ محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ ۳۰ ؍ اپریل ۲۰۱۴ء

ٹَٹَیہنا تے بھَمَکَّڑ
بھمکڑ
میری منزل تیتھوں دور دراز، ٹَٹَیہنے!
ٹھنڈی اگ تے کردا پھردا ایں ناز، ٹَٹَیہنے!
ٹٹیہنا
شکر خدا دا میں نہیں تیرے ہار، بھَمَکَّڑ!
اگ پرائی پِنَّن ٹُریوں، یار بھَمَکَّڑ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
10154294_466774893465974_5547063034083385406_n.jpg


۔۔۔۔۔ چندر بھان برہمن
ما حالِ دلِ خویش نہفتیم و نگفتیم
شب تا سحر از درد نخفتیم و نگفتیم
۔۔۔۔۔ پنجابی ترجمہ
دل تے بیتی لوکاں کولوں اسیں لکائی، دسّی نہیں
پیڑاں اندر رات وہانی، نیند نہ آئی، دّسی نہیں
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ 30 اپریل 2014 ۔ —
 
اوراقِ پریشاں
ملک جعفر خان اعوان مرحوم کی غیر مطبوعہ شاعری کا مختصر مطالعہ
(محترمی ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کی خواہش کے احترام میں)
غم ہائے زندگی سے ملے زندگی کے راز
اک عمر مشکلوں میں گزاری تو کیا ہوا

چند آنسو ہیں چند یادیں ہیں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے

ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو سے میں نے اخذ کیا کہ ملک جعفر خان اعوان کو دو سانسوں کے تار سے جڑے رہناکبھی سہل نہیں رہا۔ انسانی زندگی گونا گوں حوادث سے عبارت ہے۔ شکست و ریخت، رنج و الم اور حزن و ملال ہی نہیں جو زندگی کو امتحان بنا دیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواہشیں، آرزوئیں، امیدیں بھی درد بن جاتی ہیں اور دل و جان عجیب اضطراب و اضطرار سے دو چار ہوتے ہیں۔

یہ دو سانسوں کا جینا کس قدر مشکل بنایا ہے
کہاں کی خاکِ مضطر سے ہمارا دل بنایا ہے
شہزاد عادلؔ

بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، جیسے تیسے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور اردو فاضل کر کے مدرس بن گئے۔ جب بزرگ سر پر نہ رہیں تو انسان فطری طور پر اپنے ہوتوں سوتوں کی طرف دیکھتا ہے۔ جعفر خان کو ادھر سے کوئی ڈھارس تو کیا ملتی، الٹے کچوکے ملے۔ فنکارانہ حساسیت ان کے کلام میں کچھ یوں جھلکتی ہے:

میں فنکار افلاس کا مارا میری کیا اوقات
جوں توں کر کے دن کٹتا ہے، ایسے تیسے رات

میں نے ہواؤں میں بوئے تے آشاؤں کے پیڑ
میرے دل تو دیکھ رہا ہے میرے خالی ہاتھ

وہ تو یوں کہئے کہ فطرت نے جعفر خان کو اظہار کے سلیقے سے نوازا اور وہ اپنی وارداتِ جسم و جان کو لفظ میں ڈھال کر کسی قدر ہلکا پن محسوس کر لیتے ہوں گے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اظہارِ ذات کے لئے بھی ان کو فرضی ناموں کا سہارا لینا پڑا۔

جن پہ سنگِ ملامت کی بارش ہوئی
ایک میں ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں

فرضی ناموں سے شائع ہونے والے فن پاروں کو کھوج نکالنا تحقیق کار کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ یوں میں ڈاکٹر رفعت اقبال کی لگن اور محنت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کو ایک اور مشکل بھی درپیش رہی ہے۔ جعفر خان کی ادبی سرگرمیاں، ادبی حلقوں میں آنا جانا یقیناً بہت محدود رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں لب و عارض اور خال و خد کا تذکرہ خال خال ملتا ہے۔اور اس میں بھی تلخئِ ایام در آئی ہے۔

جاگ اٹھی ہیں سلگتی یادیں
گفتگو کس کے بیاں تک پہنچی

پہلے شکوہ تھا صرف آپ کی ذات سے
اب کبھی آپ ہیں اور کبھی لوگ ہیں

پل رہی ہے جو آرزو دل میں
سوچتا ہوں زباں نہ ہو جائے

شاخِ نازک پہ آشیانہ مرا
کاوشِ رائیگاں نہ ہو جائے

دنیا کو چھوڑ چھاڑ ترے پاس آئے تھے
مدت ہوئی ہے تجھ سے بھی دل ہے اٹھا ہوا

جب غمِ روزگار کے کانٹے اور اپنے خون کے رشتوں کے نشتر ہر تارِ جاں کو زخمی کر رہے ہوں تو شیخ سعدی کے اس شعر کا کرب تازہ ہو جاتا ہے کہ:

چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق

بہ این ہمہ وارداتِ قلب؛ سید علی مطہر اشعر کے الفاظ میں ’’تعلقِ خاطر‘‘؛ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ تعلق اظہار چاہتا ہے۔ ایسے میں حالات کا مارا ہوا دلِ زار بے اختیار چیخ اٹھتا ہے کہ:

چھین لے مجھ سے مرا عشق زمانے کی طرح
یا درِ حُسن سے پُرکیف صدا دے مجھ کو

بات ادبی حلقوں میں آنے جانے کی ہو رہی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی کوئی باک نہیں رہا کہ اظہار کی تربیت میں یہ حلقے جامعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جعفر خان کو غمِ نانِ جوین نے ان جامعات سے کسبِ فیض کی بہت کم مہلت دی۔لہٰذا ادب کا نازک ذوق رکھنے والا قاری شاید اس طور سرشارنہ ہو سکے جس طور وہ کسی بڑے شاعر کا کلام پڑھ کر ہوتا ہے، تاہم ان کے اندر کا شاعر اتنا مضبوط ضرور ہے کہ اس کے قاری کو کسی رد و کد سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ جعفر خان کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی اور ان کی شاعری طاقِ نسیاں کا حصہ بن چکی ہوتی اگر ڈاکٹر رفعت اقبال اپنی شاگردانہ ذمہ داری کو پورا کرنے کا بیڑا نہ اٹھا لیتے۔ انہوں نے اپنے اسکول کے استاد کا کلام کہاں کہاں سے کس طرح جمع کیا مجھے اس کا اندازہ تو نہیں تاہم میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت اگر اردو ادب کو سو پچاس یادگار شعر بھی دان کر دے تو یہ کم نہیں ہے۔ جعفر خان کے کچھ یاد رہ جانے والے شعر نقل کر رہا ہوں۔

غم کی آندھی، درد کے جھکڑ، ساون تیری یاد
طوفانوں میں دیپ جلائیں ہم دیوانے لوگ

پتا ٹوٹے تو زنداں میں رو رو کاٹیں رات
پھول کھلے تو جشن منائیں ہم دیوانے لوگ

پا برہنہ تھے سروں پر بھی کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح تو دشت میں کوئی کبھی آیا نہ تھا

تو بھی الجھ رہا تھا اُدھر آسمان سے
میں بھی گھرا ہوا تھا اِدھر ناخداؤں میں

جبر کا حبس ہے مگر ہم لوگ
تان کر سوئے رات بھر ہم لوگ

بپھری ہوئی موجیں رہیں آمادۂ طوفاں
ٹھہرے ہوئے پانی کو بہت پاسِ ادب ہے

بزمِ جفا میں ذکرِ تہی دامنی نہ چھیڑ
اک غم ہے اور وہ بھی کسی کا دیا ہوا

گل فسردہ روش روش ویراں
کس ادا سے بہار آئی ہے

اپنے تمام ذاتی رنج و آلام اور محرومیوں کے باوجود جعفر خان اپنی ذات تک محدود ہو کر نہیں رہ گئے نلکہ انہوں نے گرد و پیش میں بگڑتے ہوئے منظر نامے کو مادی اور انسانی دونوں سطحوں پر دیکھا ہے اور اس کا اظہار بھی بہت دل زدگی کے ساتھ کیا ہے۔

آج ان کو بھی فضائے شہرِ شب راس آ گئی
جان دیتے تھے جو کل تک صبح کے آثار پر

ڈھولک کی تھاپ کوئی نہ ٹپے کا کوئی بول
پوچھیں تو آج کس سے پتہ اپنے گاؤں کا

رُت کچھ اس انداز سے بدلی کہ رونا آ گیا
گلشنوں میں راستے، کھیتوں میں گھر اُگنے لگے

درد کے سورج نے جعفرؔ ہم کو بخشی وہ ضیا
ادھ کھلی آنکھوں میں خوابوں کے نگر اُگنے لگے

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سختیاں انسان کو تھکا دیتی ہیں اور اس کی ہمتیں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔ جعفر خان کو انسانی کمزوریوں اور شورشوں دونوں کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس میں اپنے قاری کو بھی مؤثر طور پر شریک کرتے ہیں۔ اس مؤثر شرکت کے لئے شاعر اور قاری دونوں کا حقیقت شناس ہونا بہت لازم ہے۔ ان کا انہتر سالہ زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے قاری تک کچھ اس بے قراری کے ساتھ پہنچتا ہے کہ وہ لفظوں کی تڑپ اور تلخی کو کما حقہٗ محسوس کر سکے۔

اب ذرا بیٹھ کے رو لیتے ہیں
اتنی فرصت بھی کہاں تھی پہلے

پانی مری رگوں میں رواں ہے بجائے خون
محنت نے میرے جسم سے چکنائی چھین لی

زندگی سے فرار ممکن ہے
تیرے غم سے فرار، ناممکن

جلتے ہیں اپنی سوچ کے دوزخ میں رات دن
ہم سے زیادہ کون ہمارا عدو ہوا

جعفرؔ ہمیں نے کوئی توجہ نہ دی کبھی
اس زندگی کے ورنہ تقاضے ہزار تھے

جعفر خان کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب وہ اپنی عمر بھی کی تگ و دو کو لاحاصل خیال کرتے ہیں۔

کوئی منزل نہ منزل کا نشاں ہے
غبارِ کارواں ہے اور میں ہوں

منزلیں میری حدِ ادراک سے بھی دور تھیں
تیرے نقشِ پا کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں

تاہم انہیں اتنا اطمینان ضرور ہے کہ:

ساحل کا شور بحر کی موجوں میں کھو گیا
طوفان کام کر گیا اپنی صداؤں کا

ہم اجڑ جائیں کہ آباد رہیں
تیری تقدیر بنا دی ہم نے

اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے جعفر خان کی غزل اور نظم دونوں اردو کی شعری روایت سے مضبوطی کے ساتھ منسلک ہیں اور روایت کا سفر جاری ہے۔ چند ایک نظمیں جو مجھ تک پہنچی ہیں وہ بھی پابند نظمیں ہیں اور غزلیہ انداز میں ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنی زمین اور تہذیب کا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ وسعتِ مطالعہ، شعری وجدان، قوتِ مشاہدہ اور تجزیہ، اسلوب کی سادگی، انشا پردازی، مضمون بندی، مضمون آفرینی، فکری تازگی اور قاری کے ساتھ سانجھ ان کی غزلوں کا خاصہ ہیں۔ انہوں نے جیتی جاگتی شاعری کی ہے جو کہیں بھی جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ چند مزید اشعار ملاحظہ ہوں:

غم کے ماروں نے یہ سوچا اکثر
فصلِ گل تھی کہ خزاں تھی پہلے

جب اڑا کر لے چلی آندھی بدن کی راکھ بھی
میں تمہارے شہر میں آیا گیا پھرتا رہا

یہ دریا کہہ رہا تھا تشنگاں سے
مجھے، آقا! بڑی شرمندگی ہے

الجھنوں کا بیان کیا کیجے
ایک ممکن ہزار ناممکن

مسکراتی گنگناتی زندگی ہوتی اگر
مسکرانے والے لوگو! مسکراتے ہم ضرور

*****

محمد یعقوب آسیؔ ..... ۶؍ مئی ۲۰۱۴ء


کوائف

ملک جعفر خان اعوان ولدِ سردار محمد اسلم خان
پیدائش: ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۳ء (موضع ناڑا، تحصیل جنڈ)، ضلع اٹک
تعلیم: میٹرک ، فاضل اردو
پیشہ: تدریس (سکول کی سطح پر)
بڑے مسائل: بچپن میں والد کی وفات، اہل خاندان کا برا سلوک، مشکل مالی حالات
آغازِ شاعری: ۱۹۵۸ ... فرضی ناموں سے لکھتے رہے
رکنیت: حلقۂ ادب اٹک، مجلسِ ادب اٹک
شعری مجموعہ: ندارد
ماخوذ از: ’’اٹک کے اہلِ قلم‘‘ مرتبہ: ارشد محمود ناشادؔ ( جون ۲۰۰۰ء)، پنجابی ادبی سنگت اٹک

وفات: ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۲ء (بہ حوالہ: ڈاکٹر رفعت اقبال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
اوراقِ پریشاں
ملک جعفر خان اعوان مرحوم کی غیر مطبوعہ شاعری کا مختصر مطالعہ
(محترمی ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کی خواہش کے احترام میں)
غم ہائے زندگی سے ملے زندگی کے راز
اک عمر مشکلوں میں گزاری تو کیا ہوا

چند آنسو ہیں چند یادیں ہیں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے

ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو سے میں نے اخذ کیا کہ ملک جعفر خان اعوان کو دو سانسوں کے تار سے جڑے رہناکبھی سہل نہیں رہا۔ انسانی زندگی گونا گوں حوادث سے عبارت ہے۔ شکست و ریخت، رنج و الم اور حزن و ملال ہی نہیں جو زندگی کو امتحان بنا دیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواہشیں، آرزوئیں، امیدیں بھی درد بن جاتی ہیں اور دل و جان عجیب اضطراب و اضطرار سے دو چار ہوتے ہیں۔

یہ دو سانسوں کا جینا کس قدر مشکل بنایا ہے
کہاں کی خاکِ مضطر سے ہمارا دل بنایا ہے
شہزاد عادلؔ

بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، جیسے تیسے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور اردو فاضل کر کے مدرس بن گئے۔ جب بزرگ سر پر نہ رہیں تو انسان فطری طور پر اپنے ہوتوں سوتوں کی طرف دیکھتا ہے۔ جعفر خان کو ادھر سے کوئی ڈھارس تو کیا ملتی، الٹے کچوکے ملے۔ فنکارانہ حساسیت ان کے کلام میں کچھ یوں جھلکتی ہے:

میں فنکار افلاس کا مارا میری کیا اوقات
جوں توں کر کے دن کٹتا ہے، ایسے تیسے رات

میں نے ہواؤں میں بوئے تے آشاؤں کے پیڑ
میرے دل تو دیکھ رہا ہے میرے خالی ہاتھ

وہ تو یوں کہئے کہ فطرت نے جعفر خان کو اظہار کے سلیقے سے نوازا اور وہ اپنی وارداتِ جسم و جان کو لفظ میں ڈھال کر کسی قدر ہلکا پن محسوس کر لیتے ہوں گے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اظہارِ ذات کے لئے بھی ان کو فرضی ناموں کا سہارا لینا پڑا۔

جن پہ سنگِ ملامت کی بارش ہوئی
ایک میں ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں

فرضی ناموں سے شائع ہونے والے فن پاروں کو کھوج نکالنا تحقیق کار کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ یوں میں ڈاکٹر رفعت اقبال کی لگن اور محنت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کو ایک اور مشکل بھی درپیش رہی ہے۔ جعفر خان کی ادبی سرگرمیاں، ادبی حلقوں میں آنا جانا یقیناً بہت محدود رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں لب و عارض اور خال و خد کا تذکرہ خال خال ملتا ہے۔اور اس میں بھی تلخئِ ایام در آئی ہے۔

جاگ اٹھی ہیں سلگتی یادیں
گفتگو کس کے بیاں تک پہنچی

پہلے شکوہ تھا صرف آپ کی ذات سے
اب کبھی آپ ہیں اور کبھی لوگ ہیں

پل رہی ہے جو آرزو دل میں
سوچتا ہوں زباں نہ ہو جائے

شاخِ نازک پہ آشیانہ مرا
کاوشِ رائیگاں نہ ہو جائے

دنیا کو چھوڑ چھاڑ ترے پاس آئے تھے
مدت ہوئی ہے تجھ سے بھی دل ہے اٹھا ہوا

جب غمِ روزگار کے کانٹے اور اپنے خون کے رشتوں کے نشتر ہر تارِ جاں کو زخمی کر رہے ہوں تو شیخ سعدی کے اس شعر کا کرب تازہ ہو جاتا ہے کہ:

چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق

بہ این ہمہ وارداتِ قلب؛ سید علی مطہر اشعر کے الفاظ میں ’’تعلقِ خاطر‘‘؛ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ تعلق اظہار چاہتا ہے۔ ایسے میں حالات کا مارا ہوا دلِ زار بے اختیار چیخ اٹھتا ہے کہ:

چھین لے مجھ سے مرا عشق زمانے کی طرح
یا درِ حُسن سے پُرکیف صدا دے مجھ کو

بات ادبی حلقوں میں آنے جانے کی ہو رہی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی کوئی باک نہیں رہا کہ اظہار کی تربیت میں یہ حلقے جامعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جعفر خان کو غمِ نانِ جوین نے ان جامعات سے کسبِ فیض کی بہت کم مہلت دی۔لہٰذا ادب کا نازک ذوق رکھنے والا قاری شاید اس طور سرشارنہ ہو سکے جس طور وہ کسی بڑے شاعر کا کلام پڑھ کر ہوتا ہے، تاہم ان کے اندر کا شاعر اتنا مضبوط ضرور ہے کہ اس کے قاری کو کسی رد و کد سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ جعفر خان کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی اور ان کی شاعری طاقِ نسیاں کا حصہ بن چکی ہوتی اگر ڈاکٹر رفعت اقبال اپنی شاگردانہ ذمہ داری کو پورا کرنے کا بیڑا نہ اٹھا لیتے۔ انہوں نے اپنے اسکول کے استاد کا کلام کہاں کہاں سے کس طرح جمع کیا مجھے اس کا اندازہ تو نہیں تاہم میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت اگر اردو ادب کو سو پچاس یادگار شعر بھی دان کر دے تو یہ کم نہیں ہے۔ جعفر خان کے کچھ یاد رہ جانے والے شعر نقل کر رہا ہوں۔

غم کی آندھی، درد کے جھکڑ، ساون تیری یاد
طوفانوں میں دیپ جلائیں ہم دیوانے لوگ

پتا ٹوٹے تو زنداں میں رو رو کاٹیں رات
پھول کھلے تو جشن منائیں ہم دیوانے لوگ

پا برہنہ تھے سروں پر بھی کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح تو دشت میں کوئی کبھی آیا نہ تھا

تو بھی الجھ رہا تھا اُدھر آسمان سے
میں بھی گھرا ہوا تھا اِدھر ناخداؤں میں

جبر کا حبس ہے مگر ہم لوگ
تان کر سوئے رات بھر ہم لوگ

بپھری ہوئی موجیں رہیں آمادۂ طوفاں
ٹھہرے ہوئے پانی کو بہت پاسِ ادب ہے

بزمِ جفا میں ذکرِ تہی دامنی نہ چھیڑ
اک غم ہے اور وہ بھی کسی کا دیا ہوا

گل فسردہ روش روش ویراں
کس ادا سے بہار آئی ہے

اپنے تمام ذاتی رنج و آلام اور محرومیوں کے باوجود جعفر خان اپنی ذات تک محدود ہو کر نہیں رہ گئے نلکہ انہوں نے گرد و پیش میں بگڑتے ہوئے منظر نامے کو مادی اور انسانی دونوں سطحوں پر دیکھا ہے اور اس کا اظہار بھی بہت دل زدگی کے ساتھ کیا ہے۔

آج ان کو بھی فضائے شہرِ شب راس آ گئی
جان دیتے تھے جو کل تک صبح کے آثار پر

ڈھولک کی تھاپ کوئی نہ ٹپے کا کوئی بول
پوچھیں تو آج کس سے پتہ اپنے گاؤں کا

رُت کچھ اس انداز سے بدلی کہ رونا آ گیا
گلشنوں میں راستے، کھیتوں میں گھر اُگنے لگے

درد کے سورج نے جعفرؔ ہم کو بخشی وہ ضیا
ادھ کھلی آنکھوں میں خوابوں کے نگر اُگنے لگے

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سختیاں انسان کو تھکا دیتی ہیں اور اس کی ہمتیں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔ جعفر خان کو انسانی کمزوریوں اور شورشوں دونوں کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس میں اپنے قاری کو بھی مؤثر طور پر شریک کرتے ہیں۔ اس مؤثر شرکت کے لئے شاعر اور قاری دونوں کا حقیقت شناس ہونا بہت لازم ہے۔ ان کا انہتر سالہ زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے قاری تک کچھ اس بے قراری کے ساتھ پہنچتا ہے کہ وہ لفظوں کی تڑپ اور تلخی کو کما حقہٗ محسوس کر سکے۔

اب ذرا بیٹھ کے رو لیتے ہیں
اتنی فرصت بھی کہاں تھی پہلے

پانی مری رگوں میں رواں ہے بجائے خون
محنت نے میرے جسم سے چکنائی چھین لی

زندگی سے فرار ممکن ہے
تیرے غم سے فرار، ناممکن

جلتے ہیں اپنی سوچ کے دوزخ میں رات دن
ہم سے زیادہ کون ہمارا عدو ہوا

جعفرؔ ہمیں نے کوئی توجہ نہ دی کبھی
اس زندگی کے ورنہ تقاضے ہزار تھے

جعفر خان کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب وہ اپنی عمر بھی کی تگ و دو کو لاحاصل خیال کرتے ہیں۔

کوئی منزل نہ منزل کا نشاں ہے
غبارِ کارواں ہے اور میں ہوں

منزلیں میری حدِ ادراک سے بھی دور تھیں
تیرے نقشِ پا کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں

تاہم انہیں اتنا اطمینان ضرور ہے کہ:

ساحل کا شور بحر کی موجوں میں کھو گیا
طوفان کام کر گیا اپنی صداؤں کا

ہم اجڑ جائیں کہ آباد رہیں
تیری تقدیر بنا دی ہم نے

اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے جعفر خان کی غزل اور نظم دونوں اردو کی شعری روایت سے مضبوطی کے ساتھ منسلک ہیں اور روایت کا سفر جاری ہے۔ چند ایک نظمیں جو مجھ تک پہنچی ہیں وہ بھی پابند نظمیں ہیں اور غزلیہ انداز میں ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنی زمین اور تہذیب کا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ وسعتِ مطالعہ، شعری وجدان، قوتِ مشاہدہ اور تجزیہ، اسلوب کی سادگی، انشا پردازی، مضمون بندی، مضمون آفرینی، فکری تازگی اور قاری کے ساتھ سانجھ ان کی غزلوں کا خاصہ ہیں۔ انہوں نے جیتی جاگتی شاعری کی ہے جو کہیں بھی جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ چند مزید اشعار ملاحظہ ہوں:

غم کے ماروں نے یہ سوچا اکثر
فصلِ گل تھی کہ خزاں تھی پہلے

جب اڑا کر لے چلی آندھی بدن کی راکھ بھی
میں تمہارے شہر میں آیا گیا پھرتا رہا

یہ دریا کہہ رہا تھا تشنگاں سے
مجھے، آقا! بڑی شرمندگی ہے

الجھنوں کا بیان کیا کیجے
ایک ممکن ہزار ناممکن

مسکراتی گنگناتی زندگی ہوتی اگر
مسکرانے والے لوگو! مسکراتے ہم ضرور

*****

محمد یعقوب آسیؔ ..... ۶؍ مئی ۲۰۱۴ء


کوائف

ملک جعفر خان اعوان ولدِ سردار محمد اسلم خان
پیدائش: ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۳ء (موضع ناڑا، تحصیل جنڈ)، ضلع اٹک
تعلیم: میٹرک ، فاضل اردو
پیشہ: تدریس (سکول کی سطح پر)
بڑے مسائل: بچپن میں والد کی وفات، اہل خاندان کا برا سلوک، مشکل مالی حالات
آغازِ شاعری: ۱۹۵۸ ... فرضی ناموں سے لکھتے رہے
رکنیت: حلقۂ ادب اٹک، مجلسِ ادب اٹک
شعری مجموعہ: ندارد
ماخوذ از: ’’اٹک کے اہلِ قلم‘‘ مرتبہ: ارشد محمود ناشادؔ ( جون ۲۰۰۰ء)، پنجابی ادبی سنگت اٹک

وفات: ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۲ء (بہ حوالہ: ڈاکٹر رفعت اقبال)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

مضمون درجِ بالا (جواب نمبر 276) میں یہ ایک سطر قلم زد کر دی ہے۔
(محترمی ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کی خواہش کے احترام میں)

علاوہ ازین جہاں جہاں ’’جعفر خان‘‘ لکھا ہے، اس کو ’’جعفر ملک‘‘ پڑھئے گا۔ کہ فاضل محقق کا یہی مؤقف ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت اعلی!
جو اونچی فضاؤں میں اڑے گا وہ گرے گا
اک فرش نشیں گر بھی اگر جائے تو کیا ہے
 
بہت رستہ پڑا ہے

زاہدہ رئیس راجی کا اولین شعری مجموعہ ’’خواب گھروندا‘‘ ... ایک مطالعہ

*****


ذات کے ادراک میں راجی کہاں تک آ گئی

ورنہ شاید زاہدہ سے شاعری ممکن نہ تھی


شعر کوئی کی طرف اولین احساس شاید یہی ذات کا ادراک ہے، جو متنوع مراحل سے گزرتا ہوا اظہار تک پہنچتا ہے۔ یہ اظہار قاری اور شاعر کے مابین ایک رشتہ قائم کرتا ہے، حرف کا رشتہ۔ ادراک سے اظہار تک کا سفر اپنی ہی نوعیت کا سفر ہے کہ مسافر کا پہلا قدم مکمل بے سر و سامانی کے عالم میں اٹھتا ہے اور وہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس سفر کی دھول، تھکن، آبلے، ولولے، شوق، حوصلے، اس کے لئے زادِ راہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اس بات کو کچھ یوں بیان کرنے کی کوشش کی ہے:

چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں

قلم کا سفر، خود ہی زادِ سفر ہے


میں زاہدہ رئیس راجی کو اُس کے اسی زادِ راہ کے حوالے سے جانتا ہوں۔ مناسب تر الفاظ میں میرے پاس اس کے تعارف کا ثانوی ذریعہ وہ بہت مختصر تعارف ہے جو اس نے میرے استفسار پر پیش کیا، تاہم اساسی ذریعہ اس کا یہ ’’خواب گھروندا‘‘ ہے جس کی طرف اس کا سفر جاری ہے۔ وہ اسی زادِ راہ کی بات کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’ادب کی کون سی صنف میں کب لکھنا ہے اور کیا لکھنا ہے اس کا فیصلہ خود بہ خود ہوتا چلا گیا‘‘۔ ایک تخلیقی ذہن کے پروان چڑھنے میں یہ رویہ بہت ممد ثابت ہوتا ہے کہ صنفی یا موضعاتی حوالے سے خود پر کوئی پابندی نہ لگائی جائے، ادب کی اَقدار کا پاس بہر حال کرنا ہوتا ہے اور انہیں اقدار کے منسلک رہ کر اپنی شناخت حاصل کرنا حرف کے سفر میں اہم کامیابی ہوتی ہے۔ یہ کہنا تو خیر مشکل ہے کہ زاہدہ نے اردو شعر میں اپنی شناخت بنا لی ہے۔ اس کا یہ اولین شعری مجموعہ دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ شناخت کی منزل اس سے بہت دور نہیں ہے، تاہم اس کو ابھی بہت محنت کرنی ہو گی۔ میں ادریس آزاد سے متفق ہوں کہ: ’’اس کے اندر محنت کا عنصر کم ہے، البتہ ہ یہ ضرور جانتی ہے کہ پامال ہوئے بغیر کوئی راستہ منزل تک نہیں جا سکتا‘‘۔ فاضل مضمون نگار میرے منہ کی بات مجھ سے بہتر انداز میں کہہ گئے کہ: ’’زاہدہ کو بھی ہر شاعر بلکہ ہر انسان کی طرح ہمیشہ پہلے سے بہتر ہونے کی نہ صرف طلب ہے بلکہ ضرورت بھی ہے‘‘۔ قلم اور خاص طور پر شعر میرے نزدیک اکتسابی چیز نہیں، کوئی شخص یا تو شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ ہم کسی غیرشاعر کو شاعر نہیں بنا سکتے، ایک کمزور شاعر محنت کر کے اچھا شاعر بن سکتا ہے۔ زیرِنظر کتاب میں معدودے چند فرگزاشتیں ہیں جو غالباً بلوچی اور اردو تلفظ اور تذکیر و تانیث کے فرق کا شاخسانہ ہیں یا پھر کتابت کی اغلاط رہی ہوں گی۔ بہ این ہمہ زاہدہ کا شمار کمزور شاعروں میں نہیں ہوتا، بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہا کرتی ہے۔ بالفاظِ دیگر شعر کا سفر جاری رہتا ہے اور اس میں ہر اگلا قدم نیا زادِ راہ فراہم کرتا ہے۔


شعر کہنا کسی مفرد احساس یا عمل سے تکمیل پذیر نہیں ہوا کرتا۔ اس میں شاعر کی شخصیت کے جملہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں؛ اس اضافے کے ساتھ کہ حرف کی آبیاری خونِ جگر سے کرنی ہوتی ہے۔ پروفیسر انور مسعود نے ایک طویل گفتگو کے دوران بہت پتے کی بات بتائی کہ انسان ایسی سادہ چیز بھی نہیں کہ ہم اس کا سالٹ انالیسس کر کے بتا سکیں کہ اس میں غصہ اتنا ہے، حساسیت اتنی ہے، شعور اتنا ہے، محبت اتنی ہے، نفرت اتنی ہے، ہم دردی اتنی ہے، خلوص اتنا ہے؛ وغیرہ۔ لہٰذا ہم شعر کا تجزیہ بھی ان خطوط پر نہیں کر سکتے، ہمیں اس سے بالاتر اور زیادہ فطری پیمانے درکار ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے معتبر پیمانہ شعری روایت ہے، جس میں یہ سارے عناصر اور مذہب، نظریات، عقائد، معاشرتی پس منظر اور پیش منظر، اندازِ فکر، ترجیحات، تمنائیں، مقاصد، ولولے، خدشات اور انسانی مابعدالطبیعیات شامل ہوتی ہیں۔

زاہدہ رئیس راجی کی شخصیت کا مجھے بہت تھوڑا اندازہ ہے۔ اس کا معروضی خاکہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے آباء و اجداد ایک شاندار بلوچی تہذیب کے مقتدر قبیلے سے ہیں، جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں اس سفید پوش طبقے میں ڈھل گئے ہیں جو اپنی شاندار تہذیبی روایات کو بہر طور عزیز رکھتا ہے۔ زاہدہ کے گھر میں بلوچی بولی جاتی ہے۔ طرزِ معاشرت وہی رئیسانی بلوچوں کا ہے، تاہم نصف صدی کے لگ بھگ کراچی شہر میں بود و باش کے اثرات سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس کا اثر زاہدہ کی لفظیات پر بھی پڑا ہے۔ اس کی مادری زبان کا رجحان اردو کی نسبت فارسی کی طرف زیادہ ہے، اور اس کی رسمی تعلیم بھی سائنسی علوم کی ہے، جہاں انگریزی سکہ چلتا ہے۔


اس تناظر میں زاہدہ کے یہ الفاظ بہت قیمتی ہو جاتے ہیں: ’’نثر سے ابتدائی سفر طے کرتے کرتے جب چودہ سال کی عمر میں اچانک اردو شعر گوئی کی دنیا میں پہلا قدم رکھا تو پیچھے ماسوائے ایک چیلنج کو قبول کرنے کے کوئی خاص وجہ تو نہیں تھی، لیکن پہلی شعری تخلیق کے پہلے مصرع ’’کتابِ شاعری میں درد کی دنیا بسی ہے کیوں‘‘ نے اندر کی شاعرہ کے بارے میں روزِ اول سے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ اس کے آگے کی منزلیں آسان نہیں ہیں‘‘۔ اس کے بعد زاہدہ نے کچھ مرحلے گِنوائے ہیں اور ناقدین کے اختیار کردہ متنوع بلکہ بسا اوقات متصادم معیارات کا شکوہ بھی کیا ہے۔ یہ امر اس کے ادبی سفر کی تفہیم میں اچھی خاصی مدد دیتا ہے۔


ہمیں جو کچھ اپنے بزرگوں سے حاصل ہوتا ہے وہ صرف مال و منال نہیں ہوتا، بلکہ حقیقی وراثت اقدار ہوتی ہیں، جو غیر محسوس طریقے پر ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ زاہدہ کا دامن ان اقدارِ پر وقار سے بھرا ہوا ہے۔


اس کے شعروں میں جہاں متانت غالب عنصر کے طور پر جھلکتی ہے، وہیں اعتماد اور شخصی وقار بھی رچا بسا ہے۔ اس نے عورت کی نمائندگی شاید اس انداز میں نہیں کی جیسی ہمیں دیگر بعض شاعرات کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نسائیت اپنی پوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہے تاہم ایک فرق کے ساتھ، جس کی مثال یوں سمجھئے کہ وہ بڑی ساری چادر میں لپٹی ہونے کے باوجود اپنی چال ڈھال سے ایسی خاتون دکھائی دیتی ہے، جو بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھا رہی ہو۔ بہ این ہمہ اس کی ذات میں چھپا ہوا کوئی بہت ہی گہرا اور بہت ہی ذاتی دکھ اپنے ہونے کا پتہ دے جاتا ہے، جسے وہ اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور شاید کسی کو ہمراز بھی نہیں بنانا چاہتی۔ اس کوشش میں اس کے اشعار میں کرب اور تلخی کی کیفیت شامل ہو جاتی ہے۔ اس نے زندگی کی پہلی سانس اب سے کوئی پینتیس برس پہلے یہیں کراچی میں لی۔ تب کراچی یقیناً ویسا نہیں تھا جیسا اب ہے۔یہ اس کا دوسرا کرب ہے۔ اگرچہ اس نے کراچی کی فضا کے بارے میں براہِ راست بہت کم شعر کہے ہیں تاہم اس کی شاعری میں یہ کرب بھی اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے۔ معاشرتی معاشی اخلاقی اور ثقافتی شکست و ریخت سے اٹے اس راستے پر زاہدہ اپنی خود اعتمادی، برداشت اور تنہائی کو ساتھ لئے زندگی کے سفر پر رواں ہے۔

ہواؤں کا سفر ہلکا نہیں تھا

مگر آنچل کبھی ڈھلکا نہیں تھا

دیکھ لو راجی خدا کے نور سے

شب کی آنکھوں میں ضیا کا راستہ

جب دل سے دعائیں اٹھتی ہیں

ملتی ہیں دوا کی تاثیریں


فطرت نے اسے لفظ کے ساتھ تعلق کی نعمتِ بیش بہا عطا کی، جس کا مختصر احوال ہم کتاب میں شامل اس کی خود نوشت میں دیکھ چکے ہیں۔ لفظ کی یہ متاع ساتھ لئے اس نے اپنے خارج سے داخل کی طرف سفر کی پہلی منزل سر کر لی ہے۔ ابھی اس کو اپنے داخل کی بھول بھلیوں میں بھی ایک طویل تر سفر درپیش ہے، جس کی تکمیل کے بعد اپنے داخل کو ساتھ لئے، اپنے خارج کی طرف آ کر اسے اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہونا ہے۔

کہاں منزل؟ ابھی تو

بہت رستہ پڑا ہے


جہاں رستہ بہت ہے وہیں اس کے پاس قابلِ قدر زادِ راہ بھی ہے جس میں سب سے قیمتی شے راستوں کے پیچ و خم کا ادراک ہے۔ اس کے پاس اعتماد اور عزم کی سواریاں بھی ہیں اور دعاؤں کا توشہ بھی ہے۔ تلخ تجربوں کے کانٹے بھی اسے درپیش ہیں اور خدشات کی دھول بھی اس کے سر پر اڑ رہی ہے۔ گزرے ہوئے سفر نے اسے دکھوں کی ٹیس بھی دی ہے، اور تھکن بھی۔ بہ این ہمہ اس کی جاگتی آنکھوں کے خواب ہیں جو اس کو روایات کے تپتے صحرا کے اس پار دکھائی دیتے ایک ننھے سے گھروندے کی طرف کشاں کشاں لئے جاتے ہیں۔

ان دِکھے خواب کی تعبیر لیے پھرتی ہے

جانے کس راہ پہ تقدیر لیے پھرتی ہے

روٹھ کر کیا گئی خوشی ہم سے

پھر ملاقات عمر بھر نہ ہوئی


زاہدہ کے اشعار میں مجھے اس کا ایک ایسا دکھ جھلکتا دکھائی دیا، جسے اس نے شاید کسی کے ساتھ بھی سانجھا نہیں کیا۔ ایک ایسا کرب جو اس کے اپنے نام کی معنویت سے متصادم ہوتا ہے تو اس کی سوچوں کو ایک تعمیری تخلیقی رخ دے جاتا ہے۔

نہ کوئی خواب ہے باقی نہ ہی خیال کوئی

بکھر گیا ہے مرا خواب زار آنکھوں میں

وہ بھی ماتم کناں ہوا راجی

جس نے کاٹے تھے میرے سارے پر

اپنے مابین کوئی تیسرا آیا ہی نہ تھا

فاصلہ بیچ کا پھر حد سے بڑھایا کس نے؟


اس غزل کا ایک مصرع ’’میں کہ پتھر تھی مجھے شیشہ بنایا کس نے‘‘ بہت سے ان دیکھے خوابوں کی کہانی سنا جاتا ہے۔ خود سے لڑتے لڑتے جب وہ بکھرنے لگتی ہے تو پکار اٹھتی ہے۔

تم نہ مانو گے کبھی اپنی خطائیں لیکن

کبھی فرصت میں مری بات پہ سوچا کرنا

تم چلے جاؤ، پلٹ کر نہیں دیکھیں تم کو

شرط یہ ہے کہ خیالوں سے نہ گزرا کرنا


زاہدہ رئیس راجی کی شاعری اس کے مضبوط امکانات کی نقیب ہے۔ اس جملے کے ساتھ میری بات، مکمل ہوتی ہے۔ اس کی یہ دو مختصر نظمیں پڑھئے۔


آڑ

جسے تم چاہ کہتے ہو

انا سے ماورا شے ہے

مگر اتنا سمجھنے میں

انا ہی آڑ ہے ہم دم


استفسار

مرے اندر ٹٹولو گے

پلندہ دل کا کھولو گے

تو اِن آنکھوں کے رستے سے

خموشی چیخ اٹھے گی

فقط اک بات پوچھے گی

لبوں سے لفظ چھینو گے

تو آخر کون بولے گا؟

*****

تحریر: محمد یعقوب آسی ... اتوار 25 مئی 2014 ۔




*****

زاہدہ رئیس راجی کا اولین شعری مجموعہ ’’خواب گھروندا‘‘ ... اشاعت فروری 2014ء

ناشر: رئیسی چاپ ءُ شنگ جاہ
 
Top