محمد یعقوب آسی
محفلین
پروفیسر انور مسعود نے 1990 میں ایک بات کہی تھی۔ لب لباب یہ ہے:
پنجابی کی یہ جو صنف ہے ’’بولی‘‘۔ ایک سطر ہے، اس میں ایک پورا مضمون! میں تو اردو والوں کو کہتا ہوں کی یار، اس کو اپنا لو!
شاید اس سے کچھ تحریک ملی۔ 1990 میں تو نہیں بہت بعد میں جب اس فقیر نے پنجابی بولی کی نقل کی تو خیال آیا کہ باباجی (انورمسعود) کے کہے کو کر کے تو دیکھیں! اولین مسئلہ یہ تھا کہ پنجابی شاعری اور وہ بھی لوک شاعری! پھر چھندابندی میں جتنی لچک ہے، عروض تو اتنی لچک دیتا نہیں۔ ’’بولی‘‘ کی وہ جو چال ہے، اس پر منطبق نہیں تو کم از کم اس کے قریب ترین کوئی وزن دیکھا جائے۔
یہاں تھوڑی سی ’’عروضی‘‘ بات بھی ہو جائے! میں نے بولی (ایک سطر) کو دو حصوں میں بانٹا: پہلے میں سات سبب رکھے اور دوسرے میں پانچ۔ ان دونوں حصوں کے بیچ چھندا بندی میں جو وسرام کی گنجائش ہوتی ہے وہ عروض میں نہیں رہ پاتی۔ وہاں میں نے خود پر لازم قرار دیا کہ پانچواں اور چھٹا تو لازماً سبب خفیف (ہجائے بلند) ہو گا، اور یہاں لفظ یوں آئیں کہ دم لیا جا سکے (وسرام کا سا تاثر پیدا ہو سکے) اور بارہواں سبب بھی سببِ خفیف ہو کہ وہاں بولی مکمل ہوتی ہے۔ باقی ہر جگہ ہجائے کوتاہ لائیے یا ہجائے بلند لائیے، کہیں دو سے زیادہ ہجائے کوتاہ متواتر واقع نہ ہوں۔ اس وزن پر اپنی کچھ کوششیں احبابِ محفل کی نذر کر رہا ہوں:
ایک بولی ایسی بھی ہوئی جس میں دم لینے والی بات (یعنی میری اپنی لاگو کی ہوئی شرط) پوری نہیں ہو رہی۔
جو ہے جیسی ہے پیش کر رہا ہوں۔
توجہ فرمائیے گا اور میری راہنمائی بھی کیجئے گا۔
جناب التباس ، جناب محمد وارث ، جناب محب علوی ، جناب شمشاد ، جناب محمد خلیل الرحمٰن ،
محترمہ گل بانو ، عزیزہ مدیحہ گیلانی، جناب شاہد شاہنواز ، جناب مزمل شیخ بسمل ۔۔۔
پنجابی کی یہ جو صنف ہے ’’بولی‘‘۔ ایک سطر ہے، اس میں ایک پورا مضمون! میں تو اردو والوں کو کہتا ہوں کی یار، اس کو اپنا لو!
شاید اس سے کچھ تحریک ملی۔ 1990 میں تو نہیں بہت بعد میں جب اس فقیر نے پنجابی بولی کی نقل کی تو خیال آیا کہ باباجی (انورمسعود) کے کہے کو کر کے تو دیکھیں! اولین مسئلہ یہ تھا کہ پنجابی شاعری اور وہ بھی لوک شاعری! پھر چھندابندی میں جتنی لچک ہے، عروض تو اتنی لچک دیتا نہیں۔ ’’بولی‘‘ کی وہ جو چال ہے، اس پر منطبق نہیں تو کم از کم اس کے قریب ترین کوئی وزن دیکھا جائے۔
یہاں تھوڑی سی ’’عروضی‘‘ بات بھی ہو جائے! میں نے بولی (ایک سطر) کو دو حصوں میں بانٹا: پہلے میں سات سبب رکھے اور دوسرے میں پانچ۔ ان دونوں حصوں کے بیچ چھندا بندی میں جو وسرام کی گنجائش ہوتی ہے وہ عروض میں نہیں رہ پاتی۔ وہاں میں نے خود پر لازم قرار دیا کہ پانچواں اور چھٹا تو لازماً سبب خفیف (ہجائے بلند) ہو گا، اور یہاں لفظ یوں آئیں کہ دم لیا جا سکے (وسرام کا سا تاثر پیدا ہو سکے) اور بارہواں سبب بھی سببِ خفیف ہو کہ وہاں بولی مکمل ہوتی ہے۔ باقی ہر جگہ ہجائے کوتاہ لائیے یا ہجائے بلند لائیے، کہیں دو سے زیادہ ہجائے کوتاہ متواتر واقع نہ ہوں۔ اس وزن پر اپنی کچھ کوششیں احبابِ محفل کی نذر کر رہا ہوں:
میں نے ہجر کی تان جو چھیڑی، بانسری رونے لگی
اک تیری یاد کا ساون، اک رومال ترا
بیلے میں چلی پُروائی، یاد تری آئی
وہ سانجھ سمے کی سرسوں، یہ دِل کولھو میں
ایک بولی ایسی بھی ہوئی جس میں دم لینے والی بات (یعنی میری اپنی لاگو کی ہوئی شرط) پوری نہیں ہو رہی۔
جو ہے جیسی ہے پیش کر رہا ہوں۔
دو آنسو اِک رومال اِک شیشی خوشبو کی
توجہ فرمائیے گا اور میری راہنمائی بھی کیجئے گا۔
جناب التباس ، جناب محمد وارث ، جناب محب علوی ، جناب شمشاد ، جناب محمد خلیل الرحمٰن ،
محترمہ گل بانو ، عزیزہ مدیحہ گیلانی، جناب شاہد شاہنواز ، جناب مزمل شیخ بسمل ۔۔۔