محمداحمد
لائبریرین
عنوان مجھے لگتا ہے "مخاطب ہم سب ہیں" ہونا چاہیے کیونکہ معالج یا ماہر کو بھی ایک اور معالج اور ماہر کی بہرحال ضرورت پڑ سکتی ہے۔
یاسر بھائی! اُن کے مخاطب تو ہم سب ہی ہیں۔
عنوان مجھے لگتا ہے "مخاطب ہم سب ہیں" ہونا چاہیے کیونکہ معالج یا ماہر کو بھی ایک اور معالج اور ماہر کی بہرحال ضرورت پڑ سکتی ہے۔
السلام علیکم محترمہ
ایک مثبت معلوماتی سلسلہ ہے ماشاءاللہ ۔جاری رہنا چاہیے۔
عنوان مجھے لگتا ہے "مخاطب ہم سب ہیں" ہونا چاہیے کیونکہ معالج یا ماہر کو بھی ایک اور معالج اور ماہر کی بہرحال ضرورت پڑ سکتی ہے۔
نفسیاتی مسائل کے ساتھ جڑے taboo کو ہٹانے کے لئے کیا کیا جائے. ایک شخص کینسر اور دل کی بیماری کو تو بآسانی ڈاکٹر کو دکھا دیتا ہے مگر ذہنی الجھاؤ کے لئے نہیں
باز گشتمخاطب آپ سب ہیں
اتار چڑھاو رنج و غم اور مشکلات سب زندگی کا حصہ ہیں عموما ہم ان سے نکل بھی آتے ہیں لیکن بعض اوقات چیزوں میں اتنی شدت یا وہ اتنی مسلسل ہوتی ہیں کہ سنبھلنا آسان نہیں لگتا اور جمود کی کیفیت طاری ہوتی ہے
کیا حرج ہے کہ کسی ماہر کی مدد لے لی جائے
برائے مہربانی باہر نکلئے
اس سوچ سے کہ اپنے مسئلے کے حل کے لئے کسی ماہر نفسیات سے بات کرنے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ
ہمارا دماغ خراب ہے
یا
ہم پاگل ہیں
یا کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں
ایک ماہر آپکو ان پہلووں سے روشناس کراتا ہے جن کو سمجھنا مشکل ہورہا ہوتا ہے
سوچ کو نئے زاویے ملتے ہیں کہ جنکی بدولت حل تک پہنچا جا سکتا ہے
سوچیے کہ اس سے پہلے دیر ہو.... گفتگو کرنے سے نہ جھجھکیں
عالمی ذہنی صحت کے دن کے موقع پر
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہےمزید:
گاڑی کھڑی ہے کوٹھی وسیع و عریض ہے
لیکن بچارا سیٹھ دماغی مریض ہے
سب دولتیں جہان کی حاصل بھی ہیں تو کیا
ثابت ہوا کہ دل کا سکون اصل چیز ہے
آخر میں ایک شعر کہ اگر کوئی صحیح العقل ہے تو اس نعمت خداداد پہ جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔
بس اک رگ_دماغ ادھر سے ادھر ہوئی
وہ عقل ساتھ چھوڑ گئی جس پہ ناز تھا
ذہنی دباؤ، لاتعلقی اور ذہنی بوجھ برداشت کرنے کے طریقہ کار پر سکولوں سے ہی بچوں کو تربیت دینا ضروری ہے، تاکہ آنے والے دنوں میں وہ لوگ ٹینشن اور ڈپریشن جیسے مسائل سے نمٹنے کا طریقہ کار طے کر سکیں۔۔۔۔۔۔آخر میں ایک شعر کہ اگر کوئی صحیح العقل ہے تو اس نعمت خداداد پہ جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔
بہترین کتاب ۔۔۔۔آپ کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے ہم تیار ہیں ۔۔۔۔محب علوی صاحب کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔عبرت کدہ" کتاب پڑھی ہے؟یہ گدو بندر کے ایک مشہور ڈاکٹر نے لکھی ہے جن مریضوں کا علاج کیا تھا ان کے متعلق۔میری خواہش ہے کہ اردو محفل کے لائبریرینز اسے ٹائپ کریں تاکہ عبرت ہو۔
مزے کی بات ہے ہم میں سے زیادہ تر لوگ اینگزائیٹی اور ڈیپریشن جیسے امراض کو اوّل تو امراض ہی نہیں سمجھتے اور اگر کچھ سمجھ لیتے ہیں تو علاج شادی سمجھتے ہیں یا پھر کہہ رہے ہوتے ہیں سب ڈرامہ ہے کوئی بیماری ویماری نہیں ہے ۔۔۔۔افسوس صد افسوس جب تک کسی گھر میں کوئی بہت تشویش ناک بات نہ ہوجائے اور مرض اسقدر نہ بڑھ جائے کے ڈاکٹر کو دکھائے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ڈاکٹر سے رجوع ہی نہیں کرتے ۔۔۔۔عالمی ذہنی صحت کے دن کے موقع پر
دو باتیں سمجھانے کی کوشش ہےباز گشت
10 اکتوبر2021
یوم عالمی ذہنی صحت
اور اگر کچھ سمجھ لیتے ہیں تو علاج شادی سمجھتے ہیں
*1۔* ماہر نفسیات کبھی بھی ادویات تجویز نہیں کر تے ۔
سائکاٹریسٹ دوا تجویز کرتا ہے۔ سائیکالوجسٹ نہیں۔کیا واقعی؟
ہمارا خیال تھا کہ کچھ مریضوں کو دماغ کے لئے اور کچھ کو سکون کے ادویات دی جاتی ہیں۔
درست کہا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سائکولوجسٹ پر ہمارے معاشرے میں غالب اکثریت یقین نہیں کرتی کیونکہ اس کا زیادہ تر کام وہی ہوتا ہے جو والدین اپنی اولاد کے ساتھ کرتے ہیں یعنی گفتگو کر کے محبت کے ساتھ مسئلے کے حل کی طرف لے جانا یا ذہنی طور پر مایوسی سے بچانا۔ اور جب تک ٹیکہ نہ ٹھکے ، گولیاں نہ پھانکیں ہم کسی کو طبیب سمجھتے ہی نہیں ۔سائکاٹریسٹ دوا تجویز کرتا ہے۔ سائیکالوجسٹ نہیں۔
آپ کا خیال درست ہے لیکن یہ دوائیں سائیکاٹرسٹ تجویز کرتے ہیں جوکہ میڈیکل ڈاکٹر ہیںکیا واقعی؟
ہمارا خیال تھا کہ کچھ مریضوں کو دماغ کے لئے اور کچھ کو سکون کے ادویات دی جاتی ہیں۔