مختصر صحیح مسلم یونیکوڈ میں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
حیض کے مسائل
کتاب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضٍ ... کے بیان میں۔
171: سیدنا انس (ر) سے روایت ہے کہ یہود میں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی، تو اس کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے، نہ گھر میں اس کے ساتھ رہتے۔ رسول اللہ (ص) کے ا صحاب نے آپ (ص) سے اس کے متعلق پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پوچھتے ہیں تم سے حیض کے بارے میں، تم کہہ دو کہ حیض پلیدی ہے، تو جدا رہو عورتوں سے حیض کی حالت میں“(الآیة) رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ سب کام کرو سوا جماع کے۔ یہ خبر یہود کو پہنچی، تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص (یعنی محمد (ص)) چاہتا ہے کہ ہر بات میں ہمارے خلاف کرے یہ سن کر سیدنا اسیدبن حضیر (ر) اور سیدنا عباد بن بشر (ر) آئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! یہود ایسا ایسا کہتے ہیں تو ہم حائضہ عورتوں سے جماع کیوں نہ کریں (یعنی جب یہود ہماری مخالفت کو بُرا جانتے ہیں اور اس سے جلتے ہیں تو ہمیں بھی اچھی طرح خلاف کرنا چاہئیے) یہ سنتے ہی رسول اللہ (ص) کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ (انکے یہ کہنے سے ہم جماع کیوں نہ کریں آپ (ص) کو بُرا معلوم ہوا اس لئے کہ خلافِ قرآن بات ہے) ہم یہ سمجھے کہ آپ (ص) کو ان دونوں شخصوں پر غصہ آیا ہے۔ وہ اٹھ کر باہر نکلے، اتنے میں کسی نے آپ (ص) کو دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا، تو آپ (ص) نے ان دونوں کو پھر بلا بھیجا اور دودھ پلایا تب ان کو معلوم ہوا کہ آپ کا غصہ پر نہ تھا۔
کتاب: عورت حیض کے بعد اور جنابت کا غسل کیسے کرے؟
172: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (شکل کی بیٹی یا یزید بن سکن کی بیٹی) اسماء رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ (ص) سے غسل حیض کے متعلق پوچھا؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ پہلے پانی بیری کے پتوں کے ساتھ لے اور اس سے اچھی طرح پاکی کرے (یعنی حیض کا خون جو لگا ہوا ہو، دھوئے اور صاف کرے) پھر سر پر پانی ڈال کر خوب زور سے ملے، یہاں تک کہ پانی مانگوں (بالوں کی جڑوں) میں پہنچ جائے۔ پھر اپنے اوپر پانی ڈالے (یعنی سارے بدن پر) پھر ایک پھاہا (روئی یا کپڑے کا) مشک لگا ہوا لے کر اس سے پاکی کرے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟ تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا ”سبحان اللہ پاکیزگی حاصل کرلے گی“ تو اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے چپکے سے کہہ دیا کہ خون کے مقام پر لگا دے۔ پھر اس نے غسل جنابت کے متعلق پوچھا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ پانی لے کر اچھی طرح طہارت کرے، پھر سر پر پانی ڈالے اور ملے، یہاں تک کہ پانی سب مانگوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی ڈالے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انصار کی عورتیں بھی کیا اچھی عورتیں تھیں کہ دین کی بات پوچھنے میں شرم نہیں کرتی تھیں۔ (اور یہی لازم ہے کیونکہ شرم گناہ اور معصیت میں ہے اور دین کی بات پوچھنا ثواب اور اجر ہے)۔
کتاب: حائضہ عورت کا کپڑا یا مصلیٰ وغیرہ پکڑانا۔
173: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) مسجد میں تھے کہ آپ (ص) نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: مجھے کپڑا اٹھا دے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو حائضہ ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ پھر انہوں نے کپڑا اٹھا دیا۔
کتاب: حائضہ عورت کا آدمی کے سر کو دھونا اور کنگھی کرنا۔
174: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں (جب اعتکاف میں ہوتی) حاجت کے لئے گھر میں جاتی اور چلتے چلتے جو کوئی گھر میں بیمار ہوتا تو اس کو بھی پوچھ لیتی اور رسول اللہ (ص) مسجد میں رہ کر اپنا سر میری طرف ڈال دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپ (ص) جب اعتکاف میں ہوتے تو گھر میں نہ جاتے مگر حاجت کیلئے ۔
کتاب: حائضہ عورت کی گود میں تکیہ لگانا اور قرآن پاک پڑھنا۔
175: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تکیہ لگاتے اور قرآن پڑھتے تھے جبکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔
کتاب: ایک ہی لحاف میں حائضہ عورت کیساتھ سونا۔
176: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ (ص) کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک میں حائضہ ہو گئی۔ میں کھسک گئی اور اپنے حیض کے کپڑے اٹھا لئے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ کیا تجھے حیض آیا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپ (ص) نے مجھے بلایا، پھر میں آپ ]کے ساتھ اسی چادر میں لیٹی۔ راویہ حدیث (زینب) نے کہا کہ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ (ص) دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کیا کرتے تھے۔
کتاب: حائضہ عورت سے مافوق الازار مباشرت کرنا (یعنی ساتھ لیٹنا)۔
177: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کسی عورت کو حیض آتا تو رسول اللہ (ص) حیض کے خون کے جوش کے دوران تہبند باندھنے کا حکم کرتے، پھر اس سے مباشرت کرتے (یعنی بیوی کیساتھ سو جاتے) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم میں سے کون اپنی خواہش اور ضرورت پر اس قدر اختیار رکھتا ہے جیسا رسول اللہ (ص) رکھتے تھے۔
کتاب: حائضہ عورت کے ساتھ ایک ہی برتن میں پینا۔
178: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں پانی پیتی تھی، پھر پی کر برتن رسول اللہ (ص) کو دیتی، آپ (ص) اسی جگہ منہ رکھتے جہاں میں نے منہ رکھ کرپیا تھا اور پانی پیتے، حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور میں ہڈی نوچتی، پھر رسول اللہ (ص) کو دیدیتی، آپ (ص) اسی جگہ منہ لگاتے جہاں میں نے لگایا تھا۔
کتاب: استحاضہ کے متعلق اور مستحاضہ کا غسل کرنا اور نماز پڑھنا۔
179: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اُمّ حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خون ایک رگ کا ہے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔ پھر وہ ہر نماز کیلئے غسل کرتی تھیں۔ لیث نے کہا کہ ابن شہاب نے یہ نہیں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم کیا تھا بلکہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خود ایسا کیا۔
کتاب: حائضہ عورت نماز کی قضا نہیں دے گی البتہ روزے کی قضا دے گی۔
180: سیدہ معاذہ سے روایت ہے کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزوں کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی؟ تو انہوں نے کہا کہ تو حروریہ تو نہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں میں تو پوچھتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عورتوں کو حیض آتاتھا تو روزوں کی قضا کا حکم ہوتا تھا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (کتنا عمدہ جواب دیا کہ دین تو اللہ اور رسول کے حکم کا نام ہے جس کا حکم دیا، کر لیا اور جس کا حکم نہیں دیا، نہیں کیا)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔
181: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فطرت پانچ ہیں یا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۔ 1۔ختنہ کرنا۔ 2۔ زیر ناف بال مونڈنا ۔ 3۔ ناخن کاٹنا۔ 4۔ بغل کے بال اکھیڑنا۔ 5 ۔ مونچھیں کترانا ۔
کتاب: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔
182: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: دس باتیں پیدائشی سنت ہیں۔ 1: مونچھیں کترنا۔ 2: داڑھی چھوڑ دینا۔ 3: مسواک کرنا۔ 4: ناک میں پانی ڈالنا۔ 5: ناخن کاٹنا۔ 6:پوروں کا دھونا (کانوں کے اندر اور ناک اور بغل اور رانوں کا دھونا)7 : بغل کے بال اکھیڑنا۔ 8 : زیر ناف بال لینا۔ 9: پانی سے استنجاء کرنا (یا شرمگاہ پر وضو کے بعد تھوڑا سا پانی چھڑک لینا) ۔ مصعب نے کہا کہ میں دسویں بات بھول گیا ۔ شاید کلی کرنا ہو ۔ وکیع رحمہ اللہ نے کہا: انتقاص المآءٍ (جو حدیث میں وارد ہے ) اس سے استنجاء مراد ہے ۔
کتاب: بڑے کو مسواک دینا۔
183: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے آپ کو خواب میں مسواک کرتے دیکھا۔ پھر وہ مسواک مجھ سے دو آدمیوں نے مانگا، ان دونوں میں سے ایک بڑا تھا۔ میں نے مسواک چھوٹے کو دے دی، تو مجھے حکم ہوا کہ بڑے کو دیں، تو میں نے بڑے کو دیدی۔
کتاب: مونچھیں کتراؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔
184: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: (تمام اقوال و افعال میں) مشرکوں کے خلاف (کرو) مونچھوں کو کترواؤ اور داڑھیوں کو پورا رکھو (یعنی داڑھیوں کو چھوڑ دو اور ان میں کانٹ چھانٹ نہ کرو)۔
185: سیدنا انس بن مالک (ر) سے روایت ہے کہ ہمارے لئے مونچھ کترنے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال نوچنے اور زیر ناف بال مونڈنے کی میعاد مقرر ہوئی کہ ان کو چالیس دن سے زیادہ تک نہ چھوڑیں۔
کتاب: مسجد سے پیشاب دھونا۔
186: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آیا اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اسے ایسا نہ کرنے کے لئے آواز لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا پیشاب مت روکو، اس کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے چھوڑ دیا، یہا ں تک کہ وہ پیشاب کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا کہ مسجدیں پیشاب ا ور نجاست کے لائق نہیں ہیں۔ یہ تو اللہ کی یاد کیلئے اور نماز اور قرآن پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہیں یا ایسا ہی کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر ایک شخص کو حکم کیا، وہ ایک ڈول پانی کا لایا اور اس پر بہا دیا۔
کتاب: بچے کے پیشاب کی وجہ سے کپڑے پر چھینٹے مارنا۔
187: اُمّ قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) کے پاس اپنے ایک بچے کو لے کر آئیں جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ عبیداللہ (راوی حدیث) نے کہا کہ ام قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ اس بچے نے رسول اللہ (ص) کی گود میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہ ]علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور کپڑے پر چھڑک لیا اور اس کو دھویا نہیں ۔
کتاب: کپڑے سے منی کا د ھونا۔
188: سیدنا عبداللہ بن شہاب خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ مجھے اپنے کپڑوں میں احتلام ہو گیا، تو میں نے ان کو پانی میں ڈبو دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی نے مجھے دیکھ لیا، تو اس نے انہیں جا کر بتایا۔ ام المؤمنین نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟میں نے کہا کہ خواب میں میں نے وہ دیکھا ہے جو سونے والا دیکھتا ہے (یعنی احتلام) ۔ اُمّ المؤمنین نے کہا کہ کپڑوں میں تم نے (منی کا) کچھ اثر دیکھا؟میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کپڑوں میں تو کچھ دیکھتا تو بھی اس کا دھونا ہی کافی تھا۔ میں تو رسول اللہ (ص) کے کپڑے سے خشک منی کو اپنے ناخنوں سے کھرچ دیا کرتی تھی۔
کتاب: کپڑے سے حیض کا خون دھونا۔
189: سیدہ اسماء بنت ِابی بکررضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ (ص) کے پاس آئی اور اس نے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ پہلے اس کو کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر مل کر دھو ڈالے اور پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نماز کے مسائل
کتاب: آذان کی ابتداء۔
190: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) سے روایت ہے کہ مسلمان جب مدینہ میں آئے تو وقت کا اندازہ کر کے جمع ہوکر نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور کوئی شخص ندا وغیرہ نہیں کرتا۔ ایک دن مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اطلاعِ نماز کیلئے عیسائیوں کی طرح ناقوس بجا لیا کریں یا یہودیوں کی طرح نرسنگا بجا لیا کریں تو سیدنا عمر (ر) نے مشورہ دیا کہ ایک آدمی کو مقرر کر دیا جائے جولوگوں کو نماز کیلئے مطلع کر دیا کرے اس پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے بلال! اٹھو اور نماز کیلئے اعلان کر دو۔
کتاب: اذان کا بیان۔
191: سیدنا ابومحذورہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے انہیں اس طرح اذان سکھائی ہے: اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ (باقی روایات میں اللہ اکبر چار مرتبہ ہے)۔ اشھد ان لا الٰہ الا الله ۔ اشھد ان لا الٰہ الا الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ پھر دوبارہ کہے اشھد ان لا الٰہ الا الله ۔ اشھد ان لا الٰہ الا الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ اشھد ان محمد رسول الله۔ حی علی الصلٰوة۔ دو مرتبہ حی علی الفلاح۔ دو مرتبہ۔ اسحق کا بیان ہے کہ اس کے بعد اکبر الله اکبر۔ لا الٰہ الا الله۔ کہے۔
کتاب: اذان دوہری اور اقامت اکہری کہے۔
192: سیدنا انس (ر) کہتے ہیں کہ سیدنا بلال (ر) کو اذان کے الفاظ دو دو مرتبہ اور اقامت کے الفاظ ایک ایک مرتبہ کہنے کا حکم کیا گیا۔ اور یحییٰ نے ابن عُلیّہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ میں نے اسے سیدنا ایوب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اقامت میں صرف قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوةُ کے الفاظ دو مرتبہ کہے جائیں۔
کتاب: دو مؤذن مقرر کرنا۔
193: سیدنا ابن عمر (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے دو مؤذن تھے۔ ایک سیدنا بلال (ر) اور دوسرے سیدنا عبداللہ بن اُمّ مکتوم (ر)، جو کہ نابینا تھے۔
کتاب: نابینا آدمی کو مؤذن مقرر کرنا۔
194: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابن اُمّ مکتوم (ر) رسول اللہ (ص) کیلئے اذان دیا کرتے تھے اور وہ نابینا تھے۔
کتاب: اذان کی فضیلت۔
195: سیدنا انس بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) صبح سویرے ہی دشمنوں پر حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، اگر (مخالفوں کے شہر سے) آپ (ص) کو اذان کی آواز سنائی دیتی، تو ان پر حملہ نہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ (ص) نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہتے سنا تو فرمایا کہ یہ مسلمان ہے۔ اسکے بعد آپ (ص) نے اسے اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللهُ اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللهُ کہتے سنا تو ارشاد فرمایا کہ اے شخص تو نے دوزخ سے نجات پائی۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
196: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کے گوز (یعنی پاد) مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے اور اذان کے بعد پھر لوٹ آتا ہے اور جب تکبیر (اقامت) کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور تکبیر (اقامت) کے بعد پھر واپس آ جاتا ہے اور آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کو وہ وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو نماز سے پہلے اس شخص کے خیال میں بھی نہ تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نمازی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔
کتاب: اذان کہنے والوں کی فضیلت۔
197: عیسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان (ر) کے پاس تھا کہ اتنے میں انہیں مؤذن نماز کیلئے بلانے آیا۔ جس پر سیدنا معاویہ (ر) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن مؤذنوں کی گردن سب سے زیادہ لمبی ہو گی۔
کتاب: جیسے مؤذن کہے ویسے ہی کہنا۔
198: سیدنا عبداللہ بن عمر وبن عاص (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو۔ اور وسیلہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا۔ اور جو کوئی میرے لئے وسیلہ (مقامِ محمود یعنی جنت کا ایک محل) طلب کرے گا تو اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
کتاب: اس شخص کی فضیلت جو مؤذن کی طرح کلمات ِ (آذان) کہے۔
199: سیدناعمر بن خطاب (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ اور اشہد ان محمدًا رسول اللہ کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے اور جب مؤذن حیّ علی الصلوٰة کہے تو سننے والا لا حول ولا قوة الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حیّ علی الفلاح کہے تو سننے والا بھی لا حول ولا قوة الا باللہ کہے اس کے بعد مؤذن جب اللہ اکبر اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دہرانا چاہئیے اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا (بشرطیکہ ارکانِ اسلام کا بھی پابند ہو) ۔
200: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا: جس نے مؤذن کی اذان سن کر یہ کہا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد (ص) اللہ کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کی ربوبیت اور محمد (ص) کی رسالت سے مسرور اور خوش ہوں اور میں نے مذہبِ اسلام کو قبول کر لیا ہے تو ایسے شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: نماز کی فرضیت کا بیان۔
201: سیدنا انس بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (ص) سے کچھ پوچھنے کی ممانعت کر دی گئی تھی تو ہمیں اچھا معلوم ہوتا کہ دیہات میں رہنے والوں میں سے کوئی عقلمندشخص آئے اور آپ (ص) سے پوچھے اور ہم سنیں، تو دیہات میں رہنے والوں میں سے ایک شخص آیا اور کہنے گا کہ اے محمد ((ص))! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے بھیجا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس ایلچی نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا تو آسمان کس نے پیدا کیا؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے، اس نے کہا کہ زمین کس نے پیدا کی؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ نے، پھر اس نے کہا کہ پہاڑوں کو کس نے کھڑا کیا اور ان میں جو چیزیں ہیں وہ کس نے پیدا کیں؟ آپ (ص) نے فرمایا اللہ نے، تب اس شخص نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان کو پیدا کیا اور زمین بنائی اور پہاڑوں کو کھڑا کیا، کیا سچ مچ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو بھیجا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا وہ شخص بولا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو ان نمازوں کاحکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر ہمارے مالوں کی زکوٰة ہے، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ وہ شخص بولاکہ قسم اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو زکوٰة کا حکم کیاہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم پر سال میں رمضان کے روزے فرض ہیں، آپ نے فرمایاکہ اس نے سچ کہا۔ وہ شخص بولا کہ قسم اس کی جس نے آپ کو بھیجا ہے کیااللہ نے آپ کو ان روزوں کا حکم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر وہ شخص بولا کہ آپ کے ایلچی نے کہا کہ ہم میں سے جو کوئی راہ چلنے کی طاقت رکھے (یعنی خرچ راہ اور سواری ہو اور راستہ میں امن ہو اس وقت) اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، آپ (ص) نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا ۔ یہ سن کر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہنے لگا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کرکے بھیجا ہے، میں ان باتوں سے زیادہ کروں گا اور نہ ہی کم۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اگر یہ سچا ہے تو جنت میں جائے گا۔
کتاب: (ابتداء میں) دو دو رکعت نماز کی فرضیت کا بیان۔
202: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نماز حضر میں بھی اور سفر میں بھی دو دو رکعت فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز تو ویسی ہی رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ زہری (راوی) نے کہاکہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سفر میں پوری نماز کیوں پڑھتی تھیں؟ (یعنی ان کے نزدیک تو دو ہی رکعت فرض تھیں) تب انہوں نے کہا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وہی تاویل کی جو سیدنا عثمان (ر) نے کی تھی (یعنی سفر میں قصر کرنا رخصت ہے اور پوری پڑھنا جائز ہے)۔
کتاب: پانچ نمازیں درمیانی وقفے کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں۔
203: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: پانچوں نمازیں اور جمعہ، جمعہ تک بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان، رمضان تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو اس کے بیچ میں ہوں، جب تک کبیرہ گناہ نہ کرے۔
کتاب: نماز چھوڑنا کفر ہے۔
204: سیدنا جابر (ر) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (مومن) آدمی اور کفر و شرک کے درمیان، نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔
کتاب: اوقات ِ نماز کا جامع بیان۔
205: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص (ر) سیروایت ہے رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہونے تک، جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے رہتا ہے۔ اور عصر کا وقت تب تک رہتا ہے کہ آفتاب زرد نہ ہو اور وقت مغرب جب تک رہتا ہے کہ شفق غائب نہ ہو اور وقت عشاء کا جب تک رہتا ہے کہ بیچ کی آدھی رات نہ ہو اور وقت نمازِ فجر کا طلوعِ فجر سے جب تک ہے کہ آفتاب نہ نکلے۔ پھر جب آفتاب نکل آئے تو نماز سے رُکا رہے، اس لئے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
206: سیدنا ابوموسیٰ اشعری (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا اور نماز کے اوقات پوچھنے لگا آ پ] نے اس وقت کچھ جواب نہ دیا (اس لئے کہ آپ (ص) کو کر کے بتانا منظور تھا) پھر (فجر کے وقت) بلال کو (اقامت کا) حکم دیا اور فجر طلوع ہونے کے ساتھ ہی نماز فجر ادا کی اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے نہ تھے (یعنی اندھیرے کے سبب سے) پھر حکم کیا اور ظہر ادا کی جب آفتاب ڈھل گیا اور کہنے والا کہتا تھا کہ دن کا آدھا حصہ گزر گیا ہے (یعنی ابھی تو دوپہر ہے) اور رسول اللہ (ص) سب سے بہتر جانتے تھے۔ پھر ان کو حکم کیا اور عصر کی نماز ادا کی اور سورج بلند تھا۔ پھر ان کو حکم کیا اور مغرب ادا کی جب سورج ڈوب گیا۔ پھر ان کو حکم کیا اور عشاء ادا کی جب شفق ڈوب گئی۔ پھر دوسرے دن فجر کا حکم کیا اور جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ سورج نکل آیا، یا نکلنے کو ہے۔ پھر ظہر میں تاخیر کی یہاں تک کہ کل کے عصر کے پڑھنے کا وقت قریب ہو گیا۔ پھر عصر میں تاخیر کی یہاں تک کہ جب فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ آفتاب سرخ ہو گیا۔ پھر مغرب میں تاخیر کی یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی۔ پھر عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ اوّل تہائی رات ہو گئی پھر صبح ہوئی اور سائل کو بلایا اور فرمایا کہ نماز کے وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہیں۔
کتاب: صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنا۔
207: محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ جب حجاج مدینہ میں آیا تو ہم نے سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) سے (اوقاتِ نماز کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) ظہر کی نماز دوپہر کے وقت اور نہایت گرمی میں (یعنی بعد زوال کے) پڑھا کرتے تھے اور عصر ایسے وقت میں پڑھا کرتے تھے کہ آفتاب صاف ہوتا اور مغرب جب آفتاب ڈوب جاتا، پھر پڑھتے اور عشاء میں کبھی تاخیر کرتے اور کبھی اوّل وقت پڑھتے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو اوّل وقت پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے آنے میں دیر کی ہے، تو دیر کرتے اور صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کرتے تھے۔
کتاب: فجر اور عصر کی نمازوں کی پابندی کرنا۔
208: ابوبکر بن عمارہ بن رؤیبہ اپنے والد سیدنا عمارہ (ر) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص کبھی دوزخ میں داخل نہ ہو گا جس نے طلوع آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے پہلے کی نماز ادا کی یعنی فجر اور عصر کی۔ بصرہ والوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم نے اس کو رسول اللہ (ص) سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی اسکو رسول اللہ (ص) سے سنا ہے۔ اس (بات) کو میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔ (ظاہر ہے کہ جو یہ مشکل نمازیں پڑھتا ہے تو باقی نمازوں کو بھی ضرور پڑھے گا)۔
209: سیدنا ابوبکر بن ابوموسیٰ اشعری اپنے والد سیدنا ابوموسیٰ اشعری (ر) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
کتاب: سورج طلوع ہوتے وقت اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔
210: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے عصر کے بعد کی دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں۔ راوی کہتا ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: خاص کر اپنی نمازوں کو طلوع اور غروب آفتاب کے وقت پڑھنے کی عادت مت کرو کہ ہمیشہ اسی وقت ادا کیا کرو۔ (یعنی فجر اور عصر تأخیر سے نہیں بلکہ اول وقت میں پڑھو)۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top