جمشید جب پاکستان میں سیٹل ہو جاتا ہے اور بڑا کاروباری بن جاتا ہے تو اسے اپنی بیٹی کا خیال آتا ہے جو ہندوستان میں اس کی مطلقہ بیوی کے ساتھ ہے وہ اسے لینے اپنے آبائی گاؤں آتا ہے اور جب وہاں وہ اپنے چچایا خسر سے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے:
’’ہم خود پڑھاتے ہیں اردو اور قرآن شریف، شمبھو بھیّا انگریزی بھی پڑھادیتے ہیں اے،بی،سی،ڈی۔ گوسائیں بھیّا اسے ہندی پڑھا رہے ہیں ۔سید مظہر علی نے فخر سے بتایا جمشید کو ایسا محسوس ہوا جیسے گاؤں کے لوگ اس کی بیٹی کو ذاتی ذمّہ داری سمجھتے تھے۔ وہ یہ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا ارادہ ہے کہ کراچی لے جانے کے کچھ عرصے بعد وہ فرحت النسا کو تعلیم کے لیے سوئٹزر لینڈ بھیجدے مگر اب چچا ابااور شمبھو دادا اور گوسائیں کا کا کو یہ بتاتے ہوئے اسے بے حد شرم آئی۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس صرف فکشن کا حصّہ نہیں بلکہ حقائق کی روداد ہے جس کے بل پر ہندوستان کے لوگ آج بھی ساری دنیا میں اپنی ایک الگ اور قابلِ مبارکباد شناخت رکھتے ہیں اور یہی وہ حصّہ ہے جسے لکھ کر عینی آپا نے ادب کی دنیا میں بھی حقائق کی روداد لکھنے کی مدعی قرار دی گئی ہیں۔ عینی نے کبھی بھی ناسٹلجیا کو منفی انداز میں پیش نہیں کیا بلکہ وہ اس کے لیے ایک معقول جواز فراہم کرتی ہیں اپنے ادب پارے میں اس کے لیے گنجائش نکالتی ہیں کردار خلق کرتی ہیں ان کرداروں کی تاریخی حیثیت کی پڑتال کرتی ہیں تب جا کر اسے پیش کرتی ہیں۔
اس ناولٹ میں جہاں دو تہذیبوں کی رسّہ کشی کو پیش کیا ہے وہیں عورتوں کے مسائل کو بھی سامنے رکھا ہے جمشید اور اس کی منکوحہ منظور النسا کی شادی جو جمشید کی چچازاد بہن ہے اور پھر ان کا طلاق اور آخر میں اس کی موت ناول کو انتہائی سنگین صورتحال سے دو چار کر دیتے ہیں۔ عینی آپا کا کمال ہے کہ وہ ہر ناول یا ناولٹ میں جس طرح مسائل کو پیش کرتی ہیں ایسا لگتا ہی نہیں کہ وہ اسے پیش کرنا چاہتی ہوں ۔
ہمارے عہد کا استعاراتی اظہار(ہاؤسنگ سوسائٹی) قرۃالعین حیدر
سے اقتباس
یہ ہمارے پسندیدہ ترین ناولٹ میں سے ایک ہے