مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

اللہ جو کہ لطیف اور آشکارہ ہے لیکن نظروں سے پوشیدہ ہے انسانی عقول اور افکار سے( یعنی وہ انسانی افکار اور عقول میں نہیں آسکتا ہے )۔
اوراس کے احاطہ علم میں ہیں موجودات (یعنی جو چیزیں وزن رکھتی ہیں اور جگہ گھیرتی ہیں )اور دل میں چھپی باتوں اور رازوں کو اور عیوب پوشیدہ کو یعنی ظاہر اور پوشیدہ دنوں کو یعنی عیوب ظاہری اور پوشیدہ دونوںکوجانتا ہے اورہر راز سے باخبر ہے۔
اور اس کے حیطہ علم میں ہے تقدیروں کا اختلاف(یعنی اچھی اور بری )اور اس کے دائرہ علم میں ہے عالَم میں جو جلیل القدر ہیں اور جو حقیر ہیں اور جیسا تو چاہتا ہے ویسی ہی اس کی حسن تدبیر اور تحریر کرتا ہے۔
یا اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہے کہ مجھے واقف حال کردے ان رازوں کو جن پر تو نے اخفا کے دبیز پردے ڈالے ہوئے ہیں ۔
اور ان رازوں کا بھی امین بنا جو کہ د قائق تکوین (کلہ سر کی طرف اشارہ ہے )میں سے ہیں اور وہ بھی جس پر ظلمات کے بادل چھائے ہوئے ہیں (جادو ٹونہ کی حقیقت )اور روشنی کی شعاعیں جو کہ نورانی ہیں ان سے میرا قلب منور کردے یعنی میرے قلب میں اتنی وسعت پیدا کر کہ یہ سارے اسرار اس میں سما جائیں ۔
اے اللہ میرا یہ کشف فانی ہے اور تیرا شہود باقی ہے اپنے تمام لطیف تَر اسرار اور معانی کے ساتھ۔اے اللہ میرے قلب پر انعام کردیجئے لطیف راز جو کہ عوام الناس کے لیے دقائق ہیں اورنازل کر مجھ پر حقائق تاکہ مشکلات دور ہوں۔ اے اللہ مجھ کو مجھے اسم لطیف کے اسرارکی چادر اوڑھا تاکہ کوئی موذی اور حاسد مجھے نہ دیکھ سکے۔(شمس المعارف)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
.
میں یہ نہیں بتانا چاہتی کہ کوئی شخص شاعر کیسے ہو جاتا ہے ۔ میں تو بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کبھی تم نے گرمیوں کی دوپہروں میں آسمان کا رنگ دیکھا اور فاختہ کی لمبی، نڈھال آواز سنی ہے ۔ ۔ ۔ گھو گھو ۔ ۔ ۔ گھو ۔ خزاں کی سہ پہروں میں، جنگلوں میں سنسناتی ہواؤں کو محسوس کیا اور درختوں کی کراہیں سنیں ۔ سرما کی گہری سیاہ غم ناک شامیں، گھر کے پچھلے باغ میں تنہا بیٹھ کر گزار دیں ۔ رات کے پہلے پہر، ڈار سے بچھڑ
جانے والی کونج کی چیخ سنی ہے ۔

آخری پہر کبھی چونک کر جاگے اور اپنے سر پر کسی نادیدہ پرندے (یا فرشتے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ محسوس کی ہے ۔ صبح ِ کاذب کے وقت، فلک پر ایک نقرئی غبار دیکھا ہے ۔ صبح ِ صادق کے وقت، چڑیوں کی حمد کے ساتھ، ملحقہ مسجد سے ابھرتی '' فاتحہ'' یا ''الرحمٰن '' سنی ہے؟ ۔ اگر نہیں ۔ تو تم مجھے کبھی نہیں جان سکتے.!

ثمینہ راجہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
خواتین و حضرات ! گاڑی کا وہ میکینک کام کرتے کرتے اٹھا اس نے پنکچر چیک کرنے والے ٹب سے ہاتھ گیلے کے اور ویسے ہی جا کر کھانا کھانا شروع کر دیا -
میں نے اس سے کہا کہ الله کے بندے اس طرح گندے ہاتھوں سے کھانا کھاؤ گے تو بیمار پڑ جاؤ گے - ہزاروں جراثیم تمہارے پیٹ میں چلے جائینگے ، کیا تم نے کبھی اس طرح کی باتیں ڈیٹول یا صابن کے اشتہار میں نہیں دیکھیں ،
تو اس نے جواب دیا کہ " صاحب جب ہم ہاتھوں پر پہلا کلمہ
پڑھ کر پانی ڈالتے ہیں تو سارے جراثیم خود بہ خود مر جاتے ہیں اور جب بسم للہ پڑھ کر روٹی کا لقمہ توڑتے ہیں تو جراثیموں کی جگہ ہمارے پیٹ میں برکت اور صحت داخل ہو جاتی ہے -

مجھے اس مکینک کی بات نے ہلا کر رکھ دیا یہ تو اس کا توکل تھا جو اسے بیمار نہیں ہونے دیتا تھا - میں اس سے اب بھی ملتا ہوں - اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مجھ سے زیادہ صحت مند ہے -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
‎"میں رحمن کے بندے کو خوش کرنے کے کے لئے رحمن کو ناراض نہیں کرسکتی تھی..میں جھوٹ نہیں بول سکتی تھی..."
اسکی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ گیں..
"جو جتنا اچھا جھوٹ بولتا ہے بہارے! یہ دنیا اسی کی ہوتی ہے "
" لیکن پھر اسکی آخرت نہیں ہوتی' یہ آیشے گل کہتی ہے "

( نمرہ احمد کے ناول " جنّت کے پتے" سے)
 

بنتِ سلیم

محفلین
یہاں کھڑے ہوکر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔۔ان کی دعاؤں اور میری دعاؤں میں بہت فرق ہے۔۔۔ میں نبی ہوتا'تو نبیوں جیسی دعا کرتا۔۔ مگر میں تو عام بشر ہوں۔۔ گنہگاربشر۔۔ میری خواہشات،میری آرزوئیں سب عام ہیں، یہاں کھڑے ہوکر کوئی کبھی کسی عورت کے لیے نہیں رویا ہوگا، میری ذلت اور پستی کی اسے زیادہ انتہا اور کیا ہوگی کہ میں یہاں کھڑا۔۔۔ حرم پاک میں کھڑا۔۔۔ ایک عورت کے لیے گڑگڑا رہا ہوں۔۔۔ ۔
مگر مجھ کو اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر، یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی۔۔یہ تونے کیا۔۔کیوں میرے دل میں اس عورت کے لیے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟ میں وہ بشر ہوں جس کو تونے تمام خامیوں کے ساتھ بنایا۔۔جس کو تیرے سوا کوئی رستہ دکھانے والا نہیں، اور وہ عورت میری زندگی کے ہر رستے پہ کھڑی ہے۔۔ مجھے کہیں جانے نہیں دے رہی ۔۔۔ یا تو اس کی محبت کو میرے دل سے اس طرح نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے۔یا پھر اسے مجھے دے دے۔۔وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لیے روتا رہوں گا، وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لیے آنسو نہیں بہا سکوں گا، میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔۔ میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں ۔

عمیرہ احمد کے ناول "پیر کامل" سے اقتباس
بہت خوب۔ پاکیزہ عورت بھی اللہ کی نعمتوںمیں سے ایک نعمت ہے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے سنگ مرمر کی سل کو دھیان سے دیکھا ۔ وہ صاحب زادہ صاحب کی قبر کا کتبہ تھا ۔ اوپر" کل نفساً ذائقہ الموت " لکھا تھا ۔ نیچے جلی قلم سے صاحب زادہ نصیر الدین شاہ کا نام کھدا تھا ۔ اس کے نیچے ایک ہی سطر میں تاریخ پیدائش 1893 ء اور تاریخ وفات 1952 ء لکھی تھی ۔​
خطوط وحدانی میں عمر دو سال لکھی تھی ۔ اور نیچے شعر تھا​
پھول تو دو دن بہار جان فزا دکھلا گئے​
حسرت ان غنچون پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
میں نے صاحب زادہ صاحب کی عمر کا حساب دی گئی تاریخوں سے لگایا تو ان کی عمر انسٹھ سال بنی ، لیکن خطوط وحدانی میں دو سال لکھی تھی ۔ میں اس بھل ( بھول ) سے بوکھلا گیا اور تھوڑی دیر رک کر بولا " حضور سنگ ساز مورکھ پنے سے عمر غلط لکھ گیا ہے صاحب زادہ صاحب کی عمر انسٹھ سال بنتی ہے اور یہ شعر بھی اس نے بے جوڑ چلا دیا "۔
وہ تھوڑی دیر خموش رہ کر بولے، برخوردار نصیرالدین نے دو برس کی عمر کے بعد پورے لفظ اور پورے فقرے بولنے شروع کر کے سب کو حریان کر دیا ۔ سوہنا کلام تے سوہنی گفتار ۔ جو بھی اس کیاں باتاں سن دا، دلوں بجانوں عاشق موہت ھو رہندا ۔ لاڈ لڈاندا۔ پیراں ھیٹھ ھتھ رکھدا ۔ سجن سہیلیاں گودی گودی چائے پھرتے ۔ بہت راضی رہتا ، خوش ہوتا ، اڑیاں کردا ۔
پر لاڈ پیار ہور عشق دلار نے برخوردار کی ترقی روک لئی ۔ درجات بند ہوگئے ۔ ضدی،خودغرض ، خود پسند ہو کر رہ گیا ۔ حق سچ کوں چھڈ کے چیزاں وستاں کیاں محبتاں ماں نبھیا گیا ۔ اس فقیری ڈیرے بدولت سرکارے دربارے مل بندھن کر لیا ۔ جائداداں بنانا شروع کر دیاں ۔ مال گھاؤ گھپ کر لیے ۔ اپنے آپ اور اپنی ذات کا بندہ بن گیا ۔ مخلوق خدا کنوں اڈھو کے صرف اپنی سیوا کرن لگ گیا ۔ اناٹھ سال عمر ضرور پائی پر پہلے دو سالاں کنوں اگے نہ جا سکیا ۔ ساری عمر اینویں ئی اکارت گئی ، اینویں ئی برباد ہوئی ۔ اصل عمر نصیر الدین شاہ ھوراں دی دو سال ئی بنتی اے ، جد اس نے گل کلام شروع کیا اس کے پچھے تے سب ذات ئی ذات ئے ۔ انا ئی انا اے ۔ غرض ئی غرض اے ۔ مرحوم دو سال تے اگے نہ اپڑ سکیا ۔
اس پتھر تے اے عمر بھی میں درج کری ئے اور ایہہ شعر بھی میں ئی لکھوایا ئے ۔ تو ئی بتا صاحب میرے کہ ٹھیک ئے کہ نہیں ۔
میں بے پران ، بے دھڑا ہو کے بیٹھا رہیا ۔ جواب کی دیتا اور بول کے کیا کر لیتا ۔ حضرت صاحب نے بولنے جوگا چھڈیا ہی نہیں تھا ۔

اشفاق احمد پھلکاری صفحہ 15 باب رکی ہوئی عمر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے پاس ولایت اور یہاں کی بے شمار ڈگریاں ہیں ۔ لیکن اس سب علم اور ڈگریوں کے با وصف میرے پاس وہ کچھ نہیں ہے جو ایک پینڈو مالی کے پاس ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی عطا ہے ۔ بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے ، میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا ۔ وہاں ایک ڈونگی گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب رہا کرتے تھے ، میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھا اور مالی لوگ کچھ کام کر رہے تھے۔ ایک مالی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے ۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے ۔ وہ کہنے لگا کہ جی جو میرا چھوٹے سے بڑا بیٹا ہے وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے ۔ میں نے کہا ماشاء اللہ اس حساب سے تو ہم قریبی رشتیدار ہوئے ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں ۔ میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا اور ہم فیملی پلاننگ کے حوالے سے پروگرام کرتے تھے ۔ جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو مین نے کہا اللہ ان سب کو سلامت رکھے لیکن میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں ۔ وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا​
" صاحب جی محبت کو تقسیم نہیں کیا کرتے ۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں ۔ "​
وہ بلکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے ۔​
میں اکثر سوچتا ہوں کہ واقعی یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی کے پاس ہنر یا عقل کی ڈگری ہو ، یہ ضروری نہیں کہ سوچ و فکر کا ڈپلومہ حاصل کیا جائے ۔​
اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑھ سقراط صفحہ 239​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
حضرت شیخ اکبر نے فرمایا صحابہ کے کمال عقل کی ایک یہ بات ملاحظے کے قابل ہے کہ انہوں نے مختلف مقامات پر جتنی بھی مسجدیں بنائیں سب کا قبلہ درست ہے ۔ حالانکہ اس وقت نہ ان کے پاس قطب نما تھا ، نہ جغرافیہ ، نہ وہ مہندس تھے ، اور نہ ہی ان کے پاس کوئی نقشہ موجود ہوتا تھا ۔​
بڑے بڑے عقلدار، ماہر انجینیئر جو بعد کو پیدا ہوئے جن کا مشغلہ اور کوشش یہی ہے کہ اسلام میں کوئی نقص پیدا کریں اور اس کی کوئی خامی ڈھونڈہیں وہ بھی ان میں کوئی عیب تلاش نہ کر پائے ۔​
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 608​
 
Top