مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

نیلم

محفلین
انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آہی جایا کرتے ہیں۔ جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ان کو بسر کرنے کے لئے سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ان کو گزر جانے دیا جائے۔

اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "یزید" کے افسانے "ممی" سے
 

تعبیر

محفلین


یہاں کیا کرنا ہے ؟؟؟اف اتنی لمبی غیر حاضریاں بھی انسان کو فورم پر گواچی گاں بنا دیتی ہیں :(
 

تعبیر

محفلین
گواچی گاں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یعنی درپردہ مجھ پر طنز کیا جارہا ہے
ہنھ ہنھ ہنھ

ناں
درپردہ نہیں ہم آمنے سامنے کھل کر حملہ کرتے ہیں یہ خود کو کہا تھا سچ میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا کروں یہاں؟؟؟
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ناں
درپردہ نہیں ہم آمنے سامنے کھل کر حملہ کرتے ہیں یہ خود کو کہا تھا سچ میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا کروں یہاں؟؟؟
لڑاکو لوگ۔۔۔۔۔ گلیڈیٹر نہ ہوں تو
کچھ نہ کرو
لایک کر دیا نا، بس اب ذرا ذکر محفلین میں چلو
وہاں ایک پہیلی بوجھنی ہے
 

سارہ خان

محفلین
جہاز کی کھڑکی سے کبھی نیچے تیرتا کوئی بادل دیکھا ہے ؟

اوپر سے دیکھو تو وہ کتنا بے ضرر لگتا ہے ، مگر جو اس بادل تلے کھڑا ہوتا ہے ناں ،
اس کا پورا آسمان بادل ڈھانپ لیتا ہے -

اور وہ سمجھتا ہے کہ روشنی ختم ہو گئی ، اور دنیا تاریک ہو گئی -

" غم بھی ایسے ہوتے ہیں ، جب زندگی پے چھاتے ہیں تو سب تاریک لگتا ہے -

لیکن اگر آپ زمین سے اوپر اٹھ کر آسمانوں سے پورا منظر دیکھو تو جانو گے کہ یہ تو ایک ننھا
سا ٹکرا ہے ، جو ابھی ہٹ جائے گا -

اگر یہ سیاہ بادل زندگی پر نہ چھائیں ، تو ہماری زندگی میں رحمت کی کوئی بارش نہ ہو - "

از نمرہ احمد ( جنت کے پتے سے اقتباس )
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ ایک پوری حکایت ہے
جس میں بے چارا شاعر کہتا ہے
کہ
عجیب بے وقوف لوگ ہیں
کتے تو کھلے چھوڑ رکھے ہیں اور پتھر باندھ رکھے ہیں

کبھی فارغ وقت میں پوری حکایت سناؤں گا


پھر تو یہ بہت ہی مزیدار حکایت ہے۔ انتظار رہے گا۔:D
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
پھر تو یہ بہت ہی مزیدار حکایت ہے۔ انتظار رہے گا۔:D
خلاصہ سن لو یار

ایک شاعر کسی دور دراز دیہات میں رہتا تھا
دارالحکومت سے دور تھا، اور وہاں اس کے فن کی کسی کو قدر نہیں تھی
ایک بار اس نے ایک شاندار قصیدہ لکھا ، اور سوچا کہ اب یہ کسے سناؤں
دارلحکومت تو اس غریب کی پہنچ سے دور تھا، کہ بادشاہ کو سنا کر انعام پاتا، اس کے گاؤں کے قریب کہیں چوروں کا ایک گروہ رہتا تھا
اس نے چوروں کے سردار کے پاس جا کر اسے قصیدہ سنایا اور داد چاہی،
چوروں کا سردار بھلا کہاں علم و فن کی قدر جانتا تھا، الٹا اس نے اپنی خباثت دکھائی، اور صلے کے طور پر اپنے چوروں کو کہا کہ اس کے کپڑے اتار لو اور اس کی چھترول کر کے اسے بھگا دو
سخت سردی کا موسم تھا، بے چارا شاعر پٹائی کروا کے ننگا ہی ٹھٹھرتا خود کو کوستا گھر واپس جا رہا تھا کہ ایک بستی کے قریب سے گزرا تو کتے اس کے پیچھے لگ گئے
بے چارے نے زمین سے پتھر اٹھانا چاہا تو چونکہ سردی کی وجہ سے ہاتھ جمے ہوئے تھے، سن ہو چکے تھے اس لیے پتھر نہ اٹھا سکا
اس وقت اس نے ایک فی البدیہہ شعر کہا

عجیب بے وقوف لوگ ہیں
پتھر تو باندھ رکھے ہیں اور کتے کھلے چھوڑ رکھے ہیں

یہ تھا میرے اس احتجاج کا ایک چھوٹا سا نقطہ ، جس پر کسی نے غور کرنے کی ضرورت نہیں جانی
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اللہ تعالی جس کو اپنا آپ یاد دلانا چاہتا ہے اسے دکھ کا الیکٹرک شاک دے کر اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔
دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسان دوسروں کے لیئے نرم پڑجاتا ہے ۔پھر اس سے نیک اعمال خود بخوداور بخوشی سر زد ہونے لگتے ہیں۔دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے۔اس پر صابرو شاکر ہی چڑھ سکتے ہیں۔
(بانو قدسیہ کی کتاب دست بستہ سے انتخاب)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اللہ تعالی جس کو اپنا آپ یاد دلانا چاہتا ہے اسے دکھ کا الیکٹرک شاک دے کر اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔
دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسان دوسروں کے لیئے نرم پڑجاتا ہے ۔پھر اس سے نیک اعمال خود بخوداور بخوشی سر زد ہونے لگتے ہیں۔دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے۔اس پر صابرو شاکر ہی چڑھ سکتے ہیں۔
(بانو قدسیہ کی کتاب دست بستہ سے انتخاب)


ہاں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔
 

نیلم

محفلین
رونے میں کوئی برائی نہیں یے

رونے میں کوئی برائی نہیں یے۔ نم آنکھیں‘ نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہیے۔ اگر دل سخت ہو جائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیچ نہیں بویا جا سکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہو جائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی یے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوتی سے جما دیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا...۔"
بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی یے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا یے جو وہ اپنے اللہ سے توقع کرتے ہیں۔

(اقتباس: فاطمہ عنبریں کے ناول "رستہ بھول نہ جانا" سے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ اس جھکڑ کو گزر جانے دو اندر رُکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا۔ غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے۔

جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ضد نا کرو اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔

جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا نا, ہار جاؤ۔ ہار جاؤ ۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے۔



جب بھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اُسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ، شاید اللہ کو تمھاری یہی ادا پسند آ جائے۔

الکھ نگری (ممتاز مفتی) سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
"میرا ایک کوئسچن ہے سر!" ایک نو عمر،لمبا سا لڑکا مائیک پہ آیا.
" میں نے آپ کے پچھلے لیکچر سے متاثر ہو کر قرآن سیکھنا شروع کیا تھا.مگر قرآن پڑھتے اب مجھ پر پہلے والی کیفیت طاری نہیں ہوتی. دل میں گداز نہیں پیدا ہوتا. میں قرآن پڑھتا ہوں تو میر
ا ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے."

تیمور نے مائیک قریب کیا، پھر بغور اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے پوچھا." آپ کہیں جھوٹ تو نہیں بولتے؟"


"جی؟" وہ بھونچکا رہ گیا .
...
"ایک بار یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور آمین کے دل میں اترتا ہے. میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علما کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے."
بات کرتے ہوئے تیمور ہمایوں کی کانچ سی بھوری آنکھوں میں ایک کرب ابھرا تھا.اس نے صوفے کی پشت پہ ہاتھ رکھے.

فرشتے ساکت کھڑی تھی.اس کے پیچھے دیوار میں شیلف بنا تھا. ایک طرف میز تھی .میز پہ تازہ تہہ کی ہوئی جائے نماز ابھی ابھی رکھی گئی تھی.
ساتھ شیلف کے سب سے اوپر والے خانے میں احتیاط سے غلاف میں لپٹی ایک کتاب رکھی تھی. اس کا غلاف بہت خوبصورت تھا. سرخ ویلویٹ کے اوپر سلور ستارے. مگر گذرتے وقت نے غلاف کے اوپر گرد کی ایک تہہ جما دی تھی اور وہ شیلف اتنا اونچا تھا کہ اس تک اسٹول پہ چڑھے بغیر ہاتھ نہیں جاتا تھا.

"جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جاتا ہے." اسکرین پہ وہ روشن چہرے والا شخص کہ رہا تھا.
" ہم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے عرب معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ رکھتے ہیں کہ وہ بہت جاہل اور گنوار لوگ تھے اور بیٹیوں کو زندہ دبانے والے وحشی تھے. لیکن ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں. وہ مہمان نواز تھے، عہد کی پاس داری کرتے تھے. جہاں تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام عرب کے کچھ غریب قبائل کرتے تھے اور اس وقت بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں جو فدیہ دے کر ان بچیوں کو چھڑاتی تھیں.
اور رہی بات صداقت کی تو عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح عمل سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس شخص پہ حیران ہوتے تھے جو جھوٹ بولتا ہو.

اسی لئے ان لوگوں کو قرآن دیا گیا تھا اور اسی لئے ہم لوگ اس کی سمجھ سے محروم کر دے گئے ہیں، کیوںکہ نہ تو ہم سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت کا خیال رکھتے ہیں بھلے وہ کسی ذمہ داری کی امانت ہو، کسی کی عزت کی یا کسی کے راز کی."

از نمرہ احمد، مصحف
 

نایاب

لائبریرین
حاصل مطالعہ ہے یہ جملہ
"ایک بات یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور آمین کے دل میں اترتا ہے. میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علما کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے."​
 

رانا

محفلین
"ایک بار یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور آمین کے دل میں اترتا ہے. میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علما کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے."
از نمرہ احمد، مصحف
لکھنے والے نےبہت ہی لطیف نکتہ اٹھایا ہے۔ بالکل قرآن کی ایک آیت کی تفسیر۔
لا یمسه الا المطهرون
[56:80] کوئی اسے چُھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں اِک عرصہ تک اِس نُور والے فلسفہ پہ مغز کھپائی کرتا رہا۔۔۔بالآخر جب اللہ تعالٰی کی جانب سے توفیق حاصل ہوئی تو سمجھ میں آیا کہ نُور کیا ہے اور کن کن معانی و استعارات میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے بابا جی رحمتہ اللہ علیہ دُعا کرتے وقت ہمیشہ اختصار و آہستگی اختیار فرماتے۔۔زیرِلب کچھ کہتے پڑھتے، وہ بھی لب مبارک کی جنبش سے پتہ چلتا تھا۔۔۔خوش قسمتی کہ چند ایک بار مجھے اِن کے دُعائیہ الفاظ سماعت کرنے کا موقعہ نصیب ہوا۔۔۔ یہی مواقع تھے کہ میں لفظ نور کی معنوی بصیرت سے فیضیاب ہوا۔ آپ بابا جی ہمیشہ لفظ نور کو ہر دعا و التجا کا نمایاں حصہ بناتے تھے۔ مثلا ’’ اے باری تعالٰی ہمیں نورِ بصیرت عطا فرما، نُورِ یقین، نُورِایمان، نُورِعلم، نُورِتوحید، نُورِبندگی اور نُورِ استقامت، نُورِ رِزق، نُورِ صبر، نُورِ صحت، نُورِاولاد عطا فرما‘‘۔۔۔ بات کھلی کہ ہر مادے، ارادے استفادے کا اصل ماخذ تو نُورِ الٰہی ہے۔ اگر محض یہ کہا جائے کہ ہمیں بے حساب رِزق عطا کر۔۔۔۔رِزق تو آگیا اگر برکت نہ ہوئی تو کیا فائدہ؟ اولاد مل گئی لیکن اس میں صالحیّت نہ آئی تو کس کام کی؟

(محمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔ صفحہ نمبر 628)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مجھے یاد ہے وہاں ایک اشرف لغاری آیا کرتا تھا - اسے پتنگ اڑازے کا بڑا شوق تھا اور بڑا ہی پتنگ باز سجنا تھا وہ خوبصورت سی ریشمی چادر باندھتا تھا اور کندھے پر پرنا رکھتا تھااور جوں جوں بسنت قریب آتی جاتی تھی اس کا شوق اور مانگ بڑھتی جاتی تھی۔
میں نے اس سے کہا "اشرف تم پتنگ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو"
وہ کہنے لگا " صآحب آپ اگر کبھی پتنگ اڑا کر دیکھیں اور اپ کو بھی اس کی ڈور کا جھٹکا پڑے تو آپ کبھی اسے
چھوڑ نہ سکیں "
میں نے کہا " تم ڈیرے پر آتے ہو- بابا جی کی باتیں سنتے ہو اور ان کی خدمیتیں بھی کرتے ہو "


وہ بولا " صاحب یہ سب کچھ میری گڈی (پتنگ) اڑانے کی وجہ سے ہوتا ہے "
میں نے کہا یار اس میں کیا راز ہے ، تو وہ کہنے لگا جب میرا پتنگ بہت اونچا چلا جاتا ہے اور "ٹکی" ہو جاتا ہے اور نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور میرے ہاتھ میں صرف اسکی ڈور ہوتی ہے تو اس نہ نظر آنے کی جو کھینچ ہوتی ہے ، اس نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا ہے اور میرے دل پر اللہ کی کھینچ بھی ویسے ہی پڑتی ہے جیسے اس پتنگ کی میرے ہاتھوں پر پڑتی ہے "

از اشفاق احمد ، زاویہ 3 صفحہ نمبر 76
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
’’زندگی بھی گاڑی کی طرح ہوتی ہے،کبھی کبھی پریشانیوں کے کسی جھٹکے سے رُک سی جاتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ کبھی چلے گی ہی نہیں،لیکن ایسا نہیں ہوتا۔کوئی بھی موسم چاہے وہ مایوسی یا قنوطیت کا ہی کیوں نہ ہو،اُسے بدلنا ہی ہوتا ہے۔یہ ہی فطرت کا قانون ہے۔۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔’’اور پتا ہے کہ غیر موافق حالات بھی اسپیڈ بریکر کی طرح ہوتے ہیں کبھی کبھی تو اچانک ہی سامنے آجاتے ہیں ،وقتی طور پر جھٹکا ضرور لگتا ہے لیکن کچھ ہی دیربعد زندگی کے سڑک بھی ہموار ہو کر رواں دواں ہو جاتی ہے۔۔‘‘
(صائمہ اکرم کے ناول’’موسم گل حیراں ہے‘‘ سے ایک خوبصورت اقتباس)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے ابلیس کو دیکھنے کا شوق تھا ایک روز مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا۔ دور سے ایک بوڑھا مرد آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر وہ میری طرف متوجہ ہوا اسے دیکھتے ہی میرے دل پر خوف طاری ہوگیا۔ میں نے پوچھا تو کون ہے ؟ تیری ہیبت سے میرا دل لرز گیا ہے۔ بوڑھے نے کہا، میں وہی ہوں جس کو دیکھنے کی تجھے آرزو تھی۔ میں نے پوچھا ’ملعون تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہ کیا؟‘ بولا جنید تجھے کیا ہوگیا؟ کیا میں غیر اللہ کو سجدہ کرتا؟ میں ابلیس کا جواب سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔ ہاتف غیب نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ’اس سے کہو تو جھوٹ بکتا ہے اگر تیرے دل میں فرمانبرداری کا جذبہ ہوتا تو رب العزت کے فرمان سے سرتابی نہ کرتا اور اس طرح خدا کا قرب کیوں نہ حاصل کیا؟‘ ابلیس نے بھی میرے دل میں آنے والی ندائے ہاتف سن لی اور چلایا: ’جنید تو نے مجھے پھونک دیا‘۔ اور غائب ہوگیا۔ یہ حکایت جنیدؒ کی پاکدامنی اور ان کے محفوظ ہونے کی دلیل ہے۔ باری تعالٰی ہر حال میں اپنے دوستوں کو ابلیس کے مکرو فریب سے محفوظ رکھتا ہے۔
(از کشف المحجوب صفحہ نمبر194 )
 
Top