پھر تو یہ بہت ہی مزیدار حکایت ہے۔ انتظار رہے گا۔
خلاصہ سن لو یار
ایک شاعر کسی دور دراز دیہات میں رہتا تھا
دارالحکومت سے دور تھا، اور وہاں اس کے فن کی کسی کو قدر نہیں تھی
ایک بار اس نے ایک شاندار قصیدہ لکھا ، اور سوچا کہ اب یہ کسے سناؤں
دارلحکومت تو اس غریب کی پہنچ سے دور تھا، کہ بادشاہ کو سنا کر انعام پاتا، اس کے گاؤں کے قریب کہیں چوروں کا ایک گروہ رہتا تھا
اس نے چوروں کے سردار کے پاس جا کر اسے قصیدہ سنایا اور داد چاہی،
چوروں کا سردار بھلا کہاں علم و فن کی قدر جانتا تھا، الٹا اس نے اپنی خباثت دکھائی، اور صلے کے طور پر اپنے چوروں کو کہا کہ اس کے کپڑے اتار لو اور اس کی چھترول کر کے اسے بھگا دو
سخت سردی کا موسم تھا، بے چارا شاعر پٹائی کروا کے ننگا ہی ٹھٹھرتا خود کو کوستا گھر واپس جا رہا تھا کہ ایک بستی کے قریب سے گزرا تو کتے اس کے پیچھے لگ گئے
بے چارے نے زمین سے پتھر اٹھانا چاہا تو چونکہ سردی کی وجہ سے ہاتھ جمے ہوئے تھے، سن ہو چکے تھے اس لیے پتھر نہ اٹھا سکا
اس وقت اس نے ایک فی البدیہہ شعر کہا
عجیب بے وقوف لوگ ہیں
پتھر تو باندھ رکھے ہیں اور کتے کھلے چھوڑ رکھے ہیں
یہ تھا میرے اس احتجاج کا ایک چھوٹا سا نقطہ ، جس پر کسی نے غور کرنے کی ضرورت نہیں جانی