مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

فہیم

لائبریرین
ڈاکٹر صاحب کے دوست "ف" کا حدود اربعہ معلوم کرنا پڑے گا
یہ "ف" سے مجھے اپنا ہی نام دماغ میں آجاتا ہے :)

لیکن میں اس "ف" جیسا نہیں کہتا :)
 

نایاب

لائبریرین
” میڈم مجھے ایک بات پوچھنا ہے” اس روز وہ کلاس کے بعد میڈم مصباح کے پاس چلی گئی تھی .
“جی ضرور پوچھئے.” میڈم بہت توجہ سے اس کی طرف پلٹی تھیں-
وہ میم ! مجھ سے نماز پڑھی نہیں جاتی، تو خیر ہے؟”
” ہاں، کیوں نہیں خیر ہے ، اٹس اوکے، اگر آپ نہیں پڑھ سکتیں تو” محمل کو لگا، منوں بوجھ اس کے کاندھوں سے اتر گیا ہو. وہ ایک دم قید سے آزاد ہوئی تھی-
” وہی تو میم! میں باقی نیکیاں کر لوں، قرآن پڑھ لوں، ٹھیک ہے نا. نماز پڑھنا بہت ضروری تو نہیں ہے؟”
“نہیں، اتنا ضروری تو نہیں ہے. اگر آپ نہیں پڑھنا چاہتیں تو نہ پڑھیں.”
” میم! کوئی فرق تو نہیں پڑے گا نا ؟”
” قطعا فرق نہیں پڑے گا. یہ بلکل آپ کی اپنی مرضی پہ ہے “
” اوہ …..اوکے!” وہ بے حد آسودہ سی مسکرائی -
مگر میڈم مصباح کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی-
” یقین کریں محمل ! کوئی فرق نہیں پڑے گا اسے -
آپ بیشک نماز نہ پڑھیں، بے شک سجدہ نہ کریں -
جو ہستیاں اس کے پاس ہیں، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتیں-
اگر آپ کر لیں، اسے کیا فرق پڑے گا -
اس آسمان کا بالشت بھر بھی حصہ خالی نہیں -
جہاں کوئی فرشتہ سجدہ نہ کر رہا ہو-
اور فرشتہ جانتی ہیں، کتنا بڑا ہو سکتا ہے؟
جب اس پہاڑی پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جبرائیل
علیہ السلام کے پکارنے پہ پلٹ کر دیکھا تھا تو جبرائیل علیہ السلام کا قد زمین سے آسمان تک تھا -
اور ان کے پیچھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آسمان نظر نہیں آرہا تھا. ایسے ہوتے ہیں فرشتے-
70 ہزار فرشتے کعبہ کا روز طواف کرتے ہیں، یہ تعداد عام سی لگتی ہے -
مگر جانتی ہو، یہ جو 70 ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں، ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آئے گی -ا
س رب کے پاس اتنی لاتعداد ہستیاں ہیں عبادت کرنے کے لئے، آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو اسے کیا فرق پڑے گا؟”
میڈم مصباح جا چکی تھیں اور وہ دھواں دھواں چہرے کے ساتھ کتابیں سینے سے لگائے ساکت سی کھڑی تھی.
اس کو لگا ،وہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑ سکے گی-

از نمرہ احمد، مصحف


نہیں ، اُنھیں کچھ نہ کہو ، وہ بہت پیارے لوگ اور سچے لوگ تھے !
کُھل کر نفرت کا اظہار کرتے تھے اور پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو چاہتے بھی تھے ،۔
اب تو کچھ بھی نہیں رہا ،۔!،۔

"نہ نفرت نہ محبت"

لوگ مصلحتا" ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور زندگی بھر اداکاری کرتے رہتے ہیں !!!،۔

بھیڑئیے کی آواز ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن ِ صفی ،۔ !!،۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مرد کا کام عورت کو سمجھنا نہیں ،

اس کو محسوس کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس سے محبّت کرنا ہے -

عورت کو اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ مرد اس کو سمجھنے لگا ہے ، یا اس کے جذبات کو جانچنے کا راز پا گیا ہے تو وہ فوراً تڑپ کر جان دے دی گی -
...

آپ عورت کیساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کریں ، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں ،

اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی -

اس کے ذھن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے ، جسے اس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے -

اور وہ اسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی -

اس لیے وہ کسی عقل ودانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی -

اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے -

از اشفاق احمد سفر در سفر صفحہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اگر آپ خدا سے دعا کریں کہ اے اللہ جو تو چاہتا ہے ہمیں وہی عطا کر وہی ٹھیک ہے ‘یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ آپ کو فقیری عطا کر دے جبکہ آپ کی سی ایس ایس افسر بننے یا بڑا افسر بننے کی خواہش ہے۔آپ ڈپٹی کمشنر کی جگہ ٹاؤن ہال میں کلرک لگ جائیں۔اللہ سے یہ دعا کریں کہ اے اللہ مجھے ڈپٹی کمشنر بھی بنا دے اور پھر ویسا نیک بھی رکھ کہ رہتی دنیا تک لوگ مجھے یاد کریں کہ با وصف کی اس کو ایک بڑی مشکل درپیش تھی ‘بڑے اختیارات حاصل تھے لیکن وہ نیک اور دیانتدار ضلع ناظم تھا۔ اور وہ اپنے منصب پر پورا اتراہے۔ایک بات آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیںاور مجھے یہ بات میرے بابوں نےبتائی ہے ۔میں تو اس بات پر اس طرح سے یقین نہیں کر پایا لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے اور خدا کی ذات پر بھروسہ کرنے والے بچے ہیں ۔آپ ضرور اس پر یقین کامل رکھیں گے کہ " دعا بذاتِ خود ایک بڑی نعمت اور دولت ہے ۔یہ معمولی سا لفظ اپنے اندر بڑی وسعتیں سموئے ہوئے ہے۔"

از اشفاق احمد، زاویہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
‎"اور میرا بابا کہتا ہے " ۔ میں نے اونچی آواز میں کہا ۔" کہ ماننے کے لیے جاننا ضروری نہیں "

از اشفاق احمد سفر در سفر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
حیا' یہ جو ہمارا اللہ سے فاصلہ آ جاتا ہے نا ،یہ سیدھی سڑک کی طرح نہیں ہوتا یہ پہاڑ کی طرح ہوتا ہے اس کو بھاگ کر طے کرنے کی کوشش کرو گی تو جلدی تھک جاؤ گی ، جست لگاؤ گی تو درمیان میں گر جاؤ گی ، اڑنے کی کوشش کرو گی تو ہوا ساتھ نہیں دے گی "
یہ فاصلہ بےبی اسٹیپس سے عبور کیا جاتا ہے 'جھوٹے جھوٹے قدم اٹھا کر چوٹی پر پہنچا جاتا ہے کبھی بھی درمیان میں پلٹ کر نیچے اترنا چاہو گی تو پرانی زندگی کی کشش ثقل کھینچ لے گی اور قدم اترتے چلے جائیں گے اور اوپر چڑھنا اتنا ہی دشوار ہو گا مگر ہر اوپر چڑھتے قدم پہ بلندی ملے گی . سو بھاگنا مت ،جست لگانے کی کوشش بھی نہ کرنا .بس چھوٹے چھوٹے اچھے کام کرنا اور چھوٹے چھوٹے گناہ چھوڑ دینا.

جنت کے پتے ۔ نمرہ احمد
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
’’میں محبت کے جذبے پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہوں۔جو دل کے آنگن میں اچانک پھوٹتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک تن آور درخت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔مجھے چناب کی سوہنی،تھل کی سّسی،گاؤں کی ہیر اور روہی کے سردٹیلے میں گونجتی محبت کی دلکش پکار آج بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔محبت کے عظیم جذبے کی شاہراہ سے کئی راستے نکلتے ہیں۔جہاں وصل کی بارشیں بھی ہیں اور ہجر کی ویرانیاں بھی،اُداسی کی گھمبیر فضا اور روشنی کا سمندر بھی،غم کی دھوپ اور ملن کی چھاؤں کے خوشنما خواب بھی۔‘‘

(’’صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ’’ہم اُس کے ہیں‘‘ سے ایک خوبصورت اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
پتّر ،زندگی کی تلخیاں ،آدمی کی زندگی میں وہ ہی حثیت رکھتی ہیں،جو سونے چاندی کو تپانے کے لیے کیا جاتا ہے۔تپانے کا عمل جس طرح سونے چاندی کو نکھارتا ہے۔اسی طرح تلخ تجربات آدمی کی اصلاح کرتے ہیں اور انسانوں میں چمک پیدا کر دیتے ہیں۔ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے ۔اس لیے دل برا نہیں کرتے۔‘‘
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ ‘‘میں ہوں ناں‘‘ سے ایک اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
’’ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں درنگی،بے ایمانی،سفاکی،بدعنوانی اور حیوانیت عام ہے۔ ہم جس کی مدد کرتے ہیں ،وہی بری طرح ہمارا استحصال کرتا ہے۔ہم جسے تربیت پرواز دیتے ہیں۔وہ اڑتے ہوئے ہمیں ہی اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں ۔ایسے میں بندہ خوش گمان کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔۔؟؟؟

(صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ ’’بات عمر بھر کی ہے‘‘ سے ایک اقتباس)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
’’بارش کی شدت کم ہو کر ہلکی پھوار میں تبدیل ہو گئی تھی۔برآمدے میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھی’’انا‘‘ صحن میں تسلسل سے گرتی بوندوں کو انہماک سے دیکھے جا رہی تھی۔گاہے بگاہے وہ گردن اٹھا کر گرجتے برستے آسمان کو بھی دیکھ لیتی تھی جہاں سیاہ بادل آج مکمل برسنے کے موڈ میں تھے۔یوں لگتا تھا جیسے آسمان سے ایک عظیم الشان ،صاف شفاف پانیوں والی آبشار نے زمین کا رخ کر لیا ہو۔کچھ دیر بعد چھاجوں برسنے والے مینہ کا تسل...

سل اب ٹوٹ گیا تھا۔آم کے درخت کی ڈالیوں میں چھپی کوئل کوکنے لگی تھی۔انا سے کچھ فاصلے پر لکڑی کے تخت پر لیٹے خالو جان کی بے چین نظریں سبز لکڑی کے گیٹ پر تھیں جہاں سے سعدی نے آنا تھا،جوں جوں وقت گذر رہا تھا۔خالو جان کی بے چینی اور بے قراری اب کوفت اور جھنجھلاہٹ میں بدلنے لگی تھی۔

(صائمہ اکرم کے ناولٹ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ سے ایک اقتباس۔۔۔)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انسان کو انسان سمجھو ۔۔۔۔کیونکہ انسان کی بے قدری خالق کو پسند نہیں۔
یاد رکھو ۔۔۔اگر تمھارے اندر احترام انسان نہیں اور۔۔۔۔ نا ہی نماز ، روزہ۔ تمھیں یہ سیکھا سکی تو تمھاری بھی عبادت ابلیس کی عبادت کی طرح ہے جو اتنی عبادت کے باوجود ناکام ہوا۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارے اندر سے پھوٹتی یہ روشنی ہمارے اردگرد کی دنیا کو ہمارے لئے کم ہولناک بنا دیتی ہے۔درندے ا ب بھی دھاڑتے ہیں، نہ نظر آنے والے خون آشام پرندوں کی پھڑپھڑاہٹیں ہم اب بھی سنتے ہیں لیکن ہمارے اردگرد جو یہ روشنی کا ہالہ بن جاتا ہے یہ ہمیں پرسکون کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم بھی کتنے عجیب ہیں۔ہم اپنے دل میں اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاکھوں نوری سالوں تک ہمارے چھ جہات میں اندھیرا بکھرا ہے مگر ہم مطمئن ہیں کہ...
ہمارے اندر کی روشنی سے یہ چند مربع گز کی زمین تو منور ہے۔ہم اس پر خداوند تعالی کے شکر گذار ہوتے ہیں اور وہ ذاتِ بابرکت ہمارے اس شکر پر مسکراتی ہے اور فخر سے ملائکہ کی طرف دیکھتی ہے۔دیکھو یہ میرے شکر گذار بندے اس حالت میں بھی میرا شکربجا لا رہے ہیں۔میں ان کیلئے خوبصورت جنت کی تخلیق کروں گا جسے حوروں اور بہنے والے پاکیزہ دریاؤں سے بھر دوں گا۔ایسی جنت جس میں کسی کیلئے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہو گا۔

تو ہم اپنی محدود روشنی ، اپنے محدود سچ سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور یہی محدود سچ ہماری دنیا ہے۔ایک طرح سے دیکھیں تو یہی محدود سچ ’’ہم‘‘ہیں اور ’’ہمارا خدا‘‘ہے۔ہر انسان کیلئے ایک سچ ہے اور وہی سچ اسکی کائنات ہے اور ہم اس کائنات سے اوپر نہیں اٹھ سکتے۔

سید اسد علی کی کتاب ‘‘جونک اور تتلیاں’’ سے ایک اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
خیر اور شر الله کی طرف سے ہے - اس وضاحت کے ساتھ کہ خیر الله کے قرب کی دلیل ہے اور شر الله کی ناراضگی کا سبب -

خیر اور شر کا الله تعالیٰ کی طرف سے آنا ایسا ہی ہے جیسے زندگی اور موت کا الله کی طرف سے آنا -

ہم زندگی کو پسند کرتے ہیں اور موت سے بچنے کی تدابیر کرتے ہیں -
...

دن اور رات بھی الله کی طرف سے ہے - عزت اور ذلت بھی الله کی طرف سے -

ہم عزت کے طالب ہیں ذلت سے بچتے ہیں -

شر پسند انسان یہ جواز نہیں دے سکتا کہ یہ الله کی طرف سے ہے -

ہمیں آگاہ کیا جا چکا کہ کونسا راستہ کدھر کو جاتا ہے اور کونسا عمل کیا نتیجہ بر آمد کرتا ہے - خیر و شر کا معرکہ ہوتا ہی رہتا ہے -

خیر طلبی الله کی مہربانی ہے اور شر ہمارے نفس کی تمنا -

ہم اپنے ارادوں کو احکام الٰہی کے تابع کر دیں تو یہ کشمکش ختم ہو جاتی ہے - یا کم ہو جاتی ہے -

خدا ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچائے - آمین

از واصف علی واصف کرن کرن سورج
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ہروقت خدا کے احسانات یاد کر۔۔غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی۔۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی۔۔ تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا، تجھ سے محبت کی۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے۔۔ کوئی تجھ پر دوسری نظربھی نہیں ڈالے گا۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے۔۔
لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے۔۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے۔۔ تیری بہتری سوچتا ہے تجھے اہمیت دیتا ہے۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی۔۔ اس محبت کے ساتھ بھی یہ سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی۔۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہو جائے گا۔۔
عشق کا عین از علیم الحق حقی۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مجھے ایک بار ٹرین سے لاھور جانے کا اتفاق ہوا میں جس ڈبے میں سفر کر رہا تھا اس میں ایک بوڑھا بھی بیٹھا تھا- اس کی عمر مجھ سے کافی زیادہ تھی اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس کے جسم سے عجیب سی سمیل smell آ رہی تھی ایسے لگتا تھا کہ وہ دن بھر جسمانی مشقت کرتا رہا ہے اور بار بار کپڑے پسینے میں شرابور ہونے کی وجہ سے اس سے ایسی ھمک آ رہی ہے
میں حسب عادت اس سے باتیں کرنے لگا گو طبیعت نہیں چاہ رہی تھا تجسس کی حس بیدار ہوئی اور اس سے باتیں کرنے لگا
میں نے پوچھا بابا کہاں جانا ہے
وہ مسکرایا اور بولا گھر
اب میں تلملایا بھی لیکن مجھے لگا کہ وہ کوئی عام شخص نہیں کوئی بابا ہے جو اس نے مجھے اتنا مختصر اور جامع جواب دیا ہے
میں اس کے قریب ہو گیا اور پوچھا
"جوانی اچھی ہوتی ہے کہ بڑھاپا"
اس نے کہا جوانوں کے لیے بڑھاپا اور بوڑھوں کے لیے جوانی
میں نے کہا وہ کیسے
بولا " بوڑھے اگر جوان ہو جائیں تو شاید وہ پہلے والی غلطیاں کبھی نہ دہرائیں اور اگر جوان بوڑھوںکو تجربے کے طور پر لیں تو ان کی جوانی بے داغ اور بے عیب گزرے
اس بوسیدہ کپڑوں والے بوڑھے نے اتنی وزنی بات کر دی کہ بڑے مفکر اور دانشور ایسی بات نہیں کر سکتے

از اشفاق احمد زاویہ 3
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
سطح پر تیرنے والے کے حصے میں فقط جھاگ اور خس و خاشاک آتا ہے جبکہ گہرائی میں اترنے والے کے نصیب میں موتی۔۔۔۔ زندگی کو سطحی طور پر برتنے والے کو بس روز مرہ کی زندگی کے خس و خاشاک
سے ہی حصہ ملتا ہے البتہ جو زندگی کو گہرائی میں اتر کر دیکھےتو حیات کا اصل حسن اور کائنات کے سر بستہ راز اس پر آشکار ہوجاتے ہیں۔
واصف علی واصف
 
Top