مبارکباد مدرز ڈے

arifkarim

معطل
عارف بھائی اب آپ خود سوچیں کہ کیا یہ مغربی معاشرت کا المیہ نہیں ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو اولاد کی طرف سے دیکھ بھال اور ان کی موجودگی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مغربی اولاد اپنے ماں باپ کو کئیر ٹیک ہومز میں ڈال کر اپنے ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے جو کسی دیسی یا ولائتی معاشرے سے پہلے انجیل زبور تورات اور قرآن نازل کرنے والے اللہ تعالی نے ڈالی ہیں۔
یہ مغربی طرز معاشرت ہے جہاں والدین اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اولاد والدین کی دیکھ بھال نہیں کرتی۔ آپکو اس سے اختلاف ہے تو ضرور کریں پر یہاں تو ایسا بہت لمبے عرصے سے ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ۔

آپ دنیا اور معاشرے کی کسی برائی اور کسی بھی بگاڑ کا تجزیہ کر لیں۔ ہر جگہ آپ کو یہی حقیقت نظر آئے گی کہ وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ہندو ہوں یا مسلمان، ہر مذہب کے لوگ ا آسمانی احکامات کو نظر انداز کر کے ، معاشرے کو نظم و ضبط اور حدود میں رکھنے کیلیے ضروری مذہبی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔
مغرب کی اکثریت ملحد، لبرل اور سیکولر ہے۔ ان سے کسی مذہبی اقدار پر چلنے کی توقع نہ کریں۔

عارف بھائی بیحد بیحد بیحد افسوس ہے کہ آپ قرآنی آیات پر مبنی ایک صاف ستھری پوسٹ کو بھی مضحکہ خیز کی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ خدارا مقدس قرآنی آیات کو تو بخش دیں۔ کیوں بار بار اللہ کے عذاب شدید کو آواز دے رہے ہیں؟ میں نے آپ سے پیار محبت اور اخلاق و آداب میں رہ کر بات کر کے دیکھ لی۔ مجھے آپ نہیں سدھر سکتے۔ اب اس کے بعد آپ جیسے گستاخ دین کو کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔:love-over:
آپ دیسی تہذیب کی تعریف کرتے وقت مغربی تہذیب سے متعلق بغض رکھنا بند کر دیں۔ ریٹنگز درست ہو جائیں گی۔
 
یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم نہیں ہوتا اسلئے بلوغت کی عمر پہنچنے کے بعد اولاد والدین کیساتھ عموماً نہیں رہتی۔ جب ماں باپ کی عمر بڑھاپے تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کر سکتے تو وہ اولڈ ہومز کا رُخ کرتے ہیں۔ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں بنتے جو خود اپنی اولاد کو سنبھالنے کی فکر میں مصروف ہوتی ہے۔
چائنہ نے اسکا بھی علاج دریافت کیا ہےhttp://www.bbc.com/urdu/search/?q=چین والدین
 
عارف بھائی اب آپ خود سوچیں کہ کیا یہ مغربی معاشرت کا المیہ نہیں ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو اولاد کی طرف سے دیکھ بھال اور ان کی موجودگی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مغربی اولاد اپنے ماں باپ کو کئیر ٹیک ہومز میں ڈال کر اپنے ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے جو کسی دیسی یا ولائتی معاشرے سے پہلے انجیل زبور تورات اور قرآن نازل کرنے والے اللہ تعالی نے ڈالی ہیں۔
آپ دنیا اور معاشرے کی کسی برائی اور کسی بھی بگاڑ کا تجزیہ کر لیں۔ ہر جگہ آپ کو یہی حقیقت نظر آئے گی کہ وہ عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ہندو ہوں یا مسلمان، ہر مذہب کے لوگ ا آسمانی احکامات کو نظر انداز کر کے ، معاشرے کو نظم و ضبط اور حدود میں رکھنے کیلیے ضروری مذہبی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔
ہندو تو بے مذہب لوگ ہیں
 
ہندو تو بے مذہب لوگ ہیں
بھائی گو وہ بھی یورپ اور یورپ کے پرستاروں کی طرح اپنے مذہب سے دوری اختیار کر کے بے مذہب ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کی مذہبی کتابوں میں بھی اخلاقیات کادرس ضرور موجود ہے۔ جسے وہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح بھلا کر لبرل ہو رہے ہیں۔ ہندو معاشرے میں بھی عریانی فحاشی اور رشتوں کی قدروں کی پامالیاں اسی وجہ سے ہیں
 
مدرز ڈے مبارک!
ہر روز خوشی کا دن ہوتا ہے پھر عید کیوں؟
ہر روز عبادت کا دن ہوتا ہے تو پھر حج کیوں؟
ہر روز کسی نا کسی کو بھوک لگتی ہے ، بھوکا ہوتا ہے ، کھلا دیں پھر روزہ کیوں؟
نشان حیدر کیوں ؟ ستارہ جراءت کیوں ؟
ضروری ہے کہ خصوصی طور پر مانا جائے کہ اگر آج کا دن ماؤں کے لئے ہے ۔۔۔ ان سب کو خوشی مبارک، پھول مبارک ، کارڈ مبارک اور پھر ایک شاندار قسم کا عشائیہ مبارک :)
مجھے مدر ڈے پر کوئ بہت بڑا اعتراض نہیں پر کیا ایک دن کا ہی رشتہ ہوتا ہے ماں کا؟کیا ایک دن کے منا لینے سے باقی تین سو چونسٹھ دن کی زمے داری ختم ہو جاتی ہے؟ میرے خیال سے دن منانا چاہیئے اور اپنی والدہ سے پوچھنا چاہیے کے ۔اس سے پہلے اس سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہوی ، اگر نہ ہوئی ہو تو وہ خوش قسمت ہے اور اگر ہوئی ہو تو نظر ثانی کرے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔نوٹ میرے یہ پوسٹ اسلامی لحاظ سے کیسی ہے اس کا مجھے یہ تو زیادہ علم نہیں پر میرا نظریہ یہ ہے۔ میرے خیال سے مدر ڈے ٹھیک ہے خاص طور پر گوروں کے لیے کم ازکم سال میں ایک دن تو وہ ایک دن تو کسی بہانے وہ اپنی والدہ کو وقت دیتے ہیں
 
ہندو تو بے مذہب لوگ ہیں
ہندو ایک رب کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کو واشنوا ہندو کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سنیوں اور شیعوں کی طرح کے لوگ ہیں جس طرح یہ علی پوجا اور محمد پوجا میں مصروف ہیں ۔ اسی طرح ہندو ، طرح طرح کی پوجا میں مبتلا ہیں ۔ ہندوؤں کو بے مذہب کہنا درست نہیں۔ ان کی مذہبی کتب میں بھی وہی اصؤٌل درج ہیں جو مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کی کتب میں ہیں۔
 

arifkarim

معطل
بھائی گو وہ بھی یورپ اور یورپ کے پرستاروں کی طرح اپنے مذہب سے دوری اختیار کر کے بے مذہب ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کی مذہبی کتابوں میں بھی اخلاقیات کادرس ضرور موجود ہے۔ جسے وہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح بھلا کر لبرل ہو رہے ہیں۔ ہندو معاشرے میں بھی عریانی فحاشی اور رشتوں کی قدروں کی پامالیاں اسی وجہ سے ہیں
مطلب آپکے خیال میں جو مذہبی نہیں وہ لبرل ہے۔ ماشاءاللہ۔ یہ لبرل کی آج نئی تعریف معلوم ہوئی۔
 
Top