باذوق بھائی آپ شاید بات کو غلط سمجھے۔ میرے خیال میں فاروق بھائی اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ قرآن کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے اور اس لئے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں کبھی یہ بحث نہیں چھڑی کہ یہ آیت ثقہ ہے کہ ضعیف۔ اس کے برعکس احادیث کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے دور سے ہی علمی اختلافات اور سائنسی ریسرچ جاری ہے اور آج بھی ہم کچھ احادیث کو صحیح، کچھ کو ضعیف اور کچھ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ احادیث موجود نہیں ہیں بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ امت ہمیشہ سے سائنسی بنیادوںپر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارک کو حاسدین و مفسدین کے خودساختہ بہتانوں سے پاک رکھنے کے لئے مصروف کار ہے۔ فاروق بھائی کی مراد اسی فرق سے تھی شاید۔
قرآن کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے
اللہ نے صرف قرآن کی حفاظت کو ذمہ نہیں لیا بلکہ پوری اسلامی شریعت کا ذمہ لیا ہے جو قرآن و حدیث دونوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ بات کم سے کم آپ ضرور مانتے ہوں گے کہ اللہ نے جو وحی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کی وہ دو طرح کی تھی ، جلی و خفی۔ اور اللہ نے ان دونوں اقسام کی وحی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے !!
قرآن کی کسی آیت کے بارے میں کبھی یہ بحث نہیں چھڑی کہ یہ آیت ثقہ ہے کہ ضعیف
براہ مہربانی ۔۔۔ تفسیر معارف القرآن یا مفتی تقی عثمانی کی علوم القرآن دیکھ لیجئے گا۔ آپ کو پتا چل جائے گا کہ قرآن کو جمع کرنے کے وقت کتنے مباحث و اختلافات سامنے آئے تھے؟
البتہ جب اجماع ہو گیا تو مصحفِ عثمانی ، اصل قرآن قرار پا گیا۔ اس کے بعد کسی نے آیاتِ قرآنی پر کوئی بحث نہیں کی۔
آج بھی ہم کچھ احادیث کو صحیح، کچھ کو ضعیف اور کچھ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔
یہاں "ہم" سے کون مراد ہیں؟
دورِ حاضر تک ، محدثین کا اجماع ہو چکا ہے کہ کون سی حدیث صحیح ، کون سی ضعیف یا کون سی موضوع وغیرہ ۔۔۔ ہے؟
ہاں ، فقہی اختلافات کے تحت جو لوگ احادیث کی صحت پر اعتراض کرتے ہیں ، محدثین کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔