مذاہب کا تقابلی مطالعہ

شاکرالقادری

لائبریرین
جہاں تک کیچڑ ، چاند اور زمین کی ادبی تراکیب ہیں تو عرض ہے کہ یہ کوئی میری ذاتی تحقیق نہیں ہے ، بلکہ ایسی نشاندہی خود علمائے کرام کی کتب میں درج ہے ، جس کی تصدیق خرم صاحب بھی کر چکے ہیں ( ماسوا شاہ اسماعیل شہید)

ميرا خيال ہے خرم صاحب کي پوسٹ کا دوبارہ مطالعہ کر ليں آپ کو غلط تفہيم ہوئي ہے
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن اور سنت کو اس ممکنہ جرم سے بچانے کے لئے اللہ تعالی نے قرآن یعنی اپنے احکام کو سنت و اقوال رسول کو حضرت محمد صلعم کے مرحلے پر الگ کردیا تاکہ توریت ، زبور و انجیل کی قسم کا جرم ممکن ہی نہ ہو۔ اقوال رسول و سنت رسول اپنے طور پر الگ کتب میں درج ہوئے، کہ صرف سنت و فرمان رسول میں صحیح و ضعیف کی ذمہ داری مسلمان ‌ پر رہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ پچھلے 1400 سے زائد سال اس امر کے گواہ ہیں۔ کسی حدیث کو اصل حدیث رسول قرار دینا آج بھی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ جس کو الفت رسول میں مسلمانوں نے بہت محنت سے نبھایا ہے کہ اصل روح الاقوال و سنت الرسول آج بھی قائم ہے، اور مروجہ اصولوں‌ پر اس کی پرکھ باقاعدہ ہوتی رہتی ہے۔ مزید خوبصورتی اس نظام کی یہ ہے کہ فرمان الہی کو مشیت ایزدی کے مطابق حفاظ نے صفحات کے علاوہ بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن یعنی اپنے احکام کو
کہ صرف سنت و فرمان رسول میں صحیح و ضعیف کی ذمہ داری مسلمان ‌ پر رہے۔

منطقی ، اصولی اور تحقیقی لحاظ سے یہ بات بہرصورت غلط ہی کہی جائے گی۔
کیا اللہ تعالیٰ کے احکام صرف قرآن میں ہیں؟ حدیث میں نہیں ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپ کا ذاتی فرمان ہے ، اللہ کے احکام کا بیان نہیں ہے؟
کیا الگ الگ درج ہونے سے ذمہ داری بھی تقسیم ہو جاتی ہے؟؟
اگر سنت و فرمان رسول میں صحیح و ضعیف کی ذمہ داری مسلمان ‌ پر ہے تو کیا الفاظِ قرآنی کی ذمہ داری مسلمان پر نہیں تھی ؟ آخر قرآن بھی تو ان ہی مسلمانوں (دورِ عثمانی میں) نے اپنی ذمہ داری پر جمع کیا تھا جنہوں نے حدیث بھی محفوظ کی !
بات صرف اتنی ہے کہ جب تک حجیتِ حدیث پر سچے دل سے ایمان نہ لایا جائے اسی طرح شکوک و شبہات میں قلم بہکتا ہی رہے گا اور اسی طرح نام نہاد زبانی و قلمی اقرار کیا جاتا رہے گا !!
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی آپ شاید بات کو غلط سمجھے۔ میرے خیال میں فاروق بھائی اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ قرآن کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے اور اس لئے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں کبھی یہ بحث نہیں چھڑی کہ یہ آیت ثقہ ہے کہ ضعیف۔ اس کے برعکس احادیث کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے دور سے ہی علمی اختلافات اور سائنسی ریسرچ جاری ہے اور آج بھی ہم کچھ احادیث کو صحیح، کچھ کو ضعیف اور کچھ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ احادیث موجود نہیں ہیں بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ امت ہمیشہ سے سائنسی بنیادوں‌پر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارک کو حاسدین و مفسدین کے خودساختہ بہتانوں سے پاک رکھنے کے لئے مصروف کار ہے۔ فاروق بھائی کی مراد اسی فرق سے تھی شاید۔
 

باذوق

محفلین
باذوق بھائی آپ شاید بات کو غلط سمجھے۔ میرے خیال میں فاروق بھائی اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ قرآن کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے اور اس لئے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں کبھی یہ بحث نہیں چھڑی کہ یہ آیت ثقہ ہے کہ ضعیف۔ اس کے برعکس احادیث کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے دور سے ہی علمی اختلافات اور سائنسی ریسرچ جاری ہے اور آج بھی ہم کچھ احادیث کو صحیح، کچھ کو ضعیف اور کچھ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ احادیث موجود نہیں ہیں بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ امت ہمیشہ سے سائنسی بنیادوں‌پر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارک کو حاسدین و مفسدین کے خودساختہ بہتانوں سے پاک رکھنے کے لئے مصروف کار ہے۔ فاروق بھائی کی مراد اسی فرق سے تھی شاید۔
قرآن کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے
اللہ نے صرف قرآن کی حفاظت کو ذمہ نہیں لیا بلکہ پوری اسلامی شریعت کا ذمہ لیا ہے جو قرآن و حدیث دونوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ بات کم سے کم آپ ضرور مانتے ہوں گے کہ اللہ نے جو وحی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کی وہ دو طرح کی تھی ، جلی و خفی۔ اور اللہ نے ان دونوں اقسام کی وحی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے !!

قرآن کی کسی آیت کے بارے میں کبھی یہ بحث نہیں چھڑی کہ یہ آیت ثقہ ہے کہ ضعیف
براہ مہربانی ۔۔۔ تفسیر معارف القرآن یا مفتی تقی عثمانی کی علوم القرآن دیکھ لیجئے گا۔ آپ کو پتا چل جائے گا کہ قرآن کو جمع کرنے کے وقت کتنے مباحث و اختلافات سامنے آئے تھے؟
البتہ جب اجماع ہو گیا تو مصحفِ عثمانی ، اصل قرآن قرار پا گیا۔ اس کے بعد کسی نے آیاتِ قرآنی پر کوئی بحث نہیں کی۔

آج بھی ہم کچھ احادیث کو صحیح، کچھ کو ضعیف اور کچھ کو موضوع قرار دیتے ہیں۔
یہاں "ہم" سے کون مراد ہیں؟
دورِ حاضر تک ، محدثین کا اجماع ہو چکا ہے کہ کون سی حدیث صحیح ، کون سی ضعیف یا کون سی موضوع وغیرہ ۔۔۔ ہے؟
ہاں ، فقہی اختلافات کے تحت جو لوگ احادیث کی صحت پر اعتراض کرتے ہیں ، محدثین کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
 

خرم

محفلین
دورِ حاضر تک ، محدثین کا اجماع ہو چکا ہے کہ کون سی حدیث صحیح ، کون سی ضعیف یا کون سی موضوع وغیرہ ۔۔۔ ہے؟
جی بھائی بس یہی بات تھی کہ احادیث کے معاملہ میں ہم کچھ کو صحیح اور کچھ کو ضعیف و موضوع قرار دیتے ہیں جبکہ قرآن کے معاملہ میں ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا ہے۔ قرآن کے معاملہ میں اختلاف قرات کا تھا آیات کی شمولیت پر نہیں تھا۔ ہاں کچھ کج بحثوں نے رونق افزائی کے لئے صحت قرآن کی آڑ میں صحابہ کرام پر کیچڑ اچھالا ہے لیکن ہم اسے انتہائی بد ادبی اور گستاخی جانتے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
جی بھائی بس یہی بات تھی کہ احادیث کے معاملہ میں ہم کچھ کو صحیح اور کچھ کو ضعیف و موضوع قرار دیتے ہیں جبکہ قرآن کے معاملہ میں ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا ہے۔ قرآن کے معاملہ میں اختلاف قرات کا تھا آیات کی شمولیت پر نہیں تھا۔ ہاں کچھ کج بحثوں نے رونق افزائی کے لئے صحت قرآن کی آڑ میں صحابہ کرام پر کیچڑ اچھالا ہے لیکن ہم اسے انتہائی بد ادبی اور گستاخی جانتے ہیں۔
بس یہی بات تھی کہ احادیث کے معاملہ میں ہم کچھ کو صحیح اور کچھ کو ضعیف و موضوع قرار دیتے ہیں
یہ بات تو عین اطمینان کا باعث ہے نہ کہ فکر و تردد کی۔
جبکہ قرآن کے معاملہ میں ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا ہے۔
میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ بغیر علم کے ، ایسا کوئی حکم نہ لگائیے۔ دورِ عثمانی میں ایسا ہوا تھا اور آج بھی ہے !! لیکن میں اس پر بحث نہیں کروں گا۔ کیونکہ بات اس طبقے تک چلی جائے گی جو قرآن میں تحریف کا داعی ہے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
ميرا خيال ہے گفتگو موضوع سے ہٹتي جا رہي ہے

بہر حال يہ بات تو مسلم ہے کہ قرآن حکيم ہي صحيح اور غلط کا ميزان اصلي ہے

اور حديث رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا نمبر بہرحال دوسرا ہے ۔۔ چاہے کچھ بھي ہو جائے ۔ :)
 

خرم

محفلین
باذوق اور فرید بھائی،
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ جو کہا اس میں سے ایک ذرہ برابر بھی غلط تھا یا ہے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن پاک کی آیات کے اندر غلطی کا احتمال بالکل بھی نہیں ہے جبکہ احادیث کے اندر یہ احتمال رہا ہے کہ بعض لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم سے ایسی باتیں منسوب کر دی ہوں جو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہیں فرمائیں۔ اسی وجہ سے احادیث کی درجہ بندی کی گئی۔
اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں نا؟
 

قسیم حیدر

محفلین
اس نکتے کی وضاحت حجیت حدیث‌ پر لکھی گئی تقریبا ہر کتاب میں مل جائے گی۔ سنت کی آئینی حیثیت" والے دھاگے کو دیکھ ہیں۔ حدیث کی حجت پر بہت بحث‌ہو چکی ہے اس لیے بار بار ایک ہی اعتراض کی سمت سفر کرنا بے فائدہ ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ جو کہا اس میں سے ایک ذرہ برابر بھی غلط تھا یا ہے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن پاک کی آیات کے اندر غلطی کا احتمال بالکل بھی نہیں ہے جبکہ احادیث کے اندر یہ احتمال رہا ہے کہ بعض لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم سے ایسی باتیں منسوب کر دی ہوں جو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہیں فرمائیں۔
قسیم بھائی نے بجا فرمایا ،
خرم جی اگر کوئی اس بات کو جو تم لکھی ہے ، عنوان بنا کر ہر حدیث پر لاگو کرتا چلا جائے تو ؟
آپ درجہ بندی ، صحیح ضعیف وغیرہ کو مان رہے ہیں ، تو پھر یوں غلط انتساب کی داستان لکھنے کے بجائے یہ کیوں نہیں لکھ دیتے کہ اب فقط صحیح حدیث یا صحیح اور حسن حدیث مسلم ہوگی یا جتنے درجے آپ کے علم کے مطابق قابل قبول ہوں ۔
وہی شک و شبہ والی بات دہرانے سے بات وہیں رک جاتی ہے ۔
 

خرم

محفلین
جی میں تو خود حیران ہوں کہ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ فاروق بھائی نے یہ لکھا تھا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالٰی نے خود لیا ہوا ہے جبکہ احادیث‌کی حفاظت امت نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کی ہے (الفاظ میں ردوبدل ممکن ہے)۔ اس سے بات نجانے کہاں نکل گئی۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم احکام قرآنی کو درست طور سمجھنےکے لیے اس بات پرمجبور ہيں کہ ارشادات نبوي کا سہارا ليں ۔۔

اللہ تعالي کا ارشاد ہے

وانزلنا اليک الذکر لتبين للناس ما نزل اليھم و لعلھم يتفکرون النحل 44

اور اتارا ہم نے آپ کي طرف يہ ذکر تاکہ آپ کھول کر بيان کريں لوگوں کے ليے جو کچھ نازل کيا گيا ہے ان کي طرف تاکہ وہ غورو فکر کريں

مندرجہ بالا آيت سنت رسول کي اہميت کو واضح کرنے کے ليے بہت کافي ہے اور اس کي حجيت کے ليے

وماارسلنا من رسول الا ليطاع باذن اللہ النساء 64

اور ہم نے کوئي رسول نہيں بھيجا مگر اسي ليے کہ اس کي فرمانبرداري کي جائے اللہ کے حکم سے

اور دوسري آيت ہے جس کا ترجمہ ميرے ذہن ميں‌ہے

کہ رسول تمہيں جو کچھ ديں لے لو اور جس سے روکيں تو رک جاو

اور جس طرح فريد صاحب نے فرمايا

وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي

نطق رسول تو نطق الہي ہے اس پر ہمارا ايمان ہے ۔۔

ليکن مسئلہ يہ ہے کہ کيا احاديث‌کا وہ ذخيرہ جو ہمارے پاس موجود ہے ۔۔ اس کو بغير چھان پھٹک کے بغير کسي تردد کے آنکھيں بند کر کے قبول کيا جا سکتا ہے ۔۔ نہيں‌ ہرگز نہيں ۔۔

اس ليے کہ اس ذخيرہ ميں بہت سي ايسي حديثيں شامل ہو چکي ہيں جو جھوٹي منسوب کي گئي ہيں ۔۔

يہ بات يقيني طور پر حقيقت پر مبني ہے کيونکہ فرمان رسول ہے

من کذب علي متعمدا فليتبوا مقعدہ من النار

جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو اس کا ٹھکانا آگ ہے ۔۔

يہ تنبيہ اس بات پر دلالت کرتي نظر آتي ہے کہ بعض لعين ايسے ہوں گے يا دور نبوي ميں‌ بعض لعينوں‌کے دلوں ميں يہ خيال ضرور گردش کناں رہا ہو گا کہ وہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف جھوٹي باتيں منسوب کرتے رہيں‌ ۔۔

پھر اگر ايسا نہ ہوتا اور حديث رسول قطعي تسليم کي جاتي جس طرح کہ نصوص کتاب اللہ ہيں تو علماء متقدمين کبھي بھي فن حديث وضع نہ کرتے کبھي بھي جرح و تعديل کا کام نہ ہوتا ۔۔

احاديث کي درجہ بندي کبھي بھي نہ کي جاتي ۔۔

مرفوع
مقطوع
موقوف
مشہور
موضوع
خبرواحد
خبرمتواتر

وغيرہ

يہ سب باتيں اس بات پر دلالت کرتي ہيں کہ حديث پر آنکھ بند کر کے اعتماد اس وقت تک نہيں کيا جا سکتا جب تک اس کي نسبت نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم تک يقيني نہ ہو جائے ۔۔

ہاں‌ جب اس بات کا يقين ہو جائے تو پھر اس ميں شک کرنا کفر ہے ۔۔
ياد رکھيں شک اس بات ميں نہيں کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے درست فرمايا ہو گا يا غلط نعوذ باللہ
شک تو اس بات ميں‌ ہے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا بھي ہے يا نہيں ۔۔

اسي ليے حديث کو ديکھا جاتا ہے کہ وہ نص قرآني کے متعارض تو نہيں اگر وہ نص قرآني کے متعارض ہو گي تو اسے بالکل بھي قبول نہيں کيا جائے گا ۔۔

بس يہي فرق ہے اور ميرا خيال ہے اس سے سبھي اتفاق کريں گے يہ بحث موضوع سے ہٹ کر ہو رہي ہے اس ليے ميرا خيال ہے اس کے ليے ايک نيا دھاگا شروع کرليں يہاں متعلقہ موضوع پر بحث‌کو رہنے ديں‌

والسلام
 

باذوق

محفلین
اسي ليے حديث کو ديکھا جاتا ہے کہ وہ نص قرآني کے متعارض تو نہيں اگر وہ نص قرآني کے متعارض ہو گي تو اسے بالکل بھي قبول نہيں کيا جائے گا ۔۔
حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لیے "قرآن" کسوٹی نہیں ہے !!
(لیکن عقلی منطق یہ ہے کہ قرآن کو اللہ کا کلام ثابت کرنے کے لیے "حدیث" کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو تو حدیث کی روایات ہی سے پتا چلا ہے کہ یہ جو ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے وہ بعینہ وہی کلام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا)
میں نے یہاں محفل میں کئی جگہوں پر یہ بات دہرائی ہے کہ :

اسلام ، صرف قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے بلکہ اُس "شریعتِ اسلامی" میں موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا حوالہ بھی ابوداؤد کی "مثلہ معہ" والی حدیث سے دیا جا چکا ہے۔
ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا نہیں جاسکتا۔
کیونکہ ۔۔۔ جب قرآن ہی میں کوئی ذکر نہ ہو تب ؟؟ تب کون سی کسوٹی استعمال میں لائی جائے گی ؟

اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ دو صحیح احادیث ، واضح طور پر نصِ قرآنی سے متعارض ہیں ! کیا ان صحیح احادیث کو ریجکٹ کر دیا جائے گا ؟ حالانکہ امتِ مسلمہ کا صدیوں سے ان احادیث پر اجماع و عملِ متواتر ہے۔
حوالے کے لیے : نکتہ نمبر (4) اور (5) ، یہاں (پوسٹ نمبر 76) ملاحظہ فرمائیں۔
 

باذوق

محفلین
جی میں تو خود حیران ہوں کہ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ فاروق بھائی نے یہ لکھا تھا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالٰی نے خود لیا ہوا ہے جبکہ احادیث‌کی حفاظت امت نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کی ہے (الفاظ میں ردوبدل ممکن ہے)۔ اس سے بات نجانے کہاں نکل گئی۔
فاروق بھائی نے یہ لکھا تھا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالٰی نے خود لیا ہوا ہے جبکہ احادیث‌کی حفاظت امت نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کی ہے
جنابِ عالی ! خاکسار یہی تو پے در پے عرض کیا جا رہا ہے کہ : محبی فاروق صاحب نے بالکل غلط لکھا تھا اور براہ مہربانی آئیندہ سے انہیں اپنے قلم پر قابو رکھنے کی گذارش کی جائے !!
کیا یہ آپ کو بچکانہ بات نہیں لگتی کہ : اللہ تعالیٰ تو صرف قرآن کے الفاظ (نماز قائم کرو ۔۔۔ وغیرہ) کی حفاظت کا ذمہ لے اور طریقہ نماز امت کے بھروسے پر چھوڑ دے کہ جس کو جو حدیث سمجھ میں آئے (اپنے نفس کو اچھی لگے) ، بس اسی پر عمل کر کے نماز پڑھ لیا کریں ؟؟
 

خرم

محفلین
فاروق بھائی نے یہ لکھا تھا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالٰی نے خود لیا ہوا ہے جبکہ احادیث‌کی حفاظت امت نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کی ہے
جنابِ عالی ! خاکسار یہی تو پے در پے عرض کیا جا رہا ہے کہ : محبی فاروق صاحب نے بالکل غلط لکھا تھا اور براہ مہربانی آئیندہ سے انہیں اپنے قلم پر قابو رکھنے کی گذارش کی جائے !!
کیا یہ آپ کو بچکانہ بات نہیں لگتی کہ : اللہ تعالیٰ تو صرف قرآن کے الفاظ (نماز قائم کرو ۔۔۔ وغیرہ) کی حفاظت کا ذمہ لے اور طریقہ نماز امت کے بھروسے پر چھوڑ دے کہ جس کو جو حدیث سمجھ میں آئے (اپنے نفس کو اچھی لگے) ، بس اسی پر عمل کر کے نماز پڑھ لیا کریں ؟؟
باذوق بھائی آپ شاید تھوڑی سی زیادتی کر گئے یہاں۔ بھائی چاروں ائمہ اہلسنت اور ائمہ اہل تشیع کے پیروکار مختلف طریق سے نماز پڑھتے ہیں۔ تو کیا یہ بات آپ کی دلیل کے خلاف نہیں جاتی؟ ویسے بھی میں تو اسی نکتہ پر پہنچا ہوں کہ فاروق بھائی اور آپ ایک ہی بات کر رہے ہیں یا کم از کم آپ دونوں‌کی بات کا مطلب ایک ہی ہے۔
 

باذوق

محفلین
باذوق بھائی آپ شاید تھوڑی سی زیادتی کر گئے یہاں۔ بھائی چاروں ائمہ اہلسنت اور ائمہ اہل تشیع کے پیروکار مختلف طریق سے نماز پڑھتے ہیں۔ تو کیا یہ بات آپ کی دلیل کے خلاف نہیں جاتی؟ ویسے بھی میں تو اسی نکتہ پر پہنچا ہوں کہ فاروق بھائی اور آپ ایک ہی بات کر رہے ہیں یا کم از کم آپ دونوں‌کی بات کا مطلب ایک ہی ہے۔
چاروں ائمہ اہلسنت اور ائمہ اہل تشیع کے پیروکار مختلف طریق سے نماز پڑھتے ہیں۔ تو کیا یہ بات آپ کی دلیل کے خلاف نہیں جاتی؟
کیا دین پیروکاروں کے عمل کا نام ہے؟ یا قرآن و سنت کی حقیقی اور واضح تعلیمات کا؟؟
اگر پیروکاروں کے عمل کا نام "دین" ہے تو ہم قادیانی پیروکاروں کی اس تشریح کو کیوں نہیں مانتے جو وہ قرآنی لفظ "خاتم النبیین" کے ضمن میں کرتے ہیں؟
اگر دین پیروکاروں کے عمل کا ہی نام ہے تو ہم بھی صحابہ کرام کی توہین و تحقیر کیوں نہیں کرتے جو ایک خاص طبقہ قرآنی آیات ہی کی تشریح کے سہارے کرتا ہے؟

حق صرف ایک ہوتا ہے ، چار یا پانچ نہیں۔ جناب عالی ۔۔۔ بات اگر نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی ۔۔۔ اور میں اس ضمن میں مزید بحث کرنے سے قاصر ہوں۔
معذرت !!
 

خرم

محفلین
اس تناظر میں تو میرے خیال میں مزید اس بات کو آگے نہ بڑھانا ہی مناسب ہے۔ چلیں کہیں اور کوئی اور بات کریں گے انشاء اللہ :)
 

حسن نظامی

لائبریرین
فاروق بھائی نے یہ لکھا تھا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالٰی نے خود لیا ہوا ہے جبکہ احادیث‌کی حفاظت امت نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کی ہے
جنابِ عالی ! خاکسار یہی تو پے در پے عرض کیا جا رہا ہے کہ : محبی فاروق صاحب نے بالکل غلط لکھا تھا اور براہ مہربانی آئیندہ سے انہیں اپنے قلم پر قابو رکھنے کی گذارش کی جائے !!
کیا یہ آپ کو بچکانہ بات نہیں لگتی کہ : اللہ تعالیٰ تو صرف قرآن کے الفاظ (نماز قائم کرو ۔۔۔ وغیرہ) کی حفاظت کا ذمہ لے اور طریقہ نماز امت کے بھروسے پر چھوڑ دے کہ جس کو جو حدیث سمجھ میں آئے (اپنے نفس کو اچھی لگے) ، بس اسی پر عمل کر کے نماز پڑھ لیا کریں ؟؟

محترم فاروق صاحب نے درست بات کي ہے بس تھوڑا سمجھ کا فرق ہے ۔۔ غور کريں تو بات سمجھ آ ہي جائے گي
 

حسن نظامی

لائبریرین
ميں تو کب سے چلا رہا ہوں مگر نقار خانے ميں طوطي کي آواز کون سنتا ہے بھئي بحث موضوع سے ہٹ رہي ہے اور ابھي تک متعلقہ شعبہ سے تحقيق ہو کر نہيں آئي ۔۔ اس ليے اس دھاگے کو مقفل ہو جانا چاہيے اور دوسرے موضوعات کے ليے دوسرا دھاگہ کھول دينا چاہيے :mad:
 
Top