خرم
محفلین
اللہ آپ کو جزا دے باذوق بھائی۔ اس حدیث مبارکہ میں تو کہیں اسرائیلیات کے نہ پڑھنے کا حکم نہیں آیا۔ اس میں تو جب عرض کی گئی کہ یہودی علماء توریت کو پڑھتے تو عبرانی میں ہیں اور لوگوں کو تفسیر عربی میں سُناتے ہیں (یعنی جب سُننےوالے کو یہ معلوم نہیں کہ پڑھنے والے نے جو پڑھا اس کا اصل میں کیا مطلب تھا) تو تب کیا کیا جائے۔ اور آقا صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ ان کے کہے کہ تکذیب کرو اور نہ تصدیق( کیونکہ تم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا پڑھا اور کیا کہا)۔ اس میں اسرائیلیات کے مطالعہ کی ممانعت کی بات کہاںسے آگئی؟ پھر آپ نے ایک اور حدیث مبارکہ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں یہودیوں سے روایت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تو فی الحال اجازت کی حدیث تو موجود ہے ممانعت کی کوئی نہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ممانعت کی حدیث ہوگی ہی نہیں لیکن ابھی تک کم از کم پیش نہیں کی گئی۔ جو حدیث پیش کی گئی ہے اس میں بھی نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی پیروی کی بات فرمائی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر موسٰی علیہ السلام بھی ہوتے اور میرا زمانہ پاتے تو میرے پیروی کرتے۔ تو یقیناً شریعت موسوی کا اتباع اور تقلید مسلمانوں پر منع ہے اگر وہ شریعت محمدی صل اللہ علیہ وسلم سے مختلف ہے۔ لیکن اس میں سے توریت یا انجیل کے بالکل نہ پڑھنے کا حکم تو اجماعی ہوگا مطلقاً تو نہیں شاید۔
میں خدانخواستہ امام ابن کثیر کی نیت پر اعتراض نہیں کررہا۔ لیکن ان کی تفہیم یقیناً حرفِ آخر نہیں ہوسکتی۔
میں خدانخواستہ امام ابن کثیر کی نیت پر اعتراض نہیں کررہا۔ لیکن ان کی تفہیم یقیناً حرفِ آخر نہیں ہوسکتی۔