باذوق
محفلین
یہ واقعہ یا روایت نہیں بلکہ حدیثِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے اور صحیح حدیث۔ اور اتفاق کی بات کہ راقم کی حدیث کی سائیٹ پر پہلے سے موجود ہے ، آپ کے لیے یہاں پیسٹ کر دیتا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں :بائی دا وے، اس پورے واقعے یعنی حضرت عمر کی طرف سے توریت کے جملے پڑھنے والے پورے واقعے کو سیاق و سباق سے پیش کیجئے۔ اگر وقت کی کمی کا فرمائیں گے تو میںآپ کی معصومیت کی داد دوں گا
برادر محترم قیصرانی ! اس حدیث کو ذرا غور سے پڑھئے اور اس کے مفہوم پر مکرر غور کر کے بتائیے کہ : کیا یہ "تنبیہ" نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے اُن جانثاروں کو نہیں دی جنہیں قرآن السابقون الاولون کا خطاب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ صرف تورات کے چند جملے پڑھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عزیز از جان صحابہ کو گمراہی کی وعید سنا ڈالی تو ہماری آپ کی بات ہی کیا؟حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر تشریف لائے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ تورات کا ایک نسخہ ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) چپ ہوگئے ۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے پڑھنا شروع کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : تمہاری ماں تم کو روئے ، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا چہرا بدل رہا ہے؟
پھر عمر (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے غصے سے ، ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نبی ہونے پر !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ، اگر آج موسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئیں اور تم لوگ میرے بجائے ان کی اتباع شروع کر دو ، تو سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے ۔ اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے ۔
سنن الدارمی ، كتاب المقدمة ، باب : ما يتقى من تفسير حديث النبي صلى الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلى الله عليه وسلم ، حدیث : 436
آپ کا کیا خیال ہے؟ دین سے بےبہرہ یا کم علم اردوداں ، "خدا عظیم نہیں ہے" جیسی کتب (یا تبصرۂ کتب) پڑھ کر اپنے عقیدے کی اصلاح فرمائیں گے یا مزید تشکیک کا شکار ہوں گے ؟؟
ہمارے اُن بھائی صاحب نے تو اپنے بلاگ پر بہت سی ایسی تحریریں بھی لگا رکھی ہیں جن کو بہت سے مخصوص مذہبی طبقے "متنازعہ" سمجھتے ہیں ، شائد یہی وجہ ہو ( یا کوئی اور وجہ) ، مگر ایسی تحاریر آزادیء رائے یا تبصرہ و تجزیہ کے خوبصورت عناوین کے تحت یہاں محفل پر سجائی نہیں جاتیں !
کیا یہی ہماری مسلمانی ہے کہ : اطاعت و اتباعِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب دعوت دینے کے بجائے ، آزادیء رائے کے بلند بانگ دعوؤں کے تحت اللہ اور رسول کی تضحیک پر مبنی تحاریر لگا کر خود ہم نے ہی اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے؟؟؟؟
اس طرح اندازوں کے تیر برسانے کے بجائے کیا یہ بہتر نہ تھا کہ آپ پہلے یہ بتا دیتے کہ : کیا کتاب پڑھنے کے لیے اس کا خریدا جانا لازمی ہوتا ہے؟جوس سے یاد آیا، کیا آپ نے قادیانیت یا دیگر مذاہب پر بحث سے قبل ان کی کوئی کتاب پڑھی ہوتی ہے یا تکے مارتے ہیں اور سنی سنائی پر بات ہوتی ہے؟ اگر کتاب پڑھتے ہیںتو لازماً خریدتے ہوں گے۔ اس کا منافع کہاںجاتا ہوگا، مجھ جیسے معصوم کو تو شاید علم نہ ہو، آپ بہتر بتا سکیںگے
بھائی صاحب اب ایسی بھی کیا معصومیت ؟ برصغیر کے معاشرے میں اردو دانوں کا حال تو یہ ہے کہ کوئی فرد ایک اردو اخبار بھی خریدتا ہے تو اسے پڑھنے والے دس پندرہ ہوتے ہیں۔ پھر کتابوں کا یہ حال ہے کہ اسے خریدتا ایک ہے اور پڑھتے کئی۔ اور پھر انٹرنیٹ نے خوب سہولت پیدا کر ڈالی۔ تقریباً ہر اہم کتاب آپ کو ایک کلک پر مفت میں دستیاب ہو جائے گی۔ اور مزید یہ کہ ہر شہر میں لائیبریریاں بھی تو ہوتی ہیں۔ لہذا خریداریء کتاب اور منافع کا طعنہ غیر ضروری ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے محض اپنی ٹانگ اونچی رکھنی ہوتی ہے۔ ورنہ تو جب کسی معاملے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمانِ مبارک سامنے آ جائے تو بےجا تاویلات اور بحث برائے بحث سے احتراز بہتر ہوتا ہے۔
رہی بات اس ذاتی حملے کی کہ : میں مخالفین کی کتابیں پڑھتا بھی ہوں یا تکے مارتا ہوں
ممکن ہے تعلیماتِ اسلامی میں ردود (Refutations) کا موضوع آپ کے لیے نیا ہو۔ لیکن نیٹ پر انگریزی اور اردو میں بہت مواد موجود ہے۔ خاص طور پر ، شائد اردو ہی کی ایک سائیٹ ایسی ہے جہاں ہزار کے قریب ردِّ قادیانیت پر کتب (e-books) مفت دستیاب ہیں۔ تو جب ہم قرآن و سنت کے حوالوں سے ردود پر کتابیں پڑھتے ہیں تو مخالفین کے خلافِ شرع نظریات بھی علم میں آ ہی جاتے ہیں۔ اور مخالفین کی کتب میں حوالے خود چیک کرنے کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ مخالفین کی کتب لازماً ہی خریدی جائیں۔
اور دوسری اہم بات یہ کہ : کیا یہ ضروری ہے کہ بحث کرنے کے لیے مخالفین کی تمام کتب شروع سے آخر تک لازماً ہی پڑھی جائیں؟ کیا خیر القرون سے کوئی ایک مثال ایسی لائی جا سکتی ہے کہ تبلیغِ دین کے ضمن میں صحابہ یا تابعین نے غیر اسلامی یا شریعت کا مذاق اڑانے والی کتب کے مطالعے کا رحجان اپنایا ہو یا ترغیب ہی دلائی ہو؟
شائد ایک حدیث صاحبانِ علم یہ پیش فرما دیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے : پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو یہودیوں سے اس میں کوئی حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
صحيح بخاري ، كتاب احاديث الانبياء ، باب : ما ذكر عن بني اسرائيل ، حدیث : 3499
لیکن اگر آپ اس حدیث پر شارحینِ حدیث کی وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس حدیث سے یہودیوں کی کتب کے مطالعے یا ان کی روایات کو بلاکھٹکے بیان کرنے کی دلیل نہیں لی جا سکتی۔ یہ حدیث تبلیغ کی اجازتِ عام پر نہیں بلکہ تبلیغ کی قیود پر مبنی ہے یعنی یہ حدیث تبلیغ کرنے والوں پر تین شرطیں عائد کرتی ہے۔ اولاً : اس بات کا اطمینان کہ جو کچھ کہاجارہا ہے اس پر یہ یقین کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منقول ہے۔ ثانیاً : یہودیوں سے صرف ان روایات کو بیان کرنے کی اجازت جو دین اسلام کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے یعنی بیان کرنے والے کو دین کے بنیادی اصولوں کا علم ہونا چاہیے۔ ثالثاً : موضوع احادیث کوتبلیغ کی خاطر بیان کرنے سے مکمل پرہیز کرنا البتہ تردید کے مقصد سے کسی موضوع حدیث کو بیان کرنا پڑ جائے تو جائز ہوگا۔
پسِ نوشت :
یہی وجہ ہے کہ معتبر علماء کا ایک طبقہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی دیانت داری اور تبلیغِ دین کے ضمن میں ان کی مخلصانہ کوششوں کا معترف ہونے کے باوجود ان کے اس طرح کے جملوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
The study of various religions has been an extremely rewarding experience for me
پر گرفت کرتے ہوئے بجا طور پر اعتراض کرتا ہے !!