جی علم تو صرف ان محدثین پر ختم ہو گیا جن کی کتب بھی ان سے ثابت نہیں ہیں۔ یہ ذاتی طور پر کہی سنی باتوں کو آخری لکیر مان لینا ہی سب سے بڑی کم علمی ہے۔ جو مذہب ہے وہ قرآن میںہے اور سنت میں ہے۔ بقیہ مشہور عام کتب روایات، شرعیات کو مذہب کا درجہ دینا ۔ مکمل طور پر اسرئیلیات ہے۔ جن محدثیں کو آپ عالم سمجھتے ہیں وہ کچھ انسانوں کی ذاتی کاوشیں ہیں اور بس۔ یہ کہنا کہ عالم پیدا بند ہوگئے ہیں یا اگلی صدی میں کوئی شخصعالم نہ ہوگا، علم کی کمی کی نشانی ہے۔ علم منطقی بحث، باہمی مناظرے، حصول علم اور پرانی غیر منطقی نظریات کو بھولنے اور نئے منطقی نظریات سیکھنے کا نام ہے۔ کسی انسان کو عالم کے درجے پر فائز کرنا، اور اس کی ہر بات کو اللہ و رسول کی بات کے متوازی رکھنا شخصیت پرستی کے علاوہ کچھ نہیں۔ جن کتب کو محدثین سے منسوب کیا جاتا ہے ان کا سراغبھی 16 صدی سے پہلے نہیں ملتا۔ 9 ویں صدی اور 16 ویں صدی کے درمیان قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ تمام علم سنے سنائے طریقے سے آگے بڑھا۔ میں 1700 کی ہاتھ سے لکھی ہوئی بخاری کی ایک کتاب دیکھ چکا ہوں، جس کے عربی مندرجات موجودہ کتب سے بہت کم ہیں۔ کسی کے پاس 1600 سے 800ع تک کی بخاری کی کتب ہوں یا لنک ہوتو دیدار کرائے۔ ورنہ یہ سمجھنے میں کوئی باک نہیں کے ان میں سے بیشتر سنی سنائی باتیں ہیں۔ لکھی لکھائی نہیں ۔اور انسانوںنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ترتیب دیں۔ اور یقین دلانے کے لئے بیشتر روایات خود لکھیں اور رسول اللہ سے منسوب کیں۔ اسی لئے نہ یہ روایات قرانی احکامات سے مناسبت رکھتی ہیں اور نہ ہی مطابقت۔ قرآن قرض جیسے معاملےکو لکھنے کی ہدائت کرتا ہے۔ اس پر گواہ رکھنے کی۔ گواہوں کے لئے عینی شہادت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور ہمارے ان علماءکا یہ عالم ہے کہ صرف زبانی کلامی اور سنی سنائی پر کام چلاتے رہے۔ روایات ہر چھپی ہوئی کتاب ایک دوسری سے تعداد اور متن میں مختلف ہے۔ جن کو اچھی لگتی ہیں استعمال کریں۔
ہمارا آپ کا متفقہ ذریعہ ہے قرآن، اگر آپ کے پاس قرآن سے کوئی شہادت ہے تو دیجئے۔ وہ اس لئے کہ قرآن رسول اللہ کا ذاتی کلام نہیں ہے۔ اور اس پر آپ ہم دونوں متفق ہیں کہ رسول اللہ شارح قرآن ہیں۔ تو ان کی اس قدر اہم ہدایت کا قرآن میںپایا جانا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں بارہا پرانی کتب اور ان کے مندرجات کا حوالہ دیتے ہیں اور وہ حوالہ موجود بھی ہیں۔ ابھی یہاںتک ۔ آیات کا حوالہ انشاء اللہ آئیندہ بار۔
والسلام،
کتب احادیث میں تبدیلی کا اعتراض پہلے بھی اٹھایا گیا تھا۔ میں نے اس کے جواب میں لکھا تھا:
احادیث کی اشاعت کیسے ہوئی
قرآنِ کریم کی طرح حدیث کی اشاعت کا بھی یہ انداز نہیں رہا کہ محض کتاب لکھ کر کتب خانے میں سجا دی جاتی ہو۔ امام بخاری نے ہزاروں لوگوں کو اپنی کتاب لفظ بلفظ پڑھائی۔ ہزاروں لوگوں نے ان سے سن کر اس کتاب کو لکھا۔ آج بھی دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے مل جائیں گے جو اس کتاب کی تعلیم کا پورا سلسلہ سند رکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ امام بخاری کے شاگرد سے کسی نے یہ کتاب پڑھی، پھر اس نے اسے دوسروں کو پڑھایا اور یہ سلسلہ نسل در نسل آج تک چلا آ رہا ہے۔ حدیث کے کسی طالب علم سے پوچھ لیجیے وہ بتائے گا کہ میں نے یہ کتاب فلاں استاد سے پڑھی، میرے استاد نے فلاں سے اس کا درس لیا تھا اور استاد کے استاد نے فلاں فلاں سے شرفِ تلمذ پایا، یہاں تک کہ یہ سلسلہ امام بخاری تک جا پہنچتا ہے۔ چھاپہ خانے کی ایجاد نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تمام کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ اس لیے ممکن ہے کسی نسخے میں کچھ فرق آ گیا ہو یا کاتب سے کوئی حدیث یا صفحات سہوًا چھوٹ گئے ہوں لیکن ان غلطیوں کو بنیاد بنا کر ساری احادیث کو مشکوک قرار دے دینا انصاف نہیں ہے۔ یہ امر توجہ کے لائق ہے کہ صحیح البخاری کے دو نسخوں میں اگر کسی حدیث کی موجودگی مختلف ہے تو وہی حدیث دوسری کتابوں کے ایسے نسخوں میں مل جاتی ہے جو کم از کم اُس حدیث کی حد تک متفق علیہ ہیں۔
حدیث بمقابلہ تاریخ
حدیث میں تو ہمارے زمانے سے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا صحابہ کرام یا ائمہ حدیث تک اسناد کا پورا سلسلہ موجود ہے خواہ آپ کے نزدیک مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اسی اصول کو دوسری کتابوں پر بھی لاگو کر کے دیکھیے۔ جن قدیم کتابوں کو آپ تاریخ کا سب سے معتبر ذخیرہ سمجھتے ہیں ان کے متعلق آپ کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جن مصنفین کی طرف وہ منسوب کی گئی ہیں انہی کی لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جو حالات ان کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان کے لیے بھی آپ کوئی ایسی سند نہیں رکھتے جن کی بنا پر ان کی صحت کا تعین کیا جا سکے۔ پس اگر حدیث کی کتابوں کی مسلسل اور مستند روایات کو اس آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے تو تاریخ کےپورے ذخیرے کو اس سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص بلاتکلف کہہ سکتا ہے کہ عباسیوں کا وجود دنیا میں کہیں نہ تھا۔ اموی سلطنت کبھی قائم نہ ہوئی تھی۔ سکندر کا وجود محض ایک افسانہ ہے۔ دنیا میں نپولین اور ہٹلر کبھی ہو کر نہیں گزرے۔غرض تاریخ کے ہر واقعہ کو اس دلیل سے بدرجہا زیادہ قوی دلیل کی بنا پر جھٹلایا جا سکتا ہے جس کی بنا پر آپ کتب احادیث کی صحت کو جھٹلاتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں زمانہ گزشتہ کے حالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں ہے جتنا حدیث کا ذخیرہ ہے، اور جب وہ بھی ناقابل اعتبار ہے تو قدیم زمانہ کے متعلق جتنی روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ سب دریابرد کر دینے کے قابل ہیں۔ (سنت کی آئینی حیثیت از سید مودودی رحمہ اللہ)
چند سوالات
اگر یہ سچ ہے کہ کتب احادیث میں تبدیلی کی گئی یا ان میں اہانتِ رسول پر مشتمل مواد شامل کیا گیا تو چند بنیادی سوالات کے جواب عنایت فرما دیں:
1۔ کس کتاب میں کس کس شخص نے کیا کیا تبدیلی کی؟ پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلے ہوئے نسخوں کو بدل ڈالنے کے لیے کمال درجے کی مہارت اور بے انتہا وسائل درکار تھے۔ یہ تمام خوبیاں کس شخص میں پیدا ہو گئی تھیں؟ حیرت کی بات ہے کہ ایسے باکمال آدمی کو کوئی جانتا بھی نہ تھا یہاں تک کہ پندرھویں صدی ہجری میں ایک صاحب پر نے امت کو اس کارنامے پر مطلع کیا؟
2۔ یہ تبدیلیاں کس دور میں کی گئیں؟ چین سے عرب تک پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے اس ظلم کی نشاندہی کی ہو یا اس پر صدائے احتجاج بلند کی ہو؟
3۔ تبدیلیاں ایک نسخے میں کی گئیں یا ان تحریری نسخوں کو بھی بدل دیا گیا جو امام بخاری کے شاگردوں نے ان سے براہِ راست نقل کیے تھے اور جو ان کی ذاتی حفاظت میں ہوتے تھے۔
4۔ جن احادیث پر "اسلام کے مجرم" میں اعتراض کیا گیا ہے ان میں کون کون سے حدیثیں ایسی ہیں جن کے بارے میں صحیح البخاری کے نسخوں میں (بقول آپ کے) اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اختلاف تو کسی دوسری روایت کے بارے میں ہو اور اسے متفق علیہ احادیث پر چسپاں کیا جا رہا ہو۔
5۔ یہ کیا بات ہے کہ صحیح البخاری کی جن حدیثوں پر اعتراض ہے وہی حدیثیں دوسرے ائمہ کی کتابوں میں بھی مل جاتی ہے۔ جو مضمون بخارا کے رہنے والے محمد بن اسماعیل بخاری کی کتاب میں ہے وہی بلخ کے امام ترمذی، خراسان کے امام نسائی، سجستان کے ابوداؤد اور نیشاپور کے امام مسلم بن حجاج کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مختلف ملکوں میں جا کر ایک ہی مضمون ان ساری کتابوں میں داخل کر دیا اور تاریخ میں ان کا ذکر تک موجود نہیں ہے؟
8۔ آخری اور اہم سوال، ان ساری معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ جن لوگوں نے ہزاروں محدثین اور لاکھوں علماء کے کام کو بیک جنبشِ قلم منسوخ قرار دے دیا ان کا علمی مرتبہ کیا ہے؟ سند کو "فرسودہ نظام" کہنے والے اپنی سچائی کے ثبوت میں کون سے تاریخی حوالے اپنے پاس رکھتے ہیں جو اس سے مضبوط تر ہوں؟ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اگر سند کی بات رد کی جا سکتی ہے تو تاریخ کا حوالہ اس سے زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ امت کا سارا دین ملیامیٹ کر دیا گیا ہو۔ ختم المرسلین کے فرمودات بدل دیے گئے ہوں۔ لیکن عرب سے لے کر چین تک کہیں بے چینی کی لہر نہ اٹھی ہو۔ اس کے پیچھے جو ذہن کام کر رہا تھا اس کا نام کسی کو معلوم نہ ہو سکے، نہ تاریخ کے صفحات میں اس انقلابِ عظیم کا ذکر آ سکے کہ ایک بوند بھی خون کی نہ گری اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے عقیدے بدل گئے، ان کی وہ کتابیں بدل گئیں جن میں ان کے نبی کی سیرت محفوظ تھی۔یا للعجب
ایک خطرناک حربہ
اس قسم کے نظریات اگر کوئی ناواقف مسلمان یا غیر مسلم پڑھ لے تو اس کے دل پر یہ بات نقش ہو جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات پر پچاس برس بھی نہ گزرے ہوں گے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ اور اسلام کے خلاف عام بغاوت کر دی اور وہی لوگ اس بغاوت میں سرغنے بنے جو اسلام کی مذہبی تاریخ میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں اور جنہیں مذہب اسلام کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے دل میں ایمان کا شائبہ تک نہ تھا۔ انہوں نے اپنی اغراض کے لیے حدیث، فقہ، سنت اور شریعت کے شاندار الفاظ گھڑے اور دنیا کو دھوکا دینے کے لیے وہ باتیں رسول اللہ کی طرف منسوب کیں جو ان کی اور قرآن کی تعلیمات کے بالکل برخلاف تھیں۔ یہ اثر پڑنے کے بعد ہمیں امید نہیں کہ کوئی شخص اسلام کی صداقت کا قائل ہو گا، کیونکہ جس مذہب کے ائمہ اور ممتاز ترین داعیوں کا یہ حال ہو اس کے پیروؤں میں صرف "شبیر احمد" اور ان کے ہم خیال گنتی کے چند آدمیوں کو دیکھ کو کون عقلمند یہ باور کرے گا کہ ایسا مذہب بھی کوئی سچا مذہب ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس قسم کے اعتراضات کو دیکھ کر تو ایک شخص اس امر میں بھی شک کر سکتا ہے کہ آیا اسلام اپنی اصلی شکل میں اس وقت محفوظ ہے بھی یا نہیں۔ کیونکہ جب مسلمانوں کے اسلاف میں پہلی صدی سے لے کر اب تک کوئی گروہ بھی ایسا موجود نہیں رہا جو اپنے نبی کے حالات، اقوال، اور تعلیمات کو ٹھیک ٹھیک محفوظ رکھتا اور جب اس قوم کے چھوٹے بڑے سب کے سب ایسے بددیانت تھے کہ جو کچھ جی میں آتا تھا گھڑ کر اپنے رسول کی طرف منسوب کر دیتے تھے تو اسلام کی کسی بات کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ بھی یقین نہیں کیا جا سکتا کہ عرب میں فی الواقع کوئی رسول مبعوث ہوا تھا، کیا عجب کہ عوام پر گرفت قائم رکھنے کے لیے رسول اور رسالت کا افسانہ گھڑ لیا گیا ہو۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی شک کیا جا سکتا ہے کہ وہ فی الواقع کسی رسول پر اترا تھا یا نہیں۔ اور اگر اترا تھا تو اپنی اصلی عبارت میں ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کے ہم تک پہنچنے کا ذریعہ وہی لوگ ہیں جو یہود و نصٰرٰی اور مجوسیوں کی باتیں لے لے کر رسول کی طرف منسوب کرتے ہوئے ذرا نہ شرماتے تھے یا پھر وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا تھا اور وہ دم نہ مارتے تھے۔ منکرینِ حدیث نے یہ ایسا حربہ دشمنانِ اسلام کے ہاتھ میں دے دیا ہے جو حدیث کے فراہم کیے ہوئے حربوں سے لاکھ درجہ زیادہ خطرناک ہے، اس سے تو اسلام کی جڑ بنیاد ہی کھود کر پھینک دی جا سکتی ہے۔
کتابتِ حدیث کی تاریخ پر بھی فتنہ انکار حدیث والے تھریڈ تفصیل سے بات ہوئی تھی۔ لیکن ڈھاک کے تین پات۔ جب آپ خود مانتے ہیں کہ ہمارا اختلاف حدیث پر ہے تو بار بار اختلافی معاملات کو اٹھانے کا فائدہ۔