فرخ منظور
لائبریرین
چرخ سے کُچھ اُمید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں
جراتِ عرضِ حال کیا ہوتی
نظرِ لطف اس نے کی ہی نہیں
اس مصبیت میں دل سے کیا کہتا ؟
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں
آپ کیا جانیں قدر، یا اﷲ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں
شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں
پوچھا، اکبرؔ ہے آدمی کیسا؟
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
(اکبر الٰہ آبادی)
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں
جراتِ عرضِ حال کیا ہوتی
نظرِ لطف اس نے کی ہی نہیں
اس مصبیت میں دل سے کیا کہتا ؟
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں
آپ کیا جانیں قدر، یا اﷲ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں
شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں
پوچھا، اکبرؔ ہے آدمی کیسا؟
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
(اکبر الٰہ آبادی)
آخری تدوین: