مذہبی عقائد اور نظریات

فہد مقصود

محفلین
کیا صرف علماء کی اندھی تقلید میں سچ بولنے کی سعی کرنے والوں کو رگیدنا ہی بعض لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے؟ وہ ببانگ دہل برائی کو برائی کہنے کی جرات کہیں نظر نہیں آ رہی۔

یہ برائی کو برائی کہنے کی یاد دہانی کا سلسلہ تو اب چلتا رہے گا۔

بھائی علماء کی اندھی تقلید ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں سخت الفاظ استعمال کرتا رہا ہوں۔ اب کرنا نہیں چاہتا ہوں لیکن کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہماری قوم کو پہلے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو یاد رکھنا چاہئے۔ جو شخص چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ہو یا شیخ ہو یا مفتی ہو، اگر قرآن اور سنت کے خلاف جارہا ہے اور کسی کو بھی اس شخص کے غلط طرزِ عمل کے بارے میں معلوم ہو جائے تو پھر بھی اس کی اندھی تقلید جاری رکھنا عقل سے باہر ہے۔
 

زاہد لطیف

محفلین
بھائی علماء کی اندھی تقلید ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں سخت الفاظ استعمال کرتا رہا ہوں۔ اب کرنا نہیں چاہتا ہوں لیکن کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہماری قوم کو پہلے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو یاد رکھنا چاہئے۔ جو شخص چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ہو یا شیخ ہو یا مفتی ہو، اگر قرآن اور سنت کے خلاف جارہا ہے اور کسی کو بھی اس شخص کے غلط طرزِ عمل کے بارے میں معلوم ہو جائے تو پھر بھی اس کی اندھی تقلید جاری رکھنا عقل سے باہر ہے۔
آپ ماشاءاللہ درست سمت میں جانے کی سعی کر رہے ہیں۔ اللہ آپ کو ہمت اور حوصلہ دے۔ میں تو صرف اتنا کہوں گا ہندوؤں سے الگ تو ہو گئے ہندوویت نہیں گئی۔ اللہ انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانا چاہتا ہے لیکن حضرت انسان پھر مختلف حیلے بہانوں اور جواز تراش کے پھر انسان کی غلامی جا اختیار کرتا ہے۔ شاید غلامی میں اسے مزہ آنے لگ گیا ہے یا وہ خود سے جستجو کرنے کو محنت طلب کام سمجھتا ہے یا پھر اس عقیدے سے کہ وہ بھٹک جائے گا جستجو کی تمنا ہی چھوڑ دیتا ہے حالانکہ جتنے بھٹکنے کے امکانات ہیں اتنے ہی صحیح سمت میں جانے کے۔ اور اگر نیت ٹھیک ہو اور حق کی جستجو ہو تو پھر اسے وہی ملتا ہے جس کی وہ جستجو کرتا ہے۔
کسی کے عقیدے کے بت توڑنا آسان نہیں۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زندگی دیکھ لیں کہ بت پرست کس طرح انا اور تکبر کے چکر میں اپنے عقائد توڑنے کو تیار نہیں تھے۔ جزاک اللہ آپ اپنا کام جاری رکھیں مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ناکام اور مایوس نہیں لوٹائیں گے۔ بس صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجیے گا۔
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
آپ ماشاءاللہ درست سمت میں جانے کی سعی کر رہے ہیں۔ اللہ آپ کو ہمت اور حوصلہ دے۔ میں تو صرف اتنا کہوں گا ہندوؤں سے الگ تو ہو گئے ہندوویت نہیں گئی۔ اللہ انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانا چاہتا ہے لیکن حضرت انسان پھر مختلف حیلے بہانوں اور جواز تراش کے پھر انسان کی غلامی جا اختیار کرتا ہے۔ شاید غلامی میں اسے مزہ آنے لگ گیا ہے یا وہ خود سے جستجو کرنے کو محنت طلب کام سمجھتا ہے یا پھر اس عقیدے سے کہ وہ بھٹک جائے گا جستجو کی تمنا ہی چھوڑ دیتا ہے حالانکہ جتنے بھٹکنے کے امکانات ہیں اتنے ہی صحیح سمت میں جانے کے۔ اور اگر نیت ٹھیک ہو اور حق کی جستجو ہو تو پھر اسے وہی ملتا ہے جس کی وہ جستجو کرتا ہے۔
کسی کے عقیدے کے بت توڑنا آسان نہیں۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زندگی دیکھ لیں کہ بت پرست کس طرح انا اور تکبر کے چکر میں اپنے عقائد توڑنے کو تیار نہیں تھے۔ جزاک اللہ آپ اپنا کام جاری رکھیں مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ناکام اور مایوس نہیں لوٹائیں گے۔ بس صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجیے گا۔

تشکر برادر! ہمیں تو بدلے میں کوئی انعام نہیں چاہئے۔ ہمارا مقصد تو عوام میں شعور اجاگر کرنا ہے اور عوام کو درست اسلامی تعلیمات کی طرف لے کر آنا ہے۔
اب میں عرس اور مزاروں سے متعلق جہالت بھری ان کی تعلیمات پوسٹ کروں گا۔ آپ بھی پڑھئے گا۔
 

زاہد لطیف

محفلین
تشکر برادر! ہمیں تو بدلے میں کوئی انعام نہیں چاہئے۔ ہمارا مقصد تو عوام میں شعور اجاگر کرنا ہے اور عوام کو درست اسلامی تعلیمات کی طرف لے کر آنا ہے۔
اب میں عرس اور مزاروں سے متعلق جہالت بھری ان کی تعلیمات پوسٹ کروں گا۔ آپ بھی پڑھئے گا۔
زبردست آپ جاری رکھیے۔ ان میں سے نہ سہی ان کی نسل میں سے ہی لوگ سیدھے راستے کی جستجو پہ آ گئے تو آپ کا حق ادا ہو جائے گا۔
 

فہد مقصود

محفلین
آئیے اب ذرا علماء صاحبان کے خوابوں کا مطالعہ فرماتے ہیں۔

ذرا اس خواب کے بارے میں پڑھئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک معروف عالم کے روپ میں دیکھا گیا۔ اگر کسی نے خواب دیکھ بھی لیا تھا تو اس کا کتاب میں کیوں ذکر کیا گیا؟ کیونکہ یہ ان کے عالم کی کرامت سمجھی گئی تھی۔ نعوذباللہ۔ اور تو اور خواب لکھ کر قبر میں رکھنے کی وصیت کی گئی۔ یہ کونسا اسلام ہے؟؟؟ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ایسے کام ثابت ہیں؟ کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم کے عمل سے ایسا ثابت کیا جاسکتا ہے؟

کیا آپ اب بھی ان علماء کی تقلید کرنا پسند کریں گے؟

nABI rASHEED AHMED KI SHAQAL MEI.png
 

فہد مقصود

محفلین
اہل تقلید میں سے بعض حضرات نے اپنے اولیاء میں سے بعض کی شان میں اس حد تک غلو کیا کہ کلمہ طیبہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خارج کرکے اس کی جگہ اپنے ولی کانام رکھ دیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

لا الٰہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ(نعوذباللہ) ۔
مولوی اشرف علی دیوبندی کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ خواب میں کہہ رہا ہے لا الٰہ الَّا اللہ اشرف علی رسول اللہ اور پھر اٹھ کر بھی اس کے منہ سے درود پڑھتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے مولانا اشرف علی نکلتا ہے۔ [رسالہ امداد ص 35]۔
جب مرید نے خواب بیان کیا تو مولوی اشرف علی نے بجائے اسے ڈانٹنے اور ایمان کی تجدید کروانے کے اسے ان الفاظ سے حوصلہ دیا کہ ''اس واقعے میں تسلی تھی کہ جسکی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے''۔[رسالہ امداد ص 35]۔
لا الٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ(نعوذباللہ)۔
اسی طرح بریلویوں کے امام الاصفیاء پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا ہے:
''شیخ شبلی رحمة اللہ علیہ کے پاس دو شخص بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ایک مولوی وضع کا تھااور ایک سادہ زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا۔ کہ پڑھ لاالٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ۔ اس پر مولوی صاحب نے لاحول پڑھااور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی ۔ آپ نے اس کوبھی اسی طرح فرمایا۔ وہ خاموش رہا۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں ۔تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو۔ زمیندار بولاکہ مَیں تو آپ کوخدا تعالیٰ کے مقام پرسمجھ کر آیا تھا۔ آپ ابھی تک مقام ِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ذکر فرماتے ہیں۔'' [منازل الابرارص106]۔
لا الٰہ الااللہ چشتی رسول اللہ (نعوذ باللہ)۔
بریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا ہے:
’’ وجودِ سالک بعینہ مظہر حقیقة محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰةوالسلام شدہ در ترنم لاالٰہ الااللہ چشتی رسول اللہ‘‘ سالک کا وجود بعینہ مظہر حقیقت محمدیہۖہو کر’’لا الٰہ الااللہ چشتی (سالک) رسول اللہ‘‘کے ترنم میں آتا ہے۔ [تحقیق الحق فی کلمة الحق ص127 ،گولڑہ راولپنڈی]۔
غورفرمائیں کس قدر زورزبردستی اورکتنی بڑی خیانت ہے کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پراپنے بزرگوں کے نام لئے جاتے ہیں نعوذباللہ ۔
 

فہد مقصود

محفلین
کیا کلمہ طیبہ حدیث میں موجود ہے

بعض حضرات عوام میں ایسی باتیں پھیلاتے رہتے ہیں جنہیں کوئی بھی سچامسلمان اپنی زبان پرلانے کی جرات بھی نہیں کرسکتا،انہیں میں سے یہ لوگ بھی ہیں جو آئے دن یہ آوازاٹھاتے رہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ اکٹھاانہیں الفاظ کے ساتھ کسی بھی حدیث میں موجود نہیں ہے، اوراسی پربس نہیں بلکہ اس انکارکے ساتھ ساتھ فریق مخالف کومناظرہ تک کے لئے چیلنج کردیتے ہیں ۔
قارئین پریشان ہوں گے کہ آخریہ لوگ کلمہ طیبہ کامسئلہ کیوں اٹھارہے ہیں ،تو عرض ہے کہ اس کے پیچھے ان کے دومقاصد ہیں:

پہلامقصد:
حدیث میں کلمہ طیبہ کی موجودگی کاانکارکرکے یہ حضرات عوام کویہ بتلاناچاہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ کی تعلیم ائمہ فقہ نے دی ہے ،لہٰذاجولوگ ائمہ فقہ کی تقلید نہیں کرتے ہیں ،وہ اپناکلمہ بھی صحیح نہیں کرسکتے دیگراعمال کوصحیح کرنا تودورکی بات ہے۔
دوسرامقصد:
اہل تقلیدمیں سے بعض حضرات نے اپنے مزعوم اولیاء میں سے بعض کی شان میں اس حدتک غلوکیاکہ کلمہ طیبہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خارج کرکے ا س کی جگہ اپنے مزعوم ولی کانام رکھ دیا،اناللہ واناالیہ راجعون۔

لا الٰہ الااللہ اشرف علی رسول اللہ(نعوذباللہ) ۔
مولوی اشرف علی دیوبندی کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ خواب میں کہہ رہا ہے لا الٰہ الَّا اللہ اشرف علی رسول اللہ اور پھر اٹھ کر بھی اس کے منہ سے درود پڑھتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے مولانا اشرف علی نکلتا ہے۔ [رسالہ امداد ص 35]۔
جب مرید نے خواب بیان کیا تو مولوی اشرف علی نے بجائے اسے ڈانٹنے اور ایمان کی تجدید کروانے کے اسے ان الفاظ سے حوصلہ دیا کہ ''اس واقعے میں تسلی تھی کہ جسکی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے''۔[رسالہ امداد ص 35]۔
لا الٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ(نعوذباللہ)۔
اسی طرح بریلویوں کے امام الاصفیاء پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا ہے:
''شیخ شبلی رحمة اللہ علیہ کے پاس دو شخص بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ایک مولوی وضع کا تھااور ایک سادہ زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا۔ کہ پڑھ لاالٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ۔ اس پر مولوی صاحب نے لاحول پڑھااور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی ۔ آپ نے اس کوبھی اسی طرح فرمایا۔ وہ خاموش رہا۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں ۔تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو۔ زمیندار بولاکہ مَیں تو آپ کوخدا تعالیٰ کے مقام پرسمجھ کر آیا تھا۔ آپ ابھی تک مقام ِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ذکر فرماتے ہیں۔'' [منازل الابرارص106]۔
لا الٰہ الااللہ چشتی رسول اللہ (نعوذ باللہ)۔
بریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا ہے:
’’ وجودِ سالک بعینہ مظہر حقیقة محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰةوالسلام شدہ در ترنم لاالٰہ الااللہ چشتی رسول اللہ‘‘ سالک کا وجود بعینہ مظہر حقیقت محمدیہۖہو کر’’لا الٰہ الااللہ چشتی (سالک) رسول اللہ‘‘کے ترنم میں آتا ہے۔ [تحقیق الحق فی کلمة الحق ص127 ،گولڑہ راولپنڈی]۔
غورفرمائیں کس قدر زورزبردستی اورکتنی بڑی خیانت ہے کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پراپنے بزرگوں کے نام لئے جاتے ہیں نعوذباللہ ۔
اہل توحید کی نظراس خیانت پرپڑی توانہوں نے اس کازبردست نوٹس لیا،ان بے چاروں سے اس کاکوئی جواب نہ بن پڑا تو یہ مطالبہ کرناشروع کردیاکہ کلمہ طیبہ میں تبدیلی کاالزام بعد میں لگاناپہلے اصل کلمہ طیبہ کاثبوت پیش کرو۔
کیونکہ کلمۂ طیبہ ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ اکٹھاانہیں الفاظ کے ساتھ کسی بھی حدیث میں موجود نہیں ہے، اوراسی پربس نہیں بلکہ اس انکارکے ساتھ ساتھ فریق مخالف کومناظرہ تک کے لئے چیلنج کردیتے ہیں ۔عوام کومعلوم ہوناچاہئے کہ اس قسم کی باتیں محض دھوکہ وفریب اورجھوٹ ہیں ،اورسچائی یہ ہے کہ کلمۂ طیبہ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ اکٹھاانہیں الفاظ کے ساتھ متعدد احادیث میں واردہے ، ذیل میں اس سلسلے کی ایک صحیح حدیث، سند کی تحقیق کے ساتھ پیش کی جارہی ہے اسے پڑھ کرعوام خود فیصلہ کرلیں کہ کون سچاہے اورکون جھوٹا؟

امام بیہقی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں :
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ[کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:۔ جلد نمبر 1صفحہ نمبر263حدیث نمبر195۔ ناشر:مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی]۔
ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبردی(کہا):ہمیں ابوالعباس محمدبن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیںیحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا): مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی،بے شک انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایاتوتکبرکرنے والی ایک قوم کاذکرکیا: یقیناجب انہیں لاالہ الااللہ کہا جاتاہے توتکبرکرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفرکرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تواللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اورمومنوں پراتارااوران کے لئے کلمة التقوی کولازم قراردیا اوراس کے زیادہ مستحق اوراہل تھے اوروہ (کلمة التقوی) ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ‘‘ہے۔حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کر نے) و الے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیاتھاتومشرکین نے اس کلمہ سے تکبرکیاتھا''۔[کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:۔ جلد نمبر 1صفحہ نمبر263حدیث نمبر195۔ ناشر:مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی]۔
درجہ حدیث :۔
یہ حدیث بالکل صحیح ہے، اس کی سندکے سارے راوی سچے اورقابل اعتمادہے ہیں ،اس کی سند کے ہر راوی کی تفصیل اگلی سطور میں ملاحظہ ہو۔
پیش کردہ حدیث کی سند کے راویوں کاتعارف ملاحظہ ہو:

سعید بن المسیب: (سعید بن المسیب بن حزن القرشی)۔
آپ بخاری ومسلم کے مرکزی راوی ہیں ،مثلاًدیکھئے بخاری رقم26،مسلم رقم21،آپ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: ’’أحد العلماء الأثبات الفقہاء الکبار‘‘ آپ اعلی درجہ کے ثقات اوربڑے فقہاء میں سے ہیں،[تقریب التہذیب رقم2396]۔

الزہری: (محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب الزہری)۔
آپ بھی بخاری ومسلم کے مرکزی راوی ہیں ،مثلاًدیکھئے بخاری رقم4،مسلم رقم20،حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: ’’الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ وتقانہ‘‘ آپ کی ثقاہت وجلالت پر امت کااجماع ہے ،[تقریب التہذیب ،رقم6296]۔

اسحاق بن یحیی الکلبی: (اسحاق بن یحیی بن علقمة الکلبی)۔
یہ صحیح بخاری کے (شواہدکے )راوی ہیں ،دیکھئے صحیح بخاری تحت نمبرات:682، 1355، 3298، 3299، 3433، 3434،3927،7382۔
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں :’’صدوق‘‘ آپ سچے تھے،[دیکھئے :تقریب رقم(391)]۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں :’’احادیثہ صالحة‘‘ ان کی بیان کردہ احادیث درست ہیں ،[سؤالات الحاکم للدارقطنی:ص280]۔
امام ابن حبان نے آپ کوثقہ اورقابل اعتماد لوگوں میں ذکرکیاہے،[کتاب الثقات:ج6ص49]۔

یحیی بن صالح الوحاظی : (ابوزکریا یحیی بن صالح الوحاظی الشامی)۔
آپ بخاری ومسلم کے راوی ہیں مثلادیکھئے :بخاری رقم361مسلم رقم1594نیز دیکھئے تقریب رقم7568۔امام یحیی ابن معین اور امام بخاری نے انہیں ثقہ کہ ہے[الجرح والتعدیل:9 158،کتاب الضعفاء الصغیر:145]۔

محمد بن اسحاق: (ابوبکر، محمد بن اسحاق بن جعفر الصاغانی)۔
آپ صحیح مسلم کے راوی ہیں مثلا:دیکھئے :مسلم رقم14،امام ابن حجر فرماتے ہیں :’’ثقة ثبت‘‘ آپ ثقہ اورثبت ہیں ، تقریب رقم5721۔

ابوالعباس محمدبن یعقوب: (ابوالعباس محمدبن یعقوب بن یوسف الاصم)۔
آپ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،امام ذہبی فرماتے ہیں:’’الِمَامُ، المُحَدِّثُ، مُسْنِدُ العَصْرِ‘‘ آپ امام ہیں محدث ہیں مسندالعصرہیں ،[سیر اعلام النبلائ:29 450]۔
امام ابوالولید فرماتے ہیں: ’’ثقة مشھور‘‘ آپ مشہورثقہ ہیں،[تاریخ دمشق:65293]۔

ابوعبداللہ الحافظ : (حاکم النیسابوری)۔
آپ معروف ومشہور ثقہ امام ہیں ،حدیث کی مشہور کتاب ''المستدرک'' آپ ہی کی لکھی ہوئی ہے۔آپ اپنے وقت میں محدثین کے امام تھے،[سیر اعلام النبلائ:33163،164]۔
ابن العماد فرماتے ہیں:’’ثقة حجة‘‘ آپ ثقہ اورحجت ہیں [شذرات الذھب:3175]۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ پیش کردہ حدیث بالکل صحیح ہے ،اور کلمہ طیبہ ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ‘‘ یہ کسی امتی کابنایاہوانہیں ہے بلکہ اس کی تعلیم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ،اب ان لوگوں کوتوبہ کرنی چاہئے جوکہتے ہیں کلمہ طیبہ پڑھنے کی تعلیم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے نہیں بلکہ فقہاء کی فقہ سے ملتی ہے نعوذ باللہ! اورعوام کوچاہئے کہ وہ ایسے تمام لوگوں سے ہوشیار رہیں جودن رات اس طرح کاجھوٹ بولتے ہیں ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کولوگوں سے چھپاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوہدایت دے اورتمام مسلمانوں کو کتاب وسنت کی
پیروی کی توفیق دے ،آمین۔
 

فہد مقصود

محفلین
دو هزار روپے ميں نبى صلى الله عليه وسلم كى زيارت

استغفرالله , نعوذبالله

فرمايا شاه غلام رسول صاحب كانپورى جن كا لقب رسول نما مشهور هے ايسى بركت تهى كه حالت بيدارى ميں رسول صلى الله عليه وسلم كى زيارت كرا ديتے تهے- سيد حسن صاحب رسول نما كو بهى يه هى كمال حاصل تها وه بهى بيدارى ميں هى حضور صلى الله عليه وسلم كى زيارت كراديتے تهے – مگر يه بزرگ زيارت كرانے كے ليے دو ھزار روپيه ليتے تهے جو اس قدر روپيه پيش كرتا تها وه هى دولت عظمى سے مشرف هوتا تها- (ملفوظات حكيم الامت:ص 180)

coverpage.jpg

2000meNabisemuqalat.jpg
 

فہد مقصود

محفلین
ملاحظہ کیجئے کس طرح اشرف علی تھانوی صاحب منصور حلاج، ابنِ عربی اور فصوص الحکم اور بایزید بسطامی کا دفاع کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی صاحب ان افراد اور ان ےک عقائد پر پردہ پوشی کرنے کے لئے قرآن اور احادیث سے دلائل پیش کرتے ہیں۔

بايزيد بسطامى نے ايك بار فرمايا سبحانى مااعظم شانى ۔۔۔۔

حضرت بايزيد بسطامى رحمته الله عليه نے ايك دفع فرمايا سبحانى مااعظم شانى مريدوں نے عرض كيا كه حضرت يه آپ نے كيا فرمايا- فرمايا كه اگر ميں ايسا كهتا هوں تو واقعى كفر هے اگر اب كے ايسا كهوں تو مجھ كو قتل كر دينا اگر دوكاندار هوتے تو كيا ايسى بات كى اجازت فرماتے كيا دوكاندار شخص ايسا كر سكتا هے مريد بهى ايسے هوتے تهے كه ذرا كوئى بات شيخ كے خلاف شريعت ديكهى فوراً امربالمعروف كر ديا آج كل سى حاات نه تهى كه ايسے الفاظ سے اور مريدين كا اعتقاد بڑهتا هے- غرض يه كه مريديں نے چهرياں تيار كر ليں شيخ پر پهر غلبه طارى هوا اور سبحانى مااعظم شانى زبان سے نكلا مريديں نے چار طرف سے چهرياں مارنا شروع كيں اب تماشه يه هوا كه جس مقام پر شيخ كے جسم پر چهرى مارتے هيں لوٹ كر اسى جگه اپنے جسم پر چهرى لگتى تمام زمين پر پڑے تڑپ رهے هيں دريافت فرمايا كه يه كيا هوا عرض كيا گيا كه واه حضرت اچهى تدبير بتلائى هم كو توهلاك هى كيا هوتا اور سب قصه بيان كيا فرمايا كه اگر يه بات هے تو بس معلوم هوا كه ميں نهيں كهتا كوئى اور كهتا هے كه جس پر حمله نهيں كر سكتا پهر اس كى نظير آيت سے بيان كى كه حضرت موسى عليه السلام جس وقت اپنى بيوى كو لے كر چلے اور كوه طور كے قريب منزل پر آئے اور آگ كى ضرورت هوئى تو ايك درخت پر آگ نظر آئى آپ آگ لينے گئے تو اس درخت ميں سے آواز آئى أن ياموسى إني أنا الله رب العالمين تو كيا وه نداء درخت كى تهى سو جب ايسى آواز درخت ميں پيدا هو سكتى هے سو اگر منصور اور بايزيد ميں پيدات هو جاوے-

ALLAH%20aur%20maklooq%20ek.jpg


jild7.jpg
 
" قرآن مجید میں اللہ تعالی نے قرآن کو حبل اللہ اور عروۃ الوثقی کہا ہے"۔
'' حَبْلِ اللّٰہ ِ'' کی تفسیر میں مفسرین کے چند قول ہیں بعض کہتے ہیں اس سے قرآن مراد ہے مُسلِم کی حدیث شریف میں وارد ہوا کہ قرآن پاک حبل اللہ ہے جس نے اس کا اتباع کیا وہ ہدایت پر ہے جس نے اُس کو چھوڑا وہ گمراہی پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حبل اللہ سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیاہے۔
القرآن الکریم (دعوت اسلامی)
 

فہد مقصود

محفلین
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں ،
لکھتے ہیں:

'' یہ قول کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ نبی ہوتے اگر چہ اپنے مفہوم شرطی پر صحیح و جائز اطلاق ہے کہ بے شک مرتبہ علیہ رفعیہ حضور پر نور رضی اللہ عنہ ظل مرتبہ نبوت ہے'' [عرفان شریعت:صفحہ٨٤]

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا مقام ، مرتبہ نبوت کا ظل ہے۔ ایک ہے مرتبہ نبوت اور ایک ہے ظل مرتبہ نبوت ، جو مرتبہ نبوت پر ہو وہ نبی کہلاتا ہے اور جو ظل مرتبہ نبوت پر ہو وہ ظلی نبی ٹھہرا ۔ گویا بریلویوں کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک شیخ جیلانی رحمہ اللہ ظلی نبی تھے۔

اناللہ وانا علیہ راجعوں۔

مفتی محمد خان قادری کا فتوی:
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، ان کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی نبی نہیں آ سکتا۔ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے اور یہ کہے اور مانے کہ آپ کے بعد نیا طبی آسکتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا ﴿ مجلہ انوار رضا تاجدار بریلی نمبر 2003 ص 69﴾

عبارت آپکی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ ابھی جیسا ہم نے دیکھا کہ احمد رضا کے نزدیک عبدالقادر جیلانی رح کا مقام مرتبہ نبوت کا ظل ہے۔ ذرا غور سے پڑھیں اور سمجھیں کہ ایک ہے مرتبہ نبوت اور ایک ہی ظل مرتبہ نبوت، جو مرتبہ نبوت پر ہو وہ نبی کہلاتا ہے اور جو ظل مرتبہ نبوت پر ہو وہ ظلی نبی ٹھہرا، گویا احمد رضا کے مطابق جیلانی رح ظلی نبی تھے نعوذباللہ۔۔ اس عقیدہ کے مطابق انہی کا اپنا فتوی بھی آپ اوپر پڑھ چکے ہیں یہ فتوی انہی کی جماعت کے اور بھی محققین کا بھی ہے لیکن افسوس کہ یہ فتوی اپنے اعلی حضرت پہ لاگو نہیں ہوتا شاید ان کو استسنیٰ حاصل ہے اس فتوی سے۔۔
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:
یعنی جبکہ میں بروزی طور پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعوی کیا؟ ﴿ایک غلطی کا ازالہ ص8﴾

اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی کا ایک دعوی یہ بھی تھا کہ اس کذاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تما کمالات متجلی و منعکس ہیں ،،نعوذ باللہ،،
لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ اھمد رضا خان صاحب بھی شیخ عبدالقادر جیلانی رح کے لیے بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں بطور ثبوت حاضر ہے۔۔
احمد رضا خان صاحب نے لکھا۔۔

حضور پرنور سیدنا غوث اعظم، حضور اقدس و انور سید عا لم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث کامل و نائب تام و آئینہ ذات ہیں کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال وکمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔۔۔۔ تعظیم غوثیت عین تعظیم سرکار رسالت ہے ﴿السنیة الانیفہ فی فتاوی افریقہ ص97﴾

اب اس عبارت پر ذراغور فرمائیں جمعیع صفات سے مراد بہت ساری صفتیں یعنی خوبیاں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھیں وہ غوث پاک میں ہیں نعوذباللہ
جمال وجلال سے مراد حسن و رعب یعنی غوث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت جھلکتی تھی متجلی تھی نعوذباللہ،

کمال سے مراد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں معجزات تھے جو آپ کے برکات تھیں وہ سب غوث پاک میں متجلی تھیں نعوذباللہ،

افضال سے مراد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل تھے،جو فضیلت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات میں سب سے افضل تھے وہی فضیلت غوث پاک کو دی جارہی ہے نعوذباللہ۔۔

پتا چلا کہ جس طرح مرزا قادیانی کا اپنے متعلق جھوٹا دعوی تھا بالکل وہی جھوٹا دعوی احمد رضا خان صاحب کا عبدالقادر جیلانی رح کے متعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام صفات کیساتھ غوث پاک میں متجلی ہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
خواجہ غلام فرید چشتی کا بھی عقیدہ ملاحظہ فرمائیں:
حضرت قبلہ عا لم مہاروی بھی اتقاء میں یگانہ روزگار تھے۔ جس طرح ایک نبی مرسل صاحب مذہب ہوتا ہے آپ بھی نبی مرسل کی طرح مبعوث کیے گئے تھے نعوذباللہ ﴿ اشارات فریدی ترجمہ مقابیس المجالس ص871-872﴾
عرض ہے کہ نبی، پیغمبر کے سوا اس دنیا میں کوئی ہستی نہیں جو نبی مرسل یعنی رسالت کے ساتھ مبعوث ہو سکے یہ عقیدہ بھی ختم نبوت کے برعکس ہے۔

٭خواجہ غلام فرید چشتی کا ایک اور بیان۔۔ لکھتے ہیں:
حضرت مولانا فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے حضرت شیخ کے تما م مریدین برگزیدہ تھے اور محبت شیخ میں اس قدر محو تھے کہ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ حضرت کے ڈر سے کہتے تھے ورنہ ان کا جی چاہتا تھا کہ شیخ کا کلمہ پڑھیں۔۔ ﴿اشارات فریدی ترجمہ مقابیس المجالس ص 671﴾
عرض ہے کہ کلمہ طیبہ کے اندر تبدیلی اس طرح کا تو وہم بھی دل میں رکھنا خطرناک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کی جگہ کسی اور کانام لیا جائے، مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ صرف شیخ کے ڈر سے محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں ورنہ۔۔۔۔۔

٭کلمہ طیبہ۔۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ نیا کلمہ پڑھوانے کی کوئی کسر رہ گئی ہے، ان لوگوں نے اپنی مستند کتابوں میں کیا لکھا ہے ثبوت کے ساتھ حاضر خدمت ہے۔۔

۔ خواجہ نظام الدین اولیا نے فرمایا:
ایک شخص شیخ شبلی رح کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ میں آپ کا مرید ہوتا ہوں۔۔ حضرت شیخ شبلی رح نے پوچھا تو کلمہ طیبہ کس طرح پڑھتا ہے؟ مرید نے جواب دیا کہ میں اس طرح پڑھتا ہوں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔۔ شبلی بولے اس طرح پڑھ لا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ مریدنے فوراً اسی طرح پڑھ دیا نعوذباللہ۔۔ اس کے بعد شبلی نے فرمایا کہ شبلی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چاکروں میں سے ایک ہے میں تو تیرے اعتقاد کا امتحان لے رہا تھا ﴿فوائد الفوائد جلد5 مجلس8 ص399﴾

- پیر علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا۔۔
شیخ شبلی کے پاس دو شخص آئے بیعت کے لیے۔ ایک مولوی وضع کا تھا اور دوسرا زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا کہ پڑھ لا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ اس پر مولوی نے لاحول پڑھا اور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی آپ نے اس کو بھی اسی طرح فرمایا وہ خاموش رہا آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں؟ تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو؟ زمیندار بولا کہ میں تو آپ کو خدا تعالی کے مقام پر سمجھ کے آیا تھا آپ ابھی تک مقام نبی کا ہی ذکر فرما رہے ہیں۔۔ ﴿منازل الا برار ص106﴾
اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں کہ الغرض یہ چیزیں رموز ہیں اور درست ہیں عوام نہیں سمجھ سکتے، خواص اور سالکان طریقت کو ان چیزوں کو سمجھ کر عمل پیرا ہونا لازمی اور ضروری ہے استغفر اللہ نعوذ باللہ ﴿منازل الاابرار 160﴾

٭استغفراللہ نعوذ باللہ، لاحول ولا قوة۔۔

پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے کیا لکھا ہے ذرا دیکھیے اور غور کیجیے۔۔ لکھتے ہیں:
سالک کا وجو بعینہ مظہر حقیقت محمدیہ ہو کر ۛ لا الہ الا اللہ چشتی سالک رسول اللہ ً کے ترنم میں آتا ہے ﴿تحقیق الحق ص127﴾

٭استغفراللہ نعوذ باللہ، خواجہ غلام فرید چشتی لکھتے ہیں:۔۔
ایک شخص خواجہ معین الدین چشتی کے پاس آیا عرض کیا مجھے اپنا مرید بنائیں تو فرمایا اس طرح کہہ لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں چشتی اللہ کا رسول ہے ﴿فوائد فریدیہ ص 83﴾
اسی بات کا حوالہ ایک اور کتاب ﴿ فوائد السالکین ص27﴾ پر بھی ملاحظہ کریں۔
اسی بات کا تیسرا ثبوت دیکھیں ﴿ تحقیق الحق ص 127﴾
اسی بات کا چوتھا ثبوت دیکھیں ﴿ سبع سنابل ص 278-279﴾
ہوبہو اسی طرح کا ایک اور کفر دیکھیں ﴿انقلاب الحقیقت ص31﴾
یہی کفر دیکھیں ﴿احوال مقدسہ ص50﴾
یہی کر دیکھیں ﴿منبع انوار ص81﴾
عقلمند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے مگر ہم نے چند ایک ثبوت دیے ہیں ابھی بہت سے باقی ہیں جو کہ اگلے مواد میں آپکو مل جائیں گے۔۔ بھائیو خدا کے لیے تحقیق کرو حق کی مولویوں کی باتوں میں مت آو، قرآن و حدیث سے علم لو۔۔

عقیدہ ختم نبوت اسلام و ایمان کا انتہائی اہم اور بنیاد عقیدہ ہے، اور ایسے عقیدہ کا حامل خواہ مستند عالم ہی کیوں نہ ہو غلطی پر ہے۔ مگر فرقہ بریلویہ کی انتہائی معتبر و مستند کتب میں اس کے صریح مخالف و معارض عقائد و نظریات کی ایک سنگین تعداد پائی جاتی ہے۔ جس کے ثبوت مع حوالہ جات پیش کر دیے گئے ہیں۔۔

اسی متعلق ان کے اپنے عالم کا فتوی سن لیں کہتے ہیں۔ گستاخانہ کلمات بولنے والا جو مراد بھی بیان کرے اس سے حکم کفر ٹل نہیں سکتا۔۔ ﴿عبارات اکابر جائزہ جلد1 ص 365﴾

اسی متعلق انہی کا دوسرا فتوی۔۔ کہتے ہیں نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب ایک آدمی کفریہ کلمہ بولے اور کچھ لوگ اس کی تائید کریں، اور اس کو کفر نہ سمجھیں تو وہ کفریہ کلمہ سب کی طرف منسوب ہوگا اور یہی سمجھا جائے گا کہ سب کا یہی عقیدہ ہے۔۔﴿عبارات اکابر جائزہ جلد 2 ص50﴾

فتوی احمد رضا خان۔۔ نشہ کی بیہوشی میں اگر کسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بیہوشی کافر نہ کہیں گے نہ سزا دیں گے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشہ کی بیہوشی میں بھی صادر ہوا تو اسے معافی نہ دیں گے۔۔ ﴿فتاوی رضویہ جلد 4 ص301﴾

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے اپنے ہی اکابر کو ان فتاویٰ سے استثنیٰ حاصل ہے اور کیوں؟؟؟ کیا ان فتاویٰ کا اطلاق صرف دوسروں پر ہوتا ہے؟؟؟ اور وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعووں کا کیا ہوا؟؟؟
 

فہد مقصود

محفلین
عبدالقادر جيلانى رحمة الله عليه نے مرنے والے مريد كى روح لوٹا دى (استغفرالله )

"شيخ ابو العباس احمد رفاعى سے رواعيت ہے كه سيدنا غوث اعظم رحمة الله عليه كا ايك خادم فوت ہو گيا- اس كى بيوى آپ كى خدمت اقدس ميں حاضر ہوئى آه وزارى كرنے لگى اور اپنے خاوند كے زنده ہونے كى التجاء كى- تو سيدنا غوث اعظم رحمة الله عليه نے مراقبه كيا اور علم باطن سے آپ نے ديكها كه ملك الموت نے اس دن جتنى ارواح قبض كى تهيں وه ان كو آسمان كى طرف لے جارہے ہيں- تو آپ نے ملك الموت كو ٹهرنے كا حكم ديا كه ميرے فلاں خادم كى روح كو واپس كر دو تو ملك الموت نے جواب ديا كه مں تمام ارواح كو الله تعالى كے حكم سے قبض كيا ہے اور رب ذوالجلال كى بارگاه ميں پيش كرنى ہيں تو يه كيسے ہو سكتا ہے كه ميں آپ كے خادم كى روح كو واپس كر دوں جس كو ميں بحكم الهى قبض كرچكا ہوں- تو آپ نے دوباره كہا مگر ملك الموت نه مانے- اس كے ہاتھ ميں ايك ٹوكرى تهى جس ميں تمام روحيں ڈالى ہوئى تهيں جو اس دن قبض كى تهيں- پس آپ نے قوت محبوبيت سے ٹوكرى ان سے چھين لى – تو تمام روحيں نكل كر اپنے اپنے جسموں ميں چلى گئيں ملك الموت نے بارگاه رب العزت ميں شكايت كى اور عرض كيا- مولىٰ كريم تو جانتا ہے جو ميرے اور عبدالقادر كے درميان تكرار ہوئى كه اس نے آج مجھ سے تمام ارواح جو قبض كى تهيں چهين لى ہيں- تو الله تعالى نے ارشاد فرمايا اے ملك الموت بيشك عبدالقادر ميرا محبوب ہے- تو نے اس كے خادم كى روح كو واپس كيوں نه كيا- اگر ايك روح واپس كر ديتے تو اتنى روحيں اپنے ہاتھ سے ديتے نه پريشان ہوتے-"(تفريح الخاطر: ص68-69)

اس واقعه سے معلوم ہوا كه فرقه بريلويه كے نزديك :

  1. شيخ عبدالقادر جيلانى ملك الموت پر بهى دسترس ركهتے ہيں

  2. چاہيں تو آپ اپنے مريد كے ساتھ ساتھ دوسروں كى روحيں بهى واپس لوٹا ديں جو بحكم الہى قبض كى گئى تهيں-

  3. ملك الموت كو بهى چاہيے كه الله كا حكم ماننے كى بجائے شيخ عبدالقادر جيلانى كا حكم مانے تاكه پريشانى سے بچ جائے-
الله رب العزت فرماتے ہیں:

"پھر کس لیے روح کو روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے۔ اور تم اس وقت دیکھا کرتے ہو۔ اور تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔ پس اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے۔ تو تم اس روح کو کیوں نہیں لوٹا دیتے اگر تم سچے ہو۔" (الواقعه:83-87)

22-1_jpg.jpg


24-1_jpg.jpg
 

فہد مقصود

محفلین
1604428_264308877065012_1236554979_n-jpg.8229


ان الھدایۃ کالقران۔ یعنی ہدایہ قرآن کے مثل ہے۔
(مقدمہ ہدایہ ، جلد سوم، صفحہ 2)

قرآن وہ بے مثل کتاب ہے جس کے نزول سے آج تک کفار اس کا مثل پیش کرنے سے عاجز و ساکت ہیں۔ جس کام میں کفار بے دست و پا ہوگئے اسی کام کو مسلمانوں نے پورا کردکھایا اورقرآن کا مثل پیش کرکے اللہ کے چیلنج کوختم کردیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جن و انس سے کوئی قرآن کی مثل نہیں لاسکتا اللہ رب العالمین کا یہ چیلنج قرآن کا اعجاز اور امتیاز ہے۔کلام اللہ کے اس اعجاز اور امتیاز کوکوئی ختم نہیں کرسکتا

سورہ بنی اسرائیل میں اللہ نے جن و انس کی بے بسی اور قرآن کے کلام کی طرح کا کوئی کلام نہ لاسکنے کا اعلان فرمایاہے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے:

قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَآٰی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا


(اے پیغمبر!)اعلان کردیجئے: اگر تمام انسان اور جن مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو کبھی اس کی مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگاربھی بن جائیں۔
(سورۃ بنی اسرائیل: 88)

قرآن کریم میں کم و بیش تین یا چار مرتبہ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو قرآن کا مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا ہے۔جو ثابت کرتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں۔لیکن ہدایہ کے بعد قرآن مجید کا یہ اعجاز کہاں برقرار رہا؟! دیگر کتابوں کی طرح اب تو قرآن بھی ایک عام کتاب ہوگئی کیونکہ قرآن جیسی کتاب تو حنفیوں نے بھی پیش کردی۔اور قرآن کریم سے متعلق رب العالمین کا یہ ارشاد کہ یہ خالق کائنات کی جانب سے نازل کردہ ہے اور یہ مخلوق کا کلام نہیں

جیسا کہ اس آیت میں اسکا واضح اشارہ موجود ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا

کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے اور اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو و ہ اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے۔
(سورۃ النساء 82)
 

فہد مقصود

محفلین
مگر اسى كے ساتھ ميں يہ بهى كہتا ہوں كہ مثنوى كا ديكهنا ہر شخص كو جائز نہیں گو ميں خود اس ميں مبتلا ہوں ہاں اس شخص كے لئے مثنوى نافع ہے جسے اس فن سے كامل مناسبت ہو ورنہ نہيں جيسے قرآن شريف كا ترجمه كہ عوام كو تو پڑهنا خطرناك ہے ليكن جن لوگوں كو مناسبت ہے كہ سب ضروريات پر نظر ركهتے ہيں ان كو جائز ہے۔

اسى سلسلہ ميں فرمايا كہ ترجمہ قرآن شريف پر ياد آيا۔ تحصيل كنڈہ ميں ايك تحصيلدار صاحب ميرے دوست تهے انہوں نے مجھ كو بلايا تها وہاں ايك اهلمدے بوڑهے اور بہت نيك قرآن كى تلاوت كے پابند تہجد كے پابند مترجم قرآن شريف لائے اور يہ آيت نكالى " يايهاالذين امنو لاتقولوا اراعنا " اور كہنے لگے تلاوت ميں لفظ "راعنا" چھوڑا جائے كيونكہ قرآن شريف ميں اس سے منع فرمايا ہے كہ نہ كہو "راعنا" ميں نے كہا ميں اس واقعہ كو ديكھ كر فتوىٰ ديتا ہوں كہ تم كو ترجمہ ديكهنا حرام ہے۔ اور ايسے شخص كے لئے ايسا فتوىٰ كيونكر نہ دوں جس نے يہ معنىٰ لئے "لا تقولوا" كے كہ قرآن شريف ميں بهى نہ پڑهو۔

(ملفوظات حكيم الامت: ص 127

coverpage.jpg

QuranKoPadnaharam.jpg
 
Top