لوگوں میں مشہور ہوگیا ہے کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے ، یہ عربی زبان میں ہے اسے صرف عربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اٹھارہ علوم سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ العیاذ باللہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر عوام قرآن کا ترجمہ پڑھیں گے تو گمراہ ہوجائیں گے ۔
یہ بات دراصل پیٹ پرست، مطلب پرست اور شہرت پسند کم علم ملاؤں کی طرف سے پھیلائی گئی ہےتاکہ ساری عوام ان ملاؤں کے زندگی بھر غلام رہے اور یہ مولوی ان سے عزت،شہرت اور دولت بیجا حاصل کرتا رہے حالانکہ قرآن سمجھنا نہایت آسان ہے ۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مومن کو سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہئے تاکہ صحیح سے اس پر عمل کرے جس کا بدلہ اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کے تاج کی شکل میں ملے گا۔
قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔
وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
یہ حدیث بھی ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد بتلاتی ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے ۔
ہمیں تو قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی بتلاتا ہے کہ علم حاصل کرو۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(سورة العلق:1)
ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
یہی وہ علم ہے جس کے بارے میں کل قیامت میں سوال بھی کیاجائے گا۔
لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ ماذا عمِلَ بهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ، وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟ (صحيح الترغيب:3592)
ترجمہ : قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔ عمر کے بارے میں کہ تونے کہاں گذاری،علم کے بارے میں کہ تم نے کتنا اس پہ عمل کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایااور کہاں صرف کیا،جسم کے بارے میں کہ کہاں خرچ کیا۔
ان باتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمل کرنے سے پہلے علم کا حصول ضروری ہے ، بایں سبب اسلام میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔
قرآن سمجھنا آسان ہے اس کے منطقی دلائل :
اب چلتے ہیں اس طرف کہ قرآن سمجھنا کس قدر آسان ہے ؟۔ اس بات کو پہلے منطقی اور عقلی طورپہ ثابت کرتاہوں ۔
(1) ابھی میں نے بتلایاہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے اور یہ قرآن ساری کائنات کے لئے نازل کی گئی ہے ۔ ہندو،مسلم،سکھ ۔عیسائی۔خواہ اس کی زبان ہندی،اردو،انگریزی،فارسی کچھ بھی ہو۔اور وہ کسی بھی علاقے کا رہنے والاہو۔بھلا اللہ تعالی ایسی کتاب کیوں نازل فرمائے گا جو دنیاوالوں کی سمجھ سے باہر ہواور لوگ جس کے سمجھنے سے قاصرہوں؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کے نزول کا مقصد فوت ہوجائے گا اور آخرت میں علم وعمل کے متعلق سوال کرنا بندوں پہ ظلم ٹھہرے گاجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ نہ تو قرآن کانزول بلامقصدہے اور نہ ہی اللہ بندہ پر ذرہ برابر ظلم کرنے والاہے ۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(سورة آل عمران : 191)
ترجمہ : اے ہمارے تونے (یہ کائنات) بلامقصد نہیں بنائی ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق:29)
ترجمہ: اور ہم ذرہ برابر بھی بندوں پرظلم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
یہ بات دراصل پیٹ پرست، مطلب پرست اور شہرت پسند کم علم ملاؤں کی طرف سے پھیلائی گئی ہےتاکہ ساری عوام ان ملاؤں کے زندگی بھر غلام رہے اور یہ مولوی ان سے عزت،شہرت اور دولت بیجا حاصل کرتا رہے حالانکہ قرآن سمجھنا نہایت آسان ہے ۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مومن کو سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہئے تاکہ صحیح سے اس پر عمل کرے جس کا بدلہ اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کے تاج کی شکل میں ملے گا۔
قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔
وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
یہ حدیث بھی ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد بتلاتی ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے ۔
ہمیں تو قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی بتلاتا ہے کہ علم حاصل کرو۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(سورة العلق:1)
ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
یہی وہ علم ہے جس کے بارے میں کل قیامت میں سوال بھی کیاجائے گا۔
لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ ماذا عمِلَ بهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ، وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟ (صحيح الترغيب:3592)
ترجمہ : قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔ عمر کے بارے میں کہ تونے کہاں گذاری،علم کے بارے میں کہ تم نے کتنا اس پہ عمل کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایااور کہاں صرف کیا،جسم کے بارے میں کہ کہاں خرچ کیا۔
ان باتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمل کرنے سے پہلے علم کا حصول ضروری ہے ، بایں سبب اسلام میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔
قرآن سمجھنا آسان ہے اس کے منطقی دلائل :
اب چلتے ہیں اس طرف کہ قرآن سمجھنا کس قدر آسان ہے ؟۔ اس بات کو پہلے منطقی اور عقلی طورپہ ثابت کرتاہوں ۔
(1) ابھی میں نے بتلایاہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے اور یہ قرآن ساری کائنات کے لئے نازل کی گئی ہے ۔ ہندو،مسلم،سکھ ۔عیسائی۔خواہ اس کی زبان ہندی،اردو،انگریزی،فارسی کچھ بھی ہو۔اور وہ کسی بھی علاقے کا رہنے والاہو۔بھلا اللہ تعالی ایسی کتاب کیوں نازل فرمائے گا جو دنیاوالوں کی سمجھ سے باہر ہواور لوگ جس کے سمجھنے سے قاصرہوں؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کے نزول کا مقصد فوت ہوجائے گا اور آخرت میں علم وعمل کے متعلق سوال کرنا بندوں پہ ظلم ٹھہرے گاجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ نہ تو قرآن کانزول بلامقصدہے اور نہ ہی اللہ بندہ پر ذرہ برابر ظلم کرنے والاہے ۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(سورة آل عمران : 191)
ترجمہ : اے ہمارے تونے (یہ کائنات) بلامقصد نہیں بنائی ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق:29)
ترجمہ: اور ہم ذرہ برابر بھی بندوں پرظلم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔