سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رشکِ گلزار ہوا کرب و بَلا کا صحرا
دشت میں چلنے لگی گلشنِ زہرا کی ہوا
یوں معطر ہوئی خوشبوئے امامت سے فضا
نکہتِ گلشنِ فردوس میں ہر ذرہ بسا
کھل گیا رحمتِ باری کا خزینہ گویا
کربلا میں اتر آیا تھا مدینہ گویا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دیکھی باطل نے جو یہ شوکتِ ایماں، لرزا
زلزلہ تخت پہ طاری ہوا ، ایواں لرزا
ہو گیا سبطِ پیمبر سے ہراساں ، لرزا
ٹوٹتی سی ہوئی محسوس رگِ جاں ،لرزا
سامنا سبطِ پیمبر سے کچھ آسان نہ تھا
ظلم کرنے کے علاوہ کوئی امکان نہ تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حکم فوجوں کو ملا جاؤ انہیں زیر کرو
دل نہ پِھر جائیں کہیں ، بات ہی ان کی نہ سنو
یہ جو آمادہ بیعت ہوں تو بیعت لے لو
شکلِ انکار جو دیکھو تو نہ زندہ چھوڑو
یہ نہ دیکھو کہ جگرِبندِ نبی آئے ہیں
دشمن تخت پئے فوج کشی آئے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جمع ہونے لگے پھر چاروں طرف سے لشکر
جن میں موجود تھے دنیا طلب و بندہ زر
جاہل و خود سر و خودبیں و دنی بانئ شر
جن کو اُمید شفاعت تھی نہ اللہ کا ڈر
غارتِ قافلہ سبطِ پیمبر کے لیے
آ گئے رَن میں کئی لاکھ بہتر(72) کے لیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شامی و رومی و کوفی و عراقی خونخوار
آتشِ ظلم میں جلتے ہوئے سب کندہ نار
حامئ جور و ستم ، دینِ خدا سے بیزار
بندہ حرص و ہوس نشہ خوں سے سرشار
آلِ احمد کے لیے کتنی بلائیں آئیں
خون برسانے کو میداں میں گھٹائیں آئیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گُرز و تیغ و سپر و ناوک و پیکان و سناں
زرہِ آہن و خود و علم و طبل و نشاں
جمع تھے جتنے ہلاکت کے ہیں وہ سب ساماں
اور اِدھر سبطِ پیمبر کی زباں پر قرآں
اُس طرف آگ کا دریا تھا شرر باری تھی
اِس طرف دعوتِ دینِ نبوی جاری تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس طرف فخر و مباہاتِ جہالت دن رات
اِس طرف حمدِ خدا، نعتِ نبی، ذکرِ نجات
اُس طرف بند نبی زادوں پہ تھا آبِ فرات
اِس طرف کوثر و تسنیم و جناں کی سوغات
اِس طرف چشمہ رحمت کی بھی موجیں تھیں
اُس طرف ظلم کا طوفان تھا اورفوجیں تھیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صبح عاشور وہ ہنگامہ باطل وہ خروش
بَد گہر نشہ کثرت سے ہوئے تھے مدہوش
بادہ فسق میں آیا تھا عجب رنگ سے جوش
بند تھا نہر کا پانی پئے شاہِ حق کوش
ہر طرف سے دف و قرنا کی صدا آتی تھی
سوئے کوفہ سے جہنم کی ہوا آتی تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیر، اِک بار جو افواجِ ستم نے بَرسائے
کتنے انصارِ حسینی تھے لہو میں جو نہائے
ساتھ جس کام کو آئے تھے اسی کام میں آئے
شاہ نے بہر دعا سوئے فلک ہاتھ اٹھائے
یارب ان جاہلوں کو علم کی دولت دیدے
دیکھ سکتے نہیں کچھ ان کو بصارت دیدے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میرے انصار کا خوں رنگ دکھائے یارب
شرم ان قاتلوں کو ظلم پہ آئے یارب
خوں مسلماں نہ مسلماں کا بہائے یارب
شمع ایماں کو نہ اب کوئی بجھائے یارب
اپنے محبوب کا صدقہ انہیں ایماں دیدے
زنگ آلود ہیں دِل کچھ انہیں عرفاں دیدے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیرگئ دلِ باطل کو مٹا دے یارب
نورِایماں کی جھلک ان کو دکھا دے یارب
پردہ آنکھوں پہ جو ،ان کی ہے، اٹھا دے یارب
سیدھا رستہ انہیں دنیا میں بتا دے یارب
دولتِ زیست تری رہ میں لٹانے کے لیے
میں ہوں موجود ہر اِک ظلم اٹھانے کے لیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ دُعا کر گئے خیمہ اطہر میں امام
یوں کیا زینبِ محزوں سے شہِ دیں نے کلام
اب ذرا دیر میں ہو جائے گا کام اپنا تمام
باہر عباس ہیں اور گھر میں تمہارا ہے نظام
قتل ہو جائیں جو ہم اس کا ذرا دھیان رہے
کنبہ احمد کا نہ دنیا میں پریشان رہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اکبر و قاسم و سجاد کا رکھنا ہے خیال
دل عباس سے جائے گا ہمارا نہ ملال
ہے مرے بعد اب ان کی حفاظت کا سوال
کم سے کم یہ تو نہ ہوں جور و ستم سے پامال
سب مرے جان و جگر ہیں یہ کوئی غیر نہیں
دشمنوں کو مرے ان سے تو کوئی بیر نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جا کے تم قبر پہ نانا کی یہ کہنا بہ ادَب
تخت اور تاج سے مجھ کو نہ تھا کوئی مطلب
زعمِ باطل کو مٹانا تھا جو اے شاہِ عرب
جان دے دی ہے فقط آبروئے حَق کے سبب
بیعت ظلم نہ کی جان بچانے کے لیے
اک سبق دے کے گیا سارے زمانے کے لیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سُن کے زینب نے حسین ابن علی کی تقریر
بولیں ہے ہے یہ دکھاتی ہے ہمیں کیا تقدیر
ہم تو مہمان ہیں مہمانوں کی ایسی توقیر
درپئے سبطِ پیمبر ہوئے کیوں یہ بے پیر
اِن کو کیا روزِ جزا کا بھی کوئی دھیان نہیں
پاسِ اسلام نہیں، عزتِ ایمان نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آپ کی جان سے دُور آپ کی جائے کیوں جان
پہلے ہوں آپ پہ دونوں مرے بچے قربان
عمریں چھوٹی ہیں تو کیا ان کے بڑے ہیں اوسان
ان کو بچپن ہی سے ہے جنگ و جدل کا ارمان
کھیلتے رہتے تھے یہ تیر و کماں سے دونوں
کام لے سکتے ہیں اب تیغ و سناں سے دونوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایسا مشکل تو نہیں ہے سفر ملک عدم
راہِ ایماں میں بڑھانا ہے فقط ایک قدم
آپ کے بعد بھلا کون جیے گا اِک دَم
رنج سے یونہی نکل جائے گا ہر ایک کا دَم
آپ کے سامنے مر جائیں تو عزت رہ جائے
جان جائے مگر ایمان کی دولت رہ جائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں تو زندہ ہوں فقط آپ کی خدمت کے لیے
گھر کو چھوڑا تھا اِسی عالمِ غربت کے لیے
آپ کے ساتھ ہوں امّاں کی وصیت کے لیے
زندگی وقف ہے دربارِ امامت کے لیے
آپ کے بعد کوئی زیست کا عنوان نہیں
سانس لینا بھی بہن کے لیے آسان نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کہا شبیّر نے مایوس نہ ہو اے ہمشیر
تھا ازل ہی سے یہ قسمت میں ہماری تحریر
یاد آتی ہے رسولِ دوسرا کی تقریر
مجھ سے فرماتے تھے اے نورِ نظر، اے شبّیر
ایک دن تجھ کو میرے کام بھی آنا ہو گا
اپنا کٹوا کے گلا دیں کو بچانا ہو گا
 
Top