مرحوم کی یاد میں (پارٹ 2)

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
آپکے عزیز آپکو چاچو کہتے ہیں؟
یہ ایک عجیب و غریب الف لیلیٰ ہے
دانی کو میرا بھتیجہ ہونے کا شرف یوں حاصل ہے کہ وہ میرے چچا زاد بھائی کا بیٹا ہے
اور ویسے میں جگ ماموں مشہور ہوں، حتیٰ کے مجھ سے 6 ، 7 سال بڑے لوگ بھی مجھے ماموں بنا لیتے ہیں
اب تو یہ صورتِ حال ہے کہ میرے اپنے سگے بھائیوں کی اولاد بھی مجھے ماموں کہتی ہے
لیکن ان سب کے درمیان کچھ روایت شکن لوگ اب بھی مجھے چاچو کہہ کر اپنی جدت پسندی کو تسکین دے لیتے ہیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کیوں جی مشتاق احمد یوسفی کو بھی پڑھا تو ہو گا آپ نے؟
یوسفی صاحب کو "خاکم بدہن" سے پڑھتا چلا آ رہا ہوں، مگر بات وہی کیمسٹری والی ہے
اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ میرا ایک دوست پلس کزن (فراز) میرے ہی ذریعے یوسفی صاحب سے متعارف ہوا اور اب وہ ہم سب سے زیادہ ان کا پنکھا ہے۔ یوسفی ، یونس بٹ، تھانوی صاحب وغیرہ وغیرہ کا مزہ اور ہے
جبکہ پطرس اور کرنل صاحب کا مزہ اور ہے
 

یوسف-2

محفلین
یوسفی، یونس بٹ اور تھانوی ۔ ۔ ۔ ان تینوں کو آپ نے ایک ہی لاٹھی (وغیرہ وغیرہ) سے ہانک دیا ؟
کہاں مشتاق یوسفی، اور کہاں یونس بٹ ۔۔۔ ان دونوں کے اسلوب میں تو ایک وسیع و عریض گھاٹی حائل ہے :D اور اسی گھاٹی کے وسط میں کہیں اس پاس شوکت تھانوی (وغیرہ بھی) پائے جاتے ہیں۔

اگر آپ مشتاق یوسفی سے ”متاثر“ نہیں تو خامہ بگوش (مشفق خواجہ) کے تو قریب سے بھی نہیں گزرے ہوں گے۔ :D مشفق خواجہ موجودہ عہد کے پائے کے محقق اور بہترین شاعر ہیں (ویسے ان کا انتقال ہوچکا ہے) علامہ اقبال سے حسب نسب کا رشتہ بھی ہے، عمر عزیز کراچی میں گزری اور (غالباً) کراچی ہی میں مدفون ہیں۔ کراچی کے مشہور صحافی محمد صلاح الدین شہید انہیں فکاہیہ نگاری کے میدان میں لے کر آئے۔ اور انہوں نے ”خامہ بگوش“ کے ”فرضی نام“ سے ہفت روزہ تکبیر میں برسوں فکاہیہ کالم لکھتے رہے جو ”اردو دنیا“ ہر جگہ قند مکرر کے طور پر چھپتا رہا۔ خامہ بگوش کے منتخب کالموں کے مجموعے بھی چھپتے رہے ہیں۔

پطرس بخاری، کرنل محمد خان اور مشتاق یوسفی تو مزاح نگاری کے ایک ہی ”اسکول“ کے لکھاری ہیں۔ یونس بٹ کا اسکول، انور مقصود کے اسکول سے متعلق ہیں۔ گو کہ انور مقصود نے کاغذ پر کم اور ٹی وی اسکرین کے لئے زیادہ لکھا ہے۔ جبکہ یونس بٹ نے دونوں کے لئے اتنا زیادہ لکھا ہے کہ یہ خود اپنے آپ کو بارہا دُہراتے رہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پطرس بخاری اور کرنل محمد خان کے عہد میں یا ان سے پہلے ایک کنہیا لال کپور بھی تھے۔ وہ بھی کمال کا مزاح لکھتے تھے۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کوئی شفیق الرحمٰن کو بھی یاد کر لے!
میں ابھی کرنے ہی والا تھا
مگر مجھ سے پہلے آپ کر چکے تھے

بات اس رخ چل نکلی ہے کہ اگر میں بولا تو "کافر کافر" کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے

بے شک یوسفی ، ان بٹوں وغیرہ سے اوپر کی چیز ہیں، اوربخوبی اے کلاس کہلائے جا سکتے ہیں ، لیکن فرق وہی ہے جو غالب اور اقبال والا ہے

غالبؔ نے ایک مختصر سا دیوان لکھ کر ادب میں وہ جھنڈے گاڑے کہ کوئی ماما چاچا سوچ بھی نہیں سکتا
جبکہ علامہ اقبال کو یہی کام کرنے کیلئے بہت ساری کتابیں لکھنی پڑیں

پطرس کے مزاحیات میں صرف ایک مختصر ترین سی "پطرس کے مضامین" ہے
اور کرنل صاحب کا تو ٹریڈ مارک ہی "بجنگ آمد" ہے

اور ان دونوں کی پسندیدگی بلکہ مریدگی کی وجہ یہ بھی ہے کہ

دیوانِ غالبؔ کا دیباچہ
پطرس کے مضامین کا دیباچہ
اور بجنگ آمد کا دیباچہ

شاید آپ سب بھی کہیں کہ ان کا جواب نہیں (باقی کتاب اگر نہ بھی لکھتے تو)
 

یوسف-2

محفلین
ادبی مزاح کی متعدد قسمیں ہوتی ہیں۔ کسی ایک قسم کے مزاح کا موازنہ و مقابلہ دوسرے قسم کے مزاح سے نہیں کیا جاسکتا یا نہیں کیا جانا چاہئے۔
عظیم بیگ چغتائی، کنہیا لال کپور، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، اطہر شاہ خان عرف جیدی، مشتاق یوسفی، وغیرہم کا مزاح بہت ہی معصومانہ، ایور گرین، طنز سے ”پاک“ ہیں۔ یہ تحریریں” ادب برائے ادب“ کے کانے میں فِٹ بیٹھتی ہیں۔ ان کا کوئی لنک ’’ادب برائے زندگی‘‘ یا ’’اصلاحی و مقصدی تحریروں‘‘ سے نہیں ہے۔ ان تحریروں کا واحد مقصد ’ادب کی خدمت“ یا قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین اور ذہنی آسودگی فراہم کرنا ہے۔

انور مقصود، ڈاکٹر یونس بٹ، عطا ء الحق قاسمی، جیسے ادباء کی مزاح نگاری، طنز کے تڑکے کے ساتھ ”اصلاحِ معاشرہ‘‘ کی مقصدیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کی تحریریں رواں معاشرتی رویوں اور حالات حاضرہ کے پس منظر میں ہوتی ہیں۔ ان میں سیاسیات کو بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ دخل ہوتا ہے۔ ایسی تحریروں میں ادب اور زندگی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر ادبی چاشنی زندگی کے ایشوز پر غالب آجائے تو تحریر شاہکار بن جاتی ہے۔

کچھ صرف فکاہیہ کالم نگار ہوتے ہیں۔ یہ صحافت کے کوچے سے ادب کی دہلیز میں داخل ہوتے ہیں یا ادب و صحافت دونوں کشتیوں کے بیک وقت سوار ہوتے ہیں۔ جیسے شوکت تھانوی، سید ضمیر جعفری، عطا ء الحق قاسمی، وغیرہ

اردو ادب میں یہ صنف سخن بہت مقبول ہے۔ ناول اور افسانے مخصوص لوگ پڑھتے ہیں۔ انشائیہ اور تنقید کے قارئین عام لوگ نہیں ہوتے۔ کہانی پڑھنے کا ذوق رکھنے والے، ناول اور افسانوں کے قارئین سے جدا ہوتے ہیں۔ جبکہ طنز و مزاح کے قارئین میں عوام و خواص، کم تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سبھی شامل ہوتے ہیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
چھوٹا غالب جی، واقعی پڑھ کر مزہ آیا۔ بہت خوب۔
بٹ سائیں !!
بٹ تو بڑے بے تکلف اور یار باش ہوتے ہیں:ROFLMAO:
آپ تو تکلفات کا برقع پہنے انگریزی والے بٹ (بی یو ٹی)لگ رہیں ہیں:p
دوستوں میں تکلف نہیں چلتا، لفظ "جی" سے اجنبیت کی بو آتی ہے:grin:
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ سائیں !!
بٹ تو بڑے بے تکلف اور یار باش ہوتے ہیں:ROFLMAO:
آپ تو تکلفات کا برقع پہنے انگریزی والے بٹ (بی یو ٹی)لگ رہیں ہیں:p
دوستوں میں تکلف نہیں چلتا، لفظ "جی" سے اجنبیت کی بو آتی ہے:grin:
لیجئے آج سے ہم نے اس "جی" کو خیرباد کہہ دیا کہ آپ جیسے یاروں کی محفل جی لگانے کے لئے اسی بات کی متقاضی ہے۔
 

احمد علی

محفلین
کیا یاد کرا دیا چھوٹاغالبؔ میاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خُوب ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے خُوب کا لفظ میرے جزبات کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا ۔۔۔ مگر عاجز ہوں کہ بندہ کو اتنی ہی اردو آتی ہے۔۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
دلچسپ مائی ڈئیر۔ اب کار کی باری کب آرہی ہے۔:) میرے خیال میں بچوں کی پلاسٹک کار سے کام چلانا ورنہ موٹرسائیکل تو کسی نہ کسی طرح دانی نے نالے سے نکال ہی لی تھی لیکن کار کا تو مدفن ہی وہاں بنے گا جہاں بے چاری کی ہمت جواب دے گی۔:)
 

الف نظامی

لائبریرین
پطرس کے مزاحیات میں صرف ایک مختصر ترین سی "پطرس کے مضامین" ہے
اور کرنل صاحب کا تو ٹریڈ مارک ہی "بجنگ آمد" ہے

اور ان دونوں کی پسندیدگی بلکہ مریدگی کی وجہ یہ بھی ہے کہ

دیوانِ غالبؔ کا دیباچہ
پطرس کے مضامین کا دیباچہ
اور بجنگ آمد کا دیباچہ

شاید آپ سب بھی کہیں کہ ان کا جواب نہیں (باقی کتاب اگر نہ بھی لکھتے تو)
ایک دیباچہ یہاں بھی ہے ، ملاحظہ کیجیے
 

نایاب

لائبریرین
دن کا آغاز پر ہی اک خوبصورت مسکراہت بھری تحریر
صبح سویرے ہوئے دیدار ۔ دن چنگا لنگوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب تحریر
 

مہ جبین

محفلین
بلاشبہ ایک بہت بہترین تحریر ہے

دل میں اداسی غالب تھی مگر یہ شگفتہ شگفتہ تحریر پڑھ کر شگفتگی غالب آگئی۔۔۔۔:heehee:

اللہ تمہاری تحریروں میں ایسا ہی کمال عطا کرے کہ روتے ہوئے بھی ہنس پڑیں :applause:

کافی عرصہ پہلے میرے شوہرنے بچوں کے اصرار پر موٹر سائیکل سیکھنے کا سوچا
بڑی مشکل سے جب پہلے دن انہوں نے چلائی تو ایسا ہی کچھ منظر تھا کہ گھر کے سامنے سروس روڈ پر چلانے لگے
اور چند سیکنڈ بعد ہی ایک گھر کی دیوار سے موٹر سائیکل ٹکرادی
اس دن کے بعد لاکھ کہنے کے باوجود بھی موٹر سائیکل کو ہاتھ نہ لگایا :)


تمہاری شگفتہ تحریر نے وہی یادیں تازہ کردیں

چھوٹاغالبؔ کے لئے بہت ساری تالیاں
 
Top