ناعمہ عزیز
لائبریرین
سرد اور برفیلی صبح اپنے پر نکال رہی تھی، اسے پارلر پہنچنا تھا آج اسکی شادی تھی گمان اور یقین کے سائے اسکی آنکھوں میں منڈلا رہے تھے خوشی کے ساتھ خوف اپنے عروج پر تھا خوابوں کا مضبوط محل شایان شان کے ساتھ کھڑا تھا ذہن و دل کی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ خوش ہے یا نہیں اس نے شاید محبتوں کا مان توڑا تھا اس کا باپ اسکی خواہش کے آگے مجبور ہو کر گھٹنے ٹیک چکا تھا وہ ایک ایسے شخص کی بیوی بننے جارہی تھی جو پہلے سے شادی شدہ اور ایک بیٹے کا باپ تھا اسکی بیوی مر چکی تھی بانو کو دور کے ڈھول سہانے ہی نظر آ رہے تھے وہ پوری دنیا میں صرف اس شخص کی بات کا یقین کر رہی تھی جسے وہ ٹھیک سے جانتی بھی نا تھی اس کے علاوہ ہر شخص اسے جھوٹا فریبی اور اسکی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ نظر آ رہا تھا وہ بائیس سال کی خوبصورت لڑکی ایک چالیس سالہ شادی شدہ مرد سے اتنی توقعات وابسطہ کر بیٹھی تھی اس نے اپنی پڑھائی کو بھی خیر آباد کہہ دیا اس کا باپ چھ بیٹوں کے بوجھ تلے دبا بیٹھا تھا مگر اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری تھی مگر اپنی چوتھی لاڈلی بیٹی کا یہ فیصلہ اسے چند دنوں میں بوڑھا کر گیا
وہ نکاح کے بعد رخصت ہو چکی تھی گھر والوں کے دل پر بوجھ بڑھ چکا تھا اور بانو کی آزمائش کے دن شروع ہونے کو تھے وہ لاابالی جذباتی لڑکی چند دن کی محبتوں پر صدقے واری ہو گئی اور جیسے جیسے یہ دن گزرتے گئے خواب محل ٹوٹتا چلا امید محبت یقین سب کچھ ٹوٹ گیا چھ مہینے بعد وہ لڑکی طلاق کا داغ سجائے ماں باپ کے گھر اوندھے منہ پڑی تھی
اچانک ہی ایک دن مجھے خیال آیا تو میں نے اسے کال کی مگر اس کی بات سن کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا اور آنسو آنکھوں کی حدیں توڑ کر باہر آ چکے تھے
ایک دوست پر گزرا سچ
میری امی کہا کرتیں تھیں کہ بیٹی کے نصیبوں سے بڑا ڈر لگتا ہے اور میں سوچتی تھی ڈر کیسا جو ہونا ہو وہ ہو کر رہتا ہے زندگی کو خوشی گزارنے کا حق ہر شحص کے پاس ہے پھر ہمارے معاشرے میں عورت کو کیوں اس گالی سے یاد کیا جاتا ہے کہ فلاں کی بیٹی طلاق یافتہ ہے سارے سمجھوتے سارے قربانیاں عورت سے کیوں مانگی جاتی ہیں جب مرد بے لگام ہو جائے تو طلاق دے دے اور اگر اس کے ساتھ گزارا کرنا چاہو تو برداشت کرو یہ سبق صرف عورت کو کیوں پڑھایا جاتا ہے! عورت بھی تو انسان ہوتی ہے مرد سے کمزور بھی پھر اس سے اتنے حوصلے کی توقع کیوں! اور جو نبھا نہیں سکتے تو کیوں بھڑکیں مار مار کر لڑکی کے لیے کیوں تاج محل بناتے ہیں!
آج جو میں نے بانو سے کہا یار تم شادی کر لو اس بات کو دو سال ہونے کو آئے تو اس نے جواب دیا
تم کیا چاہتی ہو کہ میں پھر سے کسی جہنم میں کود جاؤں؟ مجھ میں حوصلہ نہیں ہے
ایسے تو نا کہو پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں
ہاں تم ٹھیک کہتی ہو پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مگر مرد سب برابر ہوتے ہیں
میں جان گئی تھی کہ اس کے دل میں کیا چل رہا تھا مگر خاموش رہی
وہ نکاح کے بعد رخصت ہو چکی تھی گھر والوں کے دل پر بوجھ بڑھ چکا تھا اور بانو کی آزمائش کے دن شروع ہونے کو تھے وہ لاابالی جذباتی لڑکی چند دن کی محبتوں پر صدقے واری ہو گئی اور جیسے جیسے یہ دن گزرتے گئے خواب محل ٹوٹتا چلا امید محبت یقین سب کچھ ٹوٹ گیا چھ مہینے بعد وہ لڑکی طلاق کا داغ سجائے ماں باپ کے گھر اوندھے منہ پڑی تھی
اچانک ہی ایک دن مجھے خیال آیا تو میں نے اسے کال کی مگر اس کی بات سن کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا اور آنسو آنکھوں کی حدیں توڑ کر باہر آ چکے تھے
ایک دوست پر گزرا سچ
میری امی کہا کرتیں تھیں کہ بیٹی کے نصیبوں سے بڑا ڈر لگتا ہے اور میں سوچتی تھی ڈر کیسا جو ہونا ہو وہ ہو کر رہتا ہے زندگی کو خوشی گزارنے کا حق ہر شحص کے پاس ہے پھر ہمارے معاشرے میں عورت کو کیوں اس گالی سے یاد کیا جاتا ہے کہ فلاں کی بیٹی طلاق یافتہ ہے سارے سمجھوتے سارے قربانیاں عورت سے کیوں مانگی جاتی ہیں جب مرد بے لگام ہو جائے تو طلاق دے دے اور اگر اس کے ساتھ گزارا کرنا چاہو تو برداشت کرو یہ سبق صرف عورت کو کیوں پڑھایا جاتا ہے! عورت بھی تو انسان ہوتی ہے مرد سے کمزور بھی پھر اس سے اتنے حوصلے کی توقع کیوں! اور جو نبھا نہیں سکتے تو کیوں بھڑکیں مار مار کر لڑکی کے لیے کیوں تاج محل بناتے ہیں!
آج جو میں نے بانو سے کہا یار تم شادی کر لو اس بات کو دو سال ہونے کو آئے تو اس نے جواب دیا
تم کیا چاہتی ہو کہ میں پھر سے کسی جہنم میں کود جاؤں؟ مجھ میں حوصلہ نہیں ہے
ایسے تو نا کہو پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں
ہاں تم ٹھیک کہتی ہو پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مگر مرد سب برابر ہوتے ہیں
میں جان گئی تھی کہ اس کے دل میں کیا چل رہا تھا مگر خاموش رہی
آخری تدوین: