حضرت! آپ بھی تحریر پر دوبارہ نظر دوڑائیں اور میرے گزشتہ مراسلے کو سہ بارہ تو ضرور پڑھیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تفہیم کے کچھ مسائل آپ کی طرف بھی ہیں .
میں نے ایسی کوئی بات خود سے اخذ نہیں کی جس کا ذکر تحریر میں دور دور تک نہ ہو .
بات اگر عمومی نوعیت کی ہوتی تو اس میں کوئی کلام نہیں تھا کیونکہ یہ قرار واقعی امر ہے کہ مرد عمومًا publicly جذبات پر قابو پانا جانتے ہیں. اور یہ صلاحیت قدرت نے ان کو ودیعت کی ہے. جبکہ خواتین اعصابی طور پر نسبتًا کمزور اور زیادہ حساس ہوتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر مامتا کا تصور ہی ناپید ہو جاتا . یہ عین بشری تقاضے ہیں ان کو بدلا نہیں جا سکتا .لیکن رونے پر مرد کے اوپر بھی کوئی قدغن نہیں .
میرے تخفظات تذکیر و تانیث کے حوالے سے معاشرے کے کچھ فرسودہ Odds n Norms کی بابت تھے .
مجھے حیرت فقط اس لاجک پہ ہے کہ مرد چونکہ سب کے سامنے رو نہیں سکتا اس لیے اس کی انا کے آبگینے کو کسی طور ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے . جبکہ عورت کے لیے بے بسی روا ہے سو اس کا معاملہ کچھ اور ہے . لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مرد تو محبت کر کے رسوا نہ ہو، عورت ہوتی ہے تو بھلے ہو (کیونکہ وہ رو سکتی ہے
) واہ! کیا منطق ہے .