مرد کیوں نہیں روتا

محمد وارث

لائبریرین
به چرخ اندر آیند دولاب وار
چو دولاب بر خود بگریند زار
۔
نه بم داند آشفته سامان نه زیر
به آواز مرغی بنالد فقیر
۔
نگویم سماع ای برادر که چیست
مگر مستمع را بدانم که کیست
کیا خوب پکڑا سید صاحب قبلہ، دل کے تار چھیڑ دیے آپ نے۔ سادات کی عزت ایسے ہی ہم پر فرض نہیں ہے :)
 
مرد کیوں نہیں روتا، بہت روتا ہے، ذرا ذرا سی بات پر روتا ہے۔ کبھی صرف آنسوؤں سے اور کبھی ڈھاڑیں مار مار کر، صرف ایک سخت دل دکھا دینے والے لفظ سے، ناانصافی کی دیکھ یا سن کر، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد بہت روتا ہے اور شاید اسی لئے لوگ اس مردکو عورت کہتےہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا خوب پکڑا سید صاحب قبلہ، دل کے تار چھیڑ دیے آپ نے۔ سادات کی عزت ایسے ہی ہم پر فرض نہیں ہے :)
بھئی جس دل میں نغمے بھرے ہوں اسے بس ذرا سا چھیڑنے کی ہی دیر ہوتی ہے خواہ کسی بھی طرح ہو کوئی سُر، کوئی چرخی، کچھ بھی۔
 

La Alma

لائبریرین
منطق طلب کرنے سے پہلے منطق سمجھنی ضروری ہے، خاتون۔
مصنف نے کہیں بھی وہ دعویٰ نہیں کیا جو آپ نے استخراج فرمایا ہے۔ تفہیم و تعبیر (comprehension) کے سوالات دوبارہ حل کرنے چاہئیں آپ کو۔
عاطف بھائی کا اٹھایا گیا نکتہ جو اس تحریر سے مستنبط ہوتا ہے، اور بالکل درست ہے، وہ یہ ہے کہ معاشرہ انا کی شکست کے بعد مرد کو اس قسم کی اور اس درجے کی رعایات نہیں دیتا جو عورت کا حصہ ہیں۔ لہٰذا مرد کو چاہیے کہ رقتِ جذبات سے جس قدر ممکن ہو گریز کرے۔ یہ ادعا سماج کی منطق کی رو سے بھی بالکل درست ہے اور امرِ واقعہ بھی ہے۔ یعنی مردوں سے یہی تقاضا کیا جاتا ہے اور مرد عموماً ہوتے بھی ایسے ہی ہیں۔
حضرت! آپ بھی تحریر پر دوبارہ نظر دوڑائیں اور میرے گزشتہ مراسلے کو سہ بارہ تو ضرور پڑھیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تفہیم کے کچھ مسائل آپ کی طرف بھی ہیں .
میں نے ایسی کوئی بات خود سے اخذ نہیں کی جس کا ذکر تحریر میں دور دور تک نہ ہو .
بات اگر عمومی نوعیت کی ہوتی تو اس میں کوئی کلام نہیں تھا کیونکہ یہ قرار واقعی امر ہے کہ مرد عمومًا publicly جذبات پر قابو پانا جانتے ہیں. اور یہ صلاحیت قدرت نے ان کو ودیعت کی ہے. جبکہ خواتین اعصابی طور پر نسبتًا کمزور اور زیادہ حساس ہوتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر مامتا کا تصور ہی ناپید ہو جاتا . یہ عین بشری تقاضے ہیں ان کو بدلا نہیں جا سکتا .لیکن رونے پر مرد کے اوپر بھی کوئی قدغن نہیں .
میرے تخفظات تذکیر و تانیث کے حوالے سے معاشرے کے کچھ فرسودہ Odds n Norms کی بابت تھے .
مجھے حیرت فقط اس لاجک پہ ہے کہ مرد چونکہ سب کے سامنے رو نہیں سکتا اس لیے اس کی انا کے آبگینے کو کسی طور ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے . جبکہ عورت کے لیے بے بسی روا ہے سو اس کا معاملہ کچھ اور ہے . لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مرد تو محبت کر کے رسوا نہ ہو، عورت ہوتی ہے تو بھلے ہو (کیونکہ وہ رو سکتی ہے :):) ) واہ! کیا منطق ہے .
 

فاخر رضا

محفلین
حضرت! آپ بھی تحریر پر دوبارہ نظر دوڑائیں اور میرے گزشتہ مراسلے کو سہ بارہ تو ضرور پڑھیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تفہیم کے کچھ مسائل آپ کی طرف بھی ہیں .
میں نے ایسی کوئی بات خود سے اخذ نہیں کی جس کا ذکر تحریر میں دور دور تک نہ ہو .
بات اگر عمومی نوعیت کی ہوتی تو اس میں کوئی کلام نہیں تھا کیونکہ یہ قرار واقعی امر ہے کہ مرد عمومًا publicly جذبات پر قابو پانا جانتے ہیں. اور یہ صلاحیت قدرت نے ان کو ودیعت کی ہے. جبکہ خواتین اعصابی طور پر نسبتًا کمزور اور زیادہ حساس ہوتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر مامتا کا تصور ہی ناپید ہو جاتا . یہ عین بشری تقاضے ہیں ان کو بدلا نہیں جا سکتا .لیکن رونے پر مرد کے اوپر بھی کوئی قدغن نہیں .
میرے تخفظات تذکیر و تانیث کے حوالے سے معاشرے کے کچھ فرسودہ Odds n Norms کی بابت تھے .
مجھے حیرت فقط اس لاجک پہ ہے کہ مرد چونکہ سب کے سامنے رو نہیں سکتا اس لیے اس کی انا کے آبگینے کو کسی طور ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے . جبکہ عورت کے لیے بے بسی روا ہے سو اس کا معاملہ کچھ اور ہے . لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مرد تو محبت کر کے رسوا نہ ہو، عورت ہوتی ہے تو بھلے ہو (کیونکہ وہ رو سکتی ہے :):) ) واہ! کیا منطق ہے .
نوحہ حضرت نوح و آدم علیہ السلام کا مشہور ہے، دونوں ہی مرد تھے. عبادت و گریہ امام زین العابدین علیہ السلام کا مشہور ہے وہ بھی مرد تھے. اور یہ کس نے کہا کہ عورت رو کر رسوا ہوتی ہے. وہ تو عام طور پر ہمدردیاں سمیٹتی ہے. اپنے حصے کی بھی اور مرد کے حصے کی بھی
 
آؤ سب مل کر روتے ہیں.
اس وجہ سے یہ قوم ترقی نہیں کرتی.
سارا فوکس رونے پر ہے.
بجائے اس کے کہ جو رو رہا ہے اس کو چپ کرایا جائے. یہ سوچا جا رہا ہے کہ جو نہیں رو رہا اس کو بھی رلایا جائے.
 

ربیع م

محفلین
سب سے مشہور رونا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کا تھا
وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
رونے سے جن کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی.
 

عاطف ملک

محفلین
آؤ سب مل کر روتے ہیں.
اس وجہ سے یہ قوم ترقی نہیں کرتی.
سارا فوکس رونے پر ہے.
بجائے اس کے کہ جو رو رہا ہے اس کو چپ کرایا جائے. یہ سوچا جا رہا ہے کہ جو نہیں رو رہا اس کو بھی رلایا جائے.
رونا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے اور آنکھوں کے لیے بھی :D
 

عاطف ملک

محفلین
حضرت! آپ بھی تحریر پر دوبارہ نظر دوڑائیں اور میرے گزشتہ مراسلے کو سہ بارہ تو ضرور پڑھیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تفہیم کے کچھ مسائل آپ کی طرف بھی ہیں .
میں نے ایسی کوئی بات خود سے اخذ نہیں کی جس کا ذکر تحریر میں دور دور تک نہ ہو .
بات اگر عمومی نوعیت کی ہوتی تو اس میں کوئی کلام نہیں تھا کیونکہ یہ قرار واقعی امر ہے کہ مرد عمومًا publicly جذبات پر قابو پانا جانتے ہیں. اور یہ صلاحیت قدرت نے ان کو ودیعت کی ہے. جبکہ خواتین اعصابی طور پر نسبتًا کمزور اور زیادہ حساس ہوتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر مامتا کا تصور ہی ناپید ہو جاتا . یہ عین بشری تقاضے ہیں ان کو بدلا نہیں جا سکتا .لیکن رونے پر مرد کے اوپر بھی کوئی قدغن نہیں .
میرے تخفظات تذکیر و تانیث کے حوالے سے معاشرے کے کچھ فرسودہ Odds n Norms کی بابت تھے .
مجھے حیرت فقط اس لاجک پہ ہے کہ مرد چونکہ سب کے سامنے رو نہیں سکتا اس لیے اس کی انا کے آبگینے کو کسی طور ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے . جبکہ عورت کے لیے بے بسی روا ہے سو اس کا معاملہ کچھ اور ہے . لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مرد تو محبت کر کے رسوا نہ ہو، عورت ہوتی ہے تو بھلے ہو (کیونکہ وہ رو سکتی ہے :):) ) واہ! کیا منطق ہے .
میرا خیال ہے کہ غلطی میرے اندازِ بیان میں ہے جو میرے خیالات کا ساتھ نہیں دے رہا۔
معذرت خواہ ہوں۔
سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ "یا تو آپ اپنی انا کا بھرم رکھیں،یا محبت کریں۔دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے."
اب اس کو عورت کی فطرت کہا جائے یا کچھ اور،لیکن عورت اکثر انا کو قربان کر دیتی ہے،اور معاشرہ اس کو allow بھی کر دیتا ہے،لیکن مرد ایسا نہ کرتا ہے،اور نہ ہی اس کو کرنے دیا جاتا ہے۔
کم از کم میرا مشاہدہ میں تو یہی ہے۔
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ غلطی میرے اندازِ بیان میں ہے جو میرے خیالات کا ساتھ نہیں دے رہا۔
معذرت خواہ ہوں۔
سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ "یا تو آپ اپنی انا کا بھرم رکھیں،یا محبت کریں۔دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے."
اب اس کو عورت کی فطرت کہا جائے یا کچھ اور،لیکن عورت اکثر انا کو قربان کر دیتی ہے،اور معاشرہ اس کو allow بھی کر دیتا ہے،لیکن مرد ایسا نہ کرتا ہے،اور نہ ہی اس کو کرنے دیا جاتا ہے۔
کم از کم میرا مشاہدہ میں تو یہی ہے۔
ارے اس میں معذرت کی کیا بات ہے . آپ میرے مراسلوں کو ایک آنکھ سے پڑھیں دوسری سے نکال دیں :)
آپ نے بھی معاشرے کے عمومی مزاج کے بارے میں لکھا ہے جو درست ہے. میں نے بھی اس پہ اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور وہ بھی درست ہے .:):)
 

ہادیہ

محفلین
سنا ہے "پیار" اور "پیاز" دونوں بہت رُلاتے ہیں۔ جن حضرات کو رونا نہیں آتا وہ ان دو "آپا زبیدہ" کے ٹوٹکوں پر عمل کر کے دیکھے اور ہم سے اپنے تجربات لازمی شئیر کریں۔ شکریہ۔وزرات صحت حکومت پاکستان۔
رونا صحت ہے آنکھیں بھی صاف ہوتی ہیں اور غصہ بھی سارا آنسوؤں میں بہہ جاتا ہے اور دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا ہےیعنی آنکھیں، دل اور بلڈ پریشر والی سب بیماریوں کا حل:ڈی
 
Top