زلفی شاہ
لائبریرین
میرے بھائی جہیز دینا بری بات نہیں یہ آپ کی ذاتی رائے ہے اگر آپ اس پر دلائل پیش کرتے تو خوشی ہوتی۔ شائد آپ نے میری اوپر والی پوسٹس کا مطالعہ نہیں فرمایا ۔ میں نے قرآن پاک ، عمل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فقہ سے یہ بات ثابت کی ہے کہ نکاح کے سلسلہ میں تمام اخراجات کا ذمہ دار مرد ہے نا کہ عورت۔جہیز دینا بری بات نہیں ، جہیز کا مطالبہ البتہ ایک گھٹیا بات ہے۔۔۔۔اگر کوئی افورڈ کرسکتا ہے تو وہ یقیناّ یہ چاہے گا کہ جو بیٹی یا بہن اسکی آنکھوں کا تارا تھی، اسکو رخصت کرتے وقت جو بحی ہوسکے اس پر نچحاور کردے۔۔۔اور اس میں کوئی برائی نہیں۔۔البتہ اعتدال شرط ہے۔
جہیز کی رسم ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے۔ ہندو جو کہ لڑکی کو وراثت میں حصہ دار نہیں مانتے ۔ وہ شادی کے موقع پر اپنی بیٹیوں کوکنیا دان کے نام پرجو کچھ ان سے بن پڑتا دے دیتے جسے جہیز کا نام دیا جاتا۔ مروجہ جہیز بیٹی کے پیار میں نہیں دیا جارہا بلکہ جیسا کہ ام نورالعین صاحبہ نے اوپر ذکر فرمایا ہے اور مشاہدات بھی یہی کہتے ہیں کہ جہیز محض دکھاوے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جہیز کی نمائش اس بات بر بین دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ریاکاری (دکھلاوا) شرک خفی ہے اور قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔ ’’ان الشرک لظلم عظیم‘‘ بے شک شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
قرآن پاک میں وراثت کے متعلق ہے ’’یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثین‘‘ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں ،بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔
جہیز دیتے وقت ہمیں بیٹی سے پیار ہوتا ہے لیکن جب وراثت کی تقسیم کا وقت آتا ہے اس وقت ہمارا پیار کہاں جاتا ہے۔ حالانکہ جہیز ہندوانہ رسم ہے اور وراثت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ہم محض لوگوں کے دکھلاوے اور برادری میں واہ واہ کی خاطر لاکھوں کا جہیز دے دیتے ہیں لیکن قرآنی حکم کی قطعا پرواہ نہیں کرتے اور عورت کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں رواج ہے بہن بھائیوں کے حق میں حق وراثت سے خود یا بعض اوقات بزور قوت دستبردار ہو جاتی ہے جو کہ شریعت کا کھلم کھلا مذاق ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مرضی سے بھی ایسا کرنے کی مجازنہیں جب تک جائیداد اس کے نام نہیں کر دی جاتی۔ جب تک وہ مالک ہی نہیں اس کو آگے دینے کا اختیار کہاں؟ مالک ہونے کے لئے ایک دفعہ سامان کا قبضے میں آنا ضروری ہے۔