زلفی شاہ
لائبریرین
مطالبہ جہیز ہندوانہ رسم ہے۔ جہیز کا معنی جہیز دینا نہیں بلکہ سامان تیارکرنا ہے۔قرآن و سنت اور فقہ کی کتب میں جہیز کی کوئی بحث نہیں۔ جہیز دینا خاوند کی ذمہ داری ہے ،عورت یا اس کے گھر والوں کی نہیں۔جہیز کو سنت کا نام دے کر استحصال اور ظلم کیا جارہا ہے۔ جہیز کا سامان دکھانا نہ صرف عبث وفضول ہے بلکہ ریا کاری ہے۔ دلہن یا اس کے والدین سے جہیز کا مطالبہ کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔مروجہ جہیز معاشی خرابیوں کی جڑ ہے۔جہیز صرف اشیائے ضرورت تک محدود نہیں رہا بلکہ سامان تعیش تک نوبت آگئی ہے۔ غریب آدمی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کی خاطر مقروض و مفلس ہو جاتا ہے۔ برادری میں ناک اونچا رکھنے اورشہرت کے حصول کے لئے حرام و حلال کی تمیز ختم ہو رہی ہے۔ لڑکیاں مجبورا جہیز کی خاطر بسوں کے دھکے کھانے اور افسروں کی جھڑکیاں سہنے پر مجبور کر دی گئیں ہیں۔ جہیز کم ہونے کی وجہ سے عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ طلاق تک دی جا رہی ہے۔جہیز کی وجہ سے والدین بیٹی کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھنے لگے ہیں۔ جہیز دو خاندانوں کے درمیان اخوت و محبت کی بجائے دشمنی کا بیج بو رہا ہے۔ اگر جہیز سنت ہوتا تو صحابہ کرام، تابعین ، محدثین اور فقہاء کرام اس کو اپنی زندگی کا معمول بناتے۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد بچیاں اپنے والدین کے گھر بیٹھی ذہنی کوفت کا شکار اور بوڑھی ہو رہی ہیں۔ جہیز نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے لڑکی تمام عمر سسرال والوں کے طعنے سننے، اپنے خاوند کا ظلم سہنے بلکہ بعض اوقات خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔