توقیر عالم
محفلین
مری قسمت میں ساحل کیوں نہیں ہوتا
مجھے وہ شخص حاصل کیوں نہیں ہوتا
بھلا دیتا ہوں سب کچھ ہی مگر یہ دل
تری یادوں سے غافل کیوں نہیں ہوتا
تُو کیوں ان پہ مرا جاتا ہے، بتلا تو
ذرا سا صبر اے دل کیوں نہیں ہوتا
عجب ہے یہ خماری وصل کی شب سے
سحر تیرا یہ باطل کیوں نہیں ہوتا
گھڑی بھر کو سکوں لینے دیا ہوتا
مرا دل اتنا کاہل کیوں نہیں ہوتا
(سوچتا ہوں اس شعر میں مگر کر دوں )
محبت کر کے مرتا تو نہیں انساں
مگر جینے کے قابل کیوں نہیں ہوتا
مجھے وہ شخص حاصل کیوں نہیں ہوتا
بھلا دیتا ہوں سب کچھ ہی مگر یہ دل
تری یادوں سے غافل کیوں نہیں ہوتا
تُو کیوں ان پہ مرا جاتا ہے، بتلا تو
ذرا سا صبر اے دل کیوں نہیں ہوتا
عجب ہے یہ خماری وصل کی شب سے
سحر تیرا یہ باطل کیوں نہیں ہوتا
گھڑی بھر کو سکوں لینے دیا ہوتا
مرا دل اتنا کاہل کیوں نہیں ہوتا
(سوچتا ہوں اس شعر میں مگر کر دوں )
محبت کر کے مرتا تو نہیں انساں
مگر جینے کے قابل کیوں نہیں ہوتا