مزاحیہ اشعار

شمشاد

لائبریرین
سب کہتے ہیں قیامت کے دن سب مر جائیں گے
ہم بھی بڑے چالاک ہیں منجھی تلے وڑ جائیں گے
 

شمشاد

لائبریرین

یا رب دلِ ناطق کو وہ زندہ تمنا دے
جو سائیکل کو اک عدد موٹر لگوا دے

اس بار جو نوکری بدلوں تو ایسی سیکریٹری ہو
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے​
 

سارہ خان

محفلین
کُرسی نامہ


انسان کا ہر عیب چُھپا دیتی ہے کُرسی
بُدھو کو بھی ذیشان بنا دیتی ہے کُرسی

شب بھر میں یہ مُفلس کو بنا دیتی ہے ذَر دار
سوئی ہوئی قسمت کو جگا دیتی ہے کُرسی

گاؤں میں ‌جو مشہور ہو گُلّو کے لقب سے
اُس شخص کو “گُلٹیر“ بنا دیتی ہے کُرسی

وہ لوگ جو مریل سے نظر آتے ہیں پہلے
اُن لوگوں کی توندوں کو بڑھا دیتی ہے کُرسی

تا عُمر وہ پھر اس کے لئے بھرتا ہے آہیں
اِک بار جِسے جلوہ دکھا دیتی ہے کُرسی

وہ لوگ جو رہتے ہیں کرائے کے مکاں میں
بنگلوں میں اُنہیں لا کے بِٹھا دیتی ہے کُرسی

گر صاحبِ کُرسی ہے فقط تین ہی فٹ کا
اس بونے کو چھ فٹ کا بنا دیتی ہے کُرسی

وہ لوگ جو اِک لفظ ادا کر نہیں سکتے
تقریر کا فن اُن کو سِکھا دیتی ہے کُرسی

نزدیک نہیں آتا نیاز اُس کے کوئی بھی
جس شخص کو اِک بار گِرا دیتی ہے کُرسی


(نیاز سواتی)​

 

عمر سیف

محفلین
میری آنکھوں کو یہ آشوب نہ دکھلا مولا
اتنی مضبوط نہیں تابِ تمنا میری
میرے ٹی وی پہ نظر آئے نہ ڈسکو یا رب!
‘ لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری ‘
(انور مسعود)
 

شمشاد

لائبریرین
روشن دان سے ہم نے اڈیاں چُک چُک کر
اُس کے کھر میں چھاتی ماری لُک لُک کر

عشق کا ساڑا بہت ہی پھیڑا ہوتا ہے
تیلا ہو جاتا ہے عاشق سُک سُک کر

دمے کا مارا عاشق سیڑھیاں چڑھیا تھا
ہر پھوڑی پر ساہ لیتا تھا رُک رُک کر

لالو کھیت سے ایک پروہنا آیا تھا
منجھے پیڑھے پَھر گیا پان سے تھوک تھوک کر
(خالد مسعود خان)​
 

عمر سیف

محفلین
کچھ نہیں اور ستیاناس ہے وہ
گھر میں عینک سمیت باس ہے وہ
موت ہے بڑھ کے اُس کی دہشت ہے
اُنکی امی ہے، میری ساس ہے وہ​
 

شمشاد

لائبریرین
پڑھ لکھ کر میرے دیس کے بیٹے دیس میں تھے بیکار
اپنے دیس میں جو روٹی ملتی کیوں آتا اس پار

پرکھوں نے قربانی دے کر بڑا کیا اُپکار
اب تک اپنی دھرتی پر ہم کہلائیں اغیار​
 

عمر سیف

محفلین
اِکو فیدا اے دیس پرائے وسن وچ
میرڈ خود نوں 'اَن میرڈ' کہلاندے نیں
تھوڑی دیر توں بُھل کے ساریاں دکھاں نوں
حُوراں، پریاں نال او پیلاں پاندے نے
فاخرہ بتول​
 
رات اک ٹیچر کے گھر لخت جگرپیدا ہوا
واں بجائے ش۔اد کامی ش۔ور و شر پی۔دا ہوا

ساتھ بر خوردار کے روتا تھا اس کا باپ بھی
رو کے کہتا تھا کہاں او بے خ۔بر پی۔دا ہ۔وا

میں مخالف ، ماں مخالف اور حکومت بھی خلاف
دشم۔ن منص۔وب۔۔ہ بن۔۔دی ، ت۔۔و م۔۔گر پی۔۔۔۔دا ہ۔وا

میں تو پیداوار ہوں سستے زمانے کی میاں
تو بت۔ا اس دور م۔یں کی۔ا سوچ کر پیدا ہوا

دور جمہوری میں بنگلہ دیش جانا تھا تجھے
اک۔۔۔ثری۔ت چھ۔۔۔وڑ ک۔ر ظ۔۔الم ادھر پیدا ہوا

ماں تری نر گس جسے کہتے ہیں روئی بھی نہیں
پھر کس طرح تو چمن میں اے دیدہ ورپیدا ہوا

تو مرے حق میں ہے خواجہ گل محمد کا سوال
ح۔۔۔۔۔ل ن۔ہ ہوگا ع۔۔۔مر بھر گو مختصر پیدا ہوا

اس دفعہ بچہ سمجھ کر چھوڑ دیتا ہوں تجھے
م۔۔ار ڈال۔۔۔وں گا اگ۔۔۔ر بارِ دِگ۔۔۔ر پی۔۔۔دا ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
یہ رُک رُک کر کیوں لکھ رہے ہیں، کہیں انپیج سے نقل کر کے یہاں چسپاں تو نہیں کر رہے؟
 
آپ کے تازہ کیے گئے پرانے دھاگوں میں سے کسی ایک دھاگے کو پڑھ کر اور اس میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرکے دوسرے دھاگے کی طرف چھلانگ لگادیتا ہوں، وہاں سے پھر یہاں۔ اس طرح آپ کو رک رک کر مراسلے موصول ہوتے مل رہے ہیں۔ ان پیج سے کنورٹ کرکے نہیں لارہا، فوری جواب کے خانے میں ہی لکھ کر ارسال کر رہا ہوں۔
والسلام
 
Top