منٹو مزدوری

سید فصیح احمد

لائبریرین
لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اِضافہ ہو گیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اُٹھائے خوش خوش گاتا جا رہا تھا۔ "جب تم ہی گئے پردیس لگا کے ٹھیس، او پیتم پیارا، دُنیا میں کون ہمارا۔"ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جا رہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی میں سے گر پڑی، لڑکا اسے اُٹھانے کے لیئے جھکا تو ایک آدمی نے جس نے سر پر سلائی مشین اُٹھائی ہوئی تھی، اُس سے کہا۔ رہنے دیے بیٹا! رہنے دے۔ اپنے آپ ہی بھن جائیں گے۔

بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھُرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔ آنتوں کے بجائے شکر، سفید دانوں والی شکر اُبل کر باہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہو گئے اور اپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا، اُس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا وار مُٹھّیاں بھر بھر کر اس میں ڈالنے لگا۔ "ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ"ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔

اُونچے مکان کی کھڑکی میں سے مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا، شعلے کی زبان نے ہولے ہولے اسے چاٹا۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔ "پوں پوں، پوں پوں"موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔

لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدی سے اس کو کھولنا شروع کیا۔

کاؤ اینڈ کیٹ، دودھ کے کئی ٹیں دونوں ہاتھوں پر اُٹھائے اپنی تھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دُوکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔

بلند آواز آئی، "آؤ وؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو، گرمی کا موسم ہے"گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کیے بغیر چل دیا۔

ایک آواز آئی "کوئی آگ بجھانے والوں کو تو اطلاع کر دے، سارا مال جل جائے گا۔"کسی نے اس مشورے کی طرف توجہ نہ دی، لُوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑ تڑ کی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔ پولیس کو بازار خالی نظر آیا، لیکن دُور دھوئیں میں ملفوف موڈ کے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندر گھس گیا تو پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔ دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اُٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے۔

سیٹیوں کے گلے خشک ہو گئے مگر وہ مزدور نہ رُکا۔ اُس کی پیٹھ پر وزن تھا۔ وزن معمولی نہیں، ایک بھری ہوئی بوری تھی مگر وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔

سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آ کر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ سے گر پڑی، گھبرا کی اس نے اپنے پیچھے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا لیکن ایک ہی جھٹکے سے بوری اُٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔ سپاہیوں نے سوچا، "جانے دو، جہنم میں جائے "مگر پھر اُنہوں نے اُسے پکڑ لیا۔

راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا "حضرت! آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے، میں تو غریب آدمی ہوتی، چاول کی ایک بوری لیتی، گھر میں کھاتی۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔"لیکن اُس کی ایک نہ سنی گئی۔ تھانے میں کشمیری مزدور نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔ حضرت! دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اُٹھاتی، میں تو ایک چاول کی بوری لیتی۔ حضرت! میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔

جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانے دار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ اچھا حضرت! تم بوری اپنے پاس رکھ۔ میں اپنی مزدوری مانگتی، چار آنے۔
 
جزاک اللہ لئیق بھائی ،،،، حقیقت زیادہ تر تلخ ہی ہوا کرتی ہے :)
پتہ نہیں ہمیں ہمیشہ تلخ حقیقتیں ہی کیوں زیادہ متوجہ کرتی ہیں :)
منٹو کے جتنے بھی افسانے پڑھے ہیں سارے ایسے ہی ہیں۔ تلخ اور جلے ہوئے دل کے۔
اللہ پاک نے جو نعمتیں اور خوشیاں دی ہیں ان کی طرف بھی دھیان دینا چاہئے :)
مجھے اپنے دل کے گرد کانٹوں کی باڑ کی بجائے دل میں شکر اور خوشیوں کا گلدستہ زیادہ پسند ہے۔ :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
پتہ نہیں ہمیں ہمیشہ تلخ حقیقتیں ہی کیوں زیادہ متوجہ کرتی ہیں :)
منٹو کے جتنے بھی افسانے پڑھے ہیں سارے ایسے ہی ہیں۔ تلخ اور جلے ہوئے دل کے۔
اللہ پاک نے جو نعمتیں اور خوشیاں دی ہیں ان کی طرف بھی دھیان دینا چاہئے :)
مجھے اپنے دل کے گرد کانٹوں کی باڑ کی بجائے دل میں شکر اور خوشیوں کا گلدستہ زیادہ پسند ہے۔ :)
اب اس پر تو بات بڑی طویل ہو جائے گی بھائی :) :) ہاں مگر چیدہ چیدہ باتیں رسید کیئے دیتا ہوں ،،، حقیقت تلخ اس لیئے ہوتی ہے کہ انسانی طبیعت یا خصلت کہوں ( انتشار ) !! نے پہلے قتل سے لے کر آج تک جو جو اپنی ہی تاریخ کی درگت بنائی وہ تعرف کی محتاج نہ ہے :) ،،، تاریخ کے بارے ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ آدھی سے زائد صرف ڈھنڈورا پیٹنے کے واسطے لکھی گئی ،، اصل اکثر چھپتا محسوس ہوتا ہے۔ خیر فی الحال وہ ذیر بحث نہیں ! تو مجھے لگتا ہے " امید کا دامن کبھی نہ چھوڑو " اس واسطے رٹایا جاتا ہے کہ " ہمیں معلوم ہے جب جب تم سچ جانو گے تب تب ٹوٹ جاؤ گے " تو امید کا دامن کبھی نہ جانے دینا !! ،،،، آپ کی بات سے قطعاً اختلاف نہیں بلکہ یہ تو محض تلخی کی تعریف کی بس تاریک سی اِک تشریح عرض کی :) میں خود یہ یقین رکھتا ہوں اپنی رقم کردہ اذیت سے بچنے کے لیئے اچھی باتیں تلاشنی اور تراشنی پڑتی ہیں ، جیسے حقیقت ایک بیماری ہے اور تسکین کے واسطے دوا کو تراشنا ہے! ،،، مگر تلخی سے بھاگنا بھی غلط ہے ،،،، حقیقت ( بیماری ) کی خبر نہیں ہو گی تو دوا دارو کا بندوبست کیونکر ہو گا بھلا ؟؟
جزاک اللہ :) :)
 
اب اس پر تو بات بڑی طویل ہو جائے گی بھائی :) :) ہاں مگر چیدہ چیدہ باتیں رسید کیئے دیتا ہوں ،،، حقیقت تلخ اس لیئے ہوتی ہے کہ انسانی طبیعت یا خصلت کہوں ( انتشار ) !! نے پہلے قتل سے لے کر آج تک جو جو اپنی ہی تاریخ کی درگت بنائی وہ تعرف کی محتاج نہ ہے :) ،،، تاریخ کے بارے ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ آدھی سے زائد صرف ڈھنڈورا پیٹنے کے واسطے لکھی گئی ،، اصل اکثر چھپتا محسوس ہوتا ہے۔ خیر فی الحال وہ ذیر بحث نہیں ! تو مجھے لگتا ہے " امید کا دامن کبھی نہ چھوڑو " اس واسطے رٹایا جاتا ہے کہ " ہمیں معلوم ہے جب جب تم سچ جانو گے تب تب ٹوٹ جاؤ گے " تو امید کا دامن کبھی نہ جانے دینا !! ،،،، آپ کی بات سے قطعاً اختلاف نہیں بلکہ یہ تو محض تلخی کی تعریف کی بس تاریک سی اِک تشریح عرض کی :) میں خود یہ یقین رکھتا ہوں اپنی رقم کردہ اذیت سے بچنے کے لیئے اچھی باتیں تلاشنی اور تراشنی پڑتی ہیں ، جیسے حقیقت ایک بیماری ہے اور تسکین کے واسطے دوا کو تراشنا ہے! ،،، مگر تلخی سے بھاگنا بھی غلط ہے ،،،، حقیقت ( بیماری ) کی خبر نہیں ہو گی تو دوا دارو کا بندوبست کیونکر ہو گا بھلا ؟؟
جزاک اللہ :) :)
واقعی بات لمبی ہو جائے گی۔ گلاس مثال تو آپ کو یاد ہوگی کسی کی توجہ اس کے آدھے بھرے ہوئے ہونے پر ہوتی ہے اور کسی کی توجہ آدھا خالی ہونے پر۔
میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں ، جب مجھے مایوسی کا دورہ پڑتا ہے تو اپنے اردگرد کی تلخیاں ڈھونڈنے لگتا ہوں اور اپنے ارد گرد موجود راحتیں نظر انداز کردیتا ہوں۔ :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
واقعی بات لمبی ہو جائے گی۔ گلاس مثال تو آپ کو یاد ہوگی کسی کی توجہ اس کے آدھے بھرے ہوئے ہونے پر ہوتی ہے اور کسی کی توجہ آدھا خالی ہونے پر۔
میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں ، جب مجھے مایوسی کا دورہ پڑتا ہے تو اپنے اردگرد کی تلخیاں ڈھونڈنے لگتا ہوں اور اپنے ارد گرد موجود راحتیں نظر انداز کردیتا ہوں۔ :)
خوب ! بہت ہی خوب :) بس سمجھ گئے لئیق بھائی :)
 

نایاب

لائبریرین
کہیں شکوہ بات چلتی نہیں رونق لگتی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں یہ ڈر کہ " بات لمبی ہوجائے گی " ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سعادت حسن منٹو اگر آج کل کے معاشرے میں یوں اپنے قلم سے آپریشن کرتے تو اک دو تحریر کے بعد ہی فتوؤں کا انبار سنبھالے کہیں جلا وطن ہوتے ۔ یا کسی کے لیئے جنت کا سرٹیفکیٹ بن چکے ہوتے ۔۔۔۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
کہیں شکوہ بات چلتی نہیں رونق لگتی نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کہیں یہ ڈر کہ " بات لمبی ہوجائے گی " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
سعادت حسن منٹو اگر آج کل کے معاشرے میں یوں اپنے قلم سے آپریشن کرتے تو اک دو تحریر کے بعد ہی فتوؤں کا انبار سنبھالے کہیں جلا وطن ہوتے ۔ یا کسی کے لیئے جنت کا سرٹیفکیٹ بن چکے ہوتے ۔۔۔ ۔

:) :) ،،، نایاب بھائی جس جگہ بات لمبی ہونے کا ڈر تھا وہ تلخی کی تعریف میں صفحات بھر جانے کا خوف تھا کہ ابھی نیند کا خمار سر چڑھ کر بول رہا ہے :) :) وہی تلخی جس کے کینوس پر منٹو اپنے شاہکار آویزاں کیا کرتا تھا ۔

" آتش پارے " کا پیش لفظ کچھ یوں ہے:

یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔
امرتسر 5 جنوری 1936ء
سعادت حسن منٹو

منٹو کا شائد ہی ایسا افسانہ ہو جو نظر سے نہ گزرا ہو ! ان کے قلم کی قوت ، ان افسانوں سے گزرنے والا بہتر جانتا ہے ، اور ان کے افسانے ہمارے ارد گرد جگہ جگہ ، تھڑوں پر ، بند گلیوں میں ، سوتی کھڑکیوں میں ، مزدور کے کاندھے پر ، تھوک کے خون میں ، جاک گریبانوں میں ، آستینوں میں پھن اُٹھائے ،،، غرض کہ کہاں کہاں نہ ملیں گے !!

بس کچھ ایک طرزِ عکاسی پر کھٹکا ( انساں خطا کا پتلا ہے ) سا در آتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ حلقہِ ناقدین کسی کو نہیں بخشا کرتے غالب کہ جن کے دیوان پر پی ایچ ڈی تک ہاتھ آ جاتی ہے ان کی جاں نہیں بخشی جاتی تو باقی کا ہم کیا ذکر کریں گے اب :) :) وجہ اس کی بس اظہارِ رائے کی بندش کا نہ ہونا ہے :) :) ،، بس ہماری بھنویں بھی بس ایک دو جگہ ہی اُچکیں ( اس حوالے میں خاص طور جب ناقدین کے جواب میں منٹو کے اپنے کچھ قول پڑھے !! ) تو وہ بس اپنی رائے ہے کوئی مطلق قانون تھوڑا ہی نا ہے کہ ہم جو کہیں وہی سچ ہو ، اور اس رائے کی حیثیت بھی شائد میرے اپنے احساسات اور اور چھوٹی سی خیالاتی و نظریاتی دُنیا سے باہر اِک ریزہ بھی ناہیں :)

لیکن اس کے علاوہ ، میں دوستوں کو منٹو بارے اتنا ہی کہا کرتا ہوں ،،، وہ قلم نواز جس قلم سے حرفِ فسانہ کہا کرتا تھا وہ جاتے سمے توڑ گیا شائد اور اس کی لے بس اسی کے قلم سے مطعلق تھی ، جسے اب کوئی نہ اپنا پائے گا۔ لوگ موت کا نام دیتے ہیں تو عجیب سا لمس آتا ہے ،،، اعصاب مانتے ہی نہیں منٹو مر سکتا ہے !!!!

جزاک اللہ خیر نایاب بھائی ،، آپ کے مسرت بھرے الفاظ ہمیشہ روح افزا ہوتے ہیں :) :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
کہیں شکوہ بات چلتی نہیں رونق لگتی نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کہیں یہ ڈر کہ " بات لمبی ہوجائے گی " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
سعادت حسن منٹو اگر آج کل کے معاشرے میں یوں اپنے قلم سے آپریشن کرتے تو اک دو تحریر کے بعد ہی فتوؤں کا انبار سنبھالے کہیں جلا وطن ہوتے ۔ یا کسی کے لیئے جنت کا سرٹیفکیٹ بن چکے ہوتے ۔۔۔ ۔[/
quot

نایاب بھائی
اسی بہانےلوگوں کو اپنے ظرف کے ادھ بھرے گلاس چھلکانے کا موقع مل گیا ہے
 

نایاب

لائبریرین
quot

نایاب بھائی
اسی بہانےلوگوں کو اپنے ظرف کے ادھ بھرے گلاس چھلکانے کا موقع مل گیا ہے
منٹو تو نام ہی اس ہستی کا ہے جو کہ اپنے قلم سے بدبودار معاشرے پیپ بھرے چھالوں پہ نشتر لگاتے اس کی صفائی کی کوشش کرتا ہے ۔ اور معاشرہ اپنے درد کو برداشت کرنے میں ناکام رہتے کس کس کر منٹو کو تھپڑ لگاتا ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی منٹو کے نشان زدہ " پیپ بھرے چھالے " پوری آب و تاب سے معاشرے کے چہرے پر ابھرے ہوئے ہیں ۔۔
شاید آپ کے لکھے " گیا " سے مراد " جاتا " ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا شک منٹو کی تحریر آج بھی اک آئینہ نما ترازو ہے ۔ جس کو پڑھ کر ہم سب کو اپنا اپنا چہرہ اپنا اپنا ظرف دکھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
منٹو تو نام ہی اس ہستی کا ہے جو کہ اپنے قلم سے بدبودار معاشرے پیپ بھرے چھالوں پہ نشتر لگاتے اس کی صفائی کی کوشش کرتا ہے ۔ اور معاشرہ اپنے درد کو برداشت کرنے میں ناکام رہتے کس کس کر منٹو کو تھپڑ لگاتا ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی منٹو کے نشان زدہ " پیپ بھرے چھالے " پوری آب و تاب سے معاشرے کے چہرے پر ابھرے ہوئے ہیں ۔۔
شاید آپ کے لکھے " گیا " سے مراد " جاتا " ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بلا شک منٹو کی تحریر آج بھی اک آئینہ نما ترازو ہے ۔ جس کو پڑھ کر ہم سب کو اپنا اپنا چہرہ اپنا اپنا ظرف دکھ جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔
بہت دعائیں
جزاک اللہ :) ،،،، جی بالکل میں نے لکھا تھا نا نایاب بھائی رات اتنی نیند آ رہی تھی کہ یہ اتنا ٹکڑا بھی بڑی مشکل سے لکھا گیا :) ،، خیر سراہنے کا شکریہ ، ہمیشہ سلامتی ہو پیارے بھائی :)
 
Top