مسجد اقصٰی کی آزادی، امامِ حرم عبد الرحمٰن السدیس کا ایک خطبہ

قسیم حیدر

محفلین
مسجد اقصٰی کی آزادی مسلم امہ کی اولین ذمہ داری


حمد و ثنا کے بعد! میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ سختیوں اورآسانیوں، خوژھالیوں اور تنگدستیوں ہر حال میں خدا خوفی کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور صبح و شام تقوٰی ہی کی ڈھال سے آزمائشوں،فتنوں اور بدحالیوں کو ٹالا جاسکتا ہے اور اسی کے ذریعے سے ان عظیم الشان نعمتوں اور جنتوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔
مسلمانوں! امت جو آج بڑے بڑے مسائل کا شکار ہے اور ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور پورے عالم میں سلگتے بھڑکتے مسائل کا ایک طوفان برپا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہم اس امت کی تاریخ کا ایک بار پھر بغور مطالعہ کریں اور قانون قدرت کی روشنی میں اس امت کے مستقبل کی فکر کریں اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سچے دل سے اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے اور پھر اس سے پہلے کہ تجددپسندی اورروشن خیالی کا ایساسیلاب اس امت کو بہا لے جائے اور نیست و نابود کردے ہمیں اپنے اسلام کے مجد و شرف اور اپنی شاندار تہذیب و تمدن کو لوٹ آنے کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیئے۔ میں آپ کو اس امن کے گھر، مسجد الحرام ، سے مسجد اقصٰی کی طرف لے جانا چاہوں گا۔ وہ مسجد اقصٰی جو خاک اور خون میں لت پت ہے ، جو ہلا دینےو الے مصائب سے گزر رہی ہے، جس کو یہودیوں کی ان آخری چیرہ دستیوں نے بے حال کرکے رکھ دیا ، جس پر کوئی بھی غیرت مند مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا اور جس پر کسی بھی طرح چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ (وللہ الامر من قبل و من بعد) ان دونوں مسجدوں کے درمیان شرعی اور تاریخی ربط اور تعلق کو بخوبی معلوم کیاجاسکتا ہے۔


ترجمہ: "پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے، حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا"

تاریخی اعتبار سے یہی ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت ، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں ۔ اور یہی وہ موضوع ہے جس کے سبب عالمی سطح پر دشمنیوں اور عداوتوں نے جنم لیا ہے اور جس کی بنا پر پورا عالم دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اس نے اصطلاحات کی جنگ کو جنم دیاہے ۔اور اس میں کھوکھلے نعروں اور غیر موثر قراردادوں کا پتا چلا ہے۔ عالم کفر کی طرف سے مسلسل کوششیں کی گئی ہیں کہ فلسطین اور القدس کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے، اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کر کے اس کو محض ایک محدود قومی مسئلہ بنادیا جائے، اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے دوغلی پالیسی اور دھوکے اور فریب کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے بلکہ یہاں تک کہ اس سلسلہ میں ہمارے ہی برائے نام مسلمانوں کو استعمال کیاگیا، ان کی یہ معاندانہ اور شاطرانہ پالیسی اس حد تک موثر بھی واقع ہوئی ہے کہ ہمارے بعض شکست خوردہ مسلمان عناصر یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ تاریخی مسئلہ ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ کیا وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ ہم ایک ایسی امت ہیں جس کے اپنے شرعی مصادر و منابع ، بنیادی عقائداور تاریخی اور تہذیبی اقدار ہیں۔


بھائیو!

قرآن و سنت کو ذرا کھول کردیکھیں، اپنے عقیدے کے اصول کی طرف ذرا متوجہ ہوں، کیاہماری تاریخ نے اس بات کو دوٹوک الفاظ مں بیان نہیں کردیا کہ یہود کے ساتھ ہماری جنگ عقیدے کی جنگ ہے، دینی تشخص اور بقاء اور فنا کی جنگ ہے؟کیا ہم قرآن پاک کی اس آیت کریمہ کو بھول گئے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:


"تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاو گے"
اور فرمایا:" یہودی اور نصرانی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو"

تاریخ اٹھا کر دیکھیں تم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ کل والے یہود آج کے یہود کے بڑے برے سلف اور آج کے یہود دنیا کے بدترین انسان ہیں، انہوں نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا؟ اللہ تعالی کے کتنے احکامات میں تحریف کی؟ یہ وہی تو ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی عبادت کی تھی، انبیاء کی تکذیب کے مرتکب ہوئے،پیغمبروں کو قتل کیا، درحقیقت یہی لوگ اسلامی دعوت کے شدید ترین دشمن اور یہی انسانی تاریخ کی برترین مخلوق ہیں۔
قرآن پاک کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں " جن پر خدا نے لعنت کی ، جن پر اس کاغضب ٹوٹا، جن کی شکلیں بگاڑ دی گئیں، جنہوں نے طاغوت کی بندگی اختیار کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سواء السبیل سے بہت دور بھٹکے ہوئے ہیں ، یہ وہ یہود ہیں جو دغابازی، فریب، کمینہ پن ، عناد، ظلم اور جبرکا منبع اور شرو فساد کی جڑ ہیں۔


"اور وہ زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں، او راللہ مفسدین کو پسند نہیں کرتا"

کمینگی اور گمراہی میں وہ یہاں تک پہنچے کہ مقام الوہیت اور ربوبیت کو بھی چیلنج کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے استہزاء سے بھی باز نہیں آئے۔


" اللہ نے ان لوگوں کا قول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں"
" اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، سنو باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت کردی گئی ان پر"

اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ان کے ان بیہودہ اقوال اور حرکات سے بالا و برتر اور پاک اور مبرا ہے۔ یہود وہ بدبخت قوم ہے جنہوں نے انبیا علیہم السلام کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان پاکیزہ ہستیوں کی طرف گھٹیا باتیں اور جرائم منسوب کیے۔ انہوں نے حضرت موسٰی کو ستایا، حضرت عیسٰی کا انکار کیا، یحیٰی اور زکریا کو قتل کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے بارہا سازشیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ ان بد حیثیت یہودیوں نے آپ کو زہربھی دیا۔قرآن پاک نے ان کی ان گھناونی حرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:


"پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا ، تو تم نے ان کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا"
 

قسیم حیدر

محفلین
اے غیور اسلامی امت کے سپوتو !

آج تمہارا مقابلہ تمہارے ان ابدی اور دائمی دشمنوں سے ہے، جو کل بھی تمہارے دشمن تھے آج بھی دشمن ہیں اور آئندہ بھی دشمن ہی ہوں گے، یہ وہی بنو قریظہ بنو نضیر اور بنو قینقاع کی ملعون اولاد اور نسل ہی تو ہے۔اس وقت اس نافرمان اور مغضوب و مردود قوم کا فساد اور شر تمام حدود سے تجاوز کرگیا۔ کیا اب بھی امت مسملہ اس ملعون قوم کی حقیقت کونہیں سمجھ سکی؟حالت یہ ہےکہ ان کی طرف سے مسلط کردہ جنگ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اسلامی امت کو ہڑپ کرنے کی ان کی طمع اور حرص میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، وہ آئے دن مسلمانوں پر چڑھائی کرتے ہیں، ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور زور اور قوت کی منطق کے علاوہ اور کسی چیز کو نہ جانتے ہیں اورنہ مانتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہےکہ جب امت مسلمہ نے ان کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی تو انہوں نے ہمیشہ پہلو تہی کی اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں اس لیے کہ وہ امت کو ختم کرنے، ان کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے، ان کو ہجرت پر مجبور کرنے، ان کی معیشت کو اپنی گرفت میں لینے، ان کی عزت کو پامال کرنے اور بالآخراس سے قیادت اور سیادت کا منصب چھیننے سے کم کسی اور چیز پر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امت کو جاننا چاہیے کہ یہود ایک ایسی قوم ہے جس کی پوری تاریخ شرمناک سیاہ کاریوں سے عبارت ہے اور یہ اپنے مزموم مقاصد کے حصول تک ہم سے دشمنی کرتے رہیں گے۔ ان کے بنیادی مقاصد میں سے یہ ہےکہ قرآن اور توحید کے علم برداروں کی بستیوں کو ختم کرکے ان کی جگہ " اسرائیل کبرٰی" کو قائم کریں،مسجد اقصٰی کو مسمار کر کے مجوزہ ہیکل کی تعمیر کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ ایسی قوم کے ساتھ امن ومان کے حوالہ سے بات چیت اور مذاکرات کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ان دنوں فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسرائیلی درندے جس انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اس کو تاریخ کبھی نہیں بھول سکتی بلکہ یہ ظالم اپنی سیاہ تاریخ کو مزید سیاہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف بم،ٹینک اور گھروں کو اجاڑنے والے بلڈوزر نظر آتےہیں اور دوسری جانب انسانی کھوپڑیاں اور لاشیں ہیں، محاصرے اور مظلوم لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے واقعات ، قتل، بربادی اور تباہی کے مناطر ہیں تمام انسانی روایات کو پامال کیا گیا، عالمی صہیونزم کی آڑ میں ریاستی دہشت گردی برپا ہے، ہمارے کتنے جوان تہ تیغ ہوئے، کتنے بوڑھوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور کتنی بہنوں نے اس سرزمین کو اپنے پاکیزہ خون سے سیراب کیا، مساجد شہید کی گئیں اور کتنے گھروں کو جلایا گیا، کتنی ماوں اور بہنوں کی عصمتیں لٹ گئیں اور کتنے بچے یتیم ہوئے، تاریخ کے حساب دان اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں ہرطرف خوفناک اور دل دہلا دینےوالے مناظر ہیں۔
آخر کب تک ذلت اور پستی، ہزیمت اور خود سپردگی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟
کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ اس ذلت آمیز سلسلہ کو ختم کیا جائے؟اور کمزوری اور بے بسی کی اس سیاہ رات کو رخصت کیاجائے؟تو کیااب بھی ہماری امت خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیا رنہیں ہے؟
میں اسلامی امت کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ارض مقدس فلسطین اور اقصٰی کی تباہی سے پہلے اس کے بچاو کی تدبیر کریں۔
یاد رکھو! وہ عناصر جنہوں نے یہ تباہ کن عصری جنگ چھیڑی ہے اور جو قوتیں اس کی پشت پناہی کررہی ہیں وہ کسی بھی طرح خدائے جبار جل جلا لہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گی، نہ وہ مظلوم اقوام کے غیض و غضب سے نجات حاصل کرسکیں گی اورتاریخ کے قہر و غضب سے ان کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔
یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کو بیان کرنے سے زبان عاجز ہے اور انسانی دل جس کی تاب نہیں لا سکتا لغت ایسے الفاظ پیش کرنے سے قاصر ہے جن کے ذریعہ سے اس ظلم ، وحشت اور دندگی کو بیانکیا جاسکے، اس ظلم و درندگی کے سامنے دنیا کے سارے پیمانے ہیچ ہیں۔


اےپروردگار!

ہم تیری رحمت اور فضل کے امیدوار ہیں، ہماری حفاظت فرما۔
آئےدن معصوم انسانوں کا خون اور مسجد اصٰی سمیت مقدس مقامات کی بے حرمتی ایک ایسی صوت حال ہے جس پر ہر آّنکھ خون کے آنسو روتی ہے۔
مسلمانان عالم کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہےکہ اس مسئلے پر پچاس سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا، اور ہروز وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر نت نئےمظالم توڑے جا رہے ہیں،کہاں گئے وہ مسلمان جو اپنے بھائیوں کی مدد کیا کرتے تھے؟کیا آج ان میں کوئی حضرت خالد بن ولید اور صلاح الدین کے وارث باقی نہیں رہے؟افسوس صد افسوس ہماری حالت پر ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ہمارے مقدس مقامات ہمیں پکار رہےہیں، ہمارا فلسطین، ہمارا اقصٰی، ہمیں آواز دے رہےہیں، قبلہ اول سے یہ صدا آر ہی ہے کہ ساری مسجدیں محفوظ ہیں اور میری یہ عزت ہو رہی ہے، اور ہم چین اور سکون سے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہےکہ سب کچھ پوری دنیا کے سامنے دن کی روشنی میں ہور ہا ہے آج مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ : کہاں گئے یہ عالمی ادارے؟کہاں ہے وہ اقوام متحدہ؟کیا وہ بیواوں کی فریادیں، یتیم بچوں کی چیخیں اور مظلوم خواتین کی آہیں نہیں سن رہے؟کیا اس سرزمین پر یہودیوں کا ناجائز قبضہ اور انسانی حقوق کی پامالی ان کو نظر نہیں آرہی؟کیا انسانی حقوق کے دعویدار یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے والے غنڈوں اور درندوں کے ساتھ سیاسی بائیکاٹ کیوں نہیں کیاجاتا؟اور ان پر معاشی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتی؟
پس اے دنیا کے لیڈرو!فیصلے کرنے والو!اہل نظر انسانو!اور دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرنے والو!
فلسطین میں ہونے والے جرائم اور وہاں پر مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کو تم کیا نام دیتے ہو؟ افسوس کہ ان لوگوں کو دہشت گرد قرار دیاجار ہا ہے جو اپنے مقدس مقامات کی حفاظت اور ظلم و وحشت کے خلا ف آوازاٹھاتے ہیں؟
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جوش، جذبوں اور ولولوں کے ساتھ، حکمت، عقل ، تدبیر اور ہوش سے کام لیں اور بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ یہودی سازشوں کا مقابلہ کریں۔


جہاد اور قربانی کی امین امت!

جان لو! کہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ فلسطین اور دیگر محاذوں پر اپنے مجبور مسلمان بھائیوں کی مالی ، جسمانی اور اخلاقی مدد کے لیے تیار ہوجائیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کے جذبے کو تازہ کریں۔ واضح رہے کہ بہت سی قرآنی آیات اور احادیث میں مالی جہاد کو بدنی جہاد پر مقدم رکھا گیا ہے۔ سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے"

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا" مشرکوں سے اپنی زبانوں، اپنے مال اور اپنی جانوں کے ذریعے جہاد کرو"
حقیقی مسلمان جہاد کی راہ میں مالی قربانی سےکبھی نہیں کتراتا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
" دیکھو، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو، اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں، حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی بخل کر رہا ہے ، اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو، اگر تم منہ موڑوگے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اورقوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے"


عزیزان محترم:

اس سلسلہ میں مسلمانان عالم کی مالی قربانی ایک نیک شگون ہے، پوری دنیا کے مسلمان اور خصوصی طور پر مملکت سعودی عرب ، جو ہر موڑ اور ہر محاذ پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آتی ہے کی قربانیاں امید کی ایک نئی کرن ہے۔مسئلہ فلسطین کی تائیدو حمایت ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا جزو لاینفک رہا ہے۔ میں اس موقعہ پر تمام مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ ہمیں متحد ہوکر اس مشن کو جاری رکھنا ہوگا اور اپنے مقدس مقامات کا دفاع کرنا ہوگا، اس میں ذرہ برابرکو تاہی بھی برداشت نہیں ہوسکتی۔
قرآن پاک ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے" اور دشمن کے مقابلہ میں جتنا تمہارا بس چلے قوت فراہم کرو"۔
برادران اسلام! سازشی یہودیوں کے مقابلہ میں سب سے پہلا اور بنیادی قدم یہ ہےکہ ہم اپنی اندرونی اصلاح کریں۔ امت کی داخلی اصلاح، پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دشمن کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نیز ان حالات میں دوست اور دشمن کی پہچان بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے اور دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو جاننا بھی انتہائی ضروری ہے بدقسمتی سے انہوں نے ہمارے اندر ہی اپنے لیے ایجنٹ پیدا کر لیے ہیں جو اسلامی عقائد اور افکار سے بالکل عاری ہیں اور ان کی بولی بولتے ہیں، جو گمراہی اور ضلالت میں بہت آگے نکل گئے ہیں ، جن کی نظر میں اسلامی مقدسات نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں اور جو مسجد اقصٰی کو دنیا کی دیگر عمارتوں کی طرح ایک عمارت سمجھتے ہیں۔
اختلاف و افتراق اور آپس میں بغض و عداوت، حسد اور بدعات وخرافات وہ مہلک بیماریاں ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے وجود کو کھوکھلا کردیا ہے اس لیے دشمن کا مقابلہ کرنے سے پہلے ان جان لیوا بیماریوں کا علاج نہایت ضروری اور اہم ہے۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امت اسی نسخہ سے شفایات ہو سکتی ہے جس کے ذریعہ سے اس نے ابتدائے اسلام میں شفا پائی تھی۔
یاد رکھیے! کہ عقائد، اخلاق اور معاشرتی اقدار کو پس پشت ڈالنا معاشروں میں ناکامیوں اور بدبختیوں کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔
ہم اپنے مقدس مقامات کو دشمنوں سے اسی وقت آزاد کراسکتےہیں جب ہم اپنے عقائد اور اخلاقیات پر کاربند ہوں، فضائل کو اختیار کرنے اور رذائل سے اجتناب کرنے والے بن جائیں۔ جب ہم طاغوت کی پیروی چھوڑ کر صحیح معنوں میں رحمان کے بندے بن جائیں ،بے پردگی اور اختلاط مردو زن اور بے حیائی کو اپنے اسلامی معاشروں سے نکال باہر کریں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم فرمائے اور ان کی اصلاح احوال فرمائے۔ آمین


عبدالرحمن السدیس
امام و خطیب مسجد الحرام مکہ مکرمہ
بشکریہ: ایشیاء:16مئی07
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
کاش ! کاش ! کاش ! کہ کہ میرا آج کا جوان مخالفت کی بجائے صرف " جہاد فی سبیل اللہ"
کی صرف حمایت ہی کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر وہ تو زبانی جمع خرچی میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا اللہ تو گواہ رہنا ہم گمزور ہیں اور تم ہی ہمارا سٹرکچر ہم سے بہتر جانتا ہے ہمیں بزدلی کی موت سے بچا اور شہادت کی موت عطاء کر دے (آمین)


واجد
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
جہاد تو بعد کی کہانی ہے لیکن سب سے پہلے ان منافقوں اور کالی بھیڑوں کا کچھ کرنا ہوگا جو اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔۔۔

نیز ان حالات میں دوست اور دشمن کی پہچان بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے اور دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو جاننا بھی انتہائی ضروری ہے بدقسمتی سے انہوں نے ہمارے اندر ہی اپنے لیے ایجنٹ پیدا کر لیے ہیں جو اسلامی عقائد اور افکار سے بالکل عاری ہیں اور ان کی بولی بولتے ہیں، جو گمراہی اور ضلالت میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔

جب ہم طاغوت کی پیروی چھوڑ کر صحیح معنوں میں رحمان کے بندے بن جائیں

وسلام۔۔۔
 
کاش ! کاش ! کاش ! کہ کہ میرا آج کا جوان مخالفت کی بجائے صرف " جہاد فی سبیل اللہ" ۔۔۔
کس دنیا میں‌رہتے ہو بھائی؟ جہاد کا شوق ہے تو فوج میں بھرتی کیوں‌نہیں ہوتے؟ یہ جہاد کاحکم کون دے گا؟ حکومت وقت یا کوئی خود ساختہ سند یافتہ مولوی، ملا، آیت اللہ؟
یہ ٹیچروں (مولوی، ملا، آیت اللہ)‌ کو قانون بنانے اور جنگ شروع کرنے کا حق کونسی آیت دیتی ہے؟ اور جہاد یا قتال فی سبیل اللہ شروع کرنے کی کیا شرط ہے، ذرا قرآن کی آیت کا حوالہ تو دو بھائی؟ کچھ خود بھی سمجھتے ہو یا بس سنی سنائی ہوائی سے جذبات میں آجاتے ہو؟

گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ تمہارے پاس ان دونوں سوالوں کے جواب نہیں۔ اگر اگلے 24 گھنٹے میں دونوں آیات کا حوالہ نہیں لاتے تو بھائی کچھ قرآن ہی پڑھنا شروع کردو۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

جی جناب ایک تو اپ کو معلوم ہی ہو گا کہ ابھی میرے پاس اتنی علم نہیں ہیں جسے کہ میرے پوسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے میرے پاس علم نہیں کہیں کتابوں سے ٹائپ کرتا ہوں کبھی کسی سائٹ سے کا پی اور پیسٹ کر تا ہوں
چونکہ اپ نے سوال ہی ایسے اٹھائے ہیں تو ان کا جواب الحمدللہ موجود ہیں لیکن پھر سوال کے اندر سوالات ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال نبمر ا یہاں پر ہیں
اور نمبر 2ٹائپ پڑا ہے لیکن کچھ کرکشن کے بعد یہاں پر پوسٹ کرونگا ان شاء اللہ
دوسری بات اپ کی اکثر پوسٹ سے اپ کی سائیکی کا اندازہ ہوتا ہے اور میں کوشش کرونگا ان شاءاللہ کہ اپ کے ساتھ بےجا سوال و جواب کا سلسلہ نہ رہے
 
آپ کا اقتباس
جہاد کب فرضِ عین ہوجاتا ہے ؟

جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لیے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں ، شریک ہوں ، تو سب پر جہاد کے لیے نکلنا فرضِ عین ہو جا تا ہے ۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے ۔

آپ کے جواب سے صرف اس صورت متفق ہوں جب حاکم وقت کو اسکی مجلس شوری کی حمایت بھی حاصل ہو۔

جب حاکم کا حکم ماننا ہی ہے تو جو قابلِ جہاد ہیں فوج میں موجود ہیں، جب جہاد فی سبیل اللہ کا حکم ہوگا تو صاحب فوج حرکت میں آئے گی۔ کیا لوگوں نے فوج میں بھرتی ہونا چھوڑ دیا ہے جو اب یہاں اشتہارات کی ضرورت پڑ گئی ہے؟

جہاد فی سبیل اللہ شروع کرنے کے جو اصول اللہ تعالی نے وضع کئے ہیں، کہ کب جہاد شروع کرسکتے ہیں۔ کیا ان میں‌سے کوئی واقعہ ہو چکا ہے؟ وہ اصول یہ ہیں:

1۔ جب مسلمان ریاست پر حملہ ہو۔
[ayah]2:190[/ayah] اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

2۔ یعنی ناحق جنگ مسلط کی جائے:
[ayah]22:39[/ayah] ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے

3۔ جب دشمن اپنا عہد توڑ دے۔
[ayah] 9:12[/ayah] اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قََسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں


تو کیا ان میں سے کوئی واقعہ ہو چکا ہے؟

4۔ اللہ تعالی خواہ مخواہ جنگ کو منع فرماتے ہیں۔
[ayah]60:8[/ayah] اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے

کونسا مسلمان ہے جو اپنے ملک کی فوج میں بھرتی ہونا نہیں چاہتا؟ اور شہادت کے رتبے سے کون بھاگتا ہے؟ یہ جہاد جہاد کا نعرہ لگانے کا مقصد، کیا بھائیوں کو بھائیوں سے لڑوانے کا ارادہ ہے؟ یا ملک میں فساد کا ارادہ ہے؟

آپ سوال پوچھنے پر اس قدر جز بز کیوں ہوتے ہیں؟ آپ کے مقاصد کی وضاحت کا انتظار رہے گا۔
 

قسیم حیدر

محفلین
آپ کا اقتباس


آپ کے جواب سے صرف اس صورت متفق ہوں جب حاکم وقت کو اسکی مجلس شوری کی حمایت بھی حاصل ہو۔

جب حاکم کا حکم ماننا ہی ہے تو جو قابلِ جہاد ہیں فوج میں موجود ہیں، جب جہاد فی سبیل اللہ کا حکم ہوگا تو صاحب فوج حرکت میں آئے گی۔ کیا لوگوں نے فوج میں بھرتی ہونا چھوڑ دیا ہے جو اب یہاں اشتہارات کی ضرورت پڑ گئی ہے؟

جہاد فی سبیل اللہ شروع کرنے کے جو اصول اللہ تعالی نے وضع کئے ہیں، کہ کب جہاد شروع کرسکتے ہیں۔ کیا ان میں‌سے کوئی واقعہ ہو چکا ہے؟ وہ اصول یہ ہیں:

1۔ جب مسلمان ریاست پر حملہ ہو۔
[ayah]2:190[/ayah] اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

2۔ یعنی ناحق جنگ مسلط کی جائے:
[ayah]22:39[/ayah] ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے

3۔ جب دشمن اپنا عہد توڑ دے۔
[ayah] 9:12[/ayah] اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قََسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں


تو کیا ان میں سے کوئی واقعہ ہو چکا ہے؟

4۔ اللہ تعالی خواہ مخواہ جنگ کو منع فرماتے ہیں۔
[ayah]60:8[/ayah] اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے

کونسا مسلمان ہے جو اپنے ملک کی فوج میں بھرتی ہونا نہیں چاہتا؟ اور شہادت کے رتبے سے کون بھاگتا ہے؟ یہ جہاد جہاد کا نعرہ لگانے کا مقصد، کیا بھائیوں کو بھائیوں سے لڑوانے کا ارادہ ہے؟ یا ملک میں فساد کا ارادہ ہے؟

آپ سوال پوچھنے پر اس قدر جز بز کیوں ہوتے ہیں؟ آپ کے مقاصد کی وضاحت کا انتظار رہے گا۔

ذرا سوچ کر بتائیے گا کہ کیا قرآنِ کریم میں یہی تین صورتیں بتائی گئی ہیں جن کی وجہ سے جہاد شروع کیا جا سکتا ہے۔ مجھے امید ہے تھوڑا غور کرنے سے اور بھی وجوہات مل جائیں گی۔ مثلا
و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ و المستضعفین من الرجال ۔۔۔۔۔ الایۃ (النساء)
وغیرہ
 

قسیم حیدر

محفلین
آپ کا اقتباس


جہاد فی سبیل اللہ شروع کرنے کے جو اصول اللہ تعالی نے وضع کئے ہیں، کہ کب جہاد شروع کرسکتے ہیں۔ کیا ان میں‌سے کوئی واقعہ ہو چکا ہے؟ وہ اصول یہ ہیں:

1۔ جب مسلمان ریاست پر حملہ ہو۔
[ayah]2:190[/ayah] اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

2۔ یعنی ناحق جنگ مسلط کی جائے:
[ayah]22:39[/ayah] ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے

3۔ جب دشمن اپنا عہد توڑ دے۔
[ayah] 9:12[/ayah] اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قََسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں


تو کیا ان میں سے کوئی واقعہ ہو چکا ہے؟
یہ سن کر حیرت ہوئی کہ ابھی تک نہ تو کسی مسلمان ریاست پر حملہ کیا گیا ہے اور نہ مسلمانوں پر کہیں جنگ ہی مسلط کی گئی ہے۔ سبحان اللہ
 
Top