مسجد اقصٰی کی آزادی مسلم امہ کی اولین ذمہ داری
حمد و ثنا کے بعد! میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ سختیوں اورآسانیوں، خوژھالیوں اور تنگدستیوں ہر حال میں خدا خوفی کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور صبح و شام تقوٰی ہی کی ڈھال سے آزمائشوں،فتنوں اور بدحالیوں کو ٹالا جاسکتا ہے اور اسی کے ذریعے سے ان عظیم الشان نعمتوں اور جنتوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔
مسلمانوں! امت جو آج بڑے بڑے مسائل کا شکار ہے اور ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور پورے عالم میں سلگتے بھڑکتے مسائل کا ایک طوفان برپا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہم اس امت کی تاریخ کا ایک بار پھر بغور مطالعہ کریں اور قانون قدرت کی روشنی میں اس امت کے مستقبل کی فکر کریں اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سچے دل سے اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے اور پھر اس سے پہلے کہ تجددپسندی اورروشن خیالی کا ایساسیلاب اس امت کو بہا لے جائے اور نیست و نابود کردے ہمیں اپنے اسلام کے مجد و شرف اور اپنی شاندار تہذیب و تمدن کو لوٹ آنے کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیئے۔ میں آپ کو اس امن کے گھر، مسجد الحرام ، سے مسجد اقصٰی کی طرف لے جانا چاہوں گا۔ وہ مسجد اقصٰی جو خاک اور خون میں لت پت ہے ، جو ہلا دینےو الے مصائب سے گزر رہی ہے، جس کو یہودیوں کی ان آخری چیرہ دستیوں نے بے حال کرکے رکھ دیا ، جس پر کوئی بھی غیرت مند مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا اور جس پر کسی بھی طرح چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ (وللہ الامر من قبل و من بعد) ان دونوں مسجدوں کے درمیان شرعی اور تاریخی ربط اور تعلق کو بخوبی معلوم کیاجاسکتا ہے۔
ترجمہ: "پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے، حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا"
تاریخی اعتبار سے یہی ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت ، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں ۔ اور یہی وہ موضوع ہے جس کے سبب عالمی سطح پر دشمنیوں اور عداوتوں نے جنم لیا ہے اور جس کی بنا پر پورا عالم دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اس نے اصطلاحات کی جنگ کو جنم دیاہے ۔اور اس میں کھوکھلے نعروں اور غیر موثر قراردادوں کا پتا چلا ہے۔ عالم کفر کی طرف سے مسلسل کوششیں کی گئی ہیں کہ فلسطین اور القدس کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے، اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کر کے اس کو محض ایک محدود قومی مسئلہ بنادیا جائے، اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے دوغلی پالیسی اور دھوکے اور فریب کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے بلکہ یہاں تک کہ اس سلسلہ میں ہمارے ہی برائے نام مسلمانوں کو استعمال کیاگیا، ان کی یہ معاندانہ اور شاطرانہ پالیسی اس حد تک موثر بھی واقع ہوئی ہے کہ ہمارے بعض شکست خوردہ مسلمان عناصر یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ تاریخی مسئلہ ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ کیا وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ ہم ایک ایسی امت ہیں جس کے اپنے شرعی مصادر و منابع ، بنیادی عقائداور تاریخی اور تہذیبی اقدار ہیں۔
بھائیو!
قرآن و سنت کو ذرا کھول کردیکھیں، اپنے عقیدے کے اصول کی طرف ذرا متوجہ ہوں، کیاہماری تاریخ نے اس بات کو دوٹوک الفاظ مں بیان نہیں کردیا کہ یہود کے ساتھ ہماری جنگ عقیدے کی جنگ ہے، دینی تشخص اور بقاء اور فنا کی جنگ ہے؟کیا ہم قرآن پاک کی اس آیت کریمہ کو بھول گئے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاو گے"
اور فرمایا:" یہودی اور نصرانی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو"
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ کل والے یہود آج کے یہود کے بڑے برے سلف اور آج کے یہود دنیا کے بدترین انسان ہیں، انہوں نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا؟ اللہ تعالی کے کتنے احکامات میں تحریف کی؟ یہ وہی تو ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی عبادت کی تھی، انبیاء کی تکذیب کے مرتکب ہوئے،پیغمبروں کو قتل کیا، درحقیقت یہی لوگ اسلامی دعوت کے شدید ترین دشمن اور یہی انسانی تاریخ کی برترین مخلوق ہیں۔
قرآن پاک کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں " جن پر خدا نے لعنت کی ، جن پر اس کاغضب ٹوٹا، جن کی شکلیں بگاڑ دی گئیں، جنہوں نے طاغوت کی بندگی اختیار کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سواء السبیل سے بہت دور بھٹکے ہوئے ہیں ، یہ وہ یہود ہیں جو دغابازی، فریب، کمینہ پن ، عناد، ظلم اور جبرکا منبع اور شرو فساد کی جڑ ہیں۔
"اور وہ زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں، او راللہ مفسدین کو پسند نہیں کرتا"
کمینگی اور گمراہی میں وہ یہاں تک پہنچے کہ مقام الوہیت اور ربوبیت کو بھی چیلنج کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے استہزاء سے بھی باز نہیں آئے۔
" اللہ نے ان لوگوں کا قول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں"
" اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، سنو باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت کردی گئی ان پر"
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ان کے ان بیہودہ اقوال اور حرکات سے بالا و برتر اور پاک اور مبرا ہے۔ یہود وہ بدبخت قوم ہے جنہوں نے انبیا علیہم السلام کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان پاکیزہ ہستیوں کی طرف گھٹیا باتیں اور جرائم منسوب کیے۔ انہوں نے حضرت موسٰی کو ستایا، حضرت عیسٰی کا انکار کیا، یحیٰی اور زکریا کو قتل کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے بارہا سازشیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ ان بد حیثیت یہودیوں نے آپ کو زہربھی دیا۔قرآن پاک نے ان کی ان گھناونی حرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا ، تو تم نے ان کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا"
حمد و ثنا کے بعد! میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ سختیوں اورآسانیوں، خوژھالیوں اور تنگدستیوں ہر حال میں خدا خوفی کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور صبح و شام تقوٰی ہی کی ڈھال سے آزمائشوں،فتنوں اور بدحالیوں کو ٹالا جاسکتا ہے اور اسی کے ذریعے سے ان عظیم الشان نعمتوں اور جنتوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔
مسلمانوں! امت جو آج بڑے بڑے مسائل کا شکار ہے اور ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور پورے عالم میں سلگتے بھڑکتے مسائل کا ایک طوفان برپا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہم اس امت کی تاریخ کا ایک بار پھر بغور مطالعہ کریں اور قانون قدرت کی روشنی میں اس امت کے مستقبل کی فکر کریں اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سچے دل سے اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے اور پھر اس سے پہلے کہ تجددپسندی اورروشن خیالی کا ایساسیلاب اس امت کو بہا لے جائے اور نیست و نابود کردے ہمیں اپنے اسلام کے مجد و شرف اور اپنی شاندار تہذیب و تمدن کو لوٹ آنے کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیئے۔ میں آپ کو اس امن کے گھر، مسجد الحرام ، سے مسجد اقصٰی کی طرف لے جانا چاہوں گا۔ وہ مسجد اقصٰی جو خاک اور خون میں لت پت ہے ، جو ہلا دینےو الے مصائب سے گزر رہی ہے، جس کو یہودیوں کی ان آخری چیرہ دستیوں نے بے حال کرکے رکھ دیا ، جس پر کوئی بھی غیرت مند مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا اور جس پر کسی بھی طرح چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ (وللہ الامر من قبل و من بعد) ان دونوں مسجدوں کے درمیان شرعی اور تاریخی ربط اور تعلق کو بخوبی معلوم کیاجاسکتا ہے۔
ترجمہ: "پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے، حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا"
تاریخی اعتبار سے یہی ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت ، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں ۔ اور یہی وہ موضوع ہے جس کے سبب عالمی سطح پر دشمنیوں اور عداوتوں نے جنم لیا ہے اور جس کی بنا پر پورا عالم دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اس نے اصطلاحات کی جنگ کو جنم دیاہے ۔اور اس میں کھوکھلے نعروں اور غیر موثر قراردادوں کا پتا چلا ہے۔ عالم کفر کی طرف سے مسلسل کوششیں کی گئی ہیں کہ فلسطین اور القدس کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے، اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کر کے اس کو محض ایک محدود قومی مسئلہ بنادیا جائے، اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے دوغلی پالیسی اور دھوکے اور فریب کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے بلکہ یہاں تک کہ اس سلسلہ میں ہمارے ہی برائے نام مسلمانوں کو استعمال کیاگیا، ان کی یہ معاندانہ اور شاطرانہ پالیسی اس حد تک موثر بھی واقع ہوئی ہے کہ ہمارے بعض شکست خوردہ مسلمان عناصر یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ تاریخی مسئلہ ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ کیا وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ ہم ایک ایسی امت ہیں جس کے اپنے شرعی مصادر و منابع ، بنیادی عقائداور تاریخی اور تہذیبی اقدار ہیں۔
بھائیو!
قرآن و سنت کو ذرا کھول کردیکھیں، اپنے عقیدے کے اصول کی طرف ذرا متوجہ ہوں، کیاہماری تاریخ نے اس بات کو دوٹوک الفاظ مں بیان نہیں کردیا کہ یہود کے ساتھ ہماری جنگ عقیدے کی جنگ ہے، دینی تشخص اور بقاء اور فنا کی جنگ ہے؟کیا ہم قرآن پاک کی اس آیت کریمہ کو بھول گئے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاو گے"
اور فرمایا:" یہودی اور نصرانی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو"
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ کل والے یہود آج کے یہود کے بڑے برے سلف اور آج کے یہود دنیا کے بدترین انسان ہیں، انہوں نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا؟ اللہ تعالی کے کتنے احکامات میں تحریف کی؟ یہ وہی تو ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی عبادت کی تھی، انبیاء کی تکذیب کے مرتکب ہوئے،پیغمبروں کو قتل کیا، درحقیقت یہی لوگ اسلامی دعوت کے شدید ترین دشمن اور یہی انسانی تاریخ کی برترین مخلوق ہیں۔
قرآن پاک کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں " جن پر خدا نے لعنت کی ، جن پر اس کاغضب ٹوٹا، جن کی شکلیں بگاڑ دی گئیں، جنہوں نے طاغوت کی بندگی اختیار کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سواء السبیل سے بہت دور بھٹکے ہوئے ہیں ، یہ وہ یہود ہیں جو دغابازی، فریب، کمینہ پن ، عناد، ظلم اور جبرکا منبع اور شرو فساد کی جڑ ہیں۔
"اور وہ زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں، او راللہ مفسدین کو پسند نہیں کرتا"
کمینگی اور گمراہی میں وہ یہاں تک پہنچے کہ مقام الوہیت اور ربوبیت کو بھی چیلنج کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے استہزاء سے بھی باز نہیں آئے۔
" اللہ نے ان لوگوں کا قول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں"
" اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، سنو باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت کردی گئی ان پر"
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ان کے ان بیہودہ اقوال اور حرکات سے بالا و برتر اور پاک اور مبرا ہے۔ یہود وہ بدبخت قوم ہے جنہوں نے انبیا علیہم السلام کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان پاکیزہ ہستیوں کی طرف گھٹیا باتیں اور جرائم منسوب کیے۔ انہوں نے حضرت موسٰی کو ستایا، حضرت عیسٰی کا انکار کیا، یحیٰی اور زکریا کو قتل کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے بارہا سازشیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ ان بد حیثیت یہودیوں نے آپ کو زہربھی دیا۔قرآن پاک نے ان کی ان گھناونی حرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا ، تو تم نے ان کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا"