مسجد محمود غزنوی کے آثار۔ اوڈی گرام سوات

جیہ

لائبریرین
مسجدمحمود غزنوی اوڈی گرام سوات

کل جمعہ تھا۔ حسب معمول عبداللہ کی فرمائش آئی کہ مما سیر کے لئے جانا ہے۔ اس کی فرمائش دو بجے دو پہر آئی ۔ سوچ میں پڑ گئی کہ کہا جائیں کیوں کہ 5 بجے تو مغرب کی اذان ہوتی ہے۔ آخر کہاں چلیں کہ مغرب سے پہلے واپسی بھی ہو جائے۔ اچانک ذہن میں اوڈی گرام کا نام آگیا کیوں کہ وہ منگورہ سے صرف 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں بہت سے قدیم آثار ہیں جن میں بدھ مت کے وقتوں کی اقامت گاہ، سوات کے خری ہندو راجا ‘راجا گیرا’ کا قلعہ جو ایک اونچے پہاڑی پر واقع ہے، موجود ہیں ۔ تو جناب ہم اوڈی گرام سیر کے لئے گئے اور مسجد محمود غزنوی کی سیر کی جو کہ سوات کی پہلی اور موجودہ پاکستان کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ آج ہم آپ کو اس مسجد کی تصویری سیر کراتے ہیں۔ مگر سیر سے پہلے کچھ تعارفی جملے:

سن 1048عیسوی میں محمود غزنوی کے سپہ سالار پیر خوشحال نے سوات پر حملہ کیا اور راجہ گیرا کے قلعے کو فتح کیا۔ قلعہ چونکہ پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا اس وجہ سے پیر خوشحال کو اس قلعے کو فتح کرنے میں بہت مشکل پیش آئی۔

روایات میں ہے کہ راجا گیرا کی بیٹی شہزادی مونجا دیوی نے ،جو پیر خوشحال پر عاشق ہوگئی تھی، سپہ سالار کو وہ خفیہ راستہ دکھا دیا جس راستے سے قلعے کو دریائے سوات سے پانی کی سپلائی ہوتی تھی۔ پیر خوشحال نے پانی کی سپلائی روکی ۔ اور آخر کار راجا گیرا کو شکست ہوئی اور قلعہ فتح ہو گیا اور سوات پہلی بار اسلام سے روشناس ہوا۔ مگر پیر خوشحال اس معرکے میں شہید ہوگئے۔ آج اس کی قبر اسی قلعے کے دامن میں موجود ہے اور غازی بابا کا مزار کے نام سے جانی جاتی ہے۔

یہ مسجد اس کےبعد تعمیر کی گئی ہے۔

اب چلتے ہیں تصویری سیر کی طرف


تعارف
u01.jpg


پاک آرمی کے طرف سے لگایا گیا تعارفی بورڈ
u02.jpg


مسجد کا دروازہ
entrance.jpg


مسجد کا نظار اوپر قلعے سے
u03.jpg
u03.jpg

مسجد کی صحن میں آئے ہوئے دو بچے ۔ صحن کی بیچ وضو کے لئے بنا حوض
u04.jpg

وضو کی جگہ
wazooplace.jpg

تلاوت گاہ
Tilwatgah.jpg

مسجد کی محراب
mehrab02.jpg


محراب کا ایک اور نظارا
Mehrab1.jpg

صحن سے نیچے اوڈی گرام قصبے کا نظارا
u8.jpg

ایک اور
last.jpg
 

ظفری

لائبریرین
زبردست ۔۔ معلومات کیساتھ تصاویر بھی بہت عمدہ ہیں ۔
پتا نہیں یہ مناظر ( سوات اور ملحقہ ) جب بھی دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ
وقت کیساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم ، کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
 
بہت ہی زبردست تصاویر
ایک آرکیٹیکٹ کی حیثیت سے ہمیشہ آثار قدیمہ سے دلچسپی رہی ہے
اس مسجد کے بارے میں پہلی بار معلوم ہوا
شراکت کا شکریہ شاد و آباد رہیں
 
آخری تدوین:
نہیں بٹیا رانی، لطف کا ایک پہلو تو تصاویر میں موجود ہے۔ مثلاً ہمیں وادیاں بے حد پسند ہیں، ایسے میں وادیوں کی تصاویر اور پتھر سے چنی ہوئی دیواریں وغیرہ ہمیں وادی کشمیر کے سفر کی یاد دلا گئیں جو ہم نے سن 2008 میں کیا تھا۔ :) :) :)
 

جیہ

لائبریرین
نہیں بٹیا رانی، لطف کا ایک پہلو تو تصاویر میں موجود ہے۔ مثلاً ہمیں وادیاں بے حد پسند ہیں، ایسے میں وادیوں کی تصاویر اور پتھر سے چنی ہوئی دیواریں وغیرہ ہمیں وادی کشمیر کے سفر کی یاد دلا گئیں جو ہم نے سن 2008 میں کیا تھا۔ :) :) :)
اچھا اچھا تو یہ بات ہے :)
ویسے بھائی جی آپ بھی ناں! وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔ خیر۔۔۔
میرا مطلب تھا کہ ہر جگہ شتونگڑوں سے کام نہیں چلتا :)
 
اچھا اچھا تو یہ بات ہے :)
ویسے بھائی جی آپ بھی ناں! وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔ خیر۔۔۔
میرا مطلب تھا کہ ہر جگہ شتونگڑوں سے کام نہیں چلتا :)
ہم نے دوبارہ اس کشمیر والی لڑی کو دیکھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اب ہم نے تصاویر کی عمومی نمائش پر قد غن لگا دی ہے۔ :) :) :)
 

تلمیذ

لائبریرین
عہد رفتہ کی ایک عظیم الشان مسجد سے متعارف کروانے کے لئے شکریہ، جویریہ جی۔
تصاویر سے تو پتہ چلتا ہے کہ کافی وسیع عریض جگہ تھی۔ کیا وہاں کے موجودہ ارباب اختیار یا عوام الناس کے دل میں کبھی خیال آیا ہے کہ اس قدیم مسجد کو آبار کرنے کے کچھ انتظامات کئے جائیں جس طرح ملک میں دیگر کئی آثار قدیمہ کو زر کثیر کےخرچ سے بحال کیا گیا ہے؟
اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
 
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
صد افسوس کہ ہماری حکومت اپنے ثقافتی ورثوں کی حفاظت نہیں کرتی مسجد کی ایک تاریخی حیثیت ہونے کے باوجود اس کو محفوظ نہیں کیا گیا بہر حال عمدہ شراکت
 
Top