مسلمانوں کے تخلیقی اذہان کی مغرب منتقلی (برین ڈرین)۔۔۔ غزالی فاروق

اگر بالفرض حکومتی نظام ہی کی بات کریں تو آپ کے بقول انگریز کا چھوڑا ہوا نظام چند ترامیم کے ساتھ نافذ ہے تو جہاں ہمارا قابل دماغ یہاں سے نکل کر جا رہا ہے وہاں پہ بھی تو اسی انگریز کا نظام ہے۔ اگر پاکستان چھوڑ کر جانے والے کو پاکستانی نظام سے مسئلہ ہے تو پھر اس نظام سے کیوں نہیں جبکہ آپ کے بقول دونوں ہی ایک ہیں؟ میں نے اس لیے یہودی اور مسلمان کے ساتھ کام کرنے کی مثال بھی دی کہ مسئلہ معاشرتی رجحانات و روایات میں ہے اور سٹیٹ آف پاکستان خود اس کے آگے بے بس ہے جب تک کہ تعلیم کو فروغ دے کر سوچ کو وسعت دینے کے اقدامات نہیں کرتی۔

وہی بات۔ تخلیقی اذہان مغرب کی جانب وہاں سائنسی مواقع بہتر ہونے کی وجہ سے جاتے ہیں۔ نہ کہ حکومتی نظام کی وجہ سے۔ اور پاکستان میں تو نہ اسلام کا نظام صحیح طرح نافذ ہے اور نہ ہی انگریز کا نظام۔ ایک ملغوبہ ہے۔ اور کنفیوثن ہے۔ باقی کیا سٹیٹ آف پاکستان سائنسی مواقع پیدا کرنے اور انڈسٹری لگانے میں معاشرے کےآگے بے بس ہے؟ مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔ عوام نے کہاں سائنسی تروی کے خلاف احتجاج اور دھرنے کئے ہیں یا اس کے خلاف بات کی ہے؟ کبھی بھی نہیں۔ آپ پھر مذہب پر تنقید اور سائنس پر تنقید کو مکس کر رہے ہیں۔ اسلام میں سائنس پر تنقید پر کوئی قدغن نہیں۔ اور اسلام میں ریسرچ پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ لیکن اگر کوئی اسلامی ریاست میں اسلام کے خلاف تبلیغ کرے یا خدا اور رسولوں کے رد پر تبلیغ و اشاعت کرے تو یہ اسلام کو روا نہیں۔ لیکن اس کا تعلق سائنس سے ہے ہی نہیں۔ دینیات اور مذہبیات سے ہے۔جو تخلیقی اذہانوں کے برین ڈرین کی وجہ ہے ہی نہیں۔
 

حسرت جاوید

محفلین
یہاں سے برین ڈرین اس وجہ سے نہیں کہ لوگ مذہب کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں
مذہبی قدغن کا مفہوم شاید یہ نہیں کہ لوگ مذہب کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں بلکہ مذہبی دنیا سے باہر سوچنے کی وسعت ہی ان میں پیدا نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ لوگ کارکردگی کو مذہبی و معاشرتی پیمانوں میں جانچتے ہیں مثلا ایک اچھا سائنسدان اگر مسلمان نہیں یا معاشرتی طورپر 'اعلیٰ' ذات کا نہیں تو ہم اسے یہ کہہ کر تسلیم نہیں کرتے کہ وہ مسلمان نہیں یا چھوٹی ذات کا ہے۔ جب تک آپ اس گھن چکر سے نہیں نکلیں گے اور کام والے بندے کو عزت نہیں دیں گے جو وہ ڈیزرو کرتا ہے وہ کبھی بھی اس ملک میں نہیں ٹھہرے گا۔
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
وہی بات۔ تخلیقی اذہان مغرب کی جانب وہاں سائنسی مواقع بہتر ہونے کی وجہ سے جاتے ہیں۔ نہ کہ حکومتی نظام کی وجہ سے۔ اور پاکستان میں تو نہ اسلام کا نظام صحیح طرح نافذ ہے اور نہ ہی انگریز کا نظام۔ ایک ملغوبہ ہے۔ اور کنفیوثن ہے۔ باقی کیا سٹیٹ آف پاکستان سائنسی مواقع پیدا کرنے اور انڈسٹری لگانے میں معاشرے کےآگے بے بس ہے؟ مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔ عوام نے کہاں سائنسی تروی کے خلاف احتجاج اور دھرنے کئے ہیں یا اس کے خلاف بات کی ہے؟ کبھی بھی نہیں۔ آپ پھر مذہب پر تنقید اور سائنس پر تنقید کو مکس کر رہے ہیں۔ اسلام میں سائنس پر تنقید پر کوئی قدغن نہیں۔ اور اسلام میں ریسرچ پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ لیکن اگر کوئی اسلامی ریاست میں اسلام کے خلاف تبلیغ کرے یا خدا اور رسولوں کے رد پر تبلیغ و اشاعت کرے تو یہ اسلام کو روا نہیں۔ لیکن اس کا تعلق سائنس سے ہے ہی نہیں۔ دینیات اور مذہبیات سے ہے۔جو تخلیقی اذہانوں کے برین ڈرین کی وجہ ہے ہی نہیں۔
پاکستان میں کتنے ہزار مدرسے ہیں؟ اور کتنے مدرسوں میں معیاری سائنسی تعلیم دی جاتی ہے یا کم از کم مشاہدوں پہ اکسایا جاتا ہے؟ کیا وہاں یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہی حتمی ہے؟ سائنس کی بنیاد تشکیک سے اور مذہب کی بنیاد ایمان سے شروع ہوتی ہے، کیا اس گیپ کو بھرنے کی صلاحیت ہے ہمارے اساتذہ اور علماء میں؟ لازم نہیں کہ اس کے خلاف دھرنے ہی ہوں یا اس کے خلاف بات ہو تو یہ کہا جائے کہ مشاہداتی ترویج سے روکا جا رہا ہے بلکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ترویج ہو کتنی رہی ہے؟ یہ ترویج کسی باہر سے آئے فرد نے تو نہیں کرنی بلکہ اسی معاشرے سے پروان چڑھنی ہے اور معاشرے کی اکثریت کی سوچ ابھی مذہبی تاویلات میں دھنسی ہوئی ہے، ادھر سے فرصت ملے گی تو ادھر کچھ سوچے گی۔
جہاں تک سٹیٹ آف پاکستان کی بات ہے تو وہ ایک حد تک بے بس ہے۔ ملک میں کسی بھی مواقع پیدا کرنے، انڈسٹری لگانے میں حکومت درج ذیل اقدامات کرتی ہے۔
  • حکومتی کے پاس وسائل ملکی پروڈکشن سے منلسلک ہوتے ہیں اور حکومت انہیں مختلف شعبوں میں بلحاظ ضرورت خرچ کرتی ہے۔
  • حکومتی سرمایہ داروں کو دعوت دیتی ہے اور ان کو لیول پلے فیلڈ مہیا کرتی ہے اور ملک میں امن قائم کرتی ہیں۔
اول یہ کہ حکومت کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ اس کے تین بڑے ذرائع ہیں۔
  1. حکومت خود سرمایہ کاری کرے اور منافع کمائے۔
  2. اندرونی نجی شعبوں کی پیداوار کی فروخت پہ ٹیکس اکٹھا کرے۔
  3. باہر سے آنے والی چیزوں پر ٹیکس وصول کرے۔
پہلے نقطے میں حکومتی مشینری کے شعبوں میں کتنے ادارے ہیں جو پیداوار دے رہے ہیں؟ فوج جو بجٹ کا اتنا بڑا حصہ لیتی ہے اس سے کیا پیداوار ہے اور روزگار کے کیا مواقع پیدا کرتی ہے؟ اس کے علاوہ دیگر سرکاری شعبوں میں بھی پیداوار کی کیا شرح ہے؟ بوجہ مجبوری حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت کو یقینا چاہیے کہ اس طرح کے اداروں کے اخراجات کو کم سے کم کر کے صنعتی اور سائنسی اداروں کو فروغ دے لیکن جونہی ان ڈیڈ اداروں کے بجٹ پہ کٹ لگتا ہے حکومت 'کرپشن'، 'ملک' اور 'عوام دشمنی کی نذر ہو جاتی ہے اور سول اداروں کے ملازمین بھی لٹھ لے کر میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ حکومت بھارت اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھاتی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم سے کم ہو جائیں تو دفاعی اداروں کا اسلامی پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے اور مذہبی جماعتیں انقلاب کی کال لیے میدان میں اتر آتی ہیں۔ اب اس ساری صورت حال کو باہر کے سرمایہ دار بہت قریب سے مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ معیشت ملکی امن سے منسلک ہے اور سرمایہ داری اسی 'ایکسپیکٹیشن' پہ چل رہی ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی بھی سرمایہ دار یہ نہیں چاہتا کہ اس کا سرمایہ ڈوب جائے اس لیے یہاں سرمایہ داری بہت محدود ہوتی ہے۔ دوسرا ذریعہ ٹیکس کا ہے تو اس ملک میں کتنے فیصد افراد ملکی ہمدردی کے تحت ٹیکس دیتے ہیں؟ پاکستانی معاشرے کے تناظر میں کما کر کھانے کو شاید ایک قسم کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے جو کرنا ہے حکومت کرے۔ حکومت ایک حد تک تعاون کر سکتی ہے اگر معاشرے میں پہلے ہی اس طرح کی فضا قائم ہو۔ یہاں فضا اس کے بالکل بر عکس ہے۔
 

عثمان

محفلین
اگر کسی کے نزدیک سائنسی ترقی کی بنیاد سیاسی اور معاشی استحکام ہے تو یہ تو اسلامی نظام حکومت کے اندر یا باہر دونوں طرح سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظام حکومت کی شرط کچھ اضافی سی نہیں ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یونکہ سائنسی ترقی اس ہدف کے لیے ضروری ہے جو اسلامی نظریے نے اس ریاست کے لیے متعین کیا ہے۔ یعنی پوری دنیا پر اسلام کی حکومت قائم کرنا۔ اس ہدف کو پورا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاست سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا میں ترقی یافتہ ترین ریاستوں میں شامل نہ ہو۔
مزید کنفیوژن۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں عبور کا مقصد انسانی ترقی ہے، دنیا پر حکمرانی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ریاست کی جانب سے اسلام کی دعوت صرف اس لیے نہیں ہوتی کہ افراد اسلام قبول کر لیں۔ بلکہ اس لیے بھی ہوتی ہے کہ تمام علاقوں کو اسلام کی حکومت کے تلے لے کر آیا جائے۔ اور اگر کوئی ریاست اسلام کی حکومت کو قبول نہ کرے اور مزاحمت کرے تو اسلامی ریاست اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے اپنی افواج کے ذریعے اقدامی جہاد کرتی ہے۔ اور ایک ایک کر کے تمام علاقوں کو اسلامی حکومت کے زیر اثر لاتی ہے۔ یہ کام محض سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن نہیں۔
یعنی آپ کی اسلامی ریاست غیر مسلم اقوام پر زور زبردستی قبضے کرنے پہ یقین رکھتی ہے۔ کیا ایسا کرنا عالمی قوانین اور اصول انصاف کے تحت درست ہے؟
 
مذہبی قدغن کا مفہوم شاید یہ نہیں کہ لوگ مذہب کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں بلکہ مذہبی دنیا سے باہر سوچنے کی وسعت ہی ان میں پیدا نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ لوگ کارکردگی کو مذہبی پیمانوں میں جانچتے ہیں مثلا ایک اچھا سائنسدان اگر مسلمان نہیں تو ہم اسے یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں یا اسے تسلیم نہیں کرتے یا اس کے ساتھ یا اس کے نیچے کام نہیں کرتے کیونکہ وہ مسلمان نہیں یا نمازی پرہیزی نہیں۔ جب تک آپ اس گھن چکر سے نہیں نکلیں گے اور کام والے بندے کو عزت نہیں دیں گے جو وہ ڈیزرو کرتا ہے وہ کبھی بھی اس ملک میں نہیں ٹھہرے گا۔

محترم حسرت صاحب۔ آپ کی بات درست ہوتی اگر پاکستان سے صرف غیر مسلم اچھے اذہان جاتے۔ لیکن جو لوگ جاتے ہیں اُن میں سے غیر مسلموں کو تعداد شاید ایک فیصد بھی نہ ہو کیونکہ ان کی اتنی آبادی بھی نہیں پاکستان میں۔ اکثریت تو مسلم اذہان ہی کی باہر جاتی ہے۔

باقی پاکستان میں لوگوں کا صرف اس وجہ سے کسی کی تحسین نہ کرنا کہ وہ ہندو یا عیسائی ہے تو یہ یقیناً درست نہیں۔ اور اس کی وجہ اسلامی احکامات کا واضح نہ ہونا ہے۔ باقی قادیانیت کا مسئلہ اور ہے کیونکہ وہ غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ اس لیے بعض لوگ اُنہیں اس طرح سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ لیکن غیر مسلم اذہان کے چلے جانے کا مسئلہ یہاں زیر بحث ہے ہی نہیں۔
 
مزید کنفیوژن۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں عبور کا مقصد انسانی ترقی ہے، دنیا پر حکمرانی نہیں۔

انسانی ترقی صرف سائنسی ترقی سے ممکن نہیں۔ اس سے مراد انسانی تہذیب میں ترقی بھی ہے۔ مغرب نے سائنس میں ترقی تو حاصل کر لی لیکن مطلق آزادیوں کا نظریہ اپنانے سے ان کی تہذیب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی چند مثالیں اوپر دی جا چکی ہے۔

اسلام کا ہدف اسلام کے نظام عدل کا پوری دنیا میں نفاذ ہے۔ اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے سائنس میں ترقی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
 
اگر کسی کے نزدیک سائنسی ترقی کی بنیاد سیاسی اور معاشی استحکام ہے تو یہ تو اسلامی نظام حکومت کے اندر یا باہر دونوں طرح سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظام حکومت کی شرط کچھ اضافی سی نہیں ہے؟

بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ اسلام تو لوگوں کے اجتماعی معاملات کو ریاستی سطح پر منظم کرنے کے نظاموں میں سے ایک نظام ہے۔ باقی ایک نظام لبرلزم یا سرمایہ دارانہ نظام ہے اور دوسرا نظام حیات کمیونزم کا نظام ہے۔

ان تینوں نظاموں کے ساتھ سائنس میں ترقی ممکن ہے۔ تو ایک مسلمان کو ان تینوں نظاموں میں سے کا نظام کو اپنی ریاست میں نافذ کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے وہ نظام جو اُن کے عقیدہ پر مبنی ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی اکثریت اسلامی نظام کی خواہاں ہے۔ جبکہ صرف مغرب زدہ اذہان اسلام کی بجائے مسلمانوں پر بھی مغربی نظاموں کے نفاذ کی بات کر تے ہیں۔ اور اُن کا یہ مطالبہ مسلمانوں میں ایک شاذ رائے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔
 
اسلام میں کہاں شخصی آزادی پہ قدغن ہے؟ اسلام نے کہاں شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کو کہا ہے؟ اسلام نے کہاں مذہبی رواداری کے خلاف تبلیغ کی ہے؟ اسلام نے کہاں مجھے انصاف دینے سے منع فرمایا ہے؟ اگر مجھے یہ عناصر ایک ایسے نظام سے مل رہے ہوں جو کہ ایک سو کالڈ اسلامی معاشرہ نہیں تو میرے لیے تو وہی نظام ہی اسلامی نظام ہے۔ جس معاشرے کو آپ 'اسلامی معاشرے' کا لیبل لگا رہے ہیں وہ در حقیقت انہی خوبیوں پر مشتمل تھا جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔

اگر وہ نظریہ آپ کی نظر میں ناکام اور فرسودہ ہے تو وہاں جانے والا قابل دماغ تو بہت پاگل ہے جو ہمارے اس بہترین 'معاشرتی اور خاندانی نظام' کو چھوڑ کر اس ناکام اور فرسودہ نظام میں جانے کو فوقیت دیتا ہے۔

یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ شخصی آزادی کا نام لیتے ہی ہمارے معاشرے میں عریانی، فحاشی اور خاندانی نطام ہی فورا ذہن میں کیوں آتا ہے؟ کیا بغیر کسی قدغن کے سوچنے اور اظہارِ خیال کرنے کی آزادی دینا شخصی آزادی نہیں ہے؟ یہاں جنسی آزادی کی تو بات ہو ہی نہیں رہی بلکہ ایسے معاشرے کی بات ہو رہی ہے جہاں بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب کے آپ کو سوچنے اور اپنا کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ جنسی آزادی اور خاندانی نظام پہ ایک الگ کالم لکھیے وہاں اس پہ بحث کر لیتے ہیں۔

محترم شخصی آزادی کا مفہوم وہ نہیں کو آپ یا میں متعین کریں۔ اس کا مفہوم متعین ہے۔ یہ مطلق آزادی ہے جو مغرب نے مذہب بیزاری کے نتیجے میں مذہب سے حاصل کی ہے۔ اس کے مطابق انسان خدا کے احکامات کا پابند نہیں۔ بلکہ خدا کے احکامات سے مطلقاً آزاد ہے۔ آپ خود ہی بتائیں کیا یہ اسلام سے مطابقت رکھتا ہے؟

آپ نے فرمایا: "اگر وہ نظریہ آپ کی نظر میں ناکام اور فرسودہ ہے تو وہاں جانے والا قابل دماغ تو بہت پاگل ہے جو ہمارے اس بہترین 'معاشرتی اور خاندانی نظام' کو چھوڑ کر اس ناکام اور فرسودہ نظام میں جانے کو فوقیت دیتا ہے۔"
لیکن یہاں آپ بھی پاکستان کے نظام اور معاشرے کو اسلامی نظام اور معاشرہ کہ رہے ہیں۔ پاکستان کے نظام اور معاشرے کو تو میں نے بھی غلط لکھا ہے جس کی وجہ سے برین ڈرین ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کا نظام اور معاشرے اسلام کے نظریے پر مبنی ہو تو brain ڈرین نہ ہو۔

آپ نے فرمایا: "یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ شخصی آزادی کا نام لیتے ہی ہمارے معاشرے میں عریانی، فحاشی اور خاندانی نطام ہی فورا ذہن میں کیوں آتا ہے؟ کیا بغیر کسی قدغن کے سوچنے اور اظہارِ خیال کرنے کی آزادی دینا شخصی آزادی نہیں ہے؟ یہاں جنسی آزادی کی تو بات ہو ہی نہیں رہی بلکہ ایسے معاشرے کی بات ہو رہی ہے جہاں بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب کے آپ کو سوچنے اور اپنا کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ جنسی آزادی اور خاندانی نظام پہ ایک الگ کالم لکھیے وہاں اس پہ بحث کر لیتے ہیں۔"
اس سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ آپ مغرب کے شخصی آزادی کے تصور کو سمجھے ہی نہیں۔ اس میں وہ سب شامل ہے جن کا میں نے ذکر کیا۔ آپ کا اُن کو خارج کرنا اپنی اختراع ہے۔ صرف سائنس میں کھل کر سوچنا شخصی آزادی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام میں سائنس پر تنقید پر کوئی قدغن نہیں۔ اور اسلام میں ریسرچ پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ لیکن اگر کوئی اسلامی ریاست میں اسلام کے خلاف تبلیغ کرے یا خدا اور رسولوں کے رد پر تبلیغ و اشاعت کرے تو یہ اسلام کو روا نہیں۔
یعنی اسلامی ریاست میں سائنس پر تنقید جائز ہے لیکن اسلام پر تنقید جائز نہیں۔ ایسے دوہرے معیار کیساتھ کونسی اسلامی ریاست کامیاب ہوگی!؟
 

جاسم محمد

محفلین
مغرب نے سائنس میں ترقی تو حاصل کر لی لیکن مطلق آزادیوں کا نظریہ اپنانے سے ان کی تہذیب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی چند مثالیں اوپر دی جا چکی ہے۔
مغرب میں سائنسی ترقی اعلی تہذیبی اقدار سے ہی ممکن ہوئی ہے۔
 
یعنی آپ کی اسلامی ریاست غیر مسلم اقوام پر زور زبردستی قبضے کرنے پہ یقین رکھتی ہے۔ کیا ایسا کرنا عالمی قوانین اور اصول انصاف کے تحت درست ہے؟

اسے قبضہ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ قبضہ جابرانہ ہوتا ہے۔ اور اس میں ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جو مکہ فتح کیا تھا کیا وہ قبضہ تھا؟ اور خلفائے راشدین نے جن جن علاقوں کو اسلامی ریاست میں شامل کیا، کیا وہ قبضے تھے؟ اگر قبضے نہیں تھے تووہ جو بھی تھا وہی اسلامی ریاست کرتی ہے۔ اور اسے علاقوں کو اسلام کے لیے کھولنا کہتے ہیں تا کہ انہیں اسلام کے عادلانہ نظام کے تحت لایا جائے اورلوگوں کو مغرب کے استحصال پر مبنی نظام سے چھٹکارا دلایا جائے بیشک لوگ غیر مسلم ہی کیوں نہ رہیں ۔ عربی میں لفظ "فتح کا اردو ترجمہ "کھولنا" ہے نہ کہ قبضہ کرنا۔

اوراس سے قطع نظر کہ عالمی قوانین جو بھی ہوں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون قیامت تک کے لیے ہے اور اس میں ردو بدل نہیں۔جبکہ عالمی قوانین آج کچھ اور ہیں، کل کچھ اور تھے اور آنے والے کل میں کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کے قانون پر کسی اور قانون کی بالادستی کو قبول کریں چاہے وہ عالمی قانون ہی کیوں نہ ہو۔ عالمی قانون کو اس وقت تک قبول کیا جائے گا جب تک کہ وہ اللہ کے قانون کے خلاف نہ ہو۔ اختلاف کی صورت میں اللہ کے قانون کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گی۔
 

عثمان

محفلین
بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ اسلام تو لوگوں کے اجتماعی معاملات کو ریاستی سطح پر منظم کرنے کے نظاموں میں سے ایک نظام ہے۔ باقی ایک نظام لبرلزم یا سرمایہ دارانہ نظام ہے اور دوسرا نظام حیات کمیونزم کا نظام ہے۔

ان تینوں نظاموں کے ساتھ سائنس میں ترقی ممکن ہے۔ تو ایک مسلمان کو ان تینوں نظاموں میں سے کا نظام کو اپنی ریاست میں نافذ کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے وہ نظام جو اُن کے عقیدہ پر مبنی ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی اکثریت اسلامی نظام کی خواہاں ہے۔ جبکہ صرف مغرب زدہ اذہان اسلام کی بجائے مسلمانوں پر بھی مغربی نظاموں کے نفاذ کی بات کر تے ہیں۔ اور اُن کا یہ مطالبہ مسلمانوں میں ایک شاذ رائے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔
یعنی آپ کا مضمون دو الگ نکات پر مشتمل ہے:
برین ڈرین روکا جائے۔
اسلامی نظام حکومت نافذ کیا جائے۔
برین ڈرین تو محض ایک قانون متعارف کروا کر روکا جا سکتا ہے۔یاد پڑتا ہے کہ نوے کی دہائی تک پاکستان میں پاسپورٹ کے حصول کے لئے جمع کرائے گئے فارم میں اقرار کرنا پڑتا تھا کہ آپ ڈاکٹر یا انجینیئر نہیں۔ آپ کا آدھا مسئلہ تو یہیں حل ہوا۔ ماضی میں سویت یونین اور حال میں شمالی کوریا کے قوانین مزید مثالیں ہیں۔
اسلامی نظام حکومت کے نفاذ کو بھی ظاہر ہے کسی شے کی حاجت نہیں۔
 
یعنی اسلامی ریاست میں سائنس پر تنقید جائز ہے لیکن اسلام پر تنقید جائز نہیں۔ ایسے دوہرے معیار کیساتھ کونسی اسلامی ریاست کامیاب ہوگی!؟

اسلامی نظام میں کوئی شخص بیشک اسلام کو باطل دین سمجھ کر غیر مسلم رہے۔اور اپنے عقیدے کے حق میں اور اسلام کے عقیدے کے رد میں اپنے چرچ، گرجا وغیرہ میں تبلیغ کرے۔ لیکن اسلام کے عقائد کے رد کی کھلے عام معاشرے میں تبلیغ و اشاعت کی اسلامی ریاست میں اجازت نہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مطابق درست دین صرف اسلام ہے۔ معاشرے میں اس کے خلاف کھلے عام تبلیغ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" ( اچھائی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا) کے عین منافی ہے۔ اس لیے جائز نہیں۔ جس نے یہ کرنا ہے یسلامی ریاست سے باہر جا کر کرے۔ کیا اسلامی ریاست ہی ملی ہے یہ کرنے کو۔

اور یہ اللہ تعالیٰ کا معیار ہے۔ اور اس کی مرضی جو معیار متعین کرے۔ مسلمان اس کو درست طریقے سے جاننے کا اور اس پر عمل کرنے کا پابندہے۔

بحرحال یہ بحث موضوع سے بالکل ہٹ کر ہے۔ ہمارے یہاں برین ڈرین کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر بلاگ میں ہوا۔ یعنی بہتر مواقع کا موجود نہ ہونا۔اور اس کی ذمہ دار ریاست ہے نہ کہ معاشرہ۔
 
مغرب میں سائنسی ترقی اعلی تہذیبی اقدار سے ہی ممکن ہوئی ہے۔

اگر ایسا ہے تو مغرب نے پست ترین تہذیبی اقدار اختیار کر کے سائنس میں کیسے ترقی حاصل کر لی ہے؟

اسی لیے میں نے کہا کہ تہذیب اور سائنس الگ الگ ہیں۔ تہذیب نظریات پر کھڑی ہوتی ہے جس کے ضمن میں لبرلزم اور اسلام کے نظریات آتے ہیں۔ جبکہ سائنس کا ان نظریات سے کویہ تعلق نہیں۔ یہ دونوں نظاموں کے ساتھ چل سکتی ہے۔

لہٰذا ایک مسلمانوں کو سائنس میں ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنے دین سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور خلفائے راشدین نے جن جن علاقوں کو اسلامی ریاست میں شامل کیا، کیا وہ قبضے تھے؟
دفاعی جنگوں میں رقبے بڑھتے نہیں ہیں جبکہ اسلامی جنگوں میں جو فتوحات ہوئی ان سے اسلامی ریاست کے رقبے بڑھ گئے۔ خود فیصلہ کر لیں وہ کیسی جنگیں تھی۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دفاعی جنگوں میں رقبے بڑھتے نہیں ہیں جبکہ اسلامی جنگوں میں جو فتوحات ہوئی ان میں رقبے بڑھ گئے۔ خود فیصلہ کر لیں وہ کیسی جنگیں تھی۔
آپ کسی اور کو اپنی بات کہلوانے کے لیے مجبور کیوں کر رہے ہیں، اپنی بات مکمل کیجیے
 
Top