شریف خاندان کا کمال اور زوال
بڑھک مار کر بھیگی بلی بن جانا اور مصنوعی بہادری کے پردے کے پیچھے معافیاں مانگنا وہ سیاسی روایت ہے جس میں ن لیگ کی قیادت نے بوریاں بھر بھر کر حصہ ڈالا ہے۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار
@TalatHussain12
سوموار 6 جنوری 2020 7:00
شریف خاندان کو صرف اپنے خاندان کے اثاثے عزیز ہیں، اگر یہ بچ جائیں تو ان کی خدمت گزاری عمران خان اور پرویز الہیٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہو گی (اے ایف پی)
بےعزتی کروانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ براہ راست، بالواسطہ، مختصر، ہلکی، گہری اور خاموشی کے ساتھ، لیکن جو ڈھنگ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنایا ہے وہ بےنظیر ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترامیم اور شریف خاندان کا سیاسی بھگوڑا پن اگر آج سے چھ یا سات سال پہلے وقوع پذیر ہوتا تو کچھ اچنبھے کی بات نہ تھی۔ بڑھک مار کر بھیگی بلی بن جانا اور مصنوعی بہادری کے پردے کے پیچھے معافیاں مانگنا وہ سیاسی روایت ہے جس میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے بوریاں بھر بھر کر حصہ ڈالا ہے۔
لیکن سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور سے لے کر جان لیوا بیماری کے علاج کے لیے باہر جانے تک نواز شریف، ان کے بھائی اور ان کا خاندان جس سیاسی بھونچال کا شکار رہا اس کے بعد محسوس یوں ہو رہا تھا جیسے غلام باغ میں اگائے جانے والے یہ سیاسی پودے زمین میں اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر چکے ہیں کہ اب ان کو اپنے ووٹر کے علاوہ کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔
اقتدار سے نکالے جانے کے بعد جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے جیل میں جانے تک کا سفر تکلیف دہ تھا۔ ن لیگ پر تمام تر دباؤ صرف اس وجہ سے کارگر ثابت نہ ہو سکا کہ ان کی قیادت بظاہر ان تمام صعوبتوں کے باوجود سیاسی طور پر برداشت اور حوصلے سے خود کو زندہ رکھے ہوئے تھی۔ اس لائحہ عمل نے نواز شریف کی بیٹی مریم نواز سمیت پارٹی کی تمام سینیئر قیادت کو بدترین مشکل سے دوچار بھی کیا۔
مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ عادی مجرموں کے ساتھ کوٹھڑیوں میں ٹھٹھریں گے، زندگی کی تمام آسائشوں سے دور کالی راتیں کاٹنے کے باوجود پرعزم رہے۔ تمام خاندان تتربتر ہو گیا۔ حمزہ شہباز کے علاوہ دونوں بھائیوں کے بچے عملاً جلاوطن ہو گئے۔
اسحاق ڈار شہرت کی بلندیوں سے اندھے کنویں میں پھینک دیے گئے۔ بیگم کلثوم نواز شوہر اور بیٹی کی رفاقت دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ جن بیچارے بیوروکریٹوں نے دل و جان سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا تھا وہ جیلوں اور عدالتوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں۔ بدنامی اور الزامات کے نہ مٹنے والے داغ ہر اس دامن کی قسمت ٹھہرے جنہوں نے ان شریفوں کو اپنے اعتماد کا ووٹ دیا۔ حتیٰ کہ ایسے سیاسی کارندے اور مقامی لیڈر جو ہوا کا رخ بدلتے ہی بھنبھیری کی طرح گھوم جاتے تھے تسلسل اور استقامت اختیار کرنے پر مائل ہو گئے۔
اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے خدا کو ناراض کرنے والے صرف اس وجہ سے ٹھہر گئے کہ عوام میں حقیقی جمہوریت کا جذبہ بیدار کرنے والی قوت کا ساتھ دینا آنے والے سالوں میں سیاسی طور پر منافع بخش نظر آ رہا تھا۔
لیکن پھر دونوں بھائیوں نے اپنی اولادوں کے ساتھ مل کر اپنی پرانی صفت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اپنی دیوقامتی کو بھس میں بدل دیا اور الٹے پاؤں ایسی دوڑ لگائی کہ پورس کے ہاتھی بھی حیران ہو گئے۔ دھاڑتا ہوا شیر بھیڑ میں بدل گیا اور خود سے اپنے آپ کو منڈنے کے لیے حاضر کر دیا۔
معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے لندن میں بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ آرمی ایکٹ میں ترامیم اور دوسرے سروسز چیفس کے حوالے سے تجویز کردہ قانون سازی کو پڑھے بغیر ہی مان لیا۔ اگرچہ یہ بھی عظیم حماقت ہے۔ آپ سوچیے کہ کہاں فوج کا سربراہ ایکسٹینشن لینے کے عمل سے گزرنے کو کوفت کا باعث سمجھتا تھا اور مدت ملازمت میں اضافے کے سال ہلکی پھلکی شرمندگی کے ساتھ گزارتا تھا اور کہاں یہ نیا قانون جس میں تین سال کی ملازمت کے بعد تین سال کی دوبارہ تعیناتی اور پھر اس میں ایکسٹینشن جیسی بےمثال قانونی سہولت مکمل عزت کے ساتھ مہیا کی جا رہی ہے۔
پہلے صرف فوج کا سربراہ قابل ایکسٹینشن سمجھا جاتا تھا اب نیوی، ایئر فورس سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بھی اس کے حقدار ٹھہریں گے۔ اس قانون کے مسودے کے مطابق اس کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اگر یہ قانون جوں کا توں پاس ہوتا ہے تو اس کے بعد سروسز کے سربراہان عملاً 10 سال کے لیے اپنی کرسیوں پر براجمان رہ سکیں گے۔
ایکسٹینشن کے نام پر تعیناتیوں کی اس لوٹ سیل پر کسی بھی جمہوری جماعت کو باوزن قانونی، آئینی اور اخلاقی اعتراضات اٹھانے کی وسیع گنجائش کو استعمال کرنا چاہیے تھا۔ بالخصوص ایسی جماعت جس کی قیادت نے فوجی سربراہان کو ایکسٹینشن نہ دینے کے فیصلوں کو ایک تاج کی شکل میں اپنے سر پر سجایا ہو۔
لیکن اس سقم سے بھرپور قانونی دستاویز کو بلا پڑھے ماننے کی بے ایمانی سے بھی بڑھ کے وہ شرم ناک انداز ہے جس کو اپنا کر اس جماعت کی تمام بڑی قیادت نے اپنے کارکنان اور حمایتیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کیا۔
پہلے لندن میں بیٹھ کے سب کچھ طے کر لیا۔ خواجہ آصف سمیت دوسرے قائدین کو باقاعدہ ہدایت جاری کرکے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمایت کی پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کروایا۔ دوسری طرف میڈیا میں افواہ پھیلا دی کہ جیسے ن لیگ اس معاملے پر سخت اصولی موقف اپنائے گی۔
خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ چونکہ تمام جماعتیں اس آب بےشرمی سے منہ دھو رہی ہوں گی لہٰذا ن لیگ کے دو چار گھونٹ ہضم کر لیے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے مشروب پر پلنے والی مخلوق جمہوری اقدار کی ایسی کھلی بےحرمتی برداشت نہ کر پائی۔
خواجہ آصف کی سربراہی میں ہونے والا پارلیمانی پارٹی کا اجلاس غیرمشروط حمایت کی بات ہوتے ہی ہڑبونگ اور ہوٹنگ کی نظر ہو گیا۔ کسی نے توبہ توبہ کے نعرے لگائے، کسی نے لعنت لعنت کہا، ایک آدھ نے تو ن لیگ کی سیاسی موت کی فاتحہ خوانی بھی کر ڈالی۔
لندن والوں نے یہ دیکھتے ہوئے خط کا ڈراما رچا دیا جس میں نواز شریف نے پارلیمان کا رکن نہ ہونے کے باوجود ترمیمی بل کو مختلف مراحل سے گزار کر پاس کروانے کا شیڈول طے کر دیا۔ یہ ایک بےوقوفانہ عمل تھا جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر اور نہ ہی اس میں کوئی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ ایک ایسا لیڈر جو انگلی کے اشارے پر پارٹی کے سینیئر اراکین کو ہزاروں میل دور بلوا کر ہدایات جاری کرتا ہے اور جس کے بولے گئے دو الفاظ سے پارٹی کی پالیسی تبدیل ہو جاتی ہے، خط کے ذریعے خواجہ آصف کو ہدایت بھجوا رہا ہے؟ اور پھر خواجہ صاحب کئی گھنٹوں تک اس خط کے وصول نہ ہونے کا واویلا کر رہے ہیں؟ اس سے بدتر ڈرامہ بازی شاید ہی دیکھنے میں آئی ہو۔
اور پھر یہ سرکس یہیں پر ہی نہیں رکا۔ دوبارہ سے اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہونے کی خبریں چلوائی گئیں کہ جیسے حالات نے لندن میں موجود بھائیوں کو اپنی غلطی کا احساس دلوا دیا ہو۔ اس دوران یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع سے بغیر کسی اعتراض کے فٹافٹ منظور ہو گیا اور آگے سینیٹ میں تو حالات اور بھی سازگار ہیں۔ صادق سنجرانی اس بل کو اپنی پلکوں پر سجا کر پاس کروائیں گے۔ ن لیگ اس کے بعد پارلیمان میں بحث کے دوران مختلف شقوں پر اعتراض اٹھانے کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔
قائمہ کمیٹیوں میں سے سیلوٹ مارتے ہوئے بل کو پاس کروانے کے بعد وہ یہ اعتراض کس منہ سے اٹھائے گی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر یہ اعتراضات اٹھا بھی دیے جائیں تو بھی اپنی جماعت کے ساتھ دھوکہ کرنے والی قیادت شاید وہ اعتماد کبھی بھی دوبارہ حاصل نہ کر پائے جس کی بنیاد پر وہ اپنے آپ کو چند سالوں کے لیے پالشی قبیلے سے جدا رکھے ہوئے تھی۔
اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست میں کوئی فرق نہیں۔ بڑا بھائی وقتی طور پر اپنے اندر اٹھنے والے سیاسی ابال کو نظریات کا نام دے کر چھلانگ لگاتا ہے اور پھر راستے میں دم توڑ کر دھڑام سے ادھر ہی آن گرتا ہے جہاں پر چھوٹا بھائی دھنیا پی کر اپنے بچوں اور ان کی جائیدادوں کو سنبھالے پہلے سے سجدے میں گرا ہوتا ہے۔
ایک ایسی جماعت جس کو طاقت ور سٹیبلشمنٹ کے پھندے نہ پھانس سکے، جو بدترین حالات میں کروڑوں ووٹ لے کر کھڑی رہی آج اپنے لیڈروں کے ہاتھوں زخم آلود ہے۔
شریف خاندان کو صرف اپنے خاندان کے اثاثے عزیز ہیں اگر یہ بچ جائیں تو ان کی خدمت گزاری عمران خان اور پرویز الہیٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہو گی۔ کیا کمال ہے۔ کیا زوال ہے۔