مسلم لیگ (ن) کا آرمی ایکٹ پر غیر مشروط حمایت کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
آج ن لیگ ہر ٹالک شو پر بری طرح ذلیل ہوئی ہے۔ پارٹی کے دفاع کیلئے کوئی ایم این اے سامنے نہیں آیا۔ ہر شو میں پھینٹا پڑا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
شریف خاندان کا کمال اور زوال
بڑھک مار کر بھیگی بلی بن جانا اور مصنوعی بہادری کے پردے کے پیچھے معافیاں مانگنا وہ سیاسی روایت ہے جس میں ن لیگ کی قیادت نے بوریاں بھر بھر کر حصہ ڈالا ہے۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار @TalatHussain12
سوموار 6 جنوری 2020 7:00

62686-2104367410.jpg

شریف خاندان کو صرف اپنے خاندان کے اثاثے عزیز ہیں، اگر یہ بچ جائیں تو ان کی خدمت گزاری عمران خان اور پرویز الہیٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہو گی (اے ایف پی)

بےعزتی کروانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ براہ راست، بالواسطہ، مختصر، ہلکی، گہری اور خاموشی کے ساتھ، لیکن جو ڈھنگ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنایا ہے وہ بےنظیر ہے۔

آرمی ایکٹ میں ترامیم اور شریف خاندان کا سیاسی بھگوڑا پن اگر آج سے چھ یا سات سال پہلے وقوع پذیر ہوتا تو کچھ اچنبھے کی بات نہ تھی۔ بڑھک مار کر بھیگی بلی بن جانا اور مصنوعی بہادری کے پردے کے پیچھے معافیاں مانگنا وہ سیاسی روایت ہے جس میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے بوریاں بھر بھر کر حصہ ڈالا ہے۔

لیکن سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور سے لے کر جان لیوا بیماری کے علاج کے لیے باہر جانے تک نواز شریف، ان کے بھائی اور ان کا خاندان جس سیاسی بھونچال کا شکار رہا اس کے بعد محسوس یوں ہو رہا تھا جیسے غلام باغ میں اگائے جانے والے یہ سیاسی پودے زمین میں اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر چکے ہیں کہ اب ان کو اپنے ووٹر کے علاوہ کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔

اقتدار سے نکالے جانے کے بعد جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے جیل میں جانے تک کا سفر تکلیف دہ تھا۔ ن لیگ پر تمام تر دباؤ صرف اس وجہ سے کارگر ثابت نہ ہو سکا کہ ان کی قیادت بظاہر ان تمام صعوبتوں کے باوجود سیاسی طور پر برداشت اور حوصلے سے خود کو زندہ رکھے ہوئے تھی۔ اس لائحہ عمل نے نواز شریف کی بیٹی مریم نواز سمیت پارٹی کی تمام سینیئر قیادت کو بدترین مشکل سے دوچار بھی کیا۔

مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ عادی مجرموں کے ساتھ کوٹھڑیوں میں ٹھٹھریں گے، زندگی کی تمام آسائشوں سے دور کالی راتیں کاٹنے کے باوجود پرعزم رہے۔ تمام خاندان تتربتر ہو گیا۔ حمزہ شہباز کے علاوہ دونوں بھائیوں کے بچے عملاً جلاوطن ہو گئے۔

اسحاق ڈار شہرت کی بلندیوں سے اندھے کنویں میں پھینک دیے گئے۔ بیگم کلثوم نواز شوہر اور بیٹی کی رفاقت دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ جن بیچارے بیوروکریٹوں نے دل و جان سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا تھا وہ جیلوں اور عدالتوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں۔ بدنامی اور الزامات کے نہ مٹنے والے داغ ہر اس دامن کی قسمت ٹھہرے جنہوں نے ان شریفوں کو اپنے اعتماد کا ووٹ دیا۔ حتیٰ کہ ایسے سیاسی کارندے اور مقامی لیڈر جو ہوا کا رخ بدلتے ہی بھنبھیری کی طرح گھوم جاتے تھے تسلسل اور استقامت اختیار کرنے پر مائل ہو گئے۔

اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے خدا کو ناراض کرنے والے صرف اس وجہ سے ٹھہر گئے کہ عوام میں حقیقی جمہوریت کا جذبہ بیدار کرنے والی قوت کا ساتھ دینا آنے والے سالوں میں سیاسی طور پر منافع بخش نظر آ رہا تھا۔

لیکن پھر دونوں بھائیوں نے اپنی اولادوں کے ساتھ مل کر اپنی پرانی صفت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اپنی دیوقامتی کو بھس میں بدل دیا اور الٹے پاؤں ایسی دوڑ لگائی کہ پورس کے ہاتھی بھی حیران ہو گئے۔ دھاڑتا ہوا شیر بھیڑ میں بدل گیا اور خود سے اپنے آپ کو منڈنے کے لیے حاضر کر دیا۔

معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے لندن میں بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ آرمی ایکٹ میں ترامیم اور دوسرے سروسز چیفس کے حوالے سے تجویز کردہ قانون سازی کو پڑھے بغیر ہی مان لیا۔ اگرچہ یہ بھی عظیم حماقت ہے۔ آپ سوچیے کہ کہاں فوج کا سربراہ ایکسٹینشن لینے کے عمل سے گزرنے کو کوفت کا باعث سمجھتا تھا اور مدت ملازمت میں اضافے کے سال ہلکی پھلکی شرمندگی کے ساتھ گزارتا تھا اور کہاں یہ نیا قانون جس میں تین سال کی ملازمت کے بعد تین سال کی دوبارہ تعیناتی اور پھر اس میں ایکسٹینشن جیسی بےمثال قانونی سہولت مکمل عزت کے ساتھ مہیا کی جا رہی ہے۔

000_1F40SX_0.jpg

پہلے صرف فوج کا سربراہ قابل ایکسٹینشن سمجھا جاتا تھا اب نیوی، ایئر فورس سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بھی اس کے حقدار ٹھہریں گے۔ اس قانون کے مسودے کے مطابق اس کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اگر یہ قانون جوں کا توں پاس ہوتا ہے تو اس کے بعد سروسز کے سربراہان عملاً 10 سال کے لیے اپنی کرسیوں پر براجمان رہ سکیں گے۔

ایکسٹینشن کے نام پر تعیناتیوں کی اس لوٹ سیل پر کسی بھی جمہوری جماعت کو باوزن قانونی، آئینی اور اخلاقی اعتراضات اٹھانے کی وسیع گنجائش کو استعمال کرنا چاہیے تھا۔ بالخصوص ایسی جماعت جس کی قیادت نے فوجی سربراہان کو ایکسٹینشن نہ دینے کے فیصلوں کو ایک تاج کی شکل میں اپنے سر پر سجایا ہو۔

لیکن اس سقم سے بھرپور قانونی دستاویز کو بلا پڑھے ماننے کی بے ایمانی سے بھی بڑھ کے وہ شرم ناک انداز ہے جس کو اپنا کر اس جماعت کی تمام بڑی قیادت نے اپنے کارکنان اور حمایتیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کیا۔

پہلے لندن میں بیٹھ کے سب کچھ طے کر لیا۔ خواجہ آصف سمیت دوسرے قائدین کو باقاعدہ ہدایت جاری کرکے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمایت کی پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کروایا۔ دوسری طرف میڈیا میں افواہ پھیلا دی کہ جیسے ن لیگ اس معاملے پر سخت اصولی موقف اپنائے گی۔

خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ چونکہ تمام جماعتیں اس آب بےشرمی سے منہ دھو رہی ہوں گی لہٰذا ن لیگ کے دو چار گھونٹ ہضم کر لیے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے مشروب پر پلنے والی مخلوق جمہوری اقدار کی ایسی کھلی بےحرمتی برداشت نہ کر پائی۔

خواجہ آصف کی سربراہی میں ہونے والا پارلیمانی پارٹی کا اجلاس غیرمشروط حمایت کی بات ہوتے ہی ہڑبونگ اور ہوٹنگ کی نظر ہو گیا۔ کسی نے توبہ توبہ کے نعرے لگائے، کسی نے لعنت لعنت کہا، ایک آدھ نے تو ن لیگ کی سیاسی موت کی فاتحہ خوانی بھی کر ڈالی۔

لندن والوں نے یہ دیکھتے ہوئے خط کا ڈراما رچا دیا جس میں نواز شریف نے پارلیمان کا رکن نہ ہونے کے باوجود ترمیمی بل کو مختلف مراحل سے گزار کر پاس کروانے کا شیڈول طے کر دیا۔ یہ ایک بےوقوفانہ عمل تھا جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر اور نہ ہی اس میں کوئی ریڑھ کی ہڈی تھی۔ ایک ایسا لیڈر جو انگلی کے اشارے پر پارٹی کے سینیئر اراکین کو ہزاروں میل دور بلوا کر ہدایات جاری کرتا ہے اور جس کے بولے گئے دو الفاظ سے پارٹی کی پالیسی تبدیل ہو جاتی ہے، خط کے ذریعے خواجہ آصف کو ہدایت بھجوا رہا ہے؟ اور پھر خواجہ صاحب کئی گھنٹوں تک اس خط کے وصول نہ ہونے کا واویلا کر رہے ہیں؟ اس سے بدتر ڈرامہ بازی شاید ہی دیکھنے میں آئی ہو۔

اور پھر یہ سرکس یہیں پر ہی نہیں رکا۔ دوبارہ سے اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہونے کی خبریں چلوائی گئیں کہ جیسے حالات نے لندن میں موجود بھائیوں کو اپنی غلطی کا احساس دلوا دیا ہو۔ اس دوران یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع سے بغیر کسی اعتراض کے فٹافٹ منظور ہو گیا اور آگے سینیٹ میں تو حالات اور بھی سازگار ہیں۔ صادق سنجرانی اس بل کو اپنی پلکوں پر سجا کر پاس کروائیں گے۔ ن لیگ اس کے بعد پارلیمان میں بحث کے دوران مختلف شقوں پر اعتراض اٹھانے کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔

قائمہ کمیٹیوں میں سے سیلوٹ مارتے ہوئے بل کو پاس کروانے کے بعد وہ یہ اعتراض کس منہ سے اٹھائے گی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر یہ اعتراضات اٹھا بھی دیے جائیں تو بھی اپنی جماعت کے ساتھ دھوکہ کرنے والی قیادت شاید وہ اعتماد کبھی بھی دوبارہ حاصل نہ کر پائے جس کی بنیاد پر وہ اپنے آپ کو چند سالوں کے لیے پالشی قبیلے سے جدا رکھے ہوئے تھی۔

اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست میں کوئی فرق نہیں۔ بڑا بھائی وقتی طور پر اپنے اندر اٹھنے والے سیاسی ابال کو نظریات کا نام دے کر چھلانگ لگاتا ہے اور پھر راستے میں دم توڑ کر دھڑام سے ادھر ہی آن گرتا ہے جہاں پر چھوٹا بھائی دھنیا پی کر اپنے بچوں اور ان کی جائیدادوں کو سنبھالے پہلے سے سجدے میں گرا ہوتا ہے۔

ایک ایسی جماعت جس کو طاقت ور سٹیبلشمنٹ کے پھندے نہ پھانس سکے، جو بدترین حالات میں کروڑوں ووٹ لے کر کھڑی رہی آج اپنے لیڈروں کے ہاتھوں زخم آلود ہے۔ شریف خاندان کو صرف اپنے خاندان کے اثاثے عزیز ہیں اگر یہ بچ جائیں تو ان کی خدمت گزاری عمران خان اور پرویز الہیٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہو گی۔ کیا کمال ہے۔ کیا زوال ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مریم نواز کی ٹویٹر پر واپسی۔ جو مکا لڑائی ختم ہونے کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
تین ڈراموں کا تسلسل جاری۔

سینیٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور
ویب ڈیسک 23 منٹ پہلے

1945068-senate-1578478617-884-640x480.jpg

قومی اسمبلی سے بلز پہلے ہی منظور کیے جاچکے ہیں۔ فوٹو : فائل


اسلام آباد: آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو سینیٹ میں بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینٹ کا اجلاس ہوا جس میں سنیٹر ولید اقبال نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان ائیر فورس 1953 اور پاکستان نیوی ایکٹ 1961 ترمیمی بلز پر قائمہ کمیٹی دفاع کی رپورٹس ایوان میں پیش کیں جس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے سروسز ایکٹ ترمیمی بلز کو ایوان میں شق وار منظوری کے لیے پیش کیا جس کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے بلز کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دیا جب کہ ترمیمی بلز کی منظوری کے خلاف جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سروسز ایکٹ ترمیمی بلز کثرت رائے سے پہلے ہی منظور کیے جاچکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس کھوسہ کا شکریہ۔ آرمی چیف کا ایکسٹینشن معطل کرنے سے ان کے ساتھ ساتھ دیگر سروسز چیفس کے ایکسٹینشنز کو بھی اب قانونی تحفظ ملے گا۔ اوپر سے پوری ن لیگ اور پی پی پی ننگی ہوگئی ہے
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف نے اکلوتی شرط منوا کر ترمیم ایکٹ ”اوکے“ کیا
07/01/2020 علیم عثمان
باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لندن میں مقیم قائد، سابق وزیراعظم نواز شریف نے آخر پر آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کے لئے مقتدر حلقوں سے منوانے کے لئے صرف ایک شرط رکھ دی تھی، جسے منظوری کرلئے جانے کی یقین دہانی کے فوری بعد ”نون“ لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو بل کی حمایت میں گو اہیڈ کا سگنل دیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے آخر میں شہباز شریف سمیت مقتدر حلقوں سے پس پردہ رابطے کرنے والی پارٹی قیادت کو دو ٹوک کہہ دیا تھا ”سب کھ چھوڑیں، پہلے مریم نواز کو پاکستان سے نکالنے کا بندوبست کریں، پہلے صرف مریم کی پاکستان سے لندن روانگی کی گارنٹی لے لیں اور پھر بل کو سپورٹ کریں“

اور یوں پارٹی قائد نواز شریف نے آخر میں اس بل کی حمایت کے بدلے میں صرف ایک مطالبہ رکھ دیا تھا اور پاکستان میں اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کی تھی ”میرے اگلے پیغام تک رکیں اور انتظار کریں“ اور برطانیہ میں مقیم سابق وزیراعظم کی یہ اکلوتی ”مانگ“ پوری کردیئے جانے کا سگنل ملتے ہی سوموار کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے دوبارہ طلب کیے گئے اجلاس میں سارے معاملات بلا چوں چرا طے پاگئے، اور ترمیمی ایکٹس بل کی منظوری کی غرض سے نئے سرے سے شروع کیا گیا پارلیمانی پراسیس یعنی رسمی کارروائی مکمل ہو پائی

دوسری طرف مذکورہ بل جس کا اصل مقصد موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لئے عہدے پر برقرار رکھنا ہے، اس کی منظوری کے لئے پارلیمانی پراسیس سابق وزیراعظم کی بیٹی اور ”نون“ لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے طویل کروایا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ”نون“ لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے دونوں اجلاسوں میں پارٹی کے مریم نواز گروپ اور شہبازشریف گروپ سے تعلّق رکھنے والے لیگی ارکان کے مابین بھی ترمیمی بل کی حمایت کے حوالے سے شدید ”تو تو میں میں“ ہوئی اور بتایا جاتا ہے کہ پارٹی میں نواز شریف کیمپ کا حصہ رہنے والے خواجہ آصف بھی شہبازشریف کی لائن ٹو کرتے پائے گئے جن پر بعض ارکان نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اراکین کو نواز شریف کے خط کے حوالے سے گمراہ کرنے کی کوشش کی، خواجہ آصف سمیت لندن جانے اور پارٹی صدر شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس کے بعد پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات کرنے والے لیگی وفد میں شامل بعض اراکین نے خواجہ آصف کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا نواز شریف کی طرف سے ایسی کسی ہدایات والا کوئی خط نہیں ہے۔

”نون“ لیگ کے شہباز شریف یا دوسرے لفظوں میں ”پرو اسٹیبلشمنٹ“ گروپ کی طرف سے پہلے ہی روز بل کی غیر مشروط حمایت کے شاکنگ اعلان سے پارٹی کارکنوں اور نواز شریف کے پرستاروں کی طرف سے شدید ردّ عمل سامنے آیا تھا کیونکہ پارٹی قیادت کو کارکنوں اور میڈیا کی طرف سے اس ”غیر معمولی تابعداری“ پر طعن و طنز کی جس بارش کا سامنا ہوا اور نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ کا جو حشر نشر ہوا، لیگی کارکنوں کی صفوں میں شدید انتشار کے علاوہ ”ن“ لیگ اراکین پارلیمنٹ کے ذہنوں میں جو کنفیوڑن اور بے یقینی پھیلی، اس کی بنیاد پر پارلیمانی پارٹی کے مریم نواز گروپ نے حکومت اور شہبازشریف گروپ کی اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا جس کے تحت گزشتہ جمعہ کو ہی گھنٹہ بھر میں ہی اس بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری دلوانا مقصود تھا۔

بہرحال ”نون“ لیگ کے قائد نواز شریف کی واحد شرط مان لئے جانے کے بعد ترمیمی ایکٹس بل کے حق میں پارٹی کی حمایت کا وزن ڈالنے سے قبل اعلیٰ قیادت کی وہ ہدایات بھی کالعدم ہو گئیں جن میں رسمی پارلیمانی پراسیس کے لئے کم از کم ٹائم فریم 15 جنوری کا دیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مریم نواز کی بیرون ملک روانگی کے انتظامات کی بابت مثبت اشارے مل جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو کنٹرول کرنے والے نواز شریف کی ”مانگیں“ پوری ہو جانے کا واضح پیغام موصول ہوگیا، جو سکڑتے ہوئے بالآخر سنگل ”مانگ“ تک محدود ہو چکی تھیں۔

ذرائع کے مطابق شریف فیملی ذاتی مسائل کے حوالے سے اس قدر ڈیسپریٹ اور فوری ریلیف کے لئے اپنے مطالبات کے حوالے سے اتنی محدود ہوچکی بتائی جاتی ہے کہ پچھلے دنوں رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری سمیت ”نون“ لیگ کی 2 ایم پی اے خواتین پارٹی قائد کی عیادت کے لئے جب لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں ان کی قیام گاہ پہنجیں تو انہیں وہاں نواز شریف سے ملنے ہی نہیں دیا گیا اور انہیں شریف فیملی کے سخت ناروا سلوک کا نشانہ بننا پڑا، حتیٰ کہ مذکورہ دونوں لیڈی ایم پی ایز کو نہ صرف مناسب طور پر وہاں بٹھایا نہیں گیا بلکہ کچھ دیر بعد جب نواز شریف کہیں باہر جانے کے لئے اپنے کمرے سے نکلے تو انہیں ناگواری کے سے لہجے میں کہا گیا ”جلدی سے سائڈ پہ ہو جائیں، میاں صاحب نے گزرنا ہے“
----------------
اگر اب عدالت یا حکومت مریم نواز کو بیرون ملک جانے دیتی ہے تو ڈیل والی تھیوری پر مہر صادق لگ جائے گی
مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
 

جاسم محمد

محفلین
بیانیہ زندہ ہے!
09/01/2020 خورشید ندیم
نواز شریف صاحب کا اپنے بیانیے سے پُراسرار اظہارِ لاتعلقی ہر طرف زیرِ بحث ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے۔ سیاسی لیڈر اوتار نہیں ہوتے۔ اُن پر آنکھیں بند کرکے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ لازم ہے کہ ان کے خیالات کو پرکھا جائے اور انہیں عمل کے ترازو میں تولا جائے۔ پھر یہ کہ دنیا میں آئیڈیلز نہیں ہوتے۔ محمد علی جناح کا معاملہ استثنا کا ہے۔ ہر کوئی قائد اعظم نہیں بن سکتا۔ ہماری ستر سالہ تاریخ یہی ہے کہ ہمیں موجود میں سے بہتر کا انتخاب کرنا پڑا۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ امریکہ میں کتنے ابراہام لنکن آئے؟ بھارت نے کتنے گاندھی پیدا کیے؟ نواز شریف صاحب کی تائید اور مخالفت کا فیصلہ بھی اسی عمومی تجربے کی بنیاد پر ہو گا۔
نواز شریف صاحب کے بارے میں ہم حسبِ عادت افراط و تفریط کا شکار ہو گئے۔ کسی کے نزدیک ان سے وابستہ توقعات سادہ لوحی کا اظہار تھا یا کسی دنیاوی مفاد کا شاخسانہ۔ یہ چند مفاد پرست رائے سازوں کا تراشا ہوا ہیرو تھا، جس سے عزیمت کی جھوٹی داستانیں منسوب کی جا رہی تھیں۔ کہاں نواز شریف اور کہاں عزیمت؟ کہاں ایک تاجر اور کہاں نظریہ؟ یہ ایوانِ اقتدار سے نکالے جانے والے ایک روایتی سیاست دان کی صدائے احتجاج تھی جس کو بیانیے کا نام دے دیا گیا۔ یہ ناجائز دولت کے چھن جانے کا خوف تھا جسے ‘ووٹ کو عزت دو‘ کے پردے میںچھپایا گیا تھا۔
یہ بھی کہا گیا کہ وہ ایسے ہی صاحبِ عزیمت تھے تو ‘ڈان لیکس‘ پر کیوں چپ رہے؟ مشاہداللہ خان کو وزارت سے کیوں ہٹایا؟ فلاں موقع پر کیوں اعلانِ بغاوت نہیں کیا؟ چونکہ فلاں فلاں مواقع پر خاموشی کو روا رکھا، اس لیے، بعد میں ان کا بو لنا معتبر نہیں۔ اس نوعیت کے چند اور اعتراضات بھی ہیں، جو یہ طبقہ اپنے زنبیل میں رکھے ہوئے ہے اور حسبِ ضرورت ان کی نمائش کرتا رہتا ہے۔
دوسرا موقف یہ تھا کہ ‘ووٹ کو عزت دو‘، ایک حقیقی تبدیلی کا مظہر نعرہ ہے۔ نواز شریف پوری سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ اس بیانیے کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ موقف اپنایا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ انہوں نے جانتے بوجھتے عزیمت کے کانٹوں بھرے راستے کا انتخاب کیا اور اپنی جان تک داؤ پر لگا دی۔ ان کی موجودہ سیاست ارتقائی مراحل سے گزر کر بلوغت تک پہنچی ہے، اس لیے اسے 1980-90ء کی سیاست پر قیاس کرنا درست تجزیہ نہیں۔ کل اگر انہوں نے اقتدار کی سیاست کی تو آج وہ اقدار کی سیاست کر رہے ہیں۔
دوسرا موقف رکھنے والوں کو مگر اُس وقت ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں نون لیگ تحریک انصاف کی ہمنوا بن گئی۔ اس سے پہلے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیانیوں میں فرق ایک ایسا سہارا تھا جس سے نواز شریف صاحب کے بارے میں حسنِ ظن قائم رکھا جا سکتا تھا۔ جب خواجہ آصف صاحب کی زبانی یہ اعلانِ عام ہوا کہ یہ سب کچھ نواز شریف صاحب کے حکم پر ہوا ہے تو یہ سہارا بھی چھن گیا۔ اب دوسرے موقف کا دفاع کرنے والوں کو پہلے گروہ کی طرف سے طعن و تشنیع کا سامنا ہے۔ جو جواباً گالی دے سکتے ہیں وہ خان صاحب کی ملتی جلتی کمزوریوں کو موضوع بنا کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، مگر جو گالی دینے کی ہمت، صلاحیت یا تجربہ نہیں رکھتے ان کے لیے صورتِ حال کا سامنا کرنا آسان نہیں۔
میں دوسرے موقف کو درست سمجھتا تھا (اور سمجھتا ہوں) میری وابستگی بیانیے کے ساتھ ہے۔ میں اس رائے کی تائید کرتا ہوں کہ پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک ‘سول ملٹری تعلقات‘ ہیں۔ اس کا حل ووٹ کو عزت دینے میں ہے۔ پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا ہے اور اسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا عَلم نواز شریف صاحب نے اٹھایا‘ جو اس بیانیے کو درست سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہی راستہ تھا کہ وہ ان کی تائید کرتے۔
نوازشریف نے یہ عَلم پوری جرأت کے ساتھ اٹھایا اور ایک صاحبِ عزیمت ہونے کا ثبوت دیا۔ ایک ایسے عالم میں جب سگا بھائی اور برسوں سے شریکِ اقتدار ساتھ دینے پر آمادہ نہیں تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کو لیا اور میدانِ کارزار میں آ کھڑے ہوئے۔ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے شخص سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ اقتدار کی حرکیات کیا ہوتی ہیں؟ پاکستان میں یہ نعرہ بلند کرنے کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ جو بات پاکستانی سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم جانتا تھا، کیا نواز شریف کو معلوم نہیں تھی؟
کیاوہ اس سے بے خبر تھے کہ پاکستان جانے کا مطلب جیل جانا ہے؟ اس کے باوجود وہ ملک میں آئے۔ انہوں نے بہادری کے ساتھ حالات کا سامنا کیا۔ اس موقع پر میرے سیاسی فہم، میرے ضمیر اور میری حب الوطنی، سب کا تقاضا یہ تھا کہ حسبِ توفیق نواز شریف صاحب کا ساتھ دیا جائے۔ الحمدللہ، میں ان لوگوں میں شامل نہیں تھا جنہوں نے اس اصولی جنگ میں نواز شریف کا ساتھ دینے کے بجائے، ساری توانائیاں ان کو چور ثابت کرنے پر صرف کیں اور آج ان کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں کہ انہوں نے بیانیے سے لاتعلقی کیوں اختیار کر لی۔ مجھے اطمینان ہے کہ جب عوام کی بالادستی کا معرکہ درپیش تھا تو میں اس گروہ کا حصہ نہیں تھا جو عوام کے نمائندوں کو کرپٹ ثابت کرنے پر لگا ہوا تھا۔ اگرکسی کے نزدیک یہ بات درست تھی، تو بھی سیاست دانوں کے خلاف مہم اٹھانے کے لیے، یہ وقت موزوں نہیں تھا۔
پھر اس سے زیادہ کمزور بات کوئی نہیں ہو سکتی کہ آج اس لیے آپ کا کھڑا ہونا غلط ہے کہ کل آپ فلاں موقع پرکھڑے نہیں ہوئے تھے؟ واقعہ یہی ہے کہ لوگ کسی صورت میں خوش نہیں ہوتے۔ اگر نوازشریف اس سے پہلے کھڑے ہوتے تو کہا جاتا کہ یہ شخص توہر وقت اداروں سے تصادم پرآمادہ رہتا ہے۔ اپنے آخری دورِ اقتدار میں نوازشریف صاحب نے ہر ممکن کوشش کی کہ تصادم کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ لیکن جب خرابی نظام کی ساخت میں ہو توپھر تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ عمران خان جیسے بھی نہیں بچ پاتے۔ ہونی ہوکے رہتی ہے۔ لوگوں کا معاملہ مگر یہ ہے کہ آپ گدھے پر سوار ہوں تو بھی ناخوش، گدھے کو خود پر سوار کر لیں تو بھی نالاں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوںکہ اصل اہمیت بیانیے کی ہے، فرد کی نہیں۔ اگر نوازشریف نے یہ جھنڈا نہ اٹھایا تو کوئی اور اٹھالے گا مگر خلا نہیں رہے گا۔ پھر معاملہ صرف نوازشریف کا نہیں تھا۔ پرویز رشید، شاہد خاقان، سعدرفیق، رانا ثنااللہ، احسن اقبال اور مشاہداللہ خان جیسے بھی تھے جو سرِ مقتل کھڑے تھے۔ ضمیر اس پر بھی راضی نہیں تھا کہ ان کو تنہا چھوڑ دیا جائے۔ میرے لیے یہ اطمینان کی بات ہے کہ میں نے جسے درست سمجھا، اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
وہ لوگ داد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک پُر آشوب دور میں اس بیانیے کا ساتھ دیا۔ ان کے لیے شرمندگی کی کوئی وجہ نہیں۔ شرمندہ تو وہ ہوں جنہوں نے اس بیانیے سے اظہارِ لاتعلقی کیا یا اس معرکے کے دوران میں اسے کمزور کیا۔ مجھے بھی خیر خواہوں نے یہی مشورہ دیا کہ نوازشریف یا اس بیانیے کو موضوع بنانے کے بجائے، مجھے دیگر موضوعات پر لکھنا چاہیے۔ مجھے مگر آج بھی اس پر شرحِ صدر ہے کہ میں نے گالیاں کھانے کے باوجود، ایک معاملے کو ایسے وقت میں موضوع بنایا جب اُس پر سب سے زیادہ لکھنے کی ضرورت تھی۔ عوامی بالادستی کے سوال کو ہم چند دن کیلئے ٹال تو سکتے لیکن اس سے مستقل صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔
جمہوریت وقت کافیصلہ ہے اور وقت سے لڑ کرکوئی جیت نہیں سکتا۔ ‘ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا جب تک اس ملک میں حقیقی جمہوریت نہیںآجاتی۔ اگر کسی مقصد کا حصول مشکل ہو جائے تو وہ مقصد کے غلط ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ سرِ دست جمہوریت کا مستقبل مخدوش ہے، بالخصوص جب اس بیانیے کا عَلم سرِ میدان پڑا ہے اور بظاہر کوئی علمدار نہیں۔ قدرت کا قانون یہی ہے کہ خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ آج نہیں تو کل کوئی اسے اٹھالے گا۔ رہی بات نوازشریف صاحب کی تو ان کی یہ لاتعلقی مجھے حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ اس حیرت کا تعلق عزیمت سے نہیں، سیاسی فراست سے ہے؟ کیا اُن کے پاس، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا؟ اس سوال کو میں کسی اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
 

جاسم محمد

محفلین
دوسرا موقف یہ تھا کہ ‘ووٹ کو عزت دو‘، ایک حقیقی تبدیلی کا مظہر نعرہ ہے۔ نواز شریف پوری سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ اس بیانیے کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ موقف اپنایا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ انہوں نے جانتے بوجھتے عزیمت کے کانٹوں بھرے راستے کا انتخاب کیا اور اپنی جان تک داؤ پر لگا دی۔ ان کی موجودہ سیاست ارتقائی مراحل سے گزر کر بلوغت تک پہنچی ہے، اس لیے اسے 1980-90ء کی سیاست پر قیاس کرنا درست تجزیہ نہیں۔ کل اگر انہوں نے اقتدار کی سیاست کی تو آج وہ اقدار کی سیاست کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے 5 ججوں نے نواز شریف کو جھوٹا اور خائن کہہ کر نااہل کیا تھا۔ پتا نہیں یہ ڈھیٹ قوم کہاں سے آگئی ہے جو اپنے محبوب لیڈر کے نشے میں ججوں کی بھی نہیں سنتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسلم لیگ ن کا ایکسٹینشن ووٹ اور قبل از وقت الیکشن
09/01/2020 محمد کاشف میو

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں مسلم لیگ ن کی جانب سے ٹی وی سکرینوں پر غیر مشروط حمایت کا بیان آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع ہو گئی۔ اس حمایت کو سویلین بالادستی کے حامی افراد نہ صرف ایک مایوس کن قدم قرار دے رہے ہیں بلکہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ سے انحراف کے الزامات بھی لگائے جانے لگے۔ بہت سے افراد پارٹی قیادت کے اس فیصلہ کی حمایت میں بھی تھے۔ سوشل میڈیا پر حامی اور مخالف افراد کی جانب سے جنگ کی سی کیفیت تھی لیکن پارٹی قیادت نے اس صورتحال میں کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔ اگر کوئی براہ راست پیغام جاری کر دیا جاتا تو کارکن اتنے مایوس نہ ہوتے۔

نواز شریف نے عدالتی نا اہلی کے بعد جی ٹی روڈ سے شروع ہونے والے سفر میں جب ”مجھے کیوں نکالا“ کے اسباب بتانا شروع کیے تو اسے عوامی پسندیدگی ملی اور پھر اسی تحریک سے ہمیں ”ووٹ کی عزت“ کا نیا نعرہ ملا۔ سویلین بالادستی کے حامی افراد نے اس نعرے کو پذیرائی بخشی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ آخر بہتر سالوں میں کیوں کوئی ایک بھی سویلین وزیراعظم مدت پوری نہیں کر پایا۔ آخر کیوں ہر سویلین حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ نواز شریف کے خلاف کردار کشی کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے مگر ووٹرز کی حمایت ختم نہ کی جا سکی۔ الیکشن سے پہلے وطن واپسی کے فیصلے نے بھی حامیوں میں نئی روح پھونکی۔ نفرت انگیز مخالفانہ پروپیگینڈا اور طرح طرح کی مشکلات کے باوجود نواز شریف کی جماعت سوا کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

اس جدوجہد میں خود نواز شریف نے بھی ہر طرح کی مشکلات برداشت کیں، نواز شریف نے وہ مناظر بھی دیکھے جب کچھ لوگ ہسپتال میں دروازوں کو پیروں سے ٹھڈے مارتے ہوئے یہ دیکھنے داخل ہو گئے کہ آیا وینٹی لیٹر پر زیرعلاج کلثوم نواز زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ مسجد میں جوتا مارنے جیسا قابل افسوس واقعہ بھی پیش آیا۔ دوران قید کلثوم نواز کی وفات کا اندوہناک سانحہ بھی سہنا پڑا۔ متعدد بار باہر بھجوانے کی آفرز کے باوجود نواز شریف نے سمجھوتے سے انکار کیا۔ افسوسناک واقعات کا کرب اور ارادوں کی پختگی ان کے چہرے سے عیاں ہوتی تھی۔ ایسے شخص سے اپنے بیانیہ سے ہٹنے کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔

ان سب تکلیف دہ واقعات نے سول بالادستی کے حامیوں کو ایک ولولہ اور نیا جوش دیا۔ گزشتہ الیکشن میں دھاندلی اور اچانک آر ٹی ایس (RTS) کا بند ہونا جیسے واقعات نے لوگوں کا یقین مزید پختہ کر دیا کہ ہمارے ووٹ کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے۔ واٹس ایپ پر جے آئی ٹی (JIT) بننے کی خبروں اور ججز کی تبدیلی نے بھی یہ تاثر مضبوط کر دیا کہ انصاف حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہاں ’واٹس ایپ انصاف‘ رائج ہے جو صرف دباؤ کے تحت ہو رہا ہے۔

رہی سہی کسر جج ارشد ملک کے ویڈیو اعتراف نے پوری کر دی کہ کیسے ان سے دباؤ پر فیصلہ کروایا گیا تھا۔ جج ارشد ملک کے ویڈیو اعتراف کے بعد نہ صرف نواز شریف کی سزاء بے معنی ہو کر رہ گئی بلکہ یہ تاثر بھی مضبوط ہو گیا کہ جو بھی ملک میں سول بالادستی اور جمہوریت کی بات کرے گا اسے نشان عبرت بنایا جائے گا۔ ان واقعات نے جمہوریت پسندوں کو ایک لڑی میں پرو دیا اور سب آنکھوں میں سول بالادستی کے خواب سجائے اپنی اپنی جگہ اس جدوجہد میں کردار ادا کرنے لگے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر مسلم لیگ ن نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ کیوں دیا؟ کیا بیان کی گئی تمام تکالیف کے باوجود نواز شریف اور ان کی جماعت ”ووٹ کی عزت“ پر سمجھوتہ کر سکتی ہے؟ کیا یہ حمایت ووٹ کی عزت کے بیانیہ سے انحراف ہے یا مقاصد کچھ ایسے ہیں جو ابھی نظر نہیں آ رہے؟ اب اس کا تجزیہ کرتے ہیں کہ اس فیصلہ کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے نہ صرف عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ انھیں بھی کیا ہے جو اس حکومت کو بہت چاؤ سے لائے تھے۔ باتوں کے ہوائی محل جو الیکشن سے پہلے بنائے گئے تھے وہ کچھ ہی ماہ میں زمین بوس ہو گئے، بڑھتی مہنگائی اور ہر شعبہ میں تنزلی نے نہ صرف اس نا اہل حکومت کی قلعی کھول دی بلکہ ان قوتوں کو بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لئے مجبور کر دیا ہے جو ہر احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں اقتدار میں لائے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا۔ آخر نا اہلوں کا بوجھ کب تک اٹھایا جائے۔ ان وجوہات نے فیصلہ سازوں کو دوبارہ واپس پلٹنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ بیانیہ کی شکست نہیں ہے بلکہ مخالف فریق بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی سے ملک کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’آرمی ایکٹ ترمیمی بل‘ کی حمایت پر مسلم لیگی فیصلے کی بہت زیادہ حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایک مایوس کن فیصلہ ہے۔ اگر اس ایکٹ کی حمایت نہ کی جاتی تو آئین میں ایکسٹینشن کا وجود ہی ختم ہو جاتا۔ ہر آنے والے آرمی چیف کو پتا ہوتا کہ تین سال بعد مجھے ریٹائر ہونا ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک غلطی سے گزشتہ سب محنت پر پانی نہیں پھر جاتا۔ چند سال پہلے تک جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا تھا آج ہر چوراہے پر انھیں نہ صرف ڈسکس کیا جاتا ہے بلکہ ہر خرابی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف وہی شعور ہے جو نواز شریف نے اپنی قربانیوں سے اس قوم کو باور کروایا ہے۔

قیاس آرائیوں اور اخباری اطلاعات کے مطابق غالب امکان ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہے۔ سفر وہیں سے شروع ہو گا جہاں پر ختم ہوا تھا۔ وہی سفر جس میں ترقی بھی ہو گی اور خدمت بھی۔ دنیا میں عزت بھی ہو گی اور عہدے کی تکریم بھی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ کسی ملک کا وزیر خارجہ اہم معاملات کے لئے آرمی چیف کو فون کرے۔ اس طرح کی بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید اسی سال گرمیوں سے سردیوں کی جانب جاتے ہوئے الیکشن ہو سکتے ہیں جس میں مداخلت نہیں ہو گی۔ عوام کی مرضی سے جو الیکٹ ہو گا وہی حکومت کرے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
رہی سہی کسر جج ارشد ملک کے ویڈیو اعتراف نے پوری کر دی کہ کیسے ان سے دباؤ پر فیصلہ کروایا گیا تھا۔
یہ جج تو نوا ز شریف کے وکلا نے خود اسلام آبائی ہائی کورٹ میں پٹیشن ڈال کر لگوایا تھا۔ اپنا ہی لگایا ہوا جج بلیک میل کیسے ہو گیا؟
 
Top